مشین ریڈایبل اردو رسم الخط: حروف کی کَشتیاں، اِعراب، نقطے، شوشے اور کش

محبوب خان

محفلین
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان
hafiz.safwan@gmail.com


مشین ریڈایبل اردو رسم الخط:
حروف کی کَشتیاں، اِعراب، نقطے، شوشے اور کششیں


The conventional Urdu script is Perso-Arabic in style & structure. Diacritic marks were added to the ghost characters initially for the ease of foreign speakers and users of these languages. This article deals with the fact that characters and diacritic marks are two different things; and if they are treated as such, machine readable Urdu can benefit a lot thanks to this thesis.
In the recent past, the Unicode Consortium has allotted alphabet status to various shapes of dots on the proposal of National Language Authority of Pakistan where R&D on Urdu language is underway at the Centre of Excellence for Urdu Informatics. Putting threats such as ambiguity and spoofing aside, add to many other areas of informatics like provision of writing almost all scripts of Pakistani languages in complete machine-readable format, this approach is likely to advance a twist in the development of Urdu OCR.


کلیدی الفاظ: ضابطہ تختی (کوڈ پلیٹ)، کوڈ چارٹ، کوڈنگ نظام، نقطے، مشین ریڈایبل، (رسم ال)خط، معیار بندی
مخففات:
اردو ضابطہ تختی: UZT: Urdu Zabta Takhti: Urdu Codeplate
یونی کوڈ تکنیکی کمیٹی: UTC: Unicode Technical Committee
یورپین یونین: EU: European Union

تعارف
زبان اور بولی آوازوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ حروف شناختی علامات ہیں اور اِن کی حیثیت اُن لباسوں کی ہے جو اِن آوازوں کی شناخت کے لیے مقرر کیے گئے ہوتے ہیں۔ اِسی لیے ایک ہی آواز کے لیے مختلف زبانوں میں مختلف شناختی علامات ہوتی ہیں۔ جس زبان یا بولی کے حروفِ تہجی نہیں ہوتے اُسے ideograph کہتے ہیں۔
ہر زندہ زبان کا رسم الخط بھی زندہ ہوتا ہے، یعنی اُس میں اِصلاحات ہوتی رہتی ہیں۔ نئی آوازوں کے لیے نئے حروفِ تہجی بھی بنتے ہیں؛ یا کبھی کسی حرفِ تہجی کی شکل میں جزوی تبدیلی بھی کرلی جایا کرتی ہے۔ رسم الخط میں اصلاح (یا کبھی کبھی کسی تبدیلی) کی ضرورت زیادہ تر دخیل الفاظ کی وجہ سے پڑتی ہے۔ یا پھر جب کسی زبان کے استعمال کرنے والوں کا دائرہ بہت پھیل جائے اور ایسے لوگ کسی زبان کو استعمال کرنے لگیں جن کی وہ مادری زبان نہیں ہے تب بھی بڑے پیمانے پر اِصلاحات کرنا ضروری ہوجاتی ہیں۔ ہمارے تناظر میں عربی زبان اِس thesis کی سب سے بڑی، زندہ اور عام مثال ہے۔

تحریر میں نقطوں اور شوشوں کی ابتدا: تحریک، تاریخ اور جائزہ
عربی رسم الخط میں بنیادی چیز مختصر نویسی ہے۔ ’’مجرد حروف کے دائروں وغیرہ کو چھوڑ کر صرف جزوِ لازم سے کام لے کر حروف کو باہم ملانے‘‘ [1] کا طریقہ دنیا کے کسی بھی اور رسم الخط میں موجود نہیں ہے۔ جب غیر عرب لوگ عربی پڑھنے لگے یعنی جب قرآنِ پاک دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوا تو عربی رسم الخط میں بڑے پیمانے پر ضروری اِصلاحات کی گئیں تاکہ پڑھنے والوں کو سہولت رہے۔ یہ اِصلاحات کچھ تو خود عرب خلفائے اسلام نے کیں اور کچھ علاقائی ضروریات کے تحت اِن آخذین یعنی recipients نے موقع بموقع کیں۔ پہلی اِصلاحات کی مثال عربی کے حروف پر نقطوں کا لگایا جانا ہے جب کہ دوسری قسم کی اِصلاحات کی مثال مختلف قسم کے شوشے اور کششیں وغیرہ ہیں جو ہماری پاک و ہند کی زبانوں میں بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
اردو کے روایتی رسم الخط (یعنی Indo-Perso-Arabic Script، جسے اِس مقالے میں آئندہ ’’اردو رسم الخط‘‘ لکھا جائے گا) کا خطِ کوفی سے گہرا تعلق ہے۔ ’’خطِ کوفی دراصل خطِ نبطی، خطِ سطرنجیلی، خطِ حمیری اور خطِ حیرہ کی آمیزش اور سنبھلی ہوئی صورت تھی۔ دوسرے مقامات کے علاوہ یہ خط حجاز اور حیرہ (کوفہ کا پرانا نام) میں بھی لکھا جاتا تھا۔ حرب ابنِ امیہ اِسے حیرہ سے سیکھ کر آئے اور جزیرۃالعرب میں پھیلایا۔‘‘[2] حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت حجازِ مقدس میں عام طور سے خطِ کوفی ہی رائج تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو خطوط لکھوائے وہ خطِ حمیری اور خطِ حیرہ کی اِسی محتاط روش یعنی خطِ کوفی میں لکھے گئے تھے۔[3] ابتداء ً اِس خط میں اِعراب اور نقطوں کا چلن نہیں تھا۔ ابوالاسود دوئلی نے تقریبًا سنہ 50ھ میں نقطے ایجاد کیے۔ لیکن یہ نقطے حروف کی شناخت کے بجائے اِعراب کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔[4]
جب اسلام مصر اور ایران تک پھیل گیا تو اکثر حروف کے ہم صورت ہونے کی وجہ سے قرآنِ مجید کی قرات میں مشکل ہونے لگی۔ مراسلت میں بھی کئی طرح کے مغالطے پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو رسمِ خط کی اصلاح کا حکم دیا، جس نے نصر بن عاصم کو یہ کام تفویض کیا۔[5]
نصر بن عاصم نے اِعراب کے لیے نقطوں کے استعمال کو بدستور قائم رکھا لیکن اب اِن نقطوں کے لیے صرف قرمزی رنگ استعمال کرنے کی تجویز پیش کی۔ ہم شکل حروف کی تخصیص اور تشخیص کے لیے بھی اُس نے نقطے ہی ایجاد کیے لیکن اِن نقطوں کے لیے سیاہ رنگ لازم قرار دیا۔ خطِ کوفی میں یہ ترتیب تقریبًا چالیس سال تک قائم رہی حتٰی کہ عبدالرحمٰن خلیل بن احمد عروضی نے اِعراب کی شکلیں وضع کرکے اِنھیں سیاہ نقطوں سے الگ کردیا۔[6]
خطِ کوفی اپنی سادہ روش اور واضح ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوا اور تقریبًا چھٹی صدی ہجری تک مستعمل رہا۔ اِس دوران میں اِس میں بعض تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ دوسری صدی ہجری میں اِس میں زاویے نمایاں ہوگئے۔ اِس کے بعد اِس خط نے قوسی شکل اختیار کرلی اور رفتہ رفتہ تزئینی اور آرائشی ہوتا چلا گیا اور بالآخر رواج سے خارج ہوگیا۔ پھر اِس کی جگہ نسخی خط نے لے لی۔[7] اِس تبدیلی کے باوجود اِعراب، نقطے اور کششیں البتہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ اِن کی شکل یہ تھی کہ نقطے تو مستقلًا لگائے جانے لگے جب کہ اِعراب ضروری مقامات پر اور کہیں کہیں صرف آرائش کی خاطر استعمال کیے جاتے تھے۔ (مدتوں بعد ’’خطِ کوفی جدید‘‘ کے نام سے خطِ کوفی کا احیا ہوا لیکن اِس کے چپٹے حروف کو خطِ کوفی کی روش سے کوئی تعلق نہیں۔)
نسخ کے آرائشی ہوتے چلے جانے کے ساتھ ایران میں، جہاں نسخ اپنے پاؤں جما چکا تھا، دفتری کاموں کے لیے ’’تعلیق‘‘ خط اُبھرنا شروع ہوا۔ اِس کی کششوں میں کسی قدر ترچھاپن اور دائروں میں گراؤ نمایاں تھا اور ایک کشش کے سرے دوسرے کے حرفوں سے مل سکتے تھے، یعنی کئی حرف ایک دوسرے سے پیوستہ کرکے لکھے جاسکتے تھے۔ یہ خط زود نویسی کے کام آتا تھا۔ چنانچہ یہ خط بہت مقبول ہوا اور فرامین اور سرکاری خط کتابت کے لیے چلن دار ہوگیا۔[8] خواجہ ابوالعالی بک نے خطِ تعلیق میں انقلابی اِصلاحات کیں۔ فارسی کی مخصوص آوازوں (پ، چ، ژ اور گ) کے لیے حروف ایجاد کیے اور اِس مقصد کے لیے تین تین نقطے وضع کیے۔ ابتدا میں گ پر بھی دو ڈنڈوں (کششوں) کے بجائے تین نقطے لگائے جاتے تھے لیکن لسانی اور جمالیاتی ذوق سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث یہ روش رفتہ رفتہ ترک کردی گئی اور گ پر دو کششیں لگائی جانے لگیں۔[9] ک اور گ کی کششوں کو ہماری متداول تحریروں میں ”مرکز“ بھی کہا جاتا ہے۔
نسخ میں حروف کا پھیلاؤ افقی ہوتا ہے جس سے لکھنے میں روانی پیدا ہوتی ہے۔ اِس خط نے سادگی، حسن اور حروف کی واضح اَشکال کے باعث ایک مستقل حیثیت اختیار کرلی تھی اور عربی کے ساتھ ساتھ کئی دوسری زبانوں مثلًا فارسی، سندھی، پشتو اور اردو کے لیے استعمال ہونے لگا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ تعلیق کی مقبولیت کا دائرہ وسیع ہوا اور اِن دونوں خطوں کے اتصال سے ’’نستعلیق‘‘ بنا۔ اِسے اپنے زمانے کے دوسرے خطوں کی ترقی یافتہ شکل کہا جاسکتا ہے۔ لکھائی میں رواں تر اور حروف کے دائروں کے گول ہونے کے فطری رجحان کی وجہ سے یہ خط ایران کی حدود سے نکل کر اَکناف میں پھیل گیا۔[10]
لیکن عام تحریر کی رفتار نستعلیق کی نشست میں داخل اہتمام کی متحمل نہیں ہوئی۔ بدیں وجوہ بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں مرتضیٰ خان شاملو نے نستعلیق سے ایک اور خط اخذ کیا جسے خطِ شکستہ کا نام دیا گیا۔ اِس سے دفتری خط کتابت اور سرکاری دستاویزات میں بہت سہولت ہوگئی۔ خطِ شکستہ میں حروف اور اُن کے دائرے اَدھورے ہوتے ہیں جنھیں لکھتے ہوئے وقت کی خاصی بچت ہوتی ہے، یعنی یہ وقت کو اَدھیا دیتا ہے۔ زود نویسی کے لیے انتہائی کارآمد ہونے اور کئی دوسری اِفادی ضرورتوں اور جمالیاتی جاذبیت کے علی الرغم آج کی عام تحریر میں نقطوں اور شوشوں کی حد تک جو بدنظمی اور انتشار پایا جاتا ہے وہ خطِ شکستہ ہی کے سبب سے ہے۔ یہ خط اگرچہ رواج سے اُٹھ چکا ہے لیکن اگر اِسے متعین اصولوں کے تحت لکھا جائے تو تیز اور گھسیٹ خطِ شکستہ بآسانی خطِ نستعلیق کی طرح پڑھا جاسکتا ہے۔[11] شوشوں اور نقطوں کی درست نشست میں باقاعدہ اہتمام کا رجحان مفقود ہونے کی وجہ یہی خط ہے۔

اردو رسم الخط: ابتدا، حروف، نقطے، شوشے
اردو کے آغاز کے ساتھ ہی برِعظیم پاک و ہند میں مسلمان اردو کو فارسی (نسخ و نستعلیق) جب کہ ہندو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے لگے۔ اِس کی وجہ، زیادہ تر، یہی تھی کہ ناگری خط میں عربی اور فارسی کی بعض مخصوص آوازیں (مثلًا خ، ذ، ز، ض، ظ، اور ع وغیرہ) ادا کرنے کے لیے حروف موجود نہیں تھے۔ چنانچہ عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ ایسے تھے جو مسلمانوں اور ہندوؤں کی بولی جانے والی اردو میں مستعمل تھے لیکن اُنھیں ناگری میں لکھنا ممکن نہ تھا۔ دوسری جانب فارسی میں ہندی کی مخصوص آوازیں (مثلًا ٹ، ڈ، ڑ؛ اور 15 ہائیہ آوازیں: بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ [12]) ادا کرنے کے لیے حروف موجود نہیں تھے۔ اردو چونکہ اِن تینوں زبانوں کے مرکب سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ضروری ہوا کہ اِس میں اِن تینوں زبانوں کی آوازیں ادا کرنے کے لیے علامتیں موجود ہوں۔ چنانچہ فارسی حروف میں شکلوں کی قبیلہ وار تقسیم سے فائدہ اُٹھاکر دو نئے نشانات وضع کیے گئے جن کے ذریعے ہندی کی مخصوص آوازیں ادا کرنے کے لیے نئے حروف بنانا ممکن ہوگیا۔ چھوٹی طوئے ’’ط‘‘کی علامت کو ب، د اور ر کی قبیل کے الفاظ پر لگاکر ٹ، ڈ، اور ڑ وضع کیے گئے۔ ’’ھ‘‘ کی علامت سے بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ وغیرہ بنالیے گئے۔ اردو حروف کے لیے یہ اضافہ اِتنا بے ساختہ اورفطری تھا کہ اجنبیت اور مصنوعی پن کا احساس نہیں ہوتا۔ اردو کے لیے اِس نئی ابجد کو اختیار کرلیا گیا اور اِسے خطِ نستعلیق میں لکھا جانے لگا۔ حروف میں اِس قدر اِضافے کی وجہ سے ہم اِسے فارسی یا عربی نسخ کہہ کر انصاف نہیں کرتے۔
یہاں اِس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ہائے دو چشمی (ھ) کی علامت بھی اصلاعربی ہی سے درآمدہ ہے۔ ہائے ہوز جو اردو اور فارسی میں آکر کبھی ہائے کہنی دار میں بدل جاتی ہے اور جس کی اصل شکل ہ ہے عربی کے بعضے قدیم رسوم الخط میں ھ بھی لکھی جاتی رہی ہے، اور قرآنِ پاک میں تو آج تک لکھی جاتی ہے۔ اب سے کچھ پہلے اِس ھ یعنی ہائے مخلوط کو برِعظیم پاک و ہند کی مخلوط الہا آوازوں کے لیے مخصوص کرلیا گیا ہے۔ جدید دور میں اردو کی دو چشمی ھ اور عربی کی علامت ھ میں باقاعدہ فرق ہے: عربی میں ھ کی علامت کو یونی کوڈ کے کوڈ چارٹ 0600 میں نمبر 0647 تفویض کیا گیا ہے جب کہ اردو میں مستعمل ھ کو 06BE۔ ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-3

اردو کا قدیم اور جدید رسم الخط مشینی دور میں
کاغذ کے دور سے سائبر دور میں داخل ہوجانے کے بعد دنیا بھر کی زبانوں نے اپنے رسوم الخط میں ایسی اِصلاحات کی ہیں جن کی بنا پر رسم الخط کو کمپیوٹر اور اِنٹرنیٹ پر پڑھا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ پڑھا جانا صرف آنکھوں کے دیکھنے کی حد تک نہ ہو بلکہ کمپیوٹر اور اِنٹرنیٹ اِس لکھے کو ’’سمجھ‘‘ بھی سکیں۔ اِس چیز کو آسان الفاظ میں رسم الخط کا ’’مشین ریڈایبل‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ اردو والوں نے بھی، گو کچھ دیر کرکے، اِس طرف توجہ کی ہے اور اپنے رسم الخط میں ایسی بنیادی اِصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے مشین ریڈایبل اردو کی طرف سفر شروع ہوگیا ہے۔ اردو کے بنیادی حروفِ تہجی کی تعداد 38 ہے جو مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے قاعدے میں موجود ہے:

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ
ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف
ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

دورِ جدید کی اردو اور اِ س اردو کو مشین ریڈایبل بنانے کے لیے مقتدرۂ قومی زبان اسلام آباد نے جو معیارات طے کیے ہیں اُن کی روشنی میں حروفِ تہجی کی تعداد اب 58 ہوگئی ہے۔ یہ فہرست ملاحَظہ کیجیے:
http://www.nla.gov.pk/beta/images/alphabetsfull.gif

مشینی دور اور رسوم الخط کی معیار بندی: یونی کوڈ کنسورشیم
مشینی دور میں داخل ہوجانے کے بعد اِس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ہر زبان کے لیے ایک کوڈ پلیٹ مہیا ہو اور لکھنے والا اِسی کے مطابق لکھے۔ اِس معیار بندی کے فائدے ظاہر و باہر ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک کمپیوٹر سسٹم پر لکھی گئی زبان کسی دوسرے کمپیوٹر سسٹم پر بھی یکساں سہولت سے اور کچھ کھوئے بغیر پڑھی جاسکتی ہے۔ (یہاں زبان سے مراد کمپیوٹر میں داخل کیا گیا مواد ہے۔) دوسرا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک کوڈ پلیٹ کی بنیاد پر لکھے گئے مواد کی کسی بھی دوسری کوڈ پلیٹ کے لیے انتقالِ حرفی (Transliterate) آسان اور ممکن ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اِس بنیادی ضرورت کو یونی کوڈ (www.unicode.org) نے پورا کیا۔ اِس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ ہر حرفِ تہجی کو ایک منفرد نمبر (unique number) تفویض کرتا ہے جو کسی بھی پلیٹ فارم، کسی بھی پروگرام اور کسی بھی زبان میں کام کرنے کے لیے یکساں رہتا ہے۔ اِس کی ترتیب یہ ہے کہ کمپیوٹر بنیادی طور پر صرف نمبرات سے واسطہ رکھتا ہے۔ جو بھی ہندسہ یا حرف کمپیوٹر پر لکھا جاتا ہے، وہ اِسے کوئی نہ کوئی نمبر دے کر اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور پھر اُس پر عمل (processing) کرتا ہے۔ یونی کوڈ سے پہلے کوڈنگ کے لیے سیکڑوں طرح کے نظامات تھے۔ لیکن کوئی بھی ایک نظام سارے الفاظ کی سہار نہیں رکھتا تھا۔ مثلًا صرف یورپین یونین (EU)ہی کو اپنی تمام زبانیں کمپیوٹر پر پڑھے جانے کے قابل بنانے کے لیے کوڈنگ کے کئی ایک نظامات درکار تھے۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ کسی بھی ایک زبان، جیسے مثلًا انگریزی، کے لیے کوڈنگ کا کوئی ایسا نظام موجود نہیں تھا جو تمام حروف، رموزِ اوقاف اور تکنیکی اِصطلاحات وغیرہ کو مناسب انداز میں برت سکتا۔ یونی کوڈ نے اِس بے ہنگم پن کو دور کرکے معیار بندی کو فروغ دیا ہے۔[13]

مشینی دور اور اردو رسم الخط کی دشواریاں: معیار بندی کی طرف سفر
اردو رسم الخط کی بنیادی دشواریوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ اتصالی مشکلات: وہ دشواریاں جو اَشکالِ حروف (یعنی تناظر کے بدل جانے سے ایک ہی حرف کی کئی کئی شکلوں کا وجود میں آجانا)، اتصالِ حروف، شوشوں، مرکز اور اِعراب وغیرہ سے متعلق ہیں۔
2۔ صوتی مشکلات: وہ دشواریاں جو مشتبہ الصوت حروف اور الفاظ وغیرہ سے متعلق ہیں۔[14]
خطِ نستعلیق میں ایک ہی حرف کی کئی کئی شکلیں بننا بہت عام ہے۔ مثلًا ب ہی کی کم سے کم 14 شکلیں موجود ہیں۔[15] تکنیکی زبان میں حرفوں کی اِن شکلوں کو Glyphs (حرفچے) کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک کوڈ پلیٹ کی بنیادی ضرورت سے اردو زبان بھی بے نیاز نہیں ہے۔ مقتدرہٴ قومی زبان اسلام آباد نے اِس سلسلے میں تگ و دو کی اور اردو ضابطہ تختی (UZT) کا پہلا ورژن سامنے آیا۔ ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-1
اردو ضابطہ تختی کے پہلے ورژن کے بعد کئی اجلاسوں میں اِس پر بحث مباحثہ ہوا اور بہتر سے بہتر کی طرف سفر شروع ہوا۔ اِس تفصیل اور ضابطہ تختی کی مختلف روایتوں (versions) کے لیے رک: http://www.nlauit.gov.pk/zabta.htm

اردو کے لیے یونی کوڈ کا نظام
یونی کوڈ کنسورشیم نے پہلے پہل اردو کے لیے جزوی سہولت مہیا کی۔ ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-2۔ دراصل دائیں سے بائیں لکھی جانے زبانوں میں سب سے پہلے عربی کے لیے یونی کوڈ میں سہولت دی گئی۔ (اِس عنایت کی ظاہری وجہ عربوں کی تیل کی دولت سے منتفع ہونا ہے۔) لیکن حروفِ تہجی کی تعداد کے اعتبار سے چونکہ عربی کا ابجد فارسی کا تحتی سیٹ ہے اور فارسی کا ابجد اردو کا تحتی سیٹ بنتا ہے اِسی لیے یہ نظام ذرا سی مشکل کا شکار ہوگیا۔ تاہم یہ حقیقت ظاہر ہونے کے بعد کہ اردو میں حروف کی تعداد عربی اور فارسی سے زیادہ ہے، یونی کوڈ نے اردو کے لیے حروفِ تہجی داخل کرنے کا راستہ کھول دیا۔ اردو اگرچہ اب بھی عربی کے کوڈ چارٹ یعنی 0600 ہی سے متعلق ہے، اور ایسا ہونا بالکل فطری بھی ہے، تاہم اب اِس کوڈ چارٹ میں اردو کے لیے تمام سہولت مہیا ہے۔
یونی کوڈ کے ورژن 4.0 اور 5.0 میں اردو کے لیے مزید علامات اور نشانات داخل کیے گئے۔ ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-3

اردو کے حروفِ تہجی میں حروف اور نقاط میں اِفتراق: پہلی کوشش
اوپر کی بحث میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عربی رسم الخط میں حروف پر نقطے اور اِعراب بہت بعد میں لگائے گئے۔ لیکن ٹائپنگ میں یہ ترتیب سب سے پہلے 1949ء میں محمد قطب الدین نے پیش کی۔ اُنھوں نے حروف کی قبیلہ وار تقسیم سے فائدہ اُٹھایا اور بتایا کہ اردو کے حروف بنیادی طور پر 18 قبیلوں میں منقسم ہیں جنھیں محض چار طرح کے نقطوں اور چھوٹی ’’ط‘‘ کی مدد سے لکھا جاسکتا ہے۔ اِس تصور کی مکمل تفصیل ملاحَظہ کیجیے: [16]
محمد قطب الدین کے اِس تصور میں دورِ جدید کی ضروریات کے موافق بہت کچھ اضافے کرکے ڈاکٹر عطش درانی نے 2005ء میں یونی کوڈ کنسورشیم میں منظوری کے لیے پیش کیا۔ اگرچہ یونی کوڈ کنسورشیم اپنے ورژن 3.00 میں ”ف“ خالی کشتی کو باقاعدہ نمبر 06A1 تفویض کرچکا تھا [17] لیکن مجرد نقطوں اور کچھ مخصوص شکلوں کو الگ حیثیت سے باقاعدہ نمبرات تفویض کرنے میں یونی کوڈ تکنیکی کمیٹی (UTC) کے ماہرین کو شدید تحفظات تھے۔ اِس سے بھی بہت پہلے عربی میں ا، ٓ اور آ کے لیے الگ الگ نمبرات دیے گئے تھے۔ (اِن کے نمبر علی الترتیب یہ ہیں: ۱=0627، ٓ=0653 اور آ=0622) جب کہ تکنیکی طور پر آ=ا+ ٓ ہے۔ لیکن اِن سب حقائق کے باوجود اِس تجویز کی منظوری میں وقت لگ گیا۔

یونی کوڈ کی نقطوں اور حروف کی خالی کشتیوں کے لیے جدا جدا نمبروں کی فراہمی
بالآخر یونی کوڈ کنسورشیم نے 17 اپریل 2008ء کو یہ تجویز منظور کرکے 22 نقاط اور مختلف شکلوں کو کوڈ چارٹ میں جگہ تفویض کردی ہے اور اِنھیں باقاعدہ حروف کا درجہ (character status) دے دیا ہے۔ اِس کے مطابق اردو کے 6، پشتو کے 2، سندھی کے 6 اور عربی کے 8 نقاط اور مختلف شکلوں کو یہ جگہ ملی ہے۔ کوڈ چارٹ کے اندر یہ 22 جگہیں 0880 تا 0889، 088A تا 088F اور 0890 تا 0895 تک دی گئی ہیں۔ اِس طرح اب حروف کی خالی کشتیاں اور مجرد نقطے الگ الگ حیثیت میں چہرہ دار ہوگئے ہیں۔ یونی کوڈ کے اِس تازہ کوڈچارٹ کی تصویر ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-4 (0880 Arabic Glyph Parts)
یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اِس کوڈ چارٹ کا نام گو ”Arabic Glyph Parts“ ہے لیکن یہ نقاط اور شکلیں صرف عربی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ دائیں سے بائیں لکھی جانے والی کسی بھی زبان کے لیے مکمل طور پر کارگزار ہیں۔
یونی کوڈ کنسورشیم نے اِن 22 نقاط اور شکلوں کے لیے کوڈ چارٹ میں جگہ اگرچہ تفویض کردی ہے لیکن ابھی تک اِن میں کے 16 کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے؛ بقیہ 6 کے لیے ابھی بات چیت چل رہی ہے۔ مقتدرہٴ قومی زبان اسلام آباد کے نام یونی کوڈ کنسورشیم کی اِس سلسلے کی ای میل ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-5

نقطوں اور حروف کی خالی کشتیوں کے جدا جدا کردار کے فوائد
چونکہ اردو کا رسم الخط ایک معتدبہ حد تک عربی و فارسی رسوم الخط ہی کی توسیع (Extension) ہے اور یہ پاکستان میں بولی اور لکھی جانے والی قریب قریب تمام زبانوں کا بھی یکساں رسم الخط ہے، اِس لیے سب پاکستانی زبانیں اب اِسی ایک کوڈ چارٹ (0880) اور حروف کی خالی کشتیوں کی مدد سے لکھی جاسکتی ہیں۔ ایک نقطہ، دو نقطے، تین نقطے، چار نقطے، چھوٹی طوئے نقطے اُلٹے چاہیے ہوں یا سیدھے وغیرہ، کا کسی بھی حرف کے اوپر یا نیچے لکھنا ممکن ہوگیا ہے۔ بلکہ نقطے کے اوپر چھوٹی طوئے اور حرف کے نیچے ش کے اوپر والے تین نقطے لگانا بھی ممکن ہے۔
نقطوں اور حروف کی جدا جدا حیثیت کی وجہ سے اردو بصری حرف شناسی (Optical Character Recognition) میں بھی سہولت متوقع ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صرف 44 شکلوں (22 مجرد حروف + 22 نقاط اور متعلقہ شکلیں[18]) کی مدد سے تمام پاکستانی زبانوں کا لکھا جانا ممکن ہوگیا ہے۔ تعداد میں کم الفاظ کے استعمال کی وجہ سے Rendering میں بھی آسانی در آئے گی۔ فائلوں کو زِپ (Zip) کرنے کی صورت میں File Compression بھی یقینًا زیادہ (یعنی بہتر) ہوجائے گا۔

نقطوں اور حروف کی خالی کشتیوں کے الگ الگ کردار پر متوقع تحفظات
اِس ضمن میں ایک سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کمپیوٹر کو حرف اور نقطے الگ الگ پراسیس کرنا پڑیں گے جس سے سپیڈ میں کمی ہوگی۔ دوسرا اِعتراض وہی ہوسکتا ہے جو محمد قطب الدین کے مجوزہ ٹائپ رائٹر پر کیا گیا تھا کہ ٹائپسٹ کو ایک ہی وقت میں زیادہ کلیدیں دبانا پڑیں گی جس کی وجہ سے وقت زیادہ لگے گا۔
اِس سلسلے میں عرض ہے آج کے دور میں کمپیوٹر کی پراسیسنگ سپیڈ اِتنی ہوگئی ہے (اور ابھی تیز تر ہورہی ہے) کہ پراسیسنگ سپیڈ کا سوال ہی لایعنی ہوگیا ہے۔ دوسرے سوال کے دو جواب ہیں: آپ کوئی حرف جو مجرد شکل میں بھی آتا ہے اور نقطوں کے ساتھ کسی اور حرف کے طور پر بھی آتا ہے، جیسے مثلًا س جو تین نقطوں کے اضافے سے ش بن جاتا ہے لکھیے تو یہ ازخود س+تین نقطے=ش بن کر treat ہوگا۔ اور اِس پراسیسنگ میں استعمال کنندہ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں یونی کوڈ کا ہر نیا چارٹ اپنے تمام پیش رو چارٹوں کو مکمل معاونت (support) دیتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں تحفظات بھی دور ہوگئے۔
ایک سوال کوڈ چارٹوں میں حروفِ تہجی کی redundancy کا بھی ہوسکتا ہے۔ اِس ضمن میں عرض ہے کہ یہ مسئلہ صرف یونی کوڈ کنسورشیم کا تکنیکی مسئلہ ہے۔ کمپیوٹر اور اِنٹرنیٹ کے کسی بھی استعمال کنندہ کو اِس سے کسی طور کوئی تنگی یا پریشانی نہیں ہوتی۔
مندرجہٴ بالا تحفظات اور اُن پر گفتگو محض نظَری ہے۔ ممکن ہے کہ اِس تکنیک کے کمپیوٹر پر استعمال کے وقت میں کچھ عملی مسائل اور تحفظات (Implementation issues) بھی سامنے آجائیں جیسے مثلًا باہم مختلف حروف کے لیے ایک جیسی شکلوں کی وجہ سے الجھن (confusion) اور ابہام (ambiguity)، اور کچھ مخصوص مسائل جیسے spoofing، وغیرہ۔ ایسے مسائل سے نمٹنا بھی برموقع ہی ممکن ہوگا۔

خاتمہ
اردو رسم الخط کو آج کے مشینی دور میں کمپیوٹر اور اِنٹرنیٹ پر درست طور پر لکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اِس کا مکمل طور پر مشین ریڈایبل ہونا اور ایک کوڈنگ نظام کے مطابق اِس کی ضابطہ تختی کی معیار بندی ضروری ہے۔ انگریزی سمیت دنیا کی وہ سب زبانیں جن کے حروفِ تہجی میں نقطے اور کشیدے آتے ہیں، کو لکھنے کی فطری ترتیب یہی ہے کہ پہلے حرف کی خالی کشتی بنائی جاتی ہے اور اُس کے بعد نقطے اور کشیدے لگائے جاتے ہیں۔ مشین ریڈایبل رسم الخط میں بھی حروف کو خالی کشتیوں اور نقطوں میں بانٹ کر کام کرنا ایک فطری ضرورت ہے؛ اردو بھی اِس ضرورت سے مستثنٰی نہیں۔ یونی کوڈ کے کوڈ چارٹ 0880 Arabic Glyph Parts نے ظاہراً اردو اور دائیں سے بائیں لکھی جانے والی تمام زبانوں کے لیے یہ ضرورت احسن طریقے پر پوری کردی ہے۔
٭٭٭
19 مئی 2008ء
14 جمادی الاولی 1429ھ


مزید مطالعہ:
1. بخاری، ڈاکٹر سہیل: ”لسانی مقالات (جلد سوم)“ (1991ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
2. حقی، شان الحق: ”لسانی لطائف و مسائل“ (1996ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
3. حقی، شان الحق: ”نقد و نگارش“ (1985ء)، مکتبہ اسلوب، کراچی۔
4. خاں، رشید حسن: ”اردو املاء“ (1974ء)، نیشنل اکادمی، دریا گنج، نئی دہلی، بھارت۔
5. طارق عزیز، ڈاکٹر: ”اردو رسم الخط اور ٹائپ“ (1987ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
6. نارنگ، ڈاکٹر گوپی چند: ”اردو زبان اور لسانیات“ (2006ء)، رام پور رضا لائبریری، رام پور، بھارت۔
7. The Unicode Standard 5.0, The Unicode Consortium, Addison-Wesley, 2006
8. http://en.wikipedia.org/wiki/Urdu_language


حواشی:
[1] ’’دلی کی آخری شمع۔ ش ح ح‘‘ از حافظ صفوان محمد چوہان، مشمولہ جرنل آف ریسرچ، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔ شمارہ۔10 (2006ء)، ص۔193
[2] ’’خط و خطاطی‘‘ از شیخ ممتاز حسین جونپوری، اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی۔ 1961ء، ص۔31
[3] ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔14
[4] ’’اردو رسمِ خط‘‘ از محمد سجاد مرزا، عثمانیہ ٹریننگ کالج، حیدرآباد دکن۔ 1940ء، ص۔6
[5] بحوالہ ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔14
[6] ’’اردو رسمِ خط‘‘ از محمد سجاد مرزا، عثمانیہ ٹریننگ کالج، حیدرآباد دکن۔ 1940ء، ص۔6
[7] بحوالہ ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔16
[8] بحوالہ ’’اردو املاء‘‘ از رشید حسن خاں، نیشنل اکادمی، دریا گنج، نئی دہلی۔ 1974ء، ص۔483
[9] ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔19
[10] ایضًا، ص۔22
[11] ایضًا، ص۔23
[12] بعض لوگ اِن آوازوں میں ’’وھ‘‘ اور ’’یھ‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں اور بعض ’’رھ‘‘ اور ’’لھ‘‘ کی نسبت شک کرتے ہیں کہ اِنھیں مخلوط مانا جائے یا نہیں۔ تفصیل ملاحَظہ کیجیے: ’’اردو کی گنتی کے چند پہلو‘‘ مشمولہ ’’لسانی لطائف و مسائل‘‘ از شان الحق حقی، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1996ء، ص۔154
[13] http://www.unicode.org/standard/WhatIsUnicode.html سے ترجمہ
[14] بحوالہ ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔27
[15] خطِ نستعلیق کی نزاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ اردو کے صرف ایک حرف ”و“ کے علاوہ سارے ہی حروف ایسے ہیں جن کی شکل اور کرسی یا نشست، کہ کس طرح شروع ہوں گے اور کتنی جگہ لیں گے، متعین نہیں کی جاسکتی۔ اکثر حرفِ ماقبل اور حرفِ مابعد کی مناسبت سے قلم، نشست اور صورت بدلتی رہتی ہے۔ مثلًا نستعلیق لکھائی میں ”ب“ کی 14 مختلف شکلیں اور نشستیں بنتی ہیں جو افادہٴ عوام و خواص اور حوالے کے لیے شان الحق حقی صاحب نے اپنے ایک شعر میں جمع کردی ہیں:
بل میں بلبل، بانس پہ بطخ، بوتل میں بیل، آب میں بندر
بمبئی میں سبحان اللہ مچھلی ڈوبی بیچ سمندر
[16] ’’اردو رسم الخط اور ٹائپ‘‘ از ڈاکٹر طارق عزیز، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1987ء، ص۔471 تا 479
[17] جب کہ یونی کوڈ کے اِسی ورژن یعنی 3.00 میں 066E اور 066F کی جگہیں خالی تھیں جو بعد ازاں ”ب“ اور ”ق“ کی خالی کشتیوں کو علی الترتیب تفویض کی گئیں۔ منسلکہ-2-1 میں یہ مقامات ملاحَظہ کیجیے، اور منسلکہ-3 کے اِنھی مقامات سے تقابل کیجیے جہاں یہ خالی کشتیاں موجود ہیں۔
[18] یعنی یہ 22 نقاط اور شکلیں اگر تمام کی تمام تسلیم کرلی جائیں۔ ملاحَظہ کیجیے: منسلکہ-5

منسلکات:
[1] ’’اردو ضابطہ تختی‘‘ پہلا ورژن
[2] یونی کوڈ 3.00 میں اردو کے لیے سہولت
[3] یونی کوڈ 4.0 اور 5.0 میں اردو کے لیے سہولیات
[4] یونی کوڈ چارٹ: 0880 Arabic Glyph Parts
[5] یونی کوڈ کنسورشیم کی جانب سے مقتدرہٴ قومی زبان اسلام آباد کو ای میل

مآخذ:
۱لف: کتابیات
1. بخاری، ڈاکٹر سہیل: ”لسانی مقالات (جلد سوم)“ (1991ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
2. حقی، شان الحق: ”لسانی لطائف و مسائل“ (1996ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
3. حقی، شان الحق: ”نقد و نگارش“ (1985ء)، مکتبہ اسلوب، کراچی۔
4. خاں، رشید حسن: ”اردو املاء“ (1974ء)، نیشنل اکادمی، دریا گنج، نئی دہلی، بھارت۔
5. طارق عزیز، ڈاکٹر: ”اردو رسم الخط اور ٹائپ“ (1987ء)، مقتدرہٴ قومی زبان، اسلام آباد۔
6. نارنگ، ڈاکٹر گوپی چند: ”اردو زبان اور لسانیات“ (2006ء)، رام پور رضا لائبریری، رام پور، بھارت۔
7. The Unicode Standard 5.0, The Unicode Consortium, Addison-Wesley, 2006

ب: رسائل اور تحقیقی جرائد
1. جرنل آف ریسرچ، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔ شمارہ-10 (2006ء)
2. سہ ماہی ”الزبیر“، اردو اکادمی بہاول پور۔ شمارہ-2،3 (2007ء)

ج: اِنٹرنیٹ سائٹس (چند منتخب سائٹس)
1. http://www.microsoft.com
2. http://www.unicode.org
3. http://www.nla.gov.pk/beta

ہ: تکنیکی مشاورت
1. ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، سابق پرنسپل، اورینٹل کالج، جامعۂ پنجاب، لاہور (اِملائی مسائل، لسانی اور اِصطلاحاتی تشکیلات وغیرہ کے لیے)
2. ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی، 29/C, Hastings Road, Allahabad-211001, India
3. ڈاکٹر عطش درانی، پراجیکٹ ڈائریکٹر، مرکزِفضیلت برائے اردو اِطلاعیات، مقتدرۂ قومی زبان، اسلام آباد
4. جناب وصی اللہ کھوکھر، ایم جی ایچ سالوشنز، کامونکے

و: مواد کی فراہمی میں معاونت
اِس مقالے کی تیاری کے دوران میں باربار جناب محبوب خان ، پروگرام منیجر اور محمد اکبر سجاد، اسسٹنٹ انفارمیٹکس آفیسر، مرکزِ فضیلت برائے اردو اطلاعیات، مقتدرۂ قومی زبان اسلام آباد کو تکلیف دی گئی۔ میں اِن دونوں کا انتہائی شکرگزار ہوں۔
٭٭٭
 

الف نظامی

لائبریرین

مثلًا نستعلیق میں ’’ب‘‘ کی 14 مختلف شکلیں اور نشستیں بنتی ہیں جو افادۂ عوام و خواص اور حوالے کے لیے شان الحق حقی صاحب نے اپنے ایک شعر میں جمع کردی ہیں:
بل میں بلبل، بانس پہ بطخ، بوتل میں بیل، آب میں بندر
بمبئی میں سبحان اللہ مچھلی ڈوبی بیچ سمندر

بھئی بہت خوب ، بہت خوب!!!
 

الف نظامی

لائبریرین
بارے کچھ مصنف کے:
PhD. Computer Science(Informatics)
MA( Urdu Linguistics)
MA(Urdu & Iqbaliat)


Areas of Special Interest:
* Dictionary, Corpus & Lexicon development
* Lexicology
* Orthography
* Speech Synthesis
* Linguistics
بہت خوب!!! یعنی کمپیوٹر سائنس اور لسانیات کا بہترین امتزاج اردو اور اقبالیات کی خوشبو کے ساتھ۔
 

محبوب خان

محفلین
اس تھیوری کو بین الاقوامی سطح پہ منوانے کے بعد اب اس کے تحت یونورسل فونٹ پہ کام شروع ہوا ہے۔

فانٹ پہ کام کرنے والے خواتین و حظرات سے گزارش ہے کہ اس کے عملی استعمال پہ روشنی ڈالیں تاکہ اس کی مختلف جہتیں سامنے آسکیں۔

امید ہے کہ میری آواز صدا بہ صحرا نہ ہوگی اور اردو سے پیار کرنے والے اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
ان نئے کیریکٹرس کو استعمال کر کے واقعی فانٹس بنانے میں آسانی ہوگی۔ لیکن کیوں کہ یہ نیا کام ہوگا، اس لئے مبتدیوں کو مشکل پیش آ سکتی ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
امید ہے کہ میری آواز صدا بہ صحرا نہ ہوگی اور اردو سے پیار کرنے والے اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے۔
محترم المقام محبوب خان صاحب
ماشاء اللہ طویل ، مفصل، معلومات افزا اور تحقیق کے معیار کے مطابق مستند اور باحوالہ مقالہ پوسٹ کرنے پر صرف میں ہی نہیں پورے کا پورا اردودان طبقہ آپ کا شکر گزار ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی تہذیب ، ثقافت اور اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے تشخص اور اپنی تہذیب و ثقافت کے متعلق احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے وہ دوسری اور باہر سے درآمد شدہ تہذیبوں سے خائف و مرعوب نہیں ہوتے بلکہ وہ دیار غیر میں بھی اپنی تہذیب و تمدن کی نمائندگی اور سفارت کاری کرتے ہیں
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ﴿اقبال﴾
اردو محفل پر آپ کو ایسے ہی لوگ ملیں گے ان میں سے بے شمار لوگ دیار غیر میں مقیم ہیں لیکن اپنی زبان اور اپنے قومی تشخص کے فروغ کے لیے شب روز کام میں مصروف ہیں اور آج انٹر نیٹ پر اگر ادو زبان میں کچھ ویب سائٹس اور فورم یا بلاگ نظر آرہے ہیں تو انہی عشاق اردو کی محنت لگن عزم حوصلے اور اردو سے محبت کا نتیجہ ہیں اور یہ کوششیں جو آج آپ کو بار آور نظر آرہی ہیں ان میں کسی قسم کے سرکاری ادارے ، ان کے بڑے بڑے افسران اور کروڑوں روپوں کے فنڈرزکا عمل دخل نہیں ۔۔۔ یہ وہ چند سر پھرے عشاق ہیں جنہیں بس اردو سے محبت ہے اردو سے عشق ہے
میں خود ایک سرکاری ادارے میں 26 ساال سے مصروف خدمت ہوں میں نے1980 کی دھائی سے مرحوم جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہر ضلعی ہیڈ کواٹر میں ضلعی مجالس زبان دفتری کو قائم ہوتے دیکھا ان مجالس زبان دفتر کے ہفتہ وار اور ماہوار اجلاسوں کو منعقد ہوتے دیکھا بلکہ اپنے ادارہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ان اجلاسوں میں شریک بھی ہوتا رہا ۔ہر اجلاس میں اردو کی بطور دفتری زبان ترویج کے لیے سفارشات مرتب ہوتے دیکھیں ان سفارشات کو ہر ماہ معتمد مجلس زبان دفتری اردو میں تحریر کرواکر مخلف سربراہان محکمہ جات کو اپنی سفارشی چٹھی کے ساتھ ارسال کرتے لیکن طرفہ تماشا کہ اس سفارشی چٹھی پر معتمد مجلس زبان دفتری اپنے دستخط بحروف انگریزی ثبت فرماتے ۔ مجھے میجر ریٹائرڈ ملک محمد اکبر خان مرحوم چیئر میں ضلع کونسل اٹک کہ وہ الفاظ بھی ابھی تک یاد ہیں جو انہوں نے مجلس زبان دفتری کے معتمد کی جانب سے موصول ہونے والی چٹھی پر لکھے تھے انہوں نے لکھا تھا :
یہ چٹھی واپس بھیج کر اس الو کے پٹھے کو لکھو کہ وہ اس پر اردو میں دستخط کر کے بھیجے اور آئندہ اس کی جانب سے کوئی چٹھی انگریزی دستخط کے ساتھ وصول نہ کی جائے۔
تو صاحبان!
1980 سے لے کر آج تک 26/27 سال گزر گئے اور مجلس زبان دفتری ہرماہ اجلاس کرتی رہی ہر ماہ سفارشات مرتب ہوتی رہیں ہر ماہ سرکاری محکموں کو ہدایات جاری ہوتی رہیں کہ اپنے سائن بورڈ اردو زباں میں لکھ کر آویزاں کریں، دفاتر میں اردو زبان کو فروغ دیں وغیرہ وغیرہ لیکن آج تک سرکاری دفاتر کے سائن بورڈز انگریزی سے اردو میں منتقل نہیں ہو سکے دفاتر میں کلرک اور افسران ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی بھی بھول چکے ہیں محکموں کے نام آدھے تیتر اور آدھے بٹیر اردو اور انگریزی کی ملی جلی ترکیبات کا ملغوبہ عجب شتر گربگی کی صورت پیدا کر رہا ہے
تھانوں میں ایف آئی آر دیہارتی لوگوں کی جانب سے درج پمقامی زبانوں میں کروائی جائی ہے عدالتوں میں وکلاء اردو میں بات کرتے ہیں اور گواہ اپنی شہادتین مقامی زبانوں میں میں قلمبند کرواتے ہیں لیکن پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کی ایف آئی آر، اردو اور مقامی زبانوں میں ریکارڈ کی گئیں شہادتوں اور اردو میں کی گئی وکلا کی بحثوں سے اخذ و استفادہ کے بعد ہماری عدالت کے منصف انگریزی زبان میں فیصلہ لکھ دیتے ہیں جس کو پڑھنے کے لیے اور سمجھنے کے لیے ایک بے چارے دیہاتی پھر وکیلوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے
میٹرک پاس کلرک کی کسی کوتاہی پر اسکا افسر اسے انگریزی میں شو کاز نوٹس جاری کرتا ہے جس کا سادہ سا جواب دینے کے لیے اس غریب ملازم کو وکیل کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں
حیراں ہو دل کو روٶں کہ پیٹوں جگر کو میں
آوے کا اوہ ہی بگڑا ہوا ہے ہمیں اپنی قومی زبان سے کوئی محبت نہیں ہمارا کوئی قومی لباس نہیں ، ہم اپنا تشخص گم کر چکے ہیں اور ہمارے سرکاری ادارے اپنی زبان کو فروغ دینے میں کن کن مصلحتوں کا شکار ہیں اس کا تذکرہ لکھنے بیٹھ جاٶں تو شاید ایک لمبا وقت درکار ہوگا
ایک وقت میں جب ہری پور کی کمپنی ٹی آئی پی کے نام سے ٹائپ رائٹر تیار کر رہی تھی تو مقتدرہ کے تختہ کلید کو بہتر بنانے کے لیے میں نے سائنسی بنیادوں پر ﴿کہ کون کون سے حروف بکثرت استعمال ہوتے ہیں اور انہیں دائیں یا بائیں ہاتھ کی کن کن انگلیوں کے نیچے ہونا چاہیے تاکہ ٹائپ کار کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے﴾ ایک طویل مقالہ لکھ کر مقتدرہ کو ارسال کیا تھا لیکن اس وقت کے اخبار اردو کے مدیر سے ذاتی تعلقات ہونے کے باوجود اس مقالہ کو اس معذرت کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا کہ یہ مقالہ چونکہ مقتدرہ کی پالیسی اور ارباب مقتدر کی تشکیل کردہ منطق کے خلاف ہے اس لیے اس نہ تو شائع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں شامل تجاویز کو تختہ کلید کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اپنی 27 سالہ مدت ملازمت میں کبھی اپنی درخواست رخصب بھی انگریزی میں نہیں لکھی میں نے ہر انگریزی چٹھی کا جواب اردو میں دیا اور اپنے افسران بالا کر ہر رپورٹ اردو میں پیش کی ایسا کرنے پر مجھے عرضی نویس اور ورنیکلر کلرک کے طعنے اور طنزیہ جملے تو سننے کو ملے لیکن مجھے ملازمت سے نکال نہیں دیا گیا اور الحمد للہ میں اپنے کسی فعل پر شرمندہ نہیں ہوں مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی قومی زبان کو اہمیت دی
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب میں نے ذاتی استعمال کے لیے ضیا حمید طور کا تخلیق کردہ اردو سافٹ ویئر شاہکار جو ڈاس پر چلتا تھا مبلغ 80 ہزار روپے میں خریدا تھا ۔ پاکستان میں اردو ورڈ پروسیسنگ کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے نوری نستعلیق مونوٹائپ شاہکار، سقراط، سرخاب، صدف ، راقم، گلوبل اور دیگر مختلف ورڈ پروسیسر سب کے سب نجی کمپنیوں اور انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھے پاک ڈیٹا کا اردو 98 ، ای میل کا پروگرا رقعہ اور دیگر ونڈوز پر چلنے والے پروگرام بھی غیر سرکاری ارداروں کی جانب سے پیش کیے گئے اردو ورڈ پروسیسنگ کی تاریخ میں ان پیج کی آمد سے ایک انقلاب برپا ہوا اور شومی قسمت کہ یہ پروگرام بھی ہندوستان کے ایک ادارے نے متعارف کرایا اور پاکستانی سرکاری اداروں میں براجمان مچھندر سرکاری فنڈر سے مونچھوں پر تاٶ ہی دیتے رہے شرم ناک حد تک بے حسی کی مثال دیکھیے کہ آج تک سرکاری اداروں میں ہندوستانی ان پیج کی غیر قانونی نقل استعمال ہو رہی ہے اور پاکستان کے مقتدر ادارے اپنے دفاتر کے لیے کوئی اردو ورڈ پروسیسر تک متعارف نہیں کروا سکے
آج سے پندرہ سال پہلے پنجاب پبلک لائبریری کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب کے زیر انتظام ایک ورکشاپ میں میں نے تجویز پیش کی تھی کہ پاکستانی پبلک لائبریریوں کے لیے کتابداری کا کوئی سافٹ ویئر بنوایا جائے اور بپلک لائبریز کو فراہم کیا جائے تجویز سے اتفاق ہوا لیکن کوئی عملی صورت آج تک برآمد نہ ہو سکی البتہ اقبال اکیڈمی کی ویب سائٹ پر کتابدار نامی پروگرام کا ایک ڈیمو ورزن ضرور رکھا ہوا ہے لیکن سرکار نے ابھی تک کسی پبلک لائبریری کو یہ پروگرام عملی استعمال کے لیے فراہم نہیں کیا
مقتدرہ قومی زبان کے قیام کو ایک طویل عرصہ ہو جکا ہے لیکن مقتدرہ کے حوالے سے بھی دیکھیے کہ اردو اور فروغ اردو کے جدید تقاضوں کے پیش نظر اب تک کیا کچھ منظر عام پر آیا ہے لمبے چوڑے اور بلند بانگ دعووں کے علاوہ ایک عدد مائیکروسافٹ ونڈوز کا اردو مواجہہ اور ایک عدد ایم ایس آفس کا نامکمل اردو مواجہہ جس کی صورت حال کچھ ایسی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی بھی اردو کا چاہنے والا اس اردو مواجہہ کو استعمال کرنا پسند نہیں کرتا۔ با خبر ذرائع تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ ان مواجہات کو تیار کرنے والا ادارہ اور اس ترجمہ پر کام کرنے والے مترجمین خود بھی اسے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے مجھے نہیں معلوم کہ مقتدرہ کے پاس وسائل کی افراط کے باوجود انہوں نے کن کن ماہرین لسانیات سے ان تراجم میں مدد لی اور اس مقصد کے لیے ماہر مترجمین کی کونسی کمیٹی تھی جس نے یہ شاہکار تخلیق کیے
مقتدرہ قومی زبان کے ایک اور کارنامہ پاک نستعلیق فونٹ کا ذکر بھی یہاں بے جا نہ ہوگا جس کی تازہ کاری اور تجدیدی نسخہ کے لوگ آج تک منتظر ہیں اور مختلف ویب سائٹس پر اس کے متعلق آج بھی سوالات کیے جاتے ہیں اس منصوبہ کو خدا جانے کس کی نظر لگی اور کس کی سیاست کاری کی نذر ہوا یہ منصوبہ ۔۔۔گو کہ اس فونٹ کی تیاری کے لیے بھی نہ تو کسی کاتب سے کتابت کروائی گئی ایک دو افراد نے شبانہ روز محنت کے بعد پہلے سے موجود نوری نستعلیق سے اس فونٹ کی حرفی اشکال کو وضع کیا اور انہیں کسی حد تک قابل استعمال فونٹ کی شکل دے دی بلاشبہ یہ ایک تاریخی کارنامہ تھا اور متقبل قریب میں ایک اچھے یونیکوڈ نستعلیق فونٹ کے امکانات روش ہو گئے تھےاردو دان طبقہ کو اس فونٹ سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن اس فونٹ کے خالق اور اس پر کام کرنے والے افراد آج مقتدرہ سے باہر ہیں اور لوگ اس فونٹ کے تازہ نسخہ کو ترس رہے ہیں
اور اب ہمیں مشینی ترجمہ کی نویدین سنائی جا رہی ہیں اور ایک نئے فونٹ کی تخلیق کی بشارت دی جا رہی ہے
کاش کہ ہمارے قومی ادارے اپنی قومی زبان، اپنے قومی تشخص کے ساتھ مخلص ہو جائیں تاکہ ہم بھی اقوام عالم میں بحیٹ ایک قوم کے اپنا تعارف حاصل کر سکیں آمین ثم آمین
 

محبوب خان

محفلین
حضرت علامہ اقبال کا شعر ہے کہ :

کرینگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نظر نہیں سو ئے کوفہ و بغداد

اور جب کسی مقصد کو حاصل کرنا ہے تو سب کوشش کرنے والوں سے بس بغیر کسی شرائط کے پیار کروِ

اردو کے لیے کام کرنے کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بس انگریزی سے شدید نفرت کرو۔

انگریزوں نے اپنی زباں کو جس طرح بھی بام عروج تک پہچایا تو انھوں نے کھبی بھی اردو سے نفرت نہیں کی۔

سو بس کام کرو جب کام کا معیار اور اس کا استعمال مجبوری بن جائے جس طرح آج انگریزی ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے تو سب آپ معیار اور کام کو مانے گے -

سب شکوے بجا مگر:
وقت کرئی ہے پرورش برسوں
حوادث یک دم ہوا نہیں‌کرتے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حضرت علامہ اقبال کا شعر ہے کہ :

کرینگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نظر نہیں سو ئے کوفہ و بغداد

اردو کے لیے کام کرنے کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بس انگریزی سے شدید نفرت کرو۔

انگریزوں نے اپنی زباں کو جس طرح بھی بام عروج تک پہچایا تو انھوں نے کھبی بھی اردو سے نفرت نہیں کی۔
مجھے یقین ہے کہ میں نے اپنے مندرجہ بالا دو مراسلوں میں کہیں بھی انگریزی زبان سے نفرت کا درس نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے صرف اردو زبان سے محبت اور عشق کا ذکر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ یونین کونسلوں، تحصیل کونسلوں اور ضلع کونسلوں کے علاوہ ماتحت عدالتوں جیسے اداروں میں وہ کونسی مجبوری ہے جو ہمیں انگریزی لکھنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ کہ ان اداروں میں سادہ لوح دیہاتیوں کی تاریخ ہائے پیدائش و اموات اور نقول نکاح و طلاق کے علاوہ دیگر اسی قسم کا مقامی نوعیت کا ریکارڈ ہوتا ہے کیا ان اداروں میں غیر ممالک کے ساتھ سفارتی نوعیت کی مراسلت ہوتی ہے کہ انگریزی لکھنا ضروری ہو

مجھے علامہ اقبال کا وہ مکالمہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے ایک پرندے اور انسان کے درمیان کروایا تھا پرندے کا کہنا تھا کہ مجھ میں اڑنے کی صلاحیت ہے اور حضرت انسان اس سے محروم ہے جب انسان نے پرندے کی یہ بات سنی تو کہا کہ میں نے جہاز ایجاد کر لیا ہے اور میں فضاٶں اور خلاٶن میں دندناتا پھر رہا ہوں اور عازم افلاک ہو رہا ہوں تو پرندے نے حضرت انسان کی لاف زنی سننے کی بعد کہا:
تو کارِ زمیں را نک۔۔۔۔۔و س۔۔۔۔۔۔اختی
کہ با آسمان نی۔۔۔۔۔۔۔ز پ۔۔۔۔۔ررداخ۔ی

کیا تونے زمین کے تمام معاملات کو درست کر لیا ہے کہ اب تو آسمانوں کی تسخیر کے چکر میں پڑا ہوا ہے؟
حضرت انگریزی انگیزوں کی زبان ہے اور انہوں نے اپنی زبان کو دنیا میں وہ مقام دلا دیا ہے کہ اب ہم کسی نہ کسی حد تک اس کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں
ہم جو ہر معاملہ میں انگریزوں کی تقلید کو باعث فخر سمجھتے ہیں اس معاملہ میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے کہ اپنی زبان کو فروغ دیں اسے ترقی دیں اور اسے دنیا کی زندہ زبانوں میں لا کھڑا کریں
میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ مقتدرہ اور اس جیسے دیگر سرکاری ادارے جو قومی زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے قائم ہوئے انہوں نے اپنی قومی زبان سے کسی بھی سطح پر اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ وہ اپنی قومی زبان کے نام پر شکم پری کا سامان ہی کرتے رہے
یہ اردو محفل ۔۔۔۔ یہ اردو ویب سائٹس ۔۔۔۔ یہ اردو بلاگ ۔۔۔۔ یہ اردو ترجمہ کاری ۔ یہ اردو ویب اطلاقیے ۔۔ یہ اردو ڈیسک ٹاپ اطلاقیے جو آپ کو نظر آ رہے ہیں یہ کون کون سے سرکاری اداروں کی پیشکش ہیں
نبیل کونسے سرکاری ادارے کا سربراہ ہے ،شاکر عزیز کس ادارے کے لیے ترجمہ کا کام کر رہا ہے ۔ الف نظامی کون سے مقتدرہ میں خدمات فراہم کر رہا ہے ، امجد علوی، جواد ، محب علوی، شارق، محمد کاشف مجید کن کن لوگوں کے نام گنواٶن ایک مجمع عشاق ہے جو لیلائے اردو کی زلف دراز سنوارنے میں مصروف ہے یہ سب اداروں میں ہوتے تو کام نہ کرتے یہ ان کی انفرادی کوششیں ہیں جو آج آپ کو انٹر نیٹ پر اردو نظر آ رہی ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ شاکرالقادری صاحب۔ میں بھی محبوب خان سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مقتدرہ کی جانب سے پاک نستعلیق کے بیٹا ورژن کے علاوہ ٹائپوگرافی کے میدان میں کیا پیش کیا گیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ مرکز فضیلت کی جانب سے ٹائپوگرافی کا کوئی پراجیکٹ بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا؟
 

مغزل

محفلین
محبوب صاحب

آداب

حافظ صفوان محمد چوہان صاحب کے کام پر مشتمل خاصا مفصل مراسلہ ارسال کرنے کیلئے ممنون و مشکور ہوں۔
صفوان صاحب سے میری بھی ملاقات رہی ہے Tip کالونی میں ان کے دفتر اور پھر رہائش گاہ پر۔۔
انشا اللہ اگلے ماہ دوبارہ ملاقات ہوگی تو آپ کی ادب دوستی کا خصوصی ذکر کروں گا۔
مجھے امید ہے کہ وہاں (ہری پور) میں آپ سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔
والسلام
م۔م۔مغل
 
محبوب صاحب سے میں بھی نبیل والا سوال کرنا چاہ رہا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی ٹائپوگرافی کا پراجیکٹ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ رہا البتہ کاغذ پر کارناموں کا ڈھیر دکھایا جا رہا ہے جس کا فائدہ میری سمجھ سے باہر ہے۔
مشین ٹرانسلیشن کافی پیچیدہ اور تحقیقی نوعیت کا کام ہے اور میرے خیال سے مقتدرہ کے بس سے بالکل باہر کی چیز ہے کیونکہ جو ادارہ اتنے سالوں میں فانٹ تک نہیں صحیح طور پر دے سکا وہ مشینی ترجمہ جیسی پیچیدہ شے پر کیا کام کر سکتا ہے ؟
 

محبوب خان

محفلین
آپ تمام خواتین و حضرات کا اردو سے محبت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے جہاں تک اردو کے لیے کام کرنے کا تعلق ہے تو سب اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں

کوئی مانے یا مانے اور ویسے بھی کام کرنے والے بس کام کام کرتےہیں انھیں کسی کے تعریف و توصیف سے کوئی کوئی غرض نہیں

کام کرنے والے چاہے حکومتی سطح پہ کام کریں‌چاہے ذاتی سطح پہ خدمت تو اردو کی ہے نہ؟

بس ایک بات ہے ہم لوگ ذرا جذباتی ہو جاتے ہیں اور بس پھر جذبات کہنا بلکہ مجھے کہنے دیں کہ صرف اور صرف تنقید برائے تنقید پہ ذور دیتے ہیں
اپنے اس لکھے جملے کے ثبوت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی عرض کی تھی کہ جناب یونیورسل فانٹ پہ جو مشکلات آسکتی ہیں ان پہ روشنی ڈالیں ۔۔۔۔اور یہاں جذبات کا ایک دھارا بہ نکلا ۔۔۔۔

مگر یہ کوئی حل نہیں ہے ذرا پھر سے کچھ کرنے کا سوچیں نہ کہ جذباتی ہوکے سوال در سوال اور اس پر واہ واہ کرنے کا

کسی کو باتیں اگر بری لگیں تو پیشگی معذرت۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
محبوب خان، وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ مقتدرہ اور اس جیسے سرکاری اداروں میں ایسے پراجیکٹس محض وسائل کے ضیاع اور فنڈز اڑانے کا ڈھونگ ہوتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں مقتدرہ والوں نے کیا تیر مار لیا ہے جو اب یونیورسل فونٹ‌ بنانے چلے ہیں؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بس ایک بات ہے ہم لوگ ذرا جذباتی ہو جاتے ہیں اور بس پھر جذبات کہنا بلکہ مجھے کہنے دیں کہ صرف اور صرف تنقید برائے تنقید پہ ذور دیتے ہیں
اپنے اس لکھے جملے کے ثبوت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی عرض کی تھی کہ جناب یونیورسل فانٹ پہ جو مشکلات آسکتی ہیں ان پہ روشنی ڈالیں ۔۔۔۔اور یہاں جذبات کا ایک دھارا بہ نکلا ۔۔۔۔

مگر یہ کوئی حل نہیں ہے ذرا پھر سے کچھ کرنے کا سوچیں نہ کہ جذباتی ہوکے سوال در سوال اور اس پر واہ واہ کرنے کا

کسی کو باتیں اگر بری لگیں تو پیشگی معذرت۔

محترم! یہ جذبات کا دھارا بلا وجہ نہیں ۔۔۔۔
پاک نستعلیق کے بیٹا ورزن کی رونمائی کے بعد اردو دان طبقہ میں اس کی کتنی پذیرائی کی گئی کس طرح لوگوں نے اس مبارک سلامت کے ڈونگرے برسائے ۔۔ کس طرح مختلف لوگوں نے اس کو اپنے فورمز اور کمپیوٹرز پر ٹیسٹ کیا اور تجاویز دیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اگر آپ " اردو محفل" کے مختلف موضوعات کو کھنگالیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ پاک نستعلیق کی بہتری اور اس سلسلہ میں درپیش مشکلات پر کس قدر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تجاویز کیا ہوئیں مقتدرہ قومی زبان نے ان تجاویز کی روشنی میں پاک نستعلیق کو کتنا بہتر بنایا اور اس کے بیٹا ورزن کے بعد کتنے نسخے ریلیز کیے ۔۔ کیا وہ تجاویز رائیگان نہیں چلی گئیں ؟ کیا پاک نستعلیق فونٹ پروجیکٹ کو سرکاری افسران کی میز تلے پڑی ہوئی ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال دیا گیا ۔۔۔ اور اس فونٹ پر کام کرنے والے افراد جو اس فونٹ سے متعلق تجاویز اور مسائل والے موضوعات میں ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے جوابات دیتے تھے وہ ادارے سے نکال نہیں دیے گئے
ایسی صورت میں جذبات کا دھارا نہ بہے تو کیا ارباب مقتدر کو پھولوں کے ہار پیش کیے جائیں

ذرا پھر سے سوچیں!
یہ بھی خوب کہی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ پہلے سوچا جا چکا ہے اس میں اضافہ کیوں نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں کا انضاف ہے کہ پہلوں کی محنت کو یوں رائیگاں کر دیا جائے اور تاج محل کو گرا کر اس کے ملبے سے دوبارہ تاج محل کی تعمیر کی کوششیں شروع کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اس تلخ نوائی پہ مجھے معاف کیجئے گا لیکن یہی حقیقت ہے کہ نئے سرے سے کام کرنے کا مطلب ایک نیا پروجیکٹ اور نئے پروجیکٹ کا مطلب نئے فنڈز کا حصول اور پھر نئے فنڈز کی فراہمی کا مقصد کچھ عرصہ کے لیے شکم پری اور شیکم سیری کے سامان کی فراہمی کے علاوہ کچھ نہیں ۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاک نستعلیق پروجیکٹ کو ہی آگے بڑھایا جائے اور اس سلسلہ میں ہونے والی پیش رفت سے لوگوں کو مطلع کیا جائے

جذبات کے دھارے ۔۔۔۔۔ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اب ارباب مقتدر کا کھلے فورموں میں تجزیہ و احتساب ہو گا تو انہیں کچھ کرنے کی فکر ہوگی اور یہ جذباتی دباٶ بھی اردو سے محبت اور خدمت کے لیے انتہائی مفید اور معاون ثابت ہوگا میں اردو دان طبقہ سے درخواست کرونگا کہ وہ اردو کے نام پر قائم ہونے والے اداروں پر یہ دباٶ بڑھانے میں میری آواز کے ساتھ آواز ملائیں تاکہ ادارے من موجوں کو چھوڑ کر کام کریں اور کوئی عملی پیش رفت سامنے آئے
 

محبوب خان

محفلین
گوسٹ تھیوری تو جیسے کچھ بھی نہیں ہے؟ بس یونی کوڈ والوں نے مان لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مائکروسافٹ اور دیگر بین الاقوامی اداریے۔

مندرجہ بالا ادارے وہ ہیں کہ جن کی وجہ سے آج میں‌او آپ یہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی آرا ء سے کافی حد تک مستفید ہوتے ہیں

ان اداروں‌ کی تو جیسے کوئی حیثیت نہیں ہے؟

یعنی
باہر والے تو ہمارے کام کو مان رہے ہیں‌اور اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے نہ جانے گل ہی ناجانے باغ تو سارا جانے؟

کیا یہ صورت حال نہیں‌ہے؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
یعنی
باہر والے تو ہمارے کام کو مان رہے ہیں‌اور اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے نہ جانے گل ہی ناجانے باغ تو سارا جانے؟

کیا یہ صورت حال نہیں‌ہے؟
اگر مائیکرو سافٹ والوں کو اردو آتی ہوتی تو آپ یقین مانیں کہ وہ کبھی مقتدرہ کی جانب سے ونڈوز اور آفس کے لیے تیار کردہ اردو مواجہہ منظور کرنے کے بعد اسے جاری نہ کرتے

باہر والوں کے مان لینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ:
چونکہ یہ کام حکومت کی جانب سے قائم شدہ ایک ادارے نے کیا ہے جس کے پاس وسائل بھی موجود ہیں اور ماہرین بھی اس لیے یہی کام معتبر ہوگا ۔۔۔۔۔ در اصل وہ ہمارے حکومتی اداروں کو اپنے حکومتی اداروں پر قیاس کرتے ہونگے
اگر حکومت پاکستان مائیکرو سافٹ کو اس کام کے لیے صرف معاوضہ دے دیتی اور یہ کام مقتدرہ کی بجائے ان سے کرواتی تو یقین جانیئے کہ مائیکروسافٹ کی جانب سے کروایا گیا کام صد فی صد درست ہوتا
 
Top