گرو جی یہاں سرکاری لوگوں کی کھال اتاری جا رہی ہے آپ ذرا دیکھتے جائیں۔
ہم آپ کو دکھائیں گے کہ اردو اور اسلام کے نام پر کیسا کیسا فراڈ ہو رہا ہے اور کیسے وضو کے بغیر نمازیں پڑھائی جار ہی ہیں۔
ذرا یہ چینل دیکھتے رہئے بس!
اب کاشف مجید صاحب۔ احکامات خداوندی اور اشرف المخلوقات کی عظمتوں کو تو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ تو اٹل ہیں اور ان کی حقانیت پر کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں غرور و تکبر اور نام نہاد بڑائی جتانے کے ساتھ روزمرہ زندگی میں ہر وقت مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں مصلحت در مصلحت کام لیتے رہتے ہیں۔ چاہے اندر سے ضمیر کچوکے لگاتا پھرے پھر بھی ہم ہر وقت اپنی مصلحتوں کو دلائل کا لبادہ پہنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
حاضرین محفل! اسے دنیا کی مختصر ترین آپ بیتی بھی کہا جا سکتا ہے، جو سرکاری اداروں میں ایک معمولی سٹینو گرافر پر ایک نچلے گریڈ سے اوپر کے گریڈ تک پہنچتے گزرتی ہے کہ دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے پر۔۔۔۔ ہونے تک۔
اسے ذرا دوبارہ اسی نقطہ نظر سے دیکھئے یہ مختصر نویسی بہت لطف دے گی۔
لیکن اس میں ضمیر کا لفظ کچھ جچتا نہیں
ویسے ہم حیران ہیں کہ چھوٹے موٹے کمیشن خور بھی اس لفظ کا استعمال کر لیتے ہیں۔
میں ذرا مصروف ہوں، پھر مزید اسرار سے پردے اٹھاتا ہوں کہ اردو کے نام پر ریاست کو کیسے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
باقی ان صاحب کی اخلاقی حالت کا اندازہ یہاں سے کر لیجئے کہ آتے ہی فرما رہے ہیں کہ مجھے لانے والے وہ ہیں، جبکہ میں نومبر 2005 سے یہاں ہوں، یہ فروری 2006 میں آ رہے ہیں۔
ویسے میں اکتوبر 2007 میں استعفی دے چکا تھا، نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون بھی اختتام پر۔ دیکھئے کتنا عرصہ بیت گیا۔ ویسے اب تو کارکردگی پر معترض ہیں، اس پر میں بعد ازاں بات کرتا ہوں تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ میری کلئیرنس پر ان صاحب کا بھی انگوٹھا لگوایا گیا تھا۔ اب جھوٹ آئے گا کہ ہم سوئے ہوئے تھے زبردستی لگوایا گیا۔
قبلہ شعیب صاحب! یہ بھی بتا دیتے تو بہتر تھا کہ آپ کے ساتھ کا دوسرا رکن جو میری ماتحتی میں تھا، وہ ہمہ تن
'ادارے کی خدمت' میں مصروف تھا۔ کیا خدمات تھیں، اسی واسطے مرکز کے پہلے ترجمان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں کو ہماری زبان بندی کی بہت جلدی ہے۔
سولنگی صاحب پر بھی جو ظلم روا رکھا گیا، وہ بھی یہاں آئے گا کہ سولنگی صاحب 'ان کے کام' کے آدمی نہ تھے۔