یہاں جو مفہوم میری سمجھ میں آ رہا ہے وہ یہ ہے کہنہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
اوپر نثر ہی لکھی ہے۔نثر کرکے سمجھا دیجئے
شاعر کی ضمیر اپنی جانب ہے۔میرے خیال سے اس کا جو مطلب ہے یہ ہے۔۔۔
بھلے ہی ہم دن کی روشنی یعنی دور ترقی کی چمک دمک نہ دیکھ پائیں۔ زندگی ختم ہو جائے
لیکن وہ بھلے دن یعنی زمانہ ترقی اپنی چمک دکھلا کر ہی رہیں گے۔۔۔ یعنی ترقی ہوکر ہی رہے گی
یہ مفہوم کیسا ہے
حضور ظرف بول کر مظروف مراد لیا جاتا ہے
مجھ سے کسی نے اس شعر کا مفہوم پوچھا تھا۔۔
دنیا مطلبی ہے
مطلب دنیا کے لوگ مطلبی ہیں
یع[/QUOTE]یہاں ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے UOTE="ابوذر 123, post: 1974387, member: 18156"]دنیا مطلبی ہے
مطلب دنیا کے لوگ مطلبی ہیں
ویسے یہ مشکل اشعار تو نہیں۔اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصیحت سے نفرت ہے ناصح سے ان بن
سمجھتے ہیں ہم رہنماءوں کو رہزن
یہی عیب ہے سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناءو بھر کر ڈبویا ہے جس نے(مسدس حالی)
شاعر علامہ اقبال ؟شب خوں کے لیے فلک پھرے ہے
کھینچے ہوئے تیغ، کہکشاں سے ۔۔۔۔۔
نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو
اور افزونی طلب کی بعد مرنے کے ہوئی
خاک ہونے نے، کیا ہر ذرہ گرمِ جستجو
خواجہ میر دردشاعر علامہ اقبال ؟
شُکریہخواجہ میر درد