مشین ریڈایبل اردو رسم الخط: حروف کی کَشتیاں، اِعراب، نقطے، شوشے اور کش

بہت خوب! واقعی سولنگی صاحب آخری سال میں فانٹ پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی بات واقعی وزن رکھتی ہے۔ دیکھیں گے کہ وہ کس حد تک سچائی سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ میری چالیس سالہ زندگی کا لوگوں کے ساتھ میل جول کے بعد نچوڑ یہ ہے کہ:
انسان: ایک عقل مند مشین ہے جو ہمیشہ مصلحت کا شکار رہتا ہے۔
کمپیوٹر: ایک بے وقوف مشین جو ہمیشہ سچ بولتی ہے۔
اکبر سجاد

کمپیوٹر کی سچ بولنے کی صلاحیت بھی اسی مصلحت کے شکار انسان کی عقل کے تابع ہے۔ کیونکہ کمپیوٹر تو حکم کا غلام ہے۔ جتنا کہو گے جس حد تک کہو گے وہ کام کرے گا، اس سے زیادہ کام کرنے کی نہ تو اسکی اوقات ہے نہ یہ کر سکتا ہے۔ حتی کہ آپ کی آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کی مشینیں بھی صرف اس حد تتک خود فیصلہ کر سکتی ہیں جتنا ان کو اس انسان نے سکھایا ہے اگر کوئی بات انکی میموری انسٹرکشنز سے باہر ہو جاتی ہے تو وہ وہاں پر بلینک ہیں جب تک انسان ان کو یہ انسٹرکشن نہ دے ابھ کیا کرنا ہے۔ تو پھر اس بات کا فیصلہ کیسے ہو کہ جو سچ کمپیوٹر بول رہا ہے وہ کسی انسان کی مرضی کے تابع نہیں
 

اکبر سجاد

محفلین
جناب کاشف مجید صاحب۔ احکامات خداوندی اور اشرف المخلوقات کی عظمتوں کو تو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ تو اٹل ہیں اور ان کی حقانیت پر کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں غرور و تکبر اور نام نہاد بڑائی جتانے کے ساتھ روزمرہ زندگی میں ہر وقت مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں مصلحت در مصلحت کام لیتے رہتے ہیں۔ چاہے اندر سے ضمیر کچوکے لگاتا پھرے پھر بھی ہم ہر وقت اپنی مصلحتوں کو دلائل کا لبادہ پہنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
 
انسان: ایک عقل مند مشین ہے جو ہمیشہ مصلحت کا شکار رہتا ہے۔
کمپیوٹر: ایک بے وقوف مشین جو ہمیشہ سچ بولتی ہے۔اکبر سجاد

سر میں بھی انسان کے مصلحتوں کا شکار ہونے سے انکار نہیں کر رہا۔ لیکن میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ نے خود انسان کو مصلحتوں کا شکار کہا۔ آپ نے خود کہا کہ انسان اپنی نام نہاد بڑائی، اور سچائی ثابت کرنے کے لئے مصلحت مصلحت در مصلحت کام لیتے رہتے ہیں۔

توپھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ بے وقوف کمپیوٹر ہمیشہ سچ بولے گا جب کہ وہ خود انسان کے اشاروں پر ناچنے والی ایک مشین ہے۔
 

shoaibnawaz

محفلین
جی اکبر سجادصاحب!
شکر ہے! شعیب نواز صاحب بھی جاگے۔ عظمت تو آپ کی بھی تقریبا سال مرکز فضیلت کی زینت رہی ہے۔
جی ہاں جاگ اٹھا ہوں۔۔۔ اوراس دھاگے کے آنگن میں آنکھ بھی اپنی شناخت سے کھولی ہے اور کسی ''محبوب' 'کا سہارا نہیں لیا۔
میری چالیس سالہ زندگی کا لوگوں کے ساتھ میل جول کے بعد نچوڑ یہ ہے کہ:
انسان: ایک عقل مند مشین ہے جو ہمیشہ مصلحت کا شکار رہتا ہے۔
کمپیوٹر: ایک بے وقوف مشین جو ہمیشہ سچ بولتی ہے۔
اکبر سجاد
خیر یہ تو ہوا آپ کا دربار عالیہ شریف میں عہد خجالت کا نچوڑ۔۔۔
پہلے ڈرائیور کے ڈراپ سین کے بعد آپ بھی کھوکھلے لفظ تراش رہے ہیں۔
موضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے یہ تو فرمائیے کہ اس دھاگے پر ہونے والے تکنیکی اعتراضات کا جواب دینے کے لیے کوئی ''تیسرا'' بھی مصروف عمل ہے یا محض شوروغوغا کر کےبزم میں قبول عام حاصل کرنے پر توجہ؟
 

اکبر سجاد

محفلین
ویسے تو مرکز کی جانب سے کیے جانے والے شور و غل کی بابت قرآنی حکم
واعرض عن الجاھلین
کی ذیل میں اعراض کی روش جاری رکھی لیکن اب احباب کا زور ہے کہ آپ اسی ادارے میں دوسال سے بھی کچھ زیادہ عرصے ایک کلیدی عہدے پر رہے ہیں، سو اس بابت کچھ کہئے۔

اصل میں مرکز کی طرف سے عرصہ دو سال سے کچھ بھی سامنے نہیں آیا فقط ایک فونٹ کی بی ٹا ریلیز کے اس وجہ سے احباب کا استفسار بجا ہے کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ آخر جا کہاں رہا ہے۔ آپ احباب صرف باہر سے بیٹھ کر جانچ رہے ہیں، میں تصویر کا دوسرا رخ بھی بخوبی جانتا ہوں تاہم میں آج کل ذرا مصروف ہوں، تفصیل سے جواب دیتا ہوں۔
مجھے مرکز چھوڑے ہوئے سال ہونے کو آ رہا ہے تاہم اس کے باجود بھی ہفتے میں ایک آدھ پیغام اس بارے میں مجھے موصول ہوتا رہتا ہے ایسا ہی ایک پیغام یہ بھی ہے:
http://tech.groups.yahoo.com/group/paktype/message/1703
جس کا جواب میں متفکر سائل کو کچھ یوں دے چکا ہوں:
http://tech.groups.yahoo.com/group/paktype/message/1704

مزید تفصیلات فراغت ملتے ہی ارسال کرتا ہوں۔

محسن صاحب! لگتا ہے واقعی آپ کا حساب کتاب میری کوٹنگ کے مطابق ہو گیا ہے کیونکہ آپ نے 26 جنوری 2008ء کو اپنے کمرے کی چابیاں دفتر حوالے کی تھیں۔ میری سمجھ نہیں آ سکتا کہ ان چار پانچ ماہ کو اسے ایک سال کیسے سمجھ لیا جائے۔ اور میں نے شاید آپ سے ایک بار پہلے عرض کیا تھا کہ آپ اپنے ٹیم ممبر فانٹ رہے اور اس کے بعد مشین ٹرانسلیشن کے پروگرام مینیجر۔ کیا وجہ ہے کہ آپ دفتر چھوڑنے سے قبل اپنے اہداف کو 16 فروری 2007ء سے آگے نہ بڑھا سکے۔ کیونکہ آپ نے نہ تو 30 جون کو اپنے ٹارگٹ مکمل کیے اور نہ ہی دفتر چھوڑنے تک۔
شعیب صاحب آپ بھی محسن صاحب کے دست راست تھے اور شاید ہیں بھی۔ اس لیے اسے کہا جائے کہ آپ اپنے آپ پر ہی اعتراض کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو آپ نے اپنی خدمات کے دوران مرکز ‌فضیلت کے لیے کوئی کام نہ کر سکے اور دوسری طرف اپنی طرف سے رخ موڑنے کی خوب کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ
واللہ خیر الماکرین۔
بہرحال انشاء اللہ اب نئی ٹیم جلد ہی آپ لوگوں کے ضائع کیے ہوئے وقت کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
اکبر سجاد
 

اکبر سجاد

محفلین
اور شعیب صاحب!
آپ کے بارے میں کیا کہنا:
سادگی تو دیکھیے کہ خود قتل کر کے آپ
اوروں سے پوچھتے ہیں کا ماجرا ہوا
 

shoaibnawaz

محفلین
شعیب صاحب آپ بھی محسن صاحب کے دست راست تھے اور شاید ہیں بھی۔ اس لیے اسے کہا جائے کہ آپ اپنے آپ پر ہی اعتراض کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو آپ نے اپنی خدمات کے دوران مرکز ‌فضیلت کے لیے کوئی کام نہ کر سکے اور دوسری طرف اپنی طرف سے رخ موڑنے کی خوب کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ
واللہ خیر الماکرین۔
اکبر سجاد
اکبر صاحب! کیا آپ مجھ سےمرکز کے ناظم اعلی کے ذاتی کاروبار کی بابت کام لینا چاہتے تھے؟ شاید تب ہی مجھ پر یہ الزام دھرا گیا ہے کہ'مرکز ‌فضیلت کے لیے کوئی کام نہ کر سکے'۔ ویسے ناظم اعلی نے جن سرکاری وسائل کو استعمال کیا ان میں آپ کی ذات پیش پیش رہی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے کچھ تو انتظار فرمائیے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
گرو جی یہاں سرکاری لوگوں کی کھال اتاری جا رہی ہے آپ ذرا دیکھتے جائیں۔:grin:
ہم آپ کو دکھائیں گے کہ اردو اور اسلام کے نام پر کیسا کیسا فراڈ ہو رہا ہے اور کیسے وضو کے بغیر نمازیں پڑھائی جار ہی ہیں۔
ذرا یہ چینل دیکھتے رہئے بس!
اب کاشف مجید صاحب۔ احکامات خداوندی اور اشرف المخلوقات کی عظمتوں کو تو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ تو اٹل ہیں اور ان کی حقانیت پر کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں غرور و تکبر اور نام نہاد بڑائی جتانے کے ساتھ روزمرہ زندگی میں ہر وقت مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں مصلحت در مصلحت کام لیتے رہتے ہیں۔ چاہے اندر سے ضمیر کچوکے لگاتا پھرے پھر بھی ہم ہر وقت اپنی مصلحتوں کو دلائل کا لبادہ پہنائے ہوئے ہوتے ہیں۔

حاضرین محفل! اسے دنیا کی مختصر ترین آپ بیتی بھی کہا جا سکتا ہے، جو سرکاری اداروں میں ایک معمولی سٹینو گرافر پر ایک نچلے گریڈ سے اوپر کے گریڈ تک پہنچتے گزرتی ہے کہ دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے پر۔۔۔۔ ہونے تک۔ :grin: اسے ذرا دوبارہ اسی نقطہ نظر سے دیکھئے یہ مختصر نویسی بہت لطف دے گی۔ :grin:
لیکن اس میں ضمیر کا لفظ کچھ جچتا نہیں :rolleyes:
ویسے ہم حیران ہیں کہ چھوٹے موٹے کمیشن خور بھی اس لفظ کا استعمال کر لیتے ہیں۔:confused:
میں ذرا مصروف ہوں، پھر مزید اسرار سے پردے اٹھاتا ہوں کہ اردو کے نام پر ریاست کو کیسے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
باقی ان صاحب کی اخلاقی حالت کا اندازہ یہاں سے کر لیجئے کہ آتے ہی فرما رہے ہیں کہ مجھے لانے والے وہ ہیں، جبکہ میں نومبر 2005 سے یہاں ہوں، یہ فروری 2006 میں آ رہے ہیں۔ :grin:
ویسے میں اکتوبر 2007 میں استعفی دے چکا تھا، نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون بھی اختتام پر۔ دیکھئے کتنا عرصہ بیت گیا۔ ویسے اب تو کارکردگی پر معترض ہیں، اس پر میں بعد ازاں بات کرتا ہوں تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ میری کلئیرنس پر ان صاحب کا بھی انگوٹھا لگوایا گیا تھا۔ اب جھوٹ آئے گا کہ ہم سوئے ہوئے تھے زبردستی لگوایا گیا۔ :grin:

قبلہ شعیب صاحب! یہ بھی بتا دیتے تو بہتر تھا کہ آپ کے ساتھ کا دوسرا رکن جو میری ماتحتی میں تھا، وہ ہمہ تن 'ادارے کی خدمت' میں مصروف تھا۔ کیا خدمات تھیں، اسی واسطے مرکز کے پہلے ترجمان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں کو ہماری زبان بندی کی بہت جلدی ہے۔
سولنگی صاحب پر بھی جو ظلم روا رکھا گیا، وہ بھی یہاں آئے گا کہ سولنگی صاحب 'ان کے کام' کے آدمی نہ تھے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ آخر کیا صورتحال ہے؟
کیا شعیب نواز اور ظہور سولنگی بھی ادارہ چھوڑ چکے ہیں؟ یا انہیں وہاں سے نکالا گیا ہے؟
اگر محسن کے بعد شعیب نواز اور ظہور سولنگی بھی ادارے میں نہیں رہے ہیں تو کیا اب محبوب خان پراجیکٹس کے انچارج ہیں؟
 

محسن حجازی

محفلین
شعیب کو میں کھینچ لے گیا تھا انتقامی کاروائیوں سے بچانے کے لیے۔ ظہور سولنگی کو نہ کھینچ سکا سو انہیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اس بابت سولنگی صاحب ہی بتائیں گے تاہم ان صاحب نے ہی وہ مضحکہ خیز من گھڑت و لایعنی کیس تیار کیا تھا اور یہ پیش پیش تھے۔
محبوب خان صاحب کو مشین ٹرانسلیشن کا انچارج بنایا گیا ہے اور مجھے حیرت ہوگی اگریہ صاحب linked list ہی implement کر کے دکھا دیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ادارے کے independent technical audit کی ضرورت ہے جو کہ ہے نہیں۔
میں نبیل بھائی پراجیکٹ کی deployment میں بہت مصروف ہوں، تمام حقائق سامنے لاتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کو اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ ارکان اس محکمے کے سبھی عہدے داروں سے واقف ہیں۔ میں تو ٹھہرا باہر کا، بلکہ ہندوستان کا آدمی۔ اس لئے میں نے اس موجوع پر دلچسپی لینی چھوڑ دی تھی۔ ابھی دیکھا کہ محسن کی پوسٹ ہے تو خیال آیا کہ دیکھیں وہ پاک نستعلیق کے حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ یہاں تو سیاست ہی سیاست۔ یعنی چکر در چکر است۔ wheels within wheels!!
 
اس کو اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ ارکان اس محکمے کے سبھی عہدے داروں سے واقف ہیں۔ میں تو ٹھہرا باہر کا، بلکہ ہندوستان کا آدمی۔ اس لئے میں نے اس موجوع پر دلچسپی لینی چھوڑ دی تھی۔ ابھی دیکھا کہ محسن کی پوسٹ ہے تو خیال آیا کہ دیکھیں وہ پاک نستعلیق کے حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ یہاں تو سیاست ہی سیاست۔ یعنی چکر در چکر است۔ Wheels Within Wheels!!

این چکر نیست، حقیقت است، ہمہ ما برائے فرہنگ و اردو کار می کنیم۔ واللہ ما دروغ نمی گوئیم۔
 

محسن حجازی

محفلین
بایں ہمہ، چکر خوب گول است و گھمبیر و مکروہ است و بقول استاد محترم چکر در چکر است :grin:grin::
دریں حالانکہ زبان یار من فارسی من فارسی نمی دانم۔
دریں اثنا ذخیرہ فارسی ما ختم شد۔ :grin: :grin:
 

اکبر سجاد

محفلین
جناب محسن صاحب!
آپ نے ایک سٹینو گرافر کی ترقی کے لیے نشاندہی کی شکریہ۔ وہ بیچارہ تو 19 سالہ ملازمت کے بعد گریڈ 15 سے 16 میں منتقل ہوا اور اس کی تعلیمی قابلیت بھی گریجویشن پر "اے گریڈ" اور "فرسٹ ڈویژن" تھی۔ پروگرام مینیجر مشینی ترجمہ کے بارے میں بتانا پسند فرمائیں گے کہ اس کا بی ایس مکمل ہوا یا ڈراپ ہو گیا ہے؟
امید ہے آپ اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل سوالوں کا جواب ایک ایک کرکے دیں گے اس بعد جو الزامات لگانا ہوں وہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔
1۔میں نے اپنے گزشتہ چند پیغامات میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ کیا آپ اس محفل کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ پروگرام مینیجر مشینی ترجمہ بننے کے بعد آپ نے 30 جون 2007ء کو جو پروٹائپ مرکز کے حوالے کرنا تھا وہ آخر وقت تک کیوں حوالے نہیں کیا گیا یا بنا نہیں سکے؟
2۔کیا آپ کی پسند کے مطابق آپ کے اپنے ساتھی منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا؟
3۔کیا آپ نے انتظامیہ کہ تبدیلی کے بعد تمام تر کام روک نہیں دیا تھا کہ جب تک آپ کو پراجیکٹ مینیجر نہیں بنایا جاتا آپ ادارے کے حوالے کچھ نہیں کریں گے؟
4۔آپ نے ebmt میں موجود ڈیٹا کو کیوں داخل نہیں کیا تھا؟
5۔کمپیوٹیشنل گرامر کی موجودگی سے کیوں انکار کیا تھا؟
6۔ڈیٹا کی موجودگی سے کیوں انکار کیا تھا۔ اور صرف 260 فقرات پر کیوں رک گئے تھے؟
اور اس پر ری آردڑنگ کا کام مکمل نہ کر سکنے کی بنیادی کیا تھی؟
7۔آپ کے بقول آپ نے استعفی 27 اکتوپر 2007ء کو دیا تھا تو چابی جنوری 2008ء تک آپ کے پاس کس حیثیت سے رہی تھی؟
8۔کیا کا استعفی دیتے وقت سابق پی ڈی پر الزام تراشی نہیں کی تھی کہ وہ آنے پر آپ کو نکال دیں گے، حالانکہ کہ عمران رزاق کے سامنے و ۔آپ کو ناراض ہوئے تھے کہ محسن جاؤ اور 30۔جون 2008ء پر وعدہ کے مطابق پروٹوٹائپ حوالے کرو۔
9۔کیا آپ جس اسامی پر کام کر رہے اس سے متعلقہ ڈگری کے لیے دفتر کی طرف سے نوٹس جاری نہیں ہوئے تھے؟
10۔ کیا ایک شخصیت نے آپ کے شروع شروع کے قرضے ایڈجسٹ کروا کر اس کے علاوہ مکمل تنخواہ نہیں دی تھی؟
11۔ کیا آپ نے طارق حمید سے حاصل کردہ یورو میں رقم واپس کی تھی؟
12۔ آپ کے بقول یہ ساری باتیں تو قصہ پارینہ ہو گئی ہیں، نہیں محسن صاحب اداروں میں ریکارڈ موجود رہتا ہے؟
13۔ کیا آپ کو ادارے کی طرف سے پیغام نہیں ملا کہ آپ کے جمع کرائے جانے والے کوائف درست کام نہیں کر رہے؟
14۔ کیا آپ نے آ کر ان کوائف کی صحت کے بارے میں بتانے سے انکار نہیں کیا؟

امید ہے کہ آپ مذکورہ بالا سوالات کا ایک ایک کر کے جواب دیں گے تاکہ قارئین جان سکیں کہ مرکز فضیلت کے پروگرام مینیجر اور ٹیم ممبر قیادت کی تبدیلی کے بعد کیا رخ اختیار کر گئے۔

محسن صاحب، لوٹ مار کرنے والے بھاگ جایا کرتے ہیں، وہ نہیں جو ہر حال میں ادارے کے مفادات کے لیے سرگرداں ہو، چاہے انھیں یہ بتانا پڑ جائے کہ کمپیوٹیشنل گرامر کیا ہے؟ اور کتنا ڈیٹا ڈیجیٹل فارم میں موجود ہے؟

ظاہر ہے جب کسی پراجیکٹ میں آپ کوئی کارکردگی نہیں دکھا پائیں گے اور کہیں گے کہ 65 سال کا کام ہے اور پراجیکٹ 2 سال کا ہو تو پھر آپ کو "کم از کم اس کو اپنے ساتھ گھسیٹنا ہی ہو گا۔" جو آپ کے ساتھ کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا ہو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
واہ کیا چارج شیٹ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب آب گم میں ذکر ہے کہ جب بشارت نے دھیرج گنج کے سکول سے استعفی دینے کے بعد سکول کے ہیڈماسٹر مولوی مجن کو خط لکھ کر اپنے بقایا جات کا تقاضا کیا تھا تو مولوی مجن کی جانب سے اس کے جواب میں تباہ کن چارج شیٹ‌ جاری ہوئی تھی جس میں بشارت سے پوچھا گیا تھا کہ کیوں نہ ان کے خلاف سرکار برطانیہ کے خلاف بغاوت کے جذبات ابھارنے کا مقدمہ چلایا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے کتے کا نام لارڈ ولزلے کے نام پر رکھا ہوا تھا۔ کچھ ایسی ہی چارج شیٹ یہ بھی معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کام کرنے والے کو ایسی چارج شیٹ سے کبھی نہ کبھی واسطہ ضرور پڑتا ہے۔
 
Top