خورشیداحمدخورشید
محفلین
جناب الف نظامی صاحب! جو بھی قابلِ تعظیم ہے اس کی تعظیم سر آنکھوں پر۔ اگر ارائیں اپنے علم و عمل سے اعلیٰ مقام پر ہے تو سید بھی اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح ایک سید علم و عمل کے اعلیٰ مقام پر ہے تو اسے بھی تعظیم و تکریم ملے گی۔ باقی رہا حسب نسب کی وجہ سے تکریم ، تو قرآن اس کے رد میں بھرا پڑا ہے۔ کہیں پر باپ ، کہیں پر بیٹا ، کہیں پر بیوی گمراہ ہیں تو رشتہ داری کام نہیں آئی بلکہ ان کا انجام دنیا میں ذلت و رسوائی ا ور آخرت میں بھی ذلت و رسوئی۔جس بات سے اللہ اور اس کا نبی واضح طور پر منع فرماتے ہیں قوم ہے کہ اسی پر مصر ہے۔ یعنی اگر اللہ کنعان کو گمراہ کہ رہا ہے اور اس کا نجام برے لوگوں کے ساتھ ہے تو اللہ کابندہ اسے عزت کیسے دے سکتا ہے؟سید کی تعظیم و تکریم تو غیر سید کا فعل ہے۔ اب یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ بلھے شاہ کے مرشد سادات کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے تھے؟
تعظیم سادات کے حوالے سے امام مالک کا عمل دیکھیے۔
کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر،صفحہ 165 پر درج ہے:
امام مالک فرماتے تھے کہ جو شخص سیادت کا جھوٹا دعوی کرے اُسے سخت مارا جائے اُس کی تشہیر کرائی جائے اور کافی عرصہ قید میں ڈالا جائے یہاں تک کہ ہمارے سامنے اس کی توبہ واضح ہو جائے کیوں کہ اس کی جانب سے یہ بات رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں گستاخی پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود وہ ایسے سادات کی تعظیم بھی کیا کرتے تھے جن کے نسب پر اعتراض کیا جاتا تھا، اور فرماتے تھے کہ شاید وہ حقیقت میں سید ہی ہو۔
جنابِ محمد مصطفٰی نے چوری والے واقعے پر اپنی بیٹی کا نام لے کر لوگوں پر یہ واضح کردیا کہ حسب نسب نہیں اعمال پر فیصلہ ہوگا۔