محمد منظور فرید
محفلین
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
اس شعر کی تشریح درکار ہے۔۔۔۔
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
اس شعر کی تشریح درکار ہے۔۔۔۔
یہاں شاعر یہ کہ رہا ہے کہ مسیحا سے ملاقات عام طور پر بیماری کی حالت میں ہوتی ہے اور شفا کی امید ہوتی ہےاے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
اس شعر کی تشریح درکار ہے۔۔۔۔
بہت اچھی تشریح ڈاکٹر صاحب!یہاں شاعر یہ کہ رہا ہے کہ مسیحا سے ملاقات عام طور پر بیماری کی حالت میں ہوتی ہے اور شفا کی امید ہوتی ہے
جبکہ خضر سے ملاقات جاودانی زندگی کی آرزو پیدا کرتا ہے
مگر شاعر کا حال یہ ہے کہ نہ اسے شفا چاہیے نہ لمبی زندگی بلکہ وہ اپنے محبوب سے ملنے کا متمنی ہے چاہے اسکے بعد اسے موت ہی آجائے
دوسرا مطلب یہ ہے کہ کہ شاعر خدا سے ملاقات کا متمنی ہے لہٰذا شفا اور لمبی زندگی کی اب آرزو نہیں رکھتا
سر اب ہم کیمیائی تجزیہ تو کرنے سے رہےبہت اچھی تشریح ڈاکٹر صاحب!
آپ نے میڈیکل نقطہ نظر بھی بیان فرما دیا ہے
1)مرحمت = مرہم رکھنا چارہ جوئی کرنامرحمت کرتا ہے سینوں کو دوبارہ جو بشر
وقتِ سارق سے متاعِ برُدہٰ دِل چھین کر
نوعِ اِنساں کو عطا کرتا ہے جو بارِ دگر
آدمی کے دیدہٗ باطن کی مسروقہ نظر
اور برامد کر کے جیبِ دُزد سے ایقان کو
بخشتا ہے جاگتا اِنسان جو اِنسان کو
مجھے یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا، برائے مہربانی سمجھادیں
چہرے کی کشش اور محبوب کے آتشی حسن کو آفتاب کی آب و تاب کے مثل ٹھہرایا گیا ہے جس کو نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہے تاہم محبوب کے حُسن کی آب و تاب ایسی ہے کہ پلٹ کر دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہء کار بھی نہیں۔ ہماری دانست میں اس شعر کا یہی مفہوم بنتا ہے۔تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
محسن نقوی
شاعر کیا کہنا چاہتا ہے کیا اس کے چہرے کی کشش سورج سے کم ہے.۔؟
تھوڑی سی وضاحت درکار ہے
چہرے کی کشش اور محبوب کے آتشی حسن کو آفتاب کی آب و تاب کے مثل ٹھہرایا گیا ہے جس کو نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہے تاہم محبوب کے حُسن کی آب و تاب ایسی ہے کہ پلٹ کر دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہء کار بھی نہیں۔ ہماری دانست میں اس شعر کا یہی مفہوم بنتا ہے۔
ہماری دانست میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح مسجد کے محراب پر کوئی آیت کندہ ہوتی ہے، جو کہ نصف یا چوتھائی دائروی صورت میں، چاند کے مثل ہوتی ہے اور سوئی ہوئی آنکھ سے مشابہ بھی ہوتی ہے اس لیے چاند کو محراب پر سوئی ہوئی آیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوسرا مصرع تو خیر واضح ہے کہ مسجد میں عموماََ باوضو ہی جایا جاتا ہے۔۔۔!چاند محراب پہ سوئی ہوئی اک آیت ہے
بے وضو آنکھیں ہیں پڑھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ہماری دانست میں اس کا سادہ مفہوم یہ ہے:سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
اس میں آپ نے "تجھ بن" کو اہمیت نہیں دی جو شعر کی بنیاد تھا۔ یعنی عید کے دن ہمیشہ جشن ہوا کرتا ہے مگر شاعر کے پیالے میں اس کے محبوب کی دوری سے لہو تھا ۔ مطلب یہ کہ شاعر کی عید محبوب کے بنا گزر رہی ہے۔ہماری دانست میں اس کا سادہ مفہوم یہ ہے:
عید کے روز عام طور پر سویرے سویرے دورِ جام چلتا تھا، تاہم شاعر کو اس میں کچھ لطف نہ آیا کیونکہ شاعر کے پیالے میں شراب کی بجائے لہو تھا جو کہ عاشق نامراد کے ارمانوں وغیرہ کا ہی ہو سکتا ہے۔
ذہن میں تو مفہوم واضح تھا؛ شاید وضاحت کرنے میں بھول ہوئی؛ بہت شکریہ!اس میں آپ نے "تجھ بن" کو اہمیت نہیں دی جو شعر کی بنیاد تھا۔ یعنی عید کے دن ہمیشہ جشن ہوا کرتا ہے مگر شاعر کے پیالے میں اس کے محبوب کی دوری سے لہو تھا ۔ مطلب یہ کہ شاعر کی عید محبوب کے بنا گزر رہی ہے۔
پینے کا مزہ دوستوں کے ساتھ ہے. جس جس کو دوست مل گئے وہ انجوائے کررہے ہیں اور ہمارا جام دوست کے آنے کی امید کا لہو پیش کررہا تھاسحر گہہ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
ایک تو یہ کہ نوا گروں کو اگلے مصرعے میں خوش نوا کہا گیا ہےاس شعر کی تشریح درکار ہے۔ اگر احباب تھوڑی سے مدد فرما دیں
جنھیں خبر تھی کہ شرطِ نوا گری کیا ہے
وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
فیض احمد فیض