مشین ریڈایبل اردو رسم الخط: حروف کی کَشتیاں، اِعراب، نقطے، شوشے اور کش

محسن حجازی

محفلین
مجھے تو امید نہیں تھی کہ مقتدرہ والے اتنی جلدی بھاگ جائیں گے لیکن خیر اب کیا کہا جاسکتا ہے
کتنی دیر جھوٹ بولا جا سکتا ہے؟ کسی بھی بات کا کوئی جواب نہیں دیا گيا یہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ چلئے یہ تو چھوڑئیے، پاک ٹائپ پر ایک سائل کو جو جواب میں دے چکا ہوں،
http://tech.groups.yahoo.com/group/paktype/message/1704
اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر سرمد حسین نے اسے بنیاد بنا کر چیرمین مقتدرہ کو خط لکھا ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو بے حد افسوسناک ہے اور اگر جھوٹ ہے تو پھر مرکز کا کوئی ترجمان وہاں آکر اس کی تردید کرے۔ لیکن تاحال وہاں بھی ان کا کوئی ترجمان پیش نہیں ہوا۔
تاہم ابھی بات ختم نہیں ہوئی، اہل وطن و محبان اردو کا چند مزید حقائق کا جاننا ازحد ضروری ہے تاکہ ان پر اس مکر و فریب کی حقیقت بالکل واضح ہو جائے۔

واضح رہے کہ مقتدرہ الگ ادارہ ہے، اس کا مرکز سے کوئی تعلق نہیں، نہ اسے کوئی مرکز کے معاملات میں دخل دینے دیتا ہے،اس بارے میں بھی بات سامنے آ جائے گی۔
 

shoaibnawaz

محفلین
اکبر صاحب جھوٹ کا پلندہ پھینک کر کھسکتے بنے۔۔۔ غالبا یہ ایک دن نہ ٹھہرتے اگر حاکم بالا نے دبا‏ؤ نہ ڈالا ہوتا۔۔۔۔
حاکم بالا 7 جون کو تو بہت خوش تھے جب مبنی بر تمثیل مشینی ترجمہ کاری کا پروٹوٹائیپ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔۔۔
اس وقت جو پروٹو ٹائیپ پیش کیا گیا اس کی سکرین شارٹس حاضرین مجلس کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

یہ سپلیش فارم کا عکس ہے، حاکم بالا نےاس دن اسے جماعت اسلامی کے مجلہ ترجمان القرآن سے مشابہ قرار دیا۔۔۔
splash.png


یہ سورس ویو کا عکس ہے، کنٹیکس مینیو میں ایڈٹ ڈسٹینس الگورتھم کی مدد سے مشابہ جملے دیکھائے گئے ہیں۔
translation-page.png


یہ ٹارگٹ ویو کا عکس ہے۔
target-page.png


یہاں امالے کی غلطی کی درستگی کے لیے مینیو مہیا کیا گیا ہے۔
amala-view.png


اس ویو میں تقطیعی نکات کو مرتب کرنے کا انٹرفیس دیکھایا گیا ہے۔
rules-page.png
 

محسن حجازی

محفلین
شکریہ شعیب! مسلسل جھوٹ بولنے، یہ کہہ کر کہ تاحال پروٹو ٹائپ نہیں بنا سکے محسن صاحب اور اس قسم کی لایعنی و بے سروپا باتوں سے میرے عوامی اور پیشہ ورانہ تاثر کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں انہیں ہتک عزت کے دعوے کے ساتھ عدالت میں بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔
اس کا سورس کوڈ بھی پیش کیا جا سکتا ہے اگر کسی صاحب کو دلچسپی ہو۔
میں نے مارچ 2007 کو مشینی ترجمہ کاری کا چارج سنبھالا، اپریل میں شعیب صاحب نے ادارے میں شمولیت اختیار کی اور ٹھیک تین ماہ بعد مورخہ 07 جون 2007 کو میں نے اس سافٹ وئیر کا عملی مظاہرہ کیا جسے اس وقت بے حد سراہا گیا اور آج اس کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے۔ پھر مورخہ 09 جون کو اہم عہدے پر براجمان افراد کو ہٹا دیا گیا۔
اس میٹنگ میں ایک اور اہم اور دور رس واقعہ بھی ہوا تھا، مصروفیت کے سبب میں بیان نہیں کر سکوں گا، سولنگی صاحب شاید اس کی کچھ تفصیل بتا سکیں کہ وہ بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔
 

محسن حجازی

محفلین
مجھ پر یہ الزام دھرا گیا ہے کہ دوسال میں نے کچھ نہیں کیا، میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں۔
پہلے تو مبارکباد قبول فرمائیے کہ ترجمان ثانی کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے کہ ادارہ دو سالوں میں کچھ نہیں دے سکا۔ میرا خیال ہے کہ کچھ نہ کر سکنے کی وجوہات کسی ایسے بیرونی شخص پر نہیں ڈالی جا سکتیں جسے ادارہ چھوڑے ہوئے بھی آٹھ دس ماہ کا عرصہ ہو چکا ہو۔ میرے زیر انتظام کبھی بھی دو افراد سے زیادہ کی ٹیم نہیں رہی پوچھا تو اہم عہدے پر براجمان ان افراد سے جانا چاہئے جو کروڑوں روپے کے فنڈز اور درجنوں افراد پر مشتمل عملے پر مامور ہیں۔


تاہم پھر بھی ریکارڈ کی درستگی کے لیے چیدہ چیدہ خدمات عرض کرتا ہوں۔
  • میں اپنے دور ملازمت میں پاک نستعلیق کی تمام تر تیاری تن تنہا کر چکا ہوں۔
  • پاک نوری نستعلیق کی داغ بیل بھی میں نے ہی ڈالی، ورک فلو، طریقہ کار، تکنیکی رہنمائی وغیرہ سب شامل ہیں۔
  • مشینی ترجمہ کاری پراہم عہدے پر براجمان اصحاب کی جانب سے لغو و لایعنی مسلط شدہ طریقے پر ابتدائی عملی نمونہ بھی میرا ہی کام ہے جس کے سکرین شاٹس سامنے آ چکے ہیں۔
  • بصری حرف شناسی پر بھی میں نے ابتدائی نوعیت کا کام کیا جسے بعد میں کسی اور کے سپرد کر دیا گیا جہاں یہ میٹ لیب کے ستر سطروں کے پروگرام سے کبھی بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ اس بابت میں لگائی گئی چارج شیٹ کے جواب میں بھی عرض کر چکا ہوں
  • جس آخری دور کی طرف اشارہ کیا گیا، اس دور میں بھی میری کوشش تھی کہ مشینی ترجمہ کاری کسے سلسلے میں کم سے کم Statistical Part of Speech Tagger اسی پلیٹ فارم سے بن جائے۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ جس معیار و مقدار کا ڈیٹا اس کام کو کرنے کے لیے درکار ہے، وہ مرکز میں سفارش پر بھرتی شدہ آپریٹرز فراہم نہیں کر سکیں گے، تو میں نے کوشش کی کہ اردو محفل پر موجود رضاکاران کی مدد لی جائے اور اس ضمن میں میرے پیغامات آج بھی محفل کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بطور ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر خلوص کیا ہو سکتا ہے کہ سرکاری کام کے لیے میں رضاکار باہر سے تلاش کرتا رہا۔
  • مختلف سطحوں پر کام کی تشہیر و توضیح بھی میرا ہی حصہ ہے، افسران بالا جن میں کبھی آرمی کی مانیٹرنگ ٹیمیں تو کبھی کیبنٹ سیکریٹری کی سطح کے لوگ شامل رہے ہیں، کو میں ہی گفتگو سے کام کی اہمیت، نوعیت ، حیثیت و ماہیت کی بابت عام فہم انداز میں قائل و متاثر کرتا رہا ہوں۔
  • یونی کوڈ کنسورشیم سے بات چیت بھی میرے ہی ذمہ تھی اور میں معاملات کو کافی آگے تک پہنچا چکا تھا، مارک ڈیوس، منصور کمال، میگڈا ڈینش، جوناتھن کیو کو تفصیلی و تکنیکی مباحث کے جوابات دینا میرا ہی حصہ تھا میرے بعد آپ اصحاب ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ مرکز میں کوئی ایسا موجود ہی نہیں جو اپنا موقف تمام تر بلاغت کے ساتھ پیش کر سکتا، یا کم سے کم ان کی طرف سے کی گئی پیش رفت کو ہی سمجھ سکتا۔ اب تو بہ روایت قادری صاحب، شنید ہے کہ یونی کوڈ کنسورشیم کو دھمکی دی گئی کہ ان کی فیس روک دی جائے گی جس کے نتیجے میں یونی کوڈ کنسورشیم بات کو آگے بڑھانے پر مجبور ہوا۔ میں بھی اس روایت کی بطور عینی شاہد تصدیق کرتا ہوں کہ مجھے بھی دوران ملازمت کہا جاتا تھا کہ اگر نہیں مانتے تو انہیں لکھو کہ ہم فیس کی ادائیگی روک دیں گے۔ اب چونکہ میں Business Communication اور Corporate Ethics کی کچھ سمجھ یا Sense رکھتا ہوں، لہذا ہمیشہ بات گھما پھرا کر ٹال دی اور ارسال شدہ مکاتیب میں بات محض تکنیکی حوالوں تک محدود رکھی۔ تاہم اس سے سرکاری شعبے میں اہم عہدوں پر براجمان افراد کی ذہنی پسماندگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خیال میں ایسے اداروں کے کوئی Standards of Proceduresیا SOPs نہیں ہوتے، وہ فقط بارہ ہزار ڈالر کی خاطر آپ جو چاہیں گے سٹینڈرڈ میں گھسا دیں گے۔گویا وہ سٹینڈرڈ باڈی جس میں ایڈوب، مائیکروسافٹ، گوگل، پیپل سافٹ، اوریکل اور ان جیسے ملٹی بلین ڈالر جائنٹ بیٹھے ہیں، وہ محض بارہ ہزار ڈالر کی حقیر و معمولی رقم کے لیے گھٹنے ٹیک دیں گے۔ بہرطور اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ قومی خزانے سے ہر سال بارہ ہزار ڈالر کی ادائیگی کے باجود نتیجہ صفر ہے۔ اس کی بابت میں مرکز کی جہالت کا پردہ چاک کر چکا ہوں۔
  • ملازمت کے آخری مہینے میں مقتدرہ سے شائع شدہ اردو لغت کو چئیرمین مقتدرہ جناب پروفیسر فتح محمد ملک کی خواہش پر برقیانے کا منصوبہ شروع کروایا کہ کم سے کم ایک آن لائن لغت کا ہونا مشینی ترجمہ کاری سے علیحدہ بھی مفید رہے گا، اس ضمن میں ستارہویں گریڈ کے ایک افسر کو نگران بنوایا، اپنے ٹیم کے ایک رکن اور واحد رکن شعیب نواز سے پی ایچ پی میں پروگرام لکھوایا جس کے ذریعے ڈیٹا انٹری آپریٹرز اپنی اپنی نشست سے الفاظ کا اندراج کرتے تھے، ہر ایک کی روز کی کارکردگی، کام کی شرح کی رپورٹ خود کار طریقے پر جنریٹ ہوتی تھی۔مرکز میں خریدا ہوا سرور آج تک بند پڑا ہے، سو میں نے ظہور سولنگی کے ذاتی پندرہ سو جی بی کے اکاؤنٹ پر یہ ایپلی کیشن ہوسٹ کروائی تاکہ تمام ڈیٹا ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکے اور ثبوت کے طور پرMySQL کی وہ ڈیٹابیس بھی پیش کی جا سکتی ہے ۔ وابستگی کا عالم یہ تھا کہ مرکز چھوڑ دینے کے ایک مہینہ بعد نئی ملازمت سے بھی دوپہر میں ایک گھنٹہ کی اضافی چھٹی لے کر کام کی رفتار دیکھنے کے لیے آ جاتا تھا۔ بعد ازاں اہم عہدے پر براجمان افراد، جنہیں موثر الزامات کے تحت ہٹا دیا گیا تھا (تفصیل پھر سہی)، نے آتے ہی سب سے پہلے اس ستارہویں گریڈ کے افسر کو اس جرم میں ادارے سے بے دخل کر دیا، ویب سپیس عطیہ کرنے والے کو ذہنی اذیت دینے کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا گيا، بالاخر من گھڑت بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات لگا کر نکال دیا گيا رہا تیسرا رکن شعیب نواز، تو اسے میں اہم عہدے پر براجمان افراد کی واپسی سے محض دو دن قبل باہر کھینچ چکا تھا تاہم اس کی تنخواہ ابھی بھی مرکز کی طرف واجب الادا ہے۔ ان سب افراد کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کسی personality کی بجائے authority کے ساتھ چلنے کی جرات کی تھی۔ بدقسمتی سے اس منصوبے میں محض 3500 الفاظ کا ہی اندراج ہو پایا جنہیں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔

میرے احتساب کا شوق میرے عہد ملازمت میں بھی پورا کیا جا سکتا تھا، جب کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، یہاں تک کہ میرا استعفی دینے کے بعد بھی کم و بیش چار ماہ تک قبول نہیں کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ میں ادارے میں واپس آجاؤں، یہاں تک کہ چئیر مین مقتدرہ جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے خصوصی طور پر بلا کر مجھے ڈیڑھ گھنٹہ تک استعفی واپس لینے کو کہا، پروفیسر صاحب جیسی قدآور شخصیت کے سامنے مجھے انکار بے حد مشکل محسوس ہوا تاہم میں نے انہیں بھی تمام حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں مزید اس کھیل کا حصہ نہیں بن سکتا۔ آخر کچھ تو دیانتداری، قابلیت اور لیاقت کی شہرت ہوگی جو اس عہد کی ایک قد آور شخصیت نے مجھے ادارے میں یہ کہہ کر رکنے کو کہا کہ ہم آپ کی علیحدگی کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کوائف کی تصدیق مختلف ذرائع سے کی جا سکتی ہے۔ یہ اور بات کہ ادارے کےاہم عہدے پر براجمان افراد پروفیسر صاحب کو کچھ نہیں سمجھتے اور پیٹھ پیچھے جی ہاں پیٹھ پیچھےعہد حاضر کی اس عظیم ہستی کی بابت ہم نے کبھی ان سے کلمہ خیر نہیں سنا اور شاید یہی وجہ رہی کہ راقم الحروف سمیت مرکز کے افراد کو چئیرمین یا مقتدرہ کے کسی ذمہ دار سے ملنے کی اجازت تک نہ تھی بلکہ نوبت یہاں تک بھی آ پہنچی کہ اس ضمن میں سرکلر بھی جاری کیا گياتھا ۔احباب آگاہ رہیں کہ مقتدرہ ایک الگ ادارہ ہے، جبکہ مرکز مقتدرہ کے اندر ایک علیحدہ منصوبہ ہے۔

اگر یہ محسوس ہو رہا ہو کہ میں مرکز کے احباب کی بے جا مخالفت کر رہا ہوں، تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دھاگے کے علاوہ مرکز کی جانب سے کسی دوسرے دھاگے پر میں نے کبھی اظہار خیال نہیں کیا اور اس دھاگے پر بھی میرے پیغامات کی تعداد کل تعداد چار یا پانچ ہے۔میں یہ سطور محض قومی خدمت کے جذبے سے تحریر کررہا ہوں، مجھے پڑھنے والے قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ مسئلہ ججوں کی بحالی کا ہو یا پاک امریکی تعلقات کا، میں نےوقت کی قلت کے باوجود بسا اوقات بہت تلخ و درشت انداز میں بھی اظہار حق کو قومی فریضے کے طور پر مقدم جانا ہے۔یہاں پر بھی پہلے پانچ صفحات تک احباب نے سوالات اٹھائے ہیں اور میں مکمل خاموش رہا ہوں، اور احباب کے اصرار پر مجھے صورتحال کی بابت وضاحت کرنا پڑی ہے۔

بہرطور، اس دھاگے میں ہر ذی عقل پر مرکز، اس میں ہونے والے کام اور وابستہ افراد کی قابلیت و لیاقت کی قلعی کھل گئی ہے اور دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا گيا۔ایسا اس لیے بھی ہے کہ ان کی نظر میں یہ صرف کیبنٹ کو جوابدہ ہیں اس سے باہر کوئی فرد یا ادارہ مرکز کی کارکردگی کے بارے میں استفسار نہیں کرسکتا۔ میں اس دھاگے پر بحث برائے بحث میں شریک نہیں ہو سکتا، نہ میرے پاس اتنا وقت ہے۔ اگر مرکز کے دفتر میں کوئی عمل ہے تو پیش کریں، وگر نہ مجھ سمیت دیگر احباب سے جواب کی توقع نہ رکھیں نہ میں جواب دہ ہوں۔
 
آپ دونوں کے جانے بعد اکبر سجاد نے مجھے خود بتایا تھا کہ ہم نے جب یونیکوڈ والوں کو فیس نہ دینے کی دھمکی دی تو وہ راضی ہوگئے اور جو نقطے رجسٹر ہوئے ہیں‌وہ بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، محسن اور شعیب صاحب آپ کے جانے کے بعد محبوب خان نے میرے سامنے کنسلٹنٹ کو پریزنٹیشن دی تھی جس میں یہی جماعت اسلامی والا اسکرین شاٹ دکھایا گیا تھا، باقی تفصیلات اور میرا کیس بھی جلد ہی آرہا ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں یہاں پر محسن بھائی کی تائید میں اور مرکز فضیلت کی جہالت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو نقطے رجسٹر کروانے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے، وہ یونیکوڈ کی سپیسیفیکشنز کے لحاظ سے بلکل غلط ہے:
http://std.dkuug.dk/jtc1/sc2/wg2/docs/n3460.pdf

اس پی ڈی ایف کے مطابق ان 22 نقطوں اور شوشوں کو کیریکٹرز کے طور پر رجسٹر کیا جا رہا ہے، نہ کے مارکس کے طور پر:
These would be given characters properties as follows (in the syntax of the
UnicodeData.txt file):
08nn;---NAME---;Sk;0;AL;;;;;N;;;;;
The line-breaking behavior of these characters would be similar to ordinary Arabic letters
or symbols. They should also be allowed as parts of identifiers​
.

چلیں مان لیا کہ مرکز والوں‌کو یونیکوڈ کا علم نہیں مگر خود یونیکوڈ والوں نے محض چند ہزار ڈالرز کے لالچ میں اپنے ہی ہی معیاری اسٹینڈرڈ کو خراب کردیا!!! کیا خود یونیکوڈ والے بھی لاعلم تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا انہوں کے خود ایک مثال قائم کی ہے کہ پیسوں کے عوض کوئی بھی کیریکٹر یونیکوڈ اسٹینڈرڈ میں‌ شامل کروایا جا سکتا ہے۔ ہمیں فورا یونیکوڈ والوں کو اس غلط قدم کے بارے میں مطع کرنا چاہئے کیونکہ فی الحال یہ کیریکٹرز ابھی صرف پائیپ لائن میں‌ ہیں :mad:

اگر مرکز فضیلت کو کوئی اچھا کام کرنا تھا تو کم از برصغیری قرآنی علامات کو ہی مارکس کے طور پر رجسٹر کرنے کی دھمکی دے دیتے۔ تاکہ قوم کو کچھ فائدہ تو ہوتا!!!
 

نبیل

تکنیکی معاون
عارف، یونیکوڈ سٹینڈرڈ کے بارے چاہو تو کوئی اور تھریڈ شروع کر سکتے ہو۔ ابھی یہاں ادارے کے ذمہ داران اور اس کے پرانے لوگوں کو ہی بات کرنے دو۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نبیل آپ نے کسی سابقہ مراسلہ میں اس موضوع کو مقفل کرنے کا ذکر کیا تھا
اس سلسلہ میں گزار ہے کہ دونوں فریقین کی جانب سے اپنی اپنی صفائی میں مواد پیش کرنے تک براہ کرم اس دھاگہ کو مقفل نہ کیجئے گا
البتہ میں بھی آپ کی وساطت سے اس موضوع میں شرکائے بحث سے شائستگی اپنانے اور ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے الزامات عائد کرنے سے پرہیز کی درخواست کرونگا
مجھے امید ہے کہ برادرم محسن حجازی، شعیب نواز اور ظہور سولنگی کی جانب سے جلد از جلد حقائق پر مبنی مواد پیش کر دیا جائے گا ۔ اس کے بعد بھی میرے خیال میں مرکز فضیلت کے ترجمان حضرات کو کھلی عوامی﴿پبلکلی﴾ دعوت دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے موقف کی حمایت میں یا اپنے اوپر عاید کیے جانے والے الزامات کے جواب یا اپنی صفائی میں اگر کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکیں اور مناسب مہلت کے بعد اس دھاگہ کو مقفل کر دیا جانا مناسب وموزوں ہوگا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شاکرالقادری صاحب، میں اسی چیز کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب محسن، ظہور اور شعیب اپنی طرف سے آخری بات کرتے ہیں۔ اکبرسجاد نے کہا ہے کہ وہ اس موضوع پر مزید بات نہیں کریں گے۔ اس سے صورتحال قدرے واضح ہو جاتی ہے۔ اور ہمارا مقصد حقائق تک پہنچنا ہی تھا، نہ کہ کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا۔
 

محسن حجازی

محفلین
یونی کوڈ کے سلسلے میں تو اصل کہانی یہ ہے کہ جو کچھ رجسٹر کروایا گيا ہے، وہ لاعلم بیوروکریٹس کو متاثر کرنےکے لیے کافی ہے کہ صاحب ہم نے دنیا کا رخ بدل دیا یہ کر دیا وہ کردیا نقطے رجسٹر کروا دیے۔ حالانکہ یہ نقطے نہیں بڑے بڑے 'روڑے' ہیں جو رجسٹر کروائے گئے ہیں انہیں اس طرح سے کسی حرف کے اوپر پلیس نہیں کیا جا سکتا۔ پروپوزل کا نام ہی یہ ہے:
Proposal to encode 22 characters for Arabic pedagogical use
یعنی تعلیمی مقاصد کے لیے یہ نقطے رجسٹر کیے گئے ہیں یعنی ان کی حیثیت وہی ہوئی جو یونانی علامات ڈیلٹا تھیٹا سگما وغیرہ کی ہے تاکہ محض طباعت میں کام آ سکیں۔ سو یونی کوڈ کوتو مکمل علم تھا اور ہے کہ وو کیا کر رہے ہیں، مرکز والوں کو اوپر سے نیچے تک کسی کو علم نہیں کو وہ خود کیا چاہتے ہیں اور ہو کیا گیا ہے۔ لیکن اتنا کافی ہےکہ اوپر میٹنگز میں یہ نقطے دکھا کر شور مچایا جا سکتا ہے کہ صاحب یہ کردیا ہم نے وہ کر دیا لائیے اور پیسے۔ کسی کو کیا پتہ باریکیوں کا۔
میری ایک دفعہ فون پر میگڈا ڈینش اور مارک ڈیوس سے بات ہو چکی ہے، اصل معاملہ Unicode Normalizations میں در آنے والی پیچیدگیوں کا ہے جس کا مختصر حل میں نے انہیں بتایا تھا جسے سراہا گیا تھا۔ اس حل کے تحت تمام string processing libraries اور یونی کوڈ سے وابستہ string functions میں دو فنکشنز اور داخل کیے جانا تھے بنام
int to_collapse_case(char * str) would compose the characters without breaking NFC and would return number of compositions made without introducing any security vulnerabilities
int to_spread_case(char * str) would decompose the characters without breaking NFD and would return number of compositions made without introducing any security vulnerabilities
یہ ابھی ایک خام خیال یہ raw idea تھا تاہم اسے یونی کوڈ ٹیکنیکل کمیٹی نے پسند کیا تھا اور اس پر مزید تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تھا۔
اس کے لیے الگورتھم کی تیاری پر مجھے کام کرنا تھا تاہم یونی کوڈ کی اگلی سہ ماہی میٹنگ تک میں مستعفی ہو چکا تھا۔

جن اصحاب کو اس موضوع سے دلچسپی ہو، ان کے لیے:
یونی کوڈ کا ضمیمہ نمبر 15 جو کہ normalization forms سے بحث کرتا ہے۔
وکی پیڈیا پر normalization کی بابت
میں پھر انکساری سے عرض کرتا ہوں کہ جس مواد کی طرف میں نے اشارہ کیا، اسے سمجھنا مرکز فضیلت میں موجود ٹیم جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، کے بس کی بات نہیں۔
موضوع سے ہٹنے کے لیے معافی کا درخواستگار ہوں، تاہم عارف کریم کے واسطے وضاحت ضروری تھی۔
 
جہان تک شعیب کی تنخواہ کا مسئلہ تو جناب یہ عرض کرتا چلوں کہ مرکز میں دو طرح کو قوانین ہیں پہلے تو سرکاری اور دوسری نجی، اپنے من پسند لوگوں کے لئے نجی اور خلق خدا کے لئے سرکاری، آپ کو اس لئے تنخواہ نہیں دی گئی کہ آپ خلق خدا میں شامل ہیں، آپ شاید چلے گئے تھے آپ تھوڑے عرصے بعد ڈیٹابیس ٹیم کی پروگرام مینیجر نے غالبا 15 یا 20 دن کی چھٹی کی اور جیسے ہی تنخواہ ملی تو اس نے استعفیٰ دے دیا اور استعفیٰ قبول کیا گیا اور حاضری رجسٹر پر Resigned لکھا گیا تھا ظاہر ہے یہ اپنے لوگ تھے اس لئے سرکاری قانون لاگو نہیں کیا گیا پھر شاید ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تو وہ ڈائمو سے مٹایا گیا پھر روزانہ A کا دائرہ لگایا جاتا تھا جب مہینہ پورا ہو گیا تھا تو اس کا ٹرمینیشن کا لیٹر جاری کیا گیا اور نہ تنخواہ واپس لی گئی اور نہ ہی کسی اور قانون پر عمل کیا گیا، کوئی بھی بندہ وہ ریکارڈ چیک کر سکتا ہے، نوید ہے کہ ان کو دوبارہ واپس لایا گیا ہے۔
 
ميرے نام پہلا لیٹر

موجودہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کو جون میں ہٹایا گیا تھا اس کا خیال تھا کہ تھوڑے دنوں میں واپس بحال ہو جاؤں گا، اس نے ہمیں فرداَ بلایا تھا کافی پریشانی کے عالم میں تھے، کہنے لگا بس تھوڑے دنوں میں آنے والا ہوں، خیر یہ سلسلہ چھہ ماہ تک طول پکڑ گیا شروعاتی دنوں میں ہمیں پیغام دیا گیا کہ نئی ٹیم کے ساتھ کام نہیں کرنا، ہم تو ملازم تھے سو جو بھی بندہ چیئر پر ہو اس کی مانی جاتی ہے خیر درمیان میں ہمیں ایک اور پیغام ملا موصوف کی جانب سے کہ میرے آنے کے بعد تین لوگ جائیں گے، یہ کون تھے یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ موصوف 31 جنوری 2008ء کو بحال ہوئے اور آتے ہی میرا ٹرمیشن کا لیٹر جاری کیا گیا جو مجھے ملا نہیں اور روکا گیا، اس لیٹر کا متن نیچے دیا جا رہا ہے۔
 
لیٹر کا متن

ای/21/06۔ پراجیکٹ۔ این ایل اے
یکم فروری 2008

دفتری حکم

عنوان: مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات کی معاہداتی ملازمت سے فراغت

حسب الحکم جناب پراجیکٹ ڈائریکٹر، جناب ظہور احمد سولنگی ، ٹیم ممبر(آر اینڈ ڈی) مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات، کو پراجیکٹ کی معاہداتی ملازمت سے فی الفور فارغ کیا جاتا ہے۔
۲۔ معاہدہ نامہ (مراسلہ تقرر نمبر ای /10/05/مورخہ 30 مارچ 2007ء) کی شق۔2 کے تحت انھیں ملازمت سے فراغت کے ضمن میں ایک ما ہ نوٹس پیریڈ کے عوض ایک ماہ کی تنخواہ کے مساوی رقم تصدیق نامہ صاف راہ (Clearence Certificate)کی فراہمی پر کی جائے گی۔
یہ دفتری حکم فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔

(بدرالعزیز چشتی)
افسر انتظامی
جناب ظہور احمد سولنگی

ٹیم ممبر(آر اینڈ ڈی)
مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات

نقل برائے اطلاع:
۱۔خزانہ دار/ ڈی ڈی او پراجیکٹ
۲۔معتمد خاص برائے صدر نشین
۳۔ذاتی معاون برائے معتمد
۴۔مسل نمبرای/10/06۔ پراجیکٹ
 
اس کے کچھ روز بعد ایک اور لیٹر جاری کیا گیا، متن نیچے ہے، اسکینر نہ ملنے کے سبب صرف متن دیا جا رہا ہے بوقت ضرورت امیجز بھی دیے جا سکتے ہیں۔
نبیل صاحب،
یہ مرکز والے کیوں بھاگ گئے ہیں، کیا وجوہات ہو سکتی ہیں، اگر ہو سکے تو ان کو واپس لایا جائے ایسا نہ ہو کہ وہ بعد میں شکوہ کریں میں یہاں الزام نہیں لگاؤں گا صرف حقائق ہی بیان کروں گا۔
 
مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات
مقتدرہ قومی زبان (کابینہ ڈویژن)
اسلام آباد

عنوان: دوران ملازمت بطور ٹیم ممبر پیشہ ورانہ کارکردگی کا جائزہ۔

آپ کا تقرر بطور ٹیم ممبر، مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات، مقتدرہ قومی زبان میں مورخہ 30 مارچ 2006ء عمل میں میں لایاگیا تھا۔ پراجیکٹ ہذا میں مشین ٹرانسلیشن اور اس ضمن میں ریسرچ اینڈ ڈولپمینٹ کے حوالے سے سافٹ ویئر کی تیاری آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
2۔ جناب پراجیکٹ ڈائریکٹر کی خواہش ہے کہ محولہ بالا فرائض کی ادائیگی سے متعلق 30 مارچ 2006 ء سے اب تک کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور مقرر اہداف کے حصول میں کامیابی کے بارے میں مفصل تحریری رپورٹ پیش کی جائے۔
3۔ مطلوبہ یہ رپورٹ اگلے تین روز میں جناب پراجیکٹ ڈائریکٹر کو پیش کی جائے۔

(بدرالعزیز چشتی)
افسر انتظامی

جناب ظہور احمد سولنگی
ٹیم ممبر مشین ٹرانسلیش (آر اینڈ ڈی)
مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات
غیر رسمی نوٹ نمبر ای/21/06۔ پراجیکٹ مورخہ 7۔ فروری 2008ء
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس کے کچھ روز بعد ایک اور لیٹر جاری کیا گیا، متن نیچے ہے، اسکینر نہ ملنے کے سبب صرف متن دیا جا رہا ہے بوقت ضرورت امیجز بھی دیے جا سکتے ہیں۔
نبیل صاحب،
یہ مرکز والے کیوں بھاگ گئے ہیں، کیا وجوہات ہو سکتی ہیں، اگر ہو سکے تو ان کو واپس لایا جائے ایسا نہ ہو کہ وہ بعد میں شکوہ کریں میں یہاں الزام نہیں لگاؤں گا صرف حقائق ہی بیان کروں گا۔
بھائی یہ سوال تم ادارے والوں سے ہی پوچھو، میری جانب سے تو انہیں پوری اجازت ہے اپنا مؤقف بیان کرنے کی۔
فی الحال تو میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 

محسن حجازی

محفلین
مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات
مقتدرہ قومی زبان (کابینہ ڈویژن)
اسلام آباد

عنوان: دوران ملازمت بطور ٹیم ممبر پیشہ ورانہ کارکردگی کا جائزہ۔

آپ کا تقرر بطور ٹیم ممبر، مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات، مقتدرہ قومی زبان میں مورخہ 30 مارچ 2006ء عمل میں میں لایاگیا تھا۔ پراجیکٹ ہذا میں مشین ٹرانسلیشن اور اس ضمن میں ریسرچ اینڈ ڈولپمینٹ کے حوالے سے سافٹ ویئر کی تیاری آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
جناب پراجیکٹ ڈائریکٹر کی خواہش ہے کہ محولہ بالا فرائض کی ادائیگی سے متعلق 30 مارچ 2006 ء سے اب تک کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور مقرر اہداف کے حصول میں کامیابی کے بارے میں مفصل تحریری رپورٹ پیش کی جائے۔
3۔ مطلوبہ یہ رپورٹ اگلے تین روز میں جناب پراجیکٹ ڈائریکٹر کو پیش کی جائے۔

(بدرالعزیز چشتی)
افسر انتظامی

جناب ظہور احمد سولنگی
ٹیم ممبر مشین ٹرانسلیش (آر اینڈ ڈی)
مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات
غیر رسمی نوٹ نمبر ای/21/06۔ پراجیکٹ مورخہ 7۔ فروری 2008ء

حاضرین کرام!
چند امور کی طرف توجہ چاہوں گا۔ پہلے جو جملہ میں نے نشان زد کیا ہے، اس میں دیکھئے کہ ظہور سولنگی صاحب کبھی بھی مشینی ترجمہ کاری کی طرف رہے ہی نہیں اور محفل پر جو احباب ہمیں شروع سے جانتے ہیں یقینی طور پر ان کے علم میں ہوگا کہ سولنگی صاحب کے پاس فونٹ کے علاوہ کوئی ذمہ داری کبھی بھی نہیں رہی۔ لیکن ان سے مشینی ترجمہ کاری اور او سی آر کی رپورٹ مانگی جا رہی ہے۔ بد نیتی بدکرداری و اخلاقی پستی کی انتہا ہے اور محض ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ اسی سبب مجھے کہنا پڑا کہ ان کے ہاں ریکارڈ کا کوئی تقدس نہیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کم عمری میں ہی سرکاری اداروں کے اندر کے غلیظ ماحول کا بہت قریب سے مشاہدے کا موقع دیا اور اس سبب میری بالغ نظری اور وسعت نظر میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
دوسرا نشان زد جملہ خواہشات کی بابت ہے۔ اس پر ہم چند شگفتہ پیراگراف لکھ سکتے تھے تاہم چھوڑئیے۔:grin:
اب ذرا تیسرا نشان زدہ جملہ اور اس میں موجود دھوکہ دہی ملاحظہ ہو کہ انہیں ممبر مشین ٹرانسلیشن کہا گیا ہے۔ جب کہ مفرور ترجمان خود یہاں بالواسطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ میری ٹیم میں صرف شعیب نواز اور دوسرا ایک اور کارکن جو کہ 'ادارے کی خدمت' میں مصروف تھا کہ علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا۔

سولنگی صاحب ان کے لیے فرار ضروری تھا کیوں کہ انہیں علم تھا کہ ان کے کاموں کی بابت بات آنے والی ہے کہ کیسے نیم پڑھے لکھے لوگ بھرتی کر کے ان سے کہیں اور کا کام کروا کر کاروبار چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہیں۔
لیکن میں نے آج صبح بھی مفرور ترجمان کو دیکھا ہے یہیں پر بہتر ہوگا کہ وہ اتنی جلدی راہ فرار اختیار نہ کریں اور حقائق کا سامنا کریں۔ خود انہوں نے تو درجن سے اوپر سوال کر لیے جن کے میں نے بہت تفصیلی جواب دیئے اورمیرے ایک آدھ سوال اٹھانے کے خوف سے ہی اب وہ سامنا نہیں کر رہے۔
 
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پہلا لیٹر تیار کرنے کے باوجود کیوں نہیں دیا گیا اور دوسرے لیٹر میں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے انہوں نے مجھ سے پورے دو سال کی مشین ٹرانسلیشن اور او سی آر کی کارکردگی مانگی ہے جبکہ Appointmenr Lettetr میں لکھا ہوتا ہے ہر سہ ماہی بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، وجہ ہر بندہ صاف سمجھ سکتا ہے کہ ذاتی دشمنی تھی مگر کوئی موقع نہیں مل رہا تھا،
اس معروف کہانی کے مصداق
اس بار ایک بار بھیڑیا نہر سے پانی پی رہا تھا اور اس کے نچلی طرف بھیڑ کا بچہ پانی پی رہا تھا، بھیڑیے نے بھیڑ کے بچے سے پوچھا پانی گندا کیوں کررہے ہو، بھیڑ کے بچے نے کہا جناب میں پانی تو نیچے کی طرف سے پی رہاہوں تو گندا کیسے ہوا؟ کہنے لگا اچھا تو پچھلے تو تو مجھے گالی کیوں دی تھی تو بھیڑ کے بچے نے کہا جناب میں تو ابھی چھ ماہ کا ہوں پھر پچھلے سال گالی کیسے دی تو بھیڑیے نے وہ تمہارے ابا ہوگا اور بھیڑ کے بچے کو شکار کرلیا۔
مجھے خوشی ہوتی اگر مرکز والے یہاں ہوتے۔
 
دسرے لیٹر کا جواب

کارکردگی رپورٹ

غیر رسمی نوٹ نمبر ای/٢١/٠٦ کے حوالے سے تحریر ہے کہ میں شعبہ فانٹ میں ٹیم ممبر ہوں جبکہ مجھ سے مشین ٹرانسلیشن کی کارکردگی مانگی گئی ہےجبکہ میرے فرائض منصبی میں فانٹ بنانا ہے جس کی کارکردگی درج ذیل ہے۔
• جب میرا تقرر ہوا تو مجھے میرے پروگرام مینیجر نے تین نسخ فانٹ بنانے کی اسائنمنٹ دی تھی جس کے تحت تین نسخ فانٹ بنا ئے گئے جن کے نام اس طرح ہیں، پاک سرکل نسخ، پاک ڈجیٹل نسخ اور پاک اسکوائر نسخ۔ شروع میں یہ تینوں فانٹ صرف اردو کو بنیاد بناکر بنائے گئے بعد میں ان پشتو اور سندھی کی سپورٹ بھی ڈالی گئی۔ مذکورہ بالا تینوں فانٹس میں نے خود ڈیزائن کئے اور پورا کام کورل ڈرا میں کیا گیا۔
پاک نستعلیق:
• پاک نستعلیق: شروع میں مجھے پاک نستعلیق کو ٹیسٹ کرنے کا کام سپرد کیا گیا اور ساتھ ہی ٣٢٠٠ کی لسٹ دی گئی جس میں سے صحیح اردو لگیچر کو سلیکٹ کرنا تھا جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو اس کا بیٹا ورژین رلیز کیا گیا اس کے بعد یہ فانٹ مجھے دیا گیا۔
• اردو میں اسپیس بار کی سائز کم ہوتی ہے اور انگریزی میں زیادہ اس وجہ سے انگریزی صحیح نہیں لکھی لہذا میں نے انگریزی کی سپورٹ اس میں سے ختم کردی۔
• بولڈ یا اٹیلک کرنے سے پاک نستعلیق کی ساخت متاثر ہو رہی تھی لہذا شروع میں، میں نے دونوں کو ختم کردیا لیکن ابھی حالیہ دنوں میں دوبارہ سپورٹ ڈالنا پڑی ہے کیونکہ بولڈ اور اٹیلک کے بغیر یہ فانٹ وژیول اسٹوڈیو میں کام نہیں کرتا۔ اب یہ وژیول اسٹوڈیو کے اندر بھی قابل استعمال ہے بلکہ اس کو استعمال میں لاتے ہو ئے کچھ جگہوں پر ڈولپمنٹ بھی ہو رہی ہے۔
• پاک نستعلیق میں "آ " کی کمپوزیش صحیح نہیں ہو رہی تھی جس وجہ مد الف سے دور نظر آرہا تھا۔
• شروع میں پاک نستعلیق کا 1.0 ورژین رلیز کیا گیا تھا جبکہ میں نے اس میں درج ذیل تبدیلیاں کرکہ 1.01 کیا تبدیلیاں درج زیل ہیں
• The size of brackets was reduced
• The size of isloated Hamza was reduced
• The width of Space has been maximized to 200 previous 50
• Bold & Italic propertis have been disabled.
• Replaced the HhyB2000
• New Shape was added (HhyB3010) that goes with جو and حق
• Ligatures for Allah, Salay Ullah Alaih Wa Aalhi Wasalam were added.
• Middle shapes of Bay that goes with Ray is replaced.
• BayB7000 was replaced
• BayM6700 was replaced.
• RayE0600 was replaced.
• LaamM2700 was replaced.
• MeemM7200 was replaced.
• Ending shape of Goal (HayE0800) Hay was replaced with new one.
• BayB3000 Nuqta Palcement has been re-arranged.
جبکہ 1.0 ميں، میں نے جو تبدیلیاں کی تھیں وہ درج ذیل ہیں ہیں۔
• Ending shape of Alif Maddah & Goal Tay
• Adjusted the line spacing
• Removed the latin totally
• Regenerated cursive attachment
• Simple comma was refurnished
• Replaced the double quotes shapes
• Removed shosha from middle shapes
• Alif Maddah was composed
• Aanay Aatay etc were set
• ابھی حالیہ دنوں میں انڈیا کے ایک پروفیسر صاحب نے کچھ تجاویز دی ہیں اور کچھ مسائل کی نشاندہی کی ہے ان مسائل کو 95 فیصد حل کیا گیا ہے باقی 5 فیصد مسائل حل کرکہ اس کا 1.02 ورژین رلیز کیا جا ئے گا اور وہ رپورٹ بھی پیش کی جا ئے گی۔
پاک نستعلیق کے مستقبل کے نئے اہداف کچھ اس طرح ہیں
• شروع میں پاک نستعلیق کی پرفارمنس پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جبکہ اب اس کی اشکال اور مختلف آپریٹنگ سسٹم کی سپورٹ ڈالنا ہے جیساکہ لنکس کی مختلف ڈسٹریبیوشن۔ اس کے لئے اسی آرکیٹیکچر کے اندر رہتے ہو ئے نئے فانٹ بنانا جس میں تمام مسائل اور رینڈرنگ کے حل اور ساتھ ہی نقطہ جات کے مسائل کا حل۔
پاک نوری نستعلیق:
• فانٹ بنانے کی دو طریقے ہوتے ہیں ایک مبنی بر حرف اور دوسرا مبنی بر ترسمیہ جات، پاک نستعلیق کو پہلی تیکنیک کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا تھا جبکہ پاک نوری نستعلیق کو دوسری تیکنیک کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا۔
• پاک نوری نستعلیق کے اندر اتنی پیچیدگیاں نہیں ہیں اس لئے یہ ہر ایپلیکیشن اور آپریٹنگ سسٹم کے اندر کام کرتا ہے حتی کے یہ اڈوب اور ابنتو اور کبنتو کے اندر بھی کام کرتا ہے۔
• شروع میں اس ان پیج کے تمام لگیچر ٹائپ کروا ئے گئے جن کی تعداد 1600 بنی تھی اور ان کو ویکٹر گرافکس میں تبدیل کرکہ فانٹ بنایا گیا یہ صرف تجرباتی مرحلہ تھا جب یہ 1600 کا فانٹ بن گیا تو پتہ لگا کہ لائن اسپیس اور لگیچر کے درمیان اسپیس، لگیچر کی کمپوزیشن کے کافی مسائل ہیں۔
• اس کے بعد نئے سرے سے فانٹ بنایا گیا یہ اس کی naming convention کے لئے ایک پروگرام لکھا گیا اور ایک اسٹنڈرڈ مقرر کیا کیا۔ اس فانٹ کے پاک نستعلیق نما کو بنیاد گیا اس میں تا حال 18000 سے زائد لگیچر ڈالے گئے ہیں مز ید 2000 تک لگیچر رہتے ہیں جو ڈال کر اس کا بیٹا ورژین رلیز کیا جا ئے گا۔
پاک نوری نستعلیق کے اہداف:
• پاک نستعلیق کے تمام مسائل کو حل کرنے کے بعد اس کے بنیاد پر پاک نوری نستعلیق بنایا جائے گا

ظہور احمد سولنگی
ٹیم ممبر
شعبہ فانٹ
 

محسن حجازی

محفلین
یہیں پر ہیں مرکز والے سولنگی صاحب ان کی تو جان اٹکی ہوئی ہے کہ دکان بند ہونے کا خدشہ ہے پر آپ فکر نہ کریں انہیں بولنے سے کسی نے نہیں روکا۔ روز صبح اکبر صاحب یہاں آ کر چیک کرتے ہیں آج صبح بھی ساڑھے دس کے بعد وہ یہیں پر تھے۔
ناظمین نے انہیں پورا اختیار دیا ہے وہ تو ان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ خاموش رہیں تاکہ زیادہ باتیں سامنے نہ آ پائیں۔
آپ اپنی بات مکمل کیجئے تاکہ پوری بات ایک عوامی پلیٹ فارم پر آ جائے اور مزید آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جا سکے۔
کسی کے راہ فرار اختیار کرنے سے دوسرے لوگوں کو سچائی جاننے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
مجھے افسوس رہے گا کہ میرے کسی بھی تکنیکی جواب کی بابت کوئی تردید بھی مرکز کی طرف سے نہیں آئی۔
 
Top