امجد بھائی جو معنی میری سمجھ میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ شاعر دل کے سکون کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں ہے اور آب رواں یعنی بہتے پانی سے اس کو مماثل ٹھہراتا ہے کہ آب رواں یوں تو بہہ رہا ہوتا ہے مگر وہ پُر سکون ہوتا ہے۔ یہاں کشود کار سے مراد مشکل کا حل ہونا ہے یعنی دل کے سکون سے مشکل کے حل ہونے کا سامان کیا جائے۔ عقدہ گرہ کو کہتے ہیں، گرداب بھنور کو تو اس کا معنی بظاہر یہی ہے کہ بھنور کی گرہ کھل جائے گی تو آب رواں یعنی سکون کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ مفہوم یہی دکھائی دیتا ہے مگر صاحبانِ علم مزید روشنی ڈالیں، یا میری غلطی کی تصحیح فرمائیں تو خوشی ہو گی اور کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ایک ذہین خاتون نے جب یہ شعر پڑھا تو ذہین سامعین بہت دیر تک واہ واہ کرتے رہے۔ اب کوئی ذہین بندہ یا بندی مجھ نالائق کو بھی سمجھائے گا کہ آخر مطلب کیا ہے؟ میں تو ایک ہفتے بعد بھی بالکل blank ہوں:-
سکونِ دل سے سامانِ کشودِکار پیدا کر
کہ عقدہ خاطرِ گرداب کا آبِ رواں تک ہے
(اقبال)
امجد بھائی جو معنی میری سمجھ میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ شاعر دل کے سکون کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں ہے اور آب رواں یعنی بہتے پانی سے اس کو مماثل ٹھہراتا ہے کہ آب رواں یوں تو بہہ رہا ہوتا ہے مگر وہ پُر سکون ہوتا ہے۔ یہاں کشود کار سے مراد مشکل کا حل ہونا ہے یعنی دل کے سکون سے مشکل کے حل ہونے کا سامان کیا جائے۔ عقدہ گرہ کو کہتے ہیں، گرداب بھنور کو تو اس کا معنی بظاہر یہی ہے کہ بھنور کی گرہ کھل جائے گی تو آب رواں یعنی سکون کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ مفہوم یہی دکھائی دیتا ہے مگر صاحبانِ علم مزید روشنی ڈالیں، یا میری غلطی کی تصحیح فرمائیں تو خوشی ہو گی اور کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
سکونِ دل آبِ رواں کی طرح ہے
جس طرح آبِ رواں گرداب کی گرہ کھول دیتا ہے
اسی طرح سکونِ دل مشکل سے نکال دیتا ہے
اگر تھوڑا اور extend کریں تو کہ سکتے ہیں کہ ذکرِ خدا تمام مشکلات کا حل ہے کیونکہ یہ اطمینانِ قلب کا باعث ہے
ذرا سوچیے
پوری غزل ہی تباہی ہے
٭
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے
وہ مے کش ہوں فروغِ مے سے خود گُلزار بن جاؤں
ہوائے گُل فراقِ ساقیِ نا مہرباں تک ہے
چمن افروز ہے صیّاد میری خوشنوائی تک
رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے
وہ مُشتِ خاک ہوں، فیضِ پریشانی سے صحرا ہوں
نہ پُوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے
جرَس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقتِ رحیلِ کارواں تک ہے
سکُونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کر
کہ عقدہ خاطرِ گرداب کا آبِ رواں تک ہے
چمن زارِ محبّت میں خموشی موت ہے بُلبل!
یہاں کی زندگی پابندیِ رسمِ فغاں تک ہے
جوانی ہے تو ذوقِ دید بھی، لُطفِ تمنّا بھی
ہمارے گھر کی آبادی قیامِ میہماں تک ہے
زمانے بھر میں رُسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!
سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے