مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

سید کی تعظیم و تکریم تو غیر سید کا فعل ہے۔ اب یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ بلھے شاہ کے مرشد سادات کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے تھے؟

تعظیم سادات کے حوالے سے امام مالک کا عمل دیکھیے۔
کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر،صفحہ 165 پر درج ہے:
امام مالک فرماتے تھے کہ جو شخص سیادت کا جھوٹا دعوی کرے اُسے سخت مارا جائے اُس کی تشہیر کرائی جائے اور کافی عرصہ قید میں ڈالا جائے یہاں تک کہ ہمارے سامنے اس کی توبہ واضح ہو جائے کیوں کہ اس کی جانب سے یہ بات رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں گستاخی پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود وہ ایسے سادات کی تعظیم بھی کیا کرتے تھے جن کے نسب پر اعتراض کیا جاتا تھا، اور فرماتے تھے کہ شاید وہ حقیقت میں سید ہی ہو۔
جناب الف نظامی صاحب! جو بھی قابلِ تعظیم ہے اس کی تعظیم سر آنکھوں پر۔ اگر ارائیں اپنے علم و عمل سے اعلیٰ مقام پر ہے تو سید بھی اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح ایک سید علم و عمل کے اعلیٰ مقام پر ہے تو اسے بھی تعظیم و تکریم ملے گی۔ باقی رہا حسب نسب کی وجہ سے تکریم ، تو قرآن اس کے رد میں بھرا پڑا ہے۔ کہیں پر باپ ، کہیں پر بیٹا ، کہیں پر بیوی گمراہ ہیں تو رشتہ داری کام نہیں آئی بلکہ ان کا انجام دنیا میں ذلت و رسوائی ا ور آخرت میں بھی ذلت و رسوئی۔جس بات سے اللہ اور اس کا نبی واضح طور پر منع فرماتے ہیں قوم ہے کہ اسی پر مصر ہے۔ یعنی اگر اللہ کنعان کو گمراہ کہ رہا ہے اور اس کا نجام برے لوگوں کے ساتھ ہے تو اللہ کابندہ اسے عزت کیسے دے سکتا ہے؟
جنابِ محمد مصطفٰی نے چوری والے واقعے پر اپنی بیٹی کا نام لے کر لوگوں پر یہ واضح کردیا کہ حسب نسب نہیں اعمال پر فیصلہ ہوگا۔
 
کیونکہ مسلمان اس وقت کمزور ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو یا تو ہجرت کرنی چاہیے یا ہجرت کرنے والوں کے لیے مواخات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ صرف لفنگا مسلمان ہتھیار اٹھا کر عورتوں بچوں کے درمیان چھپ کر فساد پھیلائے گا جیسا کہ حماس، حزب اللہ، ایران یا دیگر کر رہے ہیں۔
کیا آپ یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ حماس، حزب اللہ یا ایرانی (لفنگے اور فسادی مسلمان) جو یہ فساد کررہے ہیں کیا ان میں کوئی حقیقی سید نہیں ہوگا؟

اب آپ ہی بتائیں کہ اس حقیقی سید کے لیے آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں (لفنگا مسلمان، فساد پھیلانے والا) تو یہ کس لغت میں تعظیم کےلیے استعمال ہوتے ہیں؟
 

علی وقار

محفلین
مرشد کی بات ڈی کوڈ کرنا آسان نہیں۔

چلیں شروع کرتے ہیں:

سید عمران تو ہو نہیں سکتے۔ اربش صاحب کا چانس انتہائی کم ہے۔ گُل یاسمین پر شبہ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ چونکہ، یہ اعزاز پانے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے، چاہے اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہو، سو اس حساب سے میں بھی بچ رہا۔ ایک زمانہ ہوا، عقل کو میں نے لانگ ٹور پر بھجوا رکھا ہے۔ اب دیگر محفلین بشمول خود پر، اور بالخصوص مرشدی پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالیے۔
 
آخری تدوین:
غیر سید تو خیر کسی شمار قطار میں نہ تھے، اب سیدوں کی باری بھی آ گئی۔ :ROFLMAO:

کنعان بن نوح ع کو بھول گئے۔ اسلام اور اللہ کی نظر میں سب بھول گئے۔ تمھاری زندگی کا مقصد ہی شغل اور کھیل ہے۔ جیسے تم نے آج کھیل بنایا ہے اگلی زندگی میں تم خود کھیل ہو گے۔

سید رافع صاحب !جب آپ نے سید کو تکریم نہ دینی ہو تو آپ کنعان کا ذکر کردیتے ہیں۔اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ بھی اسی سید کی عزت و تکریم کے قائل ہیں جس کے اعمال اچھے ہوں۔
قابلِ احترام جناب سید عمران صاحب سے معذرت کے ساتھ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں پچھلے صفحات پر احباب ( لڑی کے موجد کے علاوہ ) کی ا بحاث دیکھی ہے ۔مختلف فکر کے نقطہ نظر جمع ہوگئے ہیں ۔ میں کسی بڑی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا ۔ مگر چند توجہ طلب الفاظ اور ان پر ہونے والے بحث کے تناظر میں اپنا نقطہِ نظر بھی پیش کرنا چاہوں گا ۔
امین اور صادق کے القابات صرف رسول اللہ ص سے منسوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے سورہ القلم میں "وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ "۔(اور بےشک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں)۔ اور دنیا کا کوئی بھی شخص ان القابات کا محتمل نہیں ہوسکتا ۔ عرصہ قبل جب پاکستان میں وزیراعظم کے لیئے امین اور صادق ہونا قانونی طور پر لازم قرار پایا تو کئی جید علماء اور دانشوروں نے اس کی مخالفت کی کہ پاکستان میں ایسا کون سا شخص ہے جس اپنی ساری زندگی خیانت نہ کی ہو اورجھوٹ نہ بولا ہو۔ عقل بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ۔ اس کے بعد ان القابات کا اطلاق آپ کس پر کریں گے ۔ اگر کوشش کریں گے تو یہ بڑی تحقیق کا متقاضی ہوگا ۔ جس پر سب کا متفق ہونا ممکن نہیں ۔
دوسرا سید اور سادات کے حوالے سے ۔۔۔۔ کیا سید اور سادات نسل سے منسوب ہیں یا پھر اپنے اعمال و ایمان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ اگر نسل سے منسوب ہیں تو پھر اربش علی نے ابو لہب کا حوالہ دیا ہے ۔ اس کو آپ کہاں رکھتے ہیں ۔ اور اگر اعمال و ایمان کی بات آتی ہے تو پھر کوئی بھی بندہ مسلم اس معیار پر اتر سکتا ہے ۔ لہذا مجھے تو یہ سید اور سادات کی جنگ بالخصوص پاکستان اور انڈیا کے ریجن میں سمجھ نہیں آئی ۔ لیکن میں ان سے اختلاف اس وقت تک نہیں کرتا کہ جب وہ کہتے ہیں ۔ یہی ہم مانتے ہیں اور یہی ہمارا عقیدہ ہے ۔اس سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ یہی اسلام ہے اور یہی حق ہے تو پھر انہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اسلام کے ماخذ قرآن و سنت میں یہ ایمان کہاں اور کس طرح بیان ہوا ہے ۔
 
مرشد کی بات ڈی کوڈ کرنا آسان نہیں۔

چلیں شروع کرتے ہیں:

سید عمران تو ہو نہیں سکتے۔ اربش صاحب کا چانس انتہائی کم ہے۔ گُل یاسمین پر شبہ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ چونکہ، یہ اعزاز پانے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے، چاہے اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہو، سو اس حساب سے میں بچ رہا۔ ایک زمانہ ہوا، عقل کو میں نے لانگ ٹور پر بھجوا رکھا ہے۔

ویسے ، آپ نے کمال مہارت سے اپنا اور دیگر احباب کا تذکرہ گول کر دیا۔ :)

آپ سوال پوچھنے والے کا نام ہی بھول گئے :)
 

سید رافع

محفلین
اب آپ ہی بتائیں کہ اس حقیقی سید کے لیے آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں (لفنگا مسلمان، فساد پھیلانے والا) تو یہ کس لغت میں تعظیم کےلیے استعمال ہوتے ہیں؟
یہ سب ظن وتخمںنے کی باتیں ہیں۔ آپ کا اصل مسئلہ وہی علم کی کمی اور محبت کی عدم دستیابی ہے۔ اب بھی آپ مراد کو نہیں پہنچ پائے۔ مطلب کے پیچھے جنون میں مبتلا حالانکہ راحت ہمیشہ مراد میں ہے۔

حماس کا غیر سید سربراہ لفنگا تھا۔ حزب اللہ کا سربراہ لفنگا تھا جو کہ سید تھا۔ ایران کا مراجع لفنگا ہے جو کہ سید ہے۔ یہ سب اس لیے لفنگے ہیں کہ ان کے پاس وسیع و عریض زمینیں تھیں جہاں مسلمان اطمینان و سکون سے رہ سکتے تھے لیکن یہ حبشہ کے بادشاہ جیسے بھی نہ ہو سکے۔

تم چند متواتر و محکم قصے آل محمد ص کے لو اور کچھ مستند حالات آل محمد ص کے پڑھو۔ ان کو بیان کرو پوری یقین کے ساتھ۔ تم کو علمی مار پڑے گی۔ اس کو انکی محبت میں سہو۔ تم میں عقل کا سخت فقدان ہے سو اس سفر کو محبت کی راہ سے طے کرو۔
 
یہ سب ظن وتخمںنے کی باتیں ہیں۔ آپ کا اصل مسئلہ وہی علم کی کمی اور محبت کی عدم دستیابی ہے۔ اب بھی آپ مراد کو نہیں پہنچ پائے۔ مطلب کے پیچھے جنون میں مبتلا حالانکہ راحت ہمیشہ مراد میں ہے۔

حماس کا غیر سید سربراہ لفنگا تھا۔ حزب اللہ کا سربراہ لفنگا تھا جو کہ سید تھا۔ ایران کا مراجع لفنگا ہے جو کہ سید ہے۔ یہ سب اس لیے لفنگے ہیں کہ ان کے پاس وسیع و عریض زمینیں تھیں جہاں مسلمان اطمینان و سکون سے رہ سکتے تھے لیکن یہ حبشہ کے بادشاہ جیسے بھی نہ ہو سکے۔

تم چند متواتر و محکم قصے آل محمد ص کے لو اور کچھ مستند حالات آل محمد ص کے پڑھو۔ ان کو بیان کرو پوری یقین کے ساتھ۔ تم کو علمی مار پڑے گی۔ اس کو انکی محبت میں سہو۔ تم میں عقل کا سخت فقدان ہے سو اس سفر کو محبت کی راہ سے طے کرو۔
تو آپ سیدھا یہی کہیں کہ جس سید کے اعمال اچھے اس کی تکریم اور اس سے محبت واجب۔ باقیوں کی تعظیم کے آپ بھی قائل نہیں۔
 

سید رافع

محفلین
تو آپ سیدھا یہی کہیں کہ جس سید کے اعمال اچھے اس کی تکریم اور اس سے محبت واجب۔ باقیوں کی تعظیم کے آپ بھی قائل نہیں۔
تمھیں شعور نہیں۔ نا ہی تمھارے ہاتھ کوئی فرقان ہے۔ تم سب کی عزت سے شروع کرو۔ یہاں تک کہ کنعان بن نوح کی کہ نوح نے بہرحال انہیں اپنی کشتی کی طرف پکارا تھا۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
مرشد! ایک روحانی پھونک کا طلب گار ہوں جس سے یہ وہم، وسوسے، اور بدگمانیاں ہمیشہ کے لیے اڑنچھو ہو جائیں۔
تم چند متواتر و محکم قصے آل محمد ص کے لو اور کچھ مستند حالات آل محمد ص کے پڑھو۔ ان کو بیان کرو پوری یقین کے ساتھ۔ تم کو علمی مار پڑے گی۔ اس کو انکی محبت میں سہو۔ تم میں عقل کا سخت فقدان ہے سو اس سفر کو محبت کی راہ سے طے کرو۔
 

علی وقار

محفلین
تم کو علمی مار پڑے گی۔ اس کو انکی محبت میں سہو۔ تم میں عقل کا سخت فقدان ہے سو اس سفر کو محبت کی راہ سے طے کرو۔
مرشد اپنے جواب کاپی پیسٹ نہ کریں، خصوصی توجہ سے سرفراز فرمائیں۔ آپ ایسی پھونک کیوں نہیں مار دیتے کہ میں بھی آپ کی طرح تو تڑاق پر اُتر آؤں۔ :noxxx:
 
تو آپ سیدھا یہی کہیں کہ جس سید کے اعمال اچھے اس کی تکریم اور اس سے محبت واجب۔ باقیوں کی تعظیم کے آپ بھی قائل نہیں۔
تمھیں شعور نہیں۔ نا ہی تمھارے ہاتھ کوئی فرقان ہے۔ تم سب کی عزت سے شروع کرو۔ یہاں تک کہ کنعان بن نوح کی کہ نوح نے بہرحال انہی کشتی کی طرف پکارا تھا۔
نوح نبی نے جب اپنے بیٹے کو کشتی کی طرف پکارا تھا تو جواب میں بیٹے نے کیا کہا اور اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا تھا ۔ جو اللہ تعالٰی نے فرمایا تھا وہی ہدایت ہے۔
 

سید رافع

محفلین
نوح نبی نے جب اپنے بیٹے کو کشتی کی طرف پکارا تھا تو جواب میں بیٹے نے کیا کہا اور اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا تھا ۔ جو اللہ تعالٰی نے فرمایا تھا وہی ہدایت ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ نوح گمراہ نہ تھے اور نہ ہی بیٹے کی محبت اللہ کی محبت سے زیادہ ان میں تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عین اللہ کے عذاب کے وقت جبکہ معلوم بھی ہے کہ یہ عذاب ہے انہوں نے انکو عزت کی جگہ پکارا۔ اسی پکار کا لحاظ کر لو اور خدا نہ بنو۔ تم خدا نہیں۔ تم بے شعور ہو۔
 

سید رافع

محفلین
مرشد اپنے جواب کاپی پیسٹ نہ کریں، خصوصی توجہ سے سرفراز فرمائیں۔ آپ ایسی پھونک کیوں نہیں مار دیتے کہ میں بھی آپ کی طرح تو تڑاق پر اُتر آؤں۔ :noxxx:
آپ عزت رشوت کے طور پر کرتے ہیں بلکہ کم ہمتی کے باعث۔ علم کے راستے سے کامل اخلاق والے انبیاء قتل تک کرتے ہیں۔ آپ اس راستے پر چلیں تو سب کو انکی منزل پر اتاریں گے۔
 
آخری تدوین:
یہ یاد رکھیں کہ نوح گمراہ نہ تھے اور نہ ہی بیٹے کی محبت اللہ کی محبت سے زیادہ ان میں تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عین اللہ کے عذاب کے وقت جبکہ معلوم بھی ہے کہ یہ عذاب ہے انہوں نے انکو عزت کی جگہ پکارا۔ اسی پکار کا لحاظ کر لو اور خدا نہ بنو۔ تم خدا نہیں۔ تم بے شعور ہو۔
آپ ایک نبی کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ آپ حقیقی سید ہیں اور (بقول آپ کے آپ کے گناہوں کی طہارت کا قدرت نے فطری انتظام کردیا ہے ۔ آپ کے گناہ دھونے کے لیے ہم مسلمان درود پڑھتے رہتے ہیں۔) لیکن میں ایک گنہگار عام مسلمان ہوں۔
نبی سب کو اچھائی کی طرف بلاتا ہے۔ اور فطری رشتے کا پاس رکھنا کہیں بھی منع نہیں اس لیے نوح نے اپنے بیٹے کو بلایا تھا۔
اور جس پکارکا لحاظ کرنے کی آپ تاکید فرمارہے ہیں کنعان نے اسی پکار کا انکار کردیا تھا ۔اللہ اور اس کے نبی کی بات ماننے کا انکار۔ اور اللہ نے اسے غرق کردیا تھا۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اگر نسل سے منسوب ہیں تو پھر @اربش علی نے ابو لہب کا حوالہ دیا ہے ۔ اس کو آپ کہاں رکھتے ہیں ۔
عبد المطلب کی نسل سید نہیں۔ نا ہی علی ع کی دیگر بیویوں کی اولاد سید ہے۔ اگر علی ع باپ ہوں اور فاطمہ ع بیوی تو انکی سب آل سید۔ علی ع نفس رسول ص اور شہر علم کا دروازہ ہیں،فاطمہ ع جنت کی خواتین کی سردار ہیں، انکے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں،انہی کی آل پر ڈیڑھ ارب مسلمان ہر نماز میں آل محمد ص کہہ کر درود و سلام و دعائیں کرتے ہیں۔ اسی آل کے نیک فرزند قیام قیامت تک قرآن کے ساتھ ملے رہیں گے اورقرآن ناطق رہیں گے۔

امین اور صادق کے القابات صرف رسول اللہ ص سے منسوب ہیں
الرحمن اور المؤمن اللہ کے ساتھ منسوب ہیں لیکن ہم سب کو کہتے ہی ہیں کہ رحمن صاحب آگئے اور مومن صاحب گھر پر نہیں۔ یہ سب کم عقلوں کی باتیں ہیں۔

کئی جید علماء اور دانشوروں نے اس کی مخالفت کی
کیونکہ کم عقلوں کی عقل درست کرنے کے بجائے ایسے لغو کاموں میں لگے ہیں۔

سید اور سادات کی جنگ بالخصوص پاکستان اور انڈیا کے ریجن میں سمجھ نہیں آئی
کیا سمجھ نہیں آئی۔ اور یہ قریبی تاریخ مکہ ہی اٹھا کر دیکھ لیں کہ شریف مکہ کون ہوتا تھا۔آپ لاعلم ہیں۔

مگر جب وہ کہتے ہیں کہ یہی اسلام ہے اور یہی حق ہے تو پھر انہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اسلام کے ماخذ قرآن و سنت میں یہ ایمان کہاں اور کس طرح بیان ہوا ہے ۔
سورہ شوریٰ اور دیگر بہت سارے ماخذ اسی لڑی میں بیان کر دیے گئے ہیں۔
 
آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : کون اور کیسے؟

ایک سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ کہ آیا آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد ان کے اہلِ خاندان ہیں یا پھر ان کی پشت سے چلنے والی اور قیامت تک آنے والی تمام نسل کو آلِ رسول کہا جائے گا۔ اس سوال کا جواب خود اُس درود یعنی درودِ ابراہیمی کے اندر موجود ہے جسےتمام مسلمان صلوٰۃ میں سلام پھیرنے سے پہلے تشہد میں پڑھتے ہیں ۔
درود ِ ابراہیمی تو سب کو زبانی یاد ہے اس لیے اسے درج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ درود کا ترجمہ البتہ درج ذیل ہے: اے اللہ!محمد اور آلِ محمد پررحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پررحمت نازل فرمائی ۔ اے اللہ! حمد اور آلِ محمد پربرکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پربرکت نازل فرمائی۔

اس درود سے دو باتیں بالکل صاف اور بغیر کسی شک و شبے کے واضح ہوگئیں۔
1۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ درود میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی صلیت اور بارکت ۔ یعنی یہ کام ماضی میں ہوچکا ۔ رحمت اور برکت ہونے کا واقعہ گزر چکا ۔ یہ بات پوری ہوچکی ۔
2۔ دوسری بات اس درود سے یہ واضح ہوئی کہ ہر مسلمان اللہ سبحانہ و تعالٰی سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ اے اللہ ، تو محمد اور آلِ محمد پر اُسی طرح رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل فرمائی تھی۔ یعنی نہ اُس سے کم نہ اُس سے زیادہ ۔بلکہ بالکل ویسے ہی رحمت اور برکت جیسے تو نے ان پر نازل فرمائی۔

بالکل واضح اور ہر شک و شبے سے بالا تر اِن دو مندرجہ بالانتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب مندرجہ ذیل حقائق پر غور کیجیے:
1۔ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ، داد ، پردادا ، سگڑ دادا ، چچا ، تایا وغیرہ بلکہ پورا قبیلۂ قریش ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھا ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ قبیلۂ قریش اور ان کے آبا و اجداد کئی صدیوں سے بت پرست مشرکین اور کافر چلے آتے تھے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی تھی اگر ہوتی تو یہ سب مشرک اور بت پرست نہ ہوتے۔(نوٹ: بقول اللہ سبحانہ تعالیٰ ابراہیم مشرکین میں سے نہیں تھے۔)
2۔ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے بہت سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے۔ وہ مشرک رہے اور مشرک مرے۔ آپ کے سگے چچا ابو لہب سامنے کی مثال ہیں ۔ سو یہ بات بھی چابت ہوئی کہ ان گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہ لوگ آلِ رسول کہلائے جائیں گے کہ جو مسلمان ہوگئےہوں ۔
ان حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آلِ رسول سے مراد رسول کے گھر والے اور اہلِ خاندان مراد ہیں۔ ان کے بعد آنے والی نسلیں آل میں شامل نہیں ہوتی ہیں ۔ اگر بعد میں آنے والی تمام نسلوں کو آلِ رسول مان لیا جائے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں یعنی اسحاق اور اسماعیل سے چلنے والی ، صدیوں پر محیط تمام کی تمام نسلیں آلِ ابراہیم ہوں گی اورپھر قبیلہ قریش اور ان کے آبا و اجداد بھی آلِ ابراہیم میں شامل ہوں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ سب تو کئی صدیوں سےبت پرست مشرک اور ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا تھے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ آلِ ابراہیم سے مراد ان کے گھر والے اور اہلِ خاندان تھے کہ جن پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ابراہیم کے بیٹوں نے دینِ ابراہیمی کی تبلیغ کی اور کعبے یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی۔ اللہ کے لیے ہجرت کی اور نیا شہر بسایا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب باتیں اللہ کی رحمت اور برکت کے مظہرات ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ بعد میں آنے والی تمام نسلیں بھی آل میں شامل ہوتی ہیں تو پھر درود میں اللہ تعالٰٰی نے آلِ ابراہیم کے لیے ماضی کا صیغہ کیوں استعمال کیا ۔اگر آلِ ابراہیم ابھی تک جاری ہے تو پھر یہ کہنا چاہیئے تھا کہ: جس طرح تو آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل کررہا ہے:

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ درود میں آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہا گیا ہے ۔ اگر آل سے مراد تمام آنے والی نسلیں ہوتیں تو پھر دو الگ گروہوں کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت؟؟ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود آلِ ابراہیم ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل بھی آلِ ابراہیم ہی ہوگی ۔ یعنی پھر تو قیامت تک آلِ ابراہیم ہی چلے گی ۔جب درود میں اللہ تعالیٰ آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہہ کر بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آل سے مراد ان دو انبیا کے گھر والے اور اہلِ خاندان مرادہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ لوگوں کے ہیں۔ ابراہیم کی آل گزر چکی ، اس پر رحمت اور برکت ہوچکی ۔ یہ بات ماضی ہوگئی ۔ اب ہم اللہ سے محمد اور آلِ محمد کے لیے اپنے درود میں ویسی ہی رحمت اور برکت کی دعا مانگ رہے ہیں کہ جیسی ُس نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر ماضی میں فرمائی ۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہی لوگ آلِ رسول اور ہمارے درودکے مستحق ہوں گے کہ جو اسلام لے آئے اور درست راستے پر رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا ابو لہب یقیناً آلِ محمد میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا درود ان کے لیے ہے۔قریش اور بنی ہاشم کے جو لوگ اسلام نہیں لائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے ہوتے ہوئے بھی آلِ رسول نہیں ہیں ۔

المختصر یہ کہ آلِ رسول سے مراد ان کے مسلمان گھر والے اور اہلِ خاندان ہوتے ہیں ۔ آلِ رسول ان کے بعد کی آنے والی نسلوں کو نہیں کہا جاتا ۔اب آپ خود ہی سوچیے کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے کچھ لوگ اگر یہ کہیں کہ ہم آلِ محمدہیں تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تو پھر آلِ ابراہیم کہاں گئے؟
بالفرض محال اگر ان کو آلِ رسول مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ان کا عقیدہ اور اعمال دیکھے جائیں گے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے درست راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟اگروہ مشرکانہ عقائد اور بدعتی اعمال میں مبتلا ہوں ، فسق و فجور میں ملوث ہوں تو انہیں آلِ رسول کیونکر اور کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے اپنے سگے رشتے داروں کو بشمول ابو لہب اپنی آل نہیں کہا ۔
تو گویا کسی بھی شخص کے حسب نسب ، رشتے داری اور قرابت داری کا معاملہ تو بعد میں اٹھے گا پہلے تو اس کا عقیدہ ، اعمال اور یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ دینِ محمد کے درست راستے پر ہے بھی یا نہیں ۔ اگر ہے تو سب
سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اگر نہیں ہے تو پھر بات ختم ۔ خلاص ! اب وہ خواہ رسول کا چچا ہو یا رسول کا کزن ، کچھ فرق نہیں پڑتا۔

یہ چند سامنے کے اور عقلی دلائل درودِ ابراہیمی سے اس لیے دیئے ہیں کہ بہت سارے لوگ اس درود کا ذکر کرکے اپنی سیادت کو چمکانے اور اس سے وہ فوائد اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے دین نے انہیں تفویض کیے ہی نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی قرآن اور متعدد احادیث میں آل سے متعلق اس مسئلے کی بہت صاف انداز میں وضاحت کی گئی ہے ۔ ان براہین کے بعد سمجھنے اور ماننے والے کسی ذہن میں کو ئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ لیکن ایک خاص گمراہ اور مشرک فرقے کے لوگ آلِ رسول کے اس مسئلے کو (اور اسی طرح کے کئی بے اصل اور بے سروپا موضوعات کو)ایک بنیادی اور اہم نکتہ بنا کر ہرزہ سرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد بھی صاف ظاہر ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالٰی ہم سب کو حقیقت کو سننے ، سمجھنے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(واٹس ایپ سے منقول)
 
Top