مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

سید رافع

محفلین
آپ ایک نبی کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ آپ حقیقی سید ہیں اور (بقول آپ کے آپ کے گناہوں کی طہارت کا قدرت نے فطری انتظام کردیا ہے ۔ آپ کے گناہ دھونے کے لیے ہم مسلمان درود پڑھتے رہتے ہیں۔) لیکن میں ایک گنہگار عام مسلمان ہوں۔
نبی سب کو اچھائی کی طرف بلاتا ہے۔ اور فطری رشتے کا پاس رکھنا کہیں بھی منع نہیں اس لیے نوح نے اپنے بیٹے کو بلایا تھا۔
اور جس پکارکا لحاظ کرنے کی آپ تاکید فرمارہے ہیں کنعان نے اسی پکار کا انکار کردیا تھا ۔اللہ اور اس کے نبی کی بات ماننے کا انکار۔ اور اللہ نے اسے غرق کردیا تھا۔
یہی توجہ کا تو فرق ہے۔ آپ انکار کرنے والے کو دیکھ رہیں ہیں اور میں پکارنے والے کی طرف توجہ کیے ہوئے ہوں۔

بس یہی فرق ہے۔ آپ پکار کے طاہر لبوں کو نہیں دیکھ رہے اور سماعت کے خبائث کی جانب متوجہ ہیں۔ یہی فلسفے اور محبت میں فرق ہے کہ ہر توجہ محبوب کی جانب رہے۔
 
یہی توجہ کا تو فرق ہے۔ آپ انکار کرنے والے کو دیکھ رہیں ہیں اور میں پکارنے والے کی طرف توجہ کیے ہوئے ہوں۔

بس یہی فرق ہے۔ آپ پکار کے طاہر لبوں کو نہیں دیکھ رہے اور سماعت کے خبائث کی جانب متوجہ ہیں۔ یہی فلسفے اور محبت میں فرق ہے کہ ہر توجہ محبوب کی جانب رہے۔
افسوس کہ دوسروں کی طرح میں بھی آپ کے اصل پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہوں-
میں تو پکار والے طاہر لبوں کی جانب ہی متوجہ ہوں لیکن آپ کا سارا زور سن کر نہ ماننے والے کی حرمت پر لگا ہوا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
عبد المطلب کی نسل سید نہیں۔ نا ہی علی ع کی دیگر بیویوں کی اولاد سید ہے۔ اگر علی ع باپ ہوں اور فاطمہ ع بیوی تو انکی سب آل سید۔ علی ع نفس رسول ص اور شہر علم کا دروازہ ہیں،فاطمہ ع جنت کی خواتین کی سردار ہیں، انکے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں،انہی کی آل پر ڈیڑھ ارب مسلمان ہر نماز میں آل محمد ص کہہ کر درود و سلام و دعائیں کرتے ہیں۔ اسی آل کے نیک فرزند قیام قیامت تک قرآن کے ساتھ ملے رہیں گے اورقرآن ناطق رہیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سید کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوا جس کے بارے میں اللہ نے خود فرمایا ہو کہ یہ سید ہیں ۔ اگر یہ سلسلہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد لوگوں نے اختیار کرلیا ہے تو ا س پر کیا اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی ایمانیا ت کا مسئلہ تو نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے محبت اور عقیدت رکھنا ایک مسلمان کے لیئے بڑی سعادت ہے ۔ مگر اس عقیدت اور محبت کی انتہا کیا ہونی چاہیئے ۔ اور اس کا دائرہ اختیار اور دائرہ کار کیا ہوگا ۔ اس کا تعین ضروری ہے ۔ رسول اللہ کے خاندان سے عقیدت و محبت تو بہت بڑی بات ہے ۔ ورنہ لوگوں نے تو عقیدت اور محبت میں بھٹو کو بھی آج تک زندہ رکھا ہوا ہے ۔ عقیدت و محبت نے بھی حضرت عیسیٰ کو اللہ بیٹا بنایا ہوا ہے ۔

الرحمن اور المؤمن اللہ کے ساتھ منسوب ہیں لیکن ہم سب کو کہتے ہی ہیں کہ رحمن صاحب آگئے اور مومن صاحب گھر پر نہیں۔ یہ سب کم عقلوں کی باتیں ہیں۔
واقعی سب یہ کم عقلوں کی بات ہے ۔ صادق و امین کی بات کو کس طرح الرحمن اور المومن کے ساتھ ملایا ہے ۔ یہ واقعی بہت دل گردے کا کام ہے ۔

کیونکہ کم عقلوں کی عقل درست کرنے کے بجائے ایسے لغو کاموں میں لگے ہیں۔
اُنہیں میں کہوں گا کہ وہ آپ کی طرف متوجہ ہوں ۔ فکر نہ کریں ۔

کیا سمجھ نہیں آئی۔ اور یہ قریبی تاریخ مکہ ہی اٹھا کر دیکھ لیں کہ شریف مکہ کون ہوتا تھا۔آپ لاعلم ہیں۔
آپ اپنی تاریخ بیان کررہے ہیں ۔ ورنہ خلافتِ راشدہ سے لیکر بعد کے 22 سال اور بعد کے اور بھی سال کی تاریخ کچھ اور ہے ۔

سورہ شوریٰ اور دیگر بہت سارے ماخذ اسی لڑی میں بیان کر دیے گئے ہیں۔
آپ کی اپنی انٹرپیٹیشنز ہیں ۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے ۔ کہتے رہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : کون اور کیسے؟

ایک سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ کہ آیا آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد ان کے اہلِ خاندان ہیں یا پھر ان کی پشت سے چلنے والی اور قیامت تک آنے والی تمام نسل کو آلِ رسول کہا جائے گا۔ اس سوال کا جواب خود اُس درود یعنی درودِ ابراہیمی کے اندر موجود ہے جسےتمام مسلمان صلوٰۃ میں سلام پھیرنے سے پہلے تشہد میں پڑھتے ہیں ۔
درود ِ ابراہیمی تو سب کو زبانی یاد ہے اس لیے اسے درج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ درود کا ترجمہ البتہ درج ذیل ہے: اے اللہ!محمد اور آلِ محمد پررحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پررحمت نازل فرمائی ۔ اے اللہ! حمد اور آلِ محمد پربرکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پربرکت نازل فرمائی۔

اس درود سے دو باتیں بالکل صاف اور بغیر کسی شک و شبے کے واضح ہوگئیں۔
1۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ درود میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی صلیت اور بارکت ۔ یعنی یہ کام ماضی میں ہوچکا ۔ رحمت اور برکت ہونے کا واقعہ گزر چکا ۔ یہ بات پوری ہوچکی ۔
2۔ دوسری بات اس درود سے یہ واضح ہوئی کہ ہر مسلمان اللہ سبحانہ و تعالٰی سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ اے اللہ ، تو محمد اور آلِ محمد پر اُسی طرح رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل فرمائی تھی۔ یعنی نہ اُس سے کم نہ اُس سے زیادہ ۔بلکہ بالکل ویسے ہی رحمت اور برکت جیسے تو نے ان پر نازل فرمائی۔

بالکل واضح اور ہر شک و شبے سے بالا تر اِن دو مندرجہ بالانتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب مندرجہ ذیل حقائق پر غور کیجیے:
1۔ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ، داد ، پردادا ، سگڑ دادا ، چچا ، تایا وغیرہ بلکہ پورا قبیلۂ قریش ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھا ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ قبیلۂ قریش اور ان کے آبا و اجداد کئی صدیوں سے بت پرست مشرکین اور کافر چلے آتے تھے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی تھی اگر ہوتی تو یہ سب مشرک اور بت پرست نہ ہوتے۔(نوٹ: بقول اللہ سبحانہ تعالیٰ ابراہیم مشرکین میں سے نہیں تھے۔)
2۔ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے بہت سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے۔ وہ مشرک رہے اور مشرک مرے۔ آپ کے سگے چچا ابو لہب سامنے کی مثال ہیں ۔ سو یہ بات بھی چابت ہوئی کہ ان گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہ لوگ آلِ رسول کہلائے جائیں گے کہ جو مسلمان ہوگئےہوں ۔
ان حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آلِ رسول سے مراد رسول کے گھر والے اور اہلِ خاندان مراد ہیں۔ ان کے بعد آنے والی نسلیں آل میں شامل نہیں ہوتی ہیں ۔ اگر بعد میں آنے والی تمام نسلوں کو آلِ رسول مان لیا جائے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں یعنی اسحاق اور اسماعیل سے چلنے والی ، صدیوں پر محیط تمام کی تمام نسلیں آلِ ابراہیم ہوں گی اورپھر قبیلہ قریش اور ان کے آبا و اجداد بھی آلِ ابراہیم میں شامل ہوں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ سب تو کئی صدیوں سےبت پرست مشرک اور ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا تھے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ آلِ ابراہیم سے مراد ان کے گھر والے اور اہلِ خاندان تھے کہ جن پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ابراہیم کے بیٹوں نے دینِ ابراہیمی کی تبلیغ کی اور کعبے یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی۔ اللہ کے لیے ہجرت کی اور نیا شہر بسایا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب باتیں اللہ کی رحمت اور برکت کے مظہرات ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ بعد میں آنے والی تمام نسلیں بھی آل میں شامل ہوتی ہیں تو پھر درود میں اللہ تعالٰٰی نے آلِ ابراہیم کے لیے ماضی کا صیغہ کیوں استعمال کیا ۔اگر آلِ ابراہیم ابھی تک جاری ہے تو پھر یہ کہنا چاہیئے تھا کہ: جس طرح تو آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل کررہا ہے:

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ درود میں آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہا گیا ہے ۔ اگر آل سے مراد تمام آنے والی نسلیں ہوتیں تو پھر دو الگ گروہوں کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت؟؟ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود آلِ ابراہیم ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل بھی آلِ ابراہیم ہی ہوگی ۔ یعنی پھر تو قیامت تک آلِ ابراہیم ہی چلے گی ۔جب درود میں اللہ تعالیٰ آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہہ کر بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آل سے مراد ان دو انبیا کے گھر والے اور اہلِ خاندان مرادہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ لوگوں کے ہیں۔ ابراہیم کی آل گزر چکی ، اس پر رحمت اور برکت ہوچکی ۔ یہ بات ماضی ہوگئی ۔ اب ہم اللہ سے محمد اور آلِ محمد کے لیے اپنے درود میں ویسی ہی رحمت اور برکت کی دعا مانگ رہے ہیں کہ جیسی ُس نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر ماضی میں فرمائی ۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہی لوگ آلِ رسول اور ہمارے درودکے مستحق ہوں گے کہ جو اسلام لے آئے اور درست راستے پر رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا ابو لہب یقیناً آلِ محمد میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا درود ان کے لیے ہے۔قریش اور بنی ہاشم کے جو لوگ اسلام نہیں لائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے ہوتے ہوئے بھی آلِ رسول نہیں ہیں ۔

المختصر یہ کہ آلِ رسول سے مراد ان کے مسلمان گھر والے اور اہلِ خاندان ہوتے ہیں ۔ آلِ رسول ان کے بعد کی آنے والی نسلوں کو نہیں کہا جاتا ۔اب آپ خود ہی سوچیے کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے کچھ لوگ اگر یہ کہیں کہ ہم آلِ محمدہیں تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تو پھر آلِ ابراہیم کہاں گئے؟
بالفرض محال اگر ان کو آلِ رسول مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ان کا عقیدہ اور اعمال دیکھے جائیں گے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے درست راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟اگروہ مشرکانہ عقائد اور بدعتی اعمال میں مبتلا ہوں ، فسق و فجور میں ملوث ہوں تو انہیں آلِ رسول کیونکر اور کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے اپنے سگے رشتے داروں کو بشمول ابو لہب اپنی آل نہیں کہا ۔
تو گویا کسی بھی شخص کے حسب نسب ، رشتے داری اور قرابت داری کا معاملہ تو بعد میں اٹھے گا پہلے تو اس کا عقیدہ ، اعمال اور یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ دینِ محمد کے درست راستے پر ہے بھی یا نہیں ۔ اگر ہے تو سب
سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اگر نہیں ہے تو پھر بات ختم ۔ خلاص ! اب وہ خواہ رسول کا چچا ہو یا رسول کا کزن ، کچھ فرق نہیں پڑتا۔

یہ چند سامنے کے اور عقلی دلائل درودِ ابراہیمی سے اس لیے دیئے ہیں کہ بہت سارے لوگ اس درود کا ذکر کرکے اپنی سیادت کو چمکانے اور اس سے وہ فوائد اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے دین نے انہیں تفویض کیے ہی نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی قرآن اور متعدد احادیث میں آل سے متعلق اس مسئلے کی بہت صاف انداز میں وضاحت کی گئی ہے ۔ ان براہین کے بعد سمجھنے اور ماننے والے کسی ذہن میں کو ئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ لیکن ایک خاص گمراہ اور مشرک فرقے کے لوگ آلِ رسول کے اس مسئلے کو (اور اسی طرح کے کئی بے اصل اور بے سروپا موضوعات کو)ایک بنیادی اور اہم نکتہ بنا کر ہرزہ سرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد بھی صاف ظاہر ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالٰی ہم سب کو حقیقت کو سننے ، سمجھنے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(واٹس ایپ سے منقول)
آپ نے تو جھگڑا ہی ختم کردیا ۔ جزاک اللہ و خیر
 

سید رافع

محفلین
درود میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے
دورد شریف کے مختلف الفاظ اور صیغے احادیث میں منقول ہیں، ان کے پیشِ نظر درود شریف میں "صَلَّیٰ" (لام کے زبر کے ساتھ) اور "صَلِّ" (لام کے زیر کے ساتھ) دونوں صیغے مستعمل ہیں، اور دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔

اس کم عقل سے پوچھیں رسول ص خود جب درود پڑھتے تھے تو وہ بھی ماضی کے صیغے کا ہو گا سو وہی چالاکی جو یہ کم عقل اس مضمون میں کر رہا ہے وہاں اطلاق کرنے کی جسارت کرتا۔ لاحول ولا۔ ضلوفضلو۔
کہ اے اللہ ، تو محمد اور آلِ محمد پر اُسی طرح رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل فرمائی تھی۔ یعنی نہ اُس سے کم نہ اُس سے زیادہ ۔بلکہ بالکل ویسے ہی رحمت اور برکت جیسے تو نے ان پر نازل فرمائی
کس قدر کم عقل ہے کہ ابراہیم ع اور محمد ص میں فرق ہی نہیں کر پا رہا۔ حالانکہ دونوں نبی ہیں، دونوں اولو العزم رسول ہیں، دونوں پر کتب نازل ہوئیں۔ ایک امام الناس اور دوسرے امام المرسلین۔

آپ رسول ص کی محبت ابھاریں پہلے۔ جب اس میں اچھی طرح استغراق حاصل ہو جائے تو انکے دشمنوں خاص کر جو انکے خاندان کے ہیں ان پر گفتگو کریں۔ رسول ص نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے کیا تھا۔ اس نکاح کو ابو لہب نے ختم کرا دیا۔ ان تفصیلات کو پڑھیں، علم حاصل کریں تاکہ ابولہب اور اسکی بیوی کی معرفت حاصل ہو نہ کہ نفرت محض یعنی جہالت بھرے جذبات۔

آل رسول نہیں آل محمد ص پر درود بھیجا جاتا ہے۔

اب آپ خود ہی سوچیے کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے کچھ لوگ اگر یہ کہیں کہ ہم آلِ محمدہیں تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تو پھر آلِ ابراہیم کہاں گئے؟
کیوں آپ نصاری اور یہود میں نیک لوگ نہیں دیکھتے۔ یہ انہی بنی اسرائیل کے انبیاء کی اولاد ہیں۔ اسی لیے انکا ذبیحہ اور ان سے نکاح حلال۔ انہی سے نرم بات کرنے کا حکم۔ انہی کی رہبانیت کا تذکرہ۔

آل محمد ص نہ کریں تو چیچہ وطنی کے درس نظامی کے کم عقل استاد یا ماڈرن ملحد نما مسلم یا مسلم لبرل یا استعمار کے عنڈے یا سخت یہود یا نرم عیسائی یا شک بھرے ہندو
لیکن ایک خاص گمراہ اور مشرک فرقے کے لوگ
عین یہی کہنے سے تو فرقہ بن رہا ہے کہ اصل آل محمد ص کو معزول کر دیا جائے اور زکوۃ کے حیلے کے میل کچیل سے امت کو قیادت فراہم کی جائے۔

حق بیان کرنا۔ ہاں جس نے یہ تحریر لکھی پورا زور ہے کہ کہیں سیادت آل محمد ص کے ہاتھ نہ آجائے۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ یہ دھاگہ اب مقفل ہونا چاہیئے کہ یہ بندہ اخلاقیات کی دھجیاں اتار رہا ہے۔ سب کو کم عقل کہہ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے ۔ ایک علمی بحث اس سے ہونہیں سکتی ۔ حجت پر حجت قائم کر رہا ہے ۔
دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہا ہے ۔ مجھے تو حیرت ہے تمام احباب نے کس طرح اس شخص کی بداخلاقی کوبرداشت کیا ہے ۔ اسے گفتگو کے آداب آنے چاہیئں ۔ ورنہ اس کو بھی پہلے کی طرح اس طرح کی گفتگو کرنے والوں کی طرح معطل کردیا جائے ۔ اسے اپنا موقف عزیز ہے ۔ دوسروں کا تو پڑھتا ہی نہیں سمجھے گا کیا ۔
 

سید رافع

محفلین
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سید کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوا جس کے بارے میں اللہ نے خود فرمایا ہو کہ یہ سید ہیں ۔
اللہ نے بھی فرمایا ہے اور رسول نے فرمایا ہے۔ آپ کا علم بہت کم ہے۔

مگر اس عقیدت اور محبت کی انتہا کیا ہونی چاہیئے ۔
اتنی کہ اپنے نفس سے زیادہ۔ یہی رسول نے بتایا ہے۔

صادق و امین کی بات کو کس طرح الرحمن اور المومن کے ساتھ ملایا ہے ۔ یہ واقعی بہت دل گردے کا کام ہے ۔
جیسے سیاہ رنگ کو کعبہ، ہرے رنگ کو گنبد خضرا، رحمن و مومن کو اللہ سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح صادق ہونا اپنی استطاعت کے مطابق ہے اور امین ہونا بھی استطاعت کے مطابق ہے۔ اسے رسول ص سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ رسول ص کامل صادق و امین ہیں۔

اُنہیں میں کہوں گا کہ وہ آپ کی طرف متوجہ ہوں ۔ فکر نہ کریں ۔
یہی باتیں تو آپکو حق میں آڑے آرہی ہیں۔

آپ اپنی تاریخ بیان کررہے ہیں ۔
آپ ہر شئے کو نفرت سے دیکھ رہیں۔ ساری تاریخ ہی پڑھ لیں چلیں۔

وہ آل محمد ص کریں گے۔

آپ نے تو جھگڑا ہی ختم کردیا ۔
آپ کو تلاش حق نہیں، تلاش مک مکا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
میرا خیال ہے کہ یہ دھاگہ اب مقفل ہونا چاہیئے کہ یہ بندہ اخلاقیات کی دھجیاں اتار رہا ہے۔ سب کو کم عقل کہہ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے ۔ ایک علمی بحث اس سے ہونہیں سکتی ۔ حجت پر حجت قائم کر رہا ہے ۔
دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہا ہے ۔ مجھے تو حیرت ہے تمام احباب نے کس طرح اس شخص کی بداخلاقی کوبرداشت کیا ہے ۔ اسے گفتگو کے آداب آنے چاہیئں ۔ ورنہ اس کو بھی پہلے کی طرح اس طرح کی گفتگو کرنے والوں کی طرح معطل کردیا جائے ۔ اسے اپنا موقف عزیز ہے ۔ دوسروں کا تو پڑھتا ہی نہیں سمجھے گا کیا ۔
میں تو پوری طرح ہر موقف پڑھتا ہوں۔ ہاں لوگوں کو انکی منزل پر اتار دیتا ہوں تاکہ وقت ضایع نہ ہو اور وہ سدھر بھی جائیں۔
 
دورد شریف کے مختلف الفاظ اور صیغے احادیث میں منقول ہیں، ان کے پیشِ نظر درود شریف میں "صَلَّیٰ" (لام کے زبر کے ساتھ) اور "صَلِّ" (لام کے زیر کے ساتھ) دونوں صیغے مستعمل ہیں، اور دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
ظاہر ہوا کہ آپ عربی زبان سے بنیادی واقفیت بھی نہیں رکھتے۔میرے پوسٹ کردہ مراسلے میں صلیَتَ اور بارَکتَ کے الفاظ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ماضی کے صیغے ہیں۔ ان افعال ماضی كا فاعل اللہ ہے ۔ صلیت کے معنی تو نے رحمت کی اور بارکت کے معنی تو نے برکت دی ۔ جیسے سورہ فاتحہ میں انعمت کے معنی تو نے نعمت کی یا انعام کیا۔انعمت بھی فعل ماضی کا صیغہ ہے ۔ آپ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق صلََ اور صلِ کی بات کرنے لگے۔جناب ، یہ تو فعلِ امر ہیں ۔ ان کا میرے مراسلے کے نکتے سے کیا تعلق؟
 
اس کم عقل سے پوچھیں رسول ص خود جب درود پڑھتے تھے تو وہ بھی ماضی کے صیغے کا ہو گا سو وہی چالاکی جو یہ کم عقل اس مضمون میں کر رہا ہے وہاں اطلاق کرنے کی جسارت کرتا۔ لاحول ولا۔ ضلوفضلو۔
جی جناب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں بالکل یہی درود پڑھا کرتے تھے کہ جو انہوں نے اپنے صحابہ کو سکھایا اور اب پوری امت وہ درود ابراہیمی اسی طرح پڑھتی ہے ۔ وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ جس طرح تونے ابراہیم اور اس کی آل پر رحمت کی ۔۔۔۔۔ برکت کی ۔ الخ
صلیت اور بارکت فعل ماضی نہیں تو پھر کیا ہیں؟

آپ ذرا سی بنیادی عربی تو سیکھ لیجیے ۔
 

سید رافع

محفلین
افسوس کہ دوسروں کی طرح میں بھی آپ کے اصل پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہوں-
میں تو پکار والے طاہر لبوں کی جانب ہی متوجہ ہوں لیکن آپ کا سارا زور سن کر نہ ماننے والے کی حرمت پر لگا ہوا ہے۔
تمھیں شعور نہیں۔ نا ہی تمھارے ہاتھ کوئی فرقان ہے۔ تم سب کی عزت سے شروع کرو۔ یہاں تک کہ کنعان بن نوح کی کہ نوح نے بہرحال انہیں اپنی کشتی کی طرف پکارا تھا۔
میرا زور آپکو فلسفے کے بجائے اصل حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے جو ہے اخلاص۔ آپ کو توحید جس کی موجودگی میں انسان اس قدر واقف حق ہو جاتا ہے کہ بصیرت نہ کہ برین واشنگ کی وجہ سے اپنی جان تک لٹا دیتا ہے اور ہر تکلیف برداشت کر لیتا ہے، اس سے واقف کرانا ہے۔ اسکے لیے آپ کو سفر شروع کرنا ہو گا۔ زبانی جمع خرچ نہیں۔ پھر آل محمد ص سے محبت کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اسی لیے کنعان بن نوح کی سماعت کی خباثت کے بجائے سیدنا نوح ع کی پکار پر فی الحال توجہ رکھنے لیے کہا تھا۔ لیکن آپ ٹہرے فلسفے کے مریض۔

یہ یاد رکھیں کہ نوح گمراہ نہ تھے

آپ ایک نبی کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ آپ حقیقی سید ہیں
الفاظ کو دیکھنے کا مسئلہ تیسری دفعہ آیا ہے۔ یہی فلسفیانہ ذہن اور منفی سوچ تو آپ کی اصل دشمن ہے۔ اسی نے آپ کا ایمان ایک بونے نما بنا دیا ہے۔ آپ مطلب پر توجہ رکھتے ہیں، مراد کو ہاتھ سے جانے دیتے ہیں۔ جیسے کہ کئی دن سے آل محمد ص کی محبت تو جانے دے رہے ہیں لیکن الفاظ کی گہرائی کو نہیں سمجھ رہے۔ اول تو الفاظ نہیں جملہ دیکھا جاتا ہے۔ اور جملہ نہیں پوری گفتگو دیکھی جاتی ہے۔ لیکن آپ جیسے منفی ذہن کے لڑاکو انسان سے اس دنیا میں فساد ہی آئے گا۔
 

سید رافع

محفلین
ظاہر ہوا کہ آپ عربی زبان سے بنیادی واقفیت بھی نہیں رکھتے۔میرے پوسٹ کردہ مراسلے میں صلیَتَ اور بارَکتَ کے الفاظ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ماضی کے صیغے ہیں۔ ان افعال ماضی كا فاعل اللہ ہے ۔ صلیت کے معنی تو نے رحمت کی اور بارکت کے معنی تو نے برکت دی ۔ جیسے سورہ فاتحہ میں انعمت کے معنی تو نے نعمت کی یا انعام کیا۔انعمت بھی فعل ماضی کا صیغہ ہے ۔ آپ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق صلََ اور صلِ کی بات کرنے لگے۔جناب ، یہ تو فعلِ امر ہیں ۔ ان کا میرے مراسلے کے نکتے سے کیا تعلق؟
آپ معلوم ہوتا ہے درس نظامی سے فارغ ہیں اور کسی منصوبے پر ہیں؟ سید عمران کے دوست ہیں؟ کس مدرسے کے فارغ ہیں؟

جی ہاں، عربی زبان کی رو سے، جب ہم درود میں کہتے ہیں "اللهم صل على محمد وعلى آل محمد" تو یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ اور ان کی آل پر رحمت اور برکت نازل فرمائے۔ یہ دعا ہمیشہ کے لیے جاری رحمت اور برکت کی درخواست ہے۔

عربی میں یہ صیغہ ماضی کی شکل میں ہونے کے باوجود ایک مستقل اور جاری عمل کی طرف اشارہ کر سکتا ہے، خاص طور پر دعا اور عبادات کے سیاق میں۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ رحمت اور برکت کا سلسلہ جاری رہے، یعنی آل محمد پر آج بھی اور ہمیشہ درود بھیجا جاتا رہے گا اور اس کی برکتیں برقرار رہیں گی۔
 
جی ہاں، عربی زبان کی رو سے، جب ہم درود میں کہتے ہیں "اللهم صل على محمد وعلى آل محمد" تو یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ اور ان کی آل پر رحمت اور برکت نازل فرمائے۔ یہ دعا ہمیشہ کے لیے جاری رحمت اور برکت کی درخواست ہے۔

عربی میں یہ صیغہ ماضی کی شکل میں ہونے کے باوجود ایک مستقل اور جاری عمل کی طرف اشارہ کر سکتا ہے، خاص طور پر دعا اور عبادات کے سیاق میں۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ رحمت اور برکت کا سلسلہ جاری رہے، یعنی آل محمد پر آج بھی اور ہمیشہ درود بھیجا جاتا رہے گا اور اس کی برکتیں برقرار رہیں گی۔
جناب آپ یہ کس قسم کی بات کررہے ہیں۔ کیا آپ کو درود ابراہیمی نہیں آتا ؟ میرے پوسٹ کردہ مراسلے میں تو : کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم۔۔۔ کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم : کی بات ہورہی ہے کہ یہاں صلیت اور بارکت ماضی کے صیغے ہیں ۔ ترجمہ یہ ہے کہ جس طرح تو نے ابراہیم اور اور آل ابراہیم پر رحمت کی اور برکت دی۔ یہ ماضی ہوگیا ۔
آپ پتہ نہیں کیا کہے جارہے ہیں ۔ آپ میرے مراسلے کو پہلے پڑھ تو لیں۔ بالکل صاف طریقے سے ہر بات بیان کردی ہے ۔ میں دوبارہ پوسٹ کردیتا ہوں ۔
 

سید رافع

محفلین
جناب آپ یہ کس قسم کی بات کررہے ہیں۔ کیا آپ کو درود ابراہیمی نہیں آتا ؟ میرے پوسٹ کردہ مراسلے میں تو : کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم۔۔۔ کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم : کی بات ہورہی ہے کہ یہاں صلیت اور بارکت ماضی کے صیغے ہیں ۔ ترجمہ یہ ہے کہ جس طرح تو نے ابراہیم اور اور آل ابراہیم پر رحمت کی اور برکت دی۔ یہ ماضی ہوگیا ۔
آپ پتہ نہیں کیا کہے جارہے ہیں ۔ آپ میرے مراسلے کو پہلے پڑھ تو لیں۔ بالکل صاف طریقے سے ہر بات بیان کردی ہے ۔ میں دوبارہ پوسٹ کردیتا ہوں ۔
آپ معلوم ہوتا ہے درس نظامی سے فارغ ہیں اور کسی منصوبے پر ہیں؟ سید عمران کے دوست ہیں؟ کس مدرسے کے فارغ ہیں؟
 
آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : کون اور کیسے؟


ایک سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ کہ آیا آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد ان کے اہلِ خاندان ہیں یا پھر ان کی پشت سے چلنے والی اور قیامت تک آنے والی تمام نسل کو آلِ رسول کہا جائے گا۔ اس سوال کا جواب خود اُس درود یعنی درودِ ابراہیمی کے اندر موجود ہے جسےتمام مسلمان صلوٰۃ میں سلام پھیرنے سے پہلے تشہد میں پڑھتے ہیں ۔
درود ِ ابراہیمی تو سب کو زبانی یاد ہے اس لیے اسے درج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ درود کا ترجمہ البتہ درج ذیل ہے: اے اللہ!محمد اور آلِ محمد پررحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پررحمت نازل فرمائی ۔ اے اللہ! حمد اور آلِ محمد پربرکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پربرکت نازل فرمائی۔

اس درود سے دو باتیں بالکل صاف اور بغیر کسی شک و شبے کے واضح ہوگئیں۔
1۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ درود میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی صلیت اور بارکت ۔ یعنی یہ کام ماضی میں ہوچکا ۔ رحمت اور برکت ہونے کا واقعہ گزر چکا ۔ یہ بات پوری ہوچکی ۔
2۔ دوسری بات اس درود سے یہ واضح ہوئی کہ ہر مسلمان اللہ سبحانہ و تعالٰی سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ اے اللہ ، تو محمد اور آلِ محمد پر اُسی طرح رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل فرمائی تھی۔ یعنی نہ اُس سے کم نہ اُس سے زیادہ ۔بلکہ بالکل ویسے ہی رحمت اور برکت جیسے تو نے ان پر نازل فرمائی۔

بالکل واضح اور ہر شک و شبے سے بالا تر اِن دو مندرجہ بالانتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب مندرجہ ذیل حقائق پر غور کیجیے:
1۔ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ، داد ، پردادا ، سگڑ دادا ، چچا ، تایا وغیرہ بلکہ پورا قبیلۂ قریش ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھا ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ قبیلۂ قریش اور ان کے آبا و اجداد کئی صدیوں سے بت پرست مشرکین اور کافر چلے آتے تھے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی تھی اگر ہوتی تو یہ سب مشرک اور بت پرست نہ ہوتے۔(نوٹ: بقول اللہ سبحانہ تعالیٰ ابراہیم مشرکین میں سے نہیں تھے۔)
2۔ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے بہت سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے۔ وہ مشرک رہے اور مشرک مرے۔ آپ کے سگے چچا ابو لہب سامنے کی مثال ہیں ۔ سو یہ بات بھی چابت ہوئی کہ ان گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہ لوگ آلِ رسول کہلائے جائیں گے کہ جو مسلمان ہوگئےہوں ۔
ان حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آلِ رسول سے مراد رسول کے گھر والے اور اہلِ خاندان مراد ہیں۔ ان کے بعد آنے والی نسلیں آل میں شامل نہیں ہوتی ہیں ۔ اگر بعد میں آنے والی تمام نسلوں کو آلِ رسول مان لیا جائے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں یعنی اسحاق اور اسماعیل سے چلنے والی ، صدیوں پر محیط تمام کی تمام نسلیں آلِ ابراہیم ہوں گی اورپھر قبیلہ قریش اور ان کے آبا و اجداد بھی آلِ ابراہیم میں شامل ہوں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ سب تو کئی صدیوں سےبت پرست مشرک اور ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا تھے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ آلِ ابراہیم سے مراد ان کے گھر والے اور اہلِ خاندان تھے کہ جن پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رحمت اور برکت نازل فرمائی ۔ابراہیم کے بیٹوں نے دینِ ابراہیمی کی تبلیغ کی اور کعبے یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی۔ اللہ کے لیے ہجرت کی اور نیا شہر بسایا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب باتیں اللہ کی رحمت اور برکت کے مظہرات ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ بعد میں آنے والی تمام نسلیں بھی آل میں شامل ہوتی ہیں تو پھر درود میں اللہ تعالٰٰی نے آلِ ابراہیم کے لیے ماضی کا صیغہ کیوں استعمال کیا ۔اگر آلِ ابراہیم ابھی تک جاری ہے تو پھر یہ کہنا چاہیئے تھا کہ: جس طرح تو آلِ ابراہیم پر رحمت اور برکت نازل کررہا ہے:

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ درود میں آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہا گیا ہے ۔ اگر آل سے مراد تمام آنے والی نسلیں ہوتیں تو پھر دو الگ گروہوں کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت؟؟ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود آلِ ابراہیم ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل بھی آلِ ابراہیم ہی ہوگی ۔ یعنی پھر تو قیامت تک آلِ ابراہیم ہی چلے گی ۔جب درود میں اللہ تعالیٰ آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو دو الگ الگ گروہ کہہ کر بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آل سے مراد ان دو انبیا کے گھر والے اور اہلِ خاندان مرادہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ لوگوں کے ہیں۔ ابراہیم کی آل گزر چکی ، اس پر رحمت اور برکت ہوچکی ۔ یہ بات ماضی ہوگئی ۔ اب ہم اللہ سے محمد اور آلِ محمد کے لیے اپنے درود میں ویسی ہی رحمت اور برکت کی دعا مانگ رہے ہیں کہ جیسی ُس نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر ماضی میں فرمائی ۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ گھر والوں اور اہلِ خاندان میں سے بھی صرف وہی لوگ آلِ رسول اور ہمارے درودکے مستحق ہوں گے کہ جو اسلام لے آئے اور درست راستے پر رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا ابو لہب یقیناً آلِ محمد میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا درود ان کے لیے ہے۔قریش اور بنی ہاشم کے جو لوگ اسلام نہیں لائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے ہوتے ہوئے بھی آلِ رسول نہیں ہیں ۔

المختصر یہ کہ آلِ رسول سے مراد ان کے مسلمان گھر والے اور اہلِ خاندان ہوتے ہیں ۔ آلِ رسول ان کے بعد کی آنے والی نسلوں کو نہیں کہا جاتا ۔اب آپ خود ہی سوچیے کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے کچھ لوگ اگر یہ کہیں کہ ہم آلِ محمدہیں تو پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تو پھر آلِ ابراہیم کہاں گئے؟
بالفرض محال اگر ان کو آلِ رسول مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ان کا عقیدہ اور اعمال دیکھے جائیں گے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے درست راستے پر چلنے والے مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟اگروہ مشرکانہ عقائد اور بدعتی اعمال میں مبتلا ہوں ، فسق و فجور میں ملوث ہوں تو انہیں آلِ رسول کیونکر اور کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے اپنے سگے رشتے داروں کو بشمول ابو لہب اپنی آل نہیں کہا ۔
تو گویا کسی بھی شخص کے حسب نسب ، رشتے داری اور قرابت داری کا معاملہ تو بعد میں اٹھے گا پہلے تو اس کا عقیدہ ، اعمال اور یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ دینِ محمد کے درست راستے پر ہے بھی یا نہیں ۔ اگر ہے تو سب
سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اگر نہیں ہے تو پھر بات ختم ۔ خلاص ! اب وہ خواہ رسول کا چچا ہو یا رسول کا کزن ، کچھ فرق نہیں پڑتا۔

یہ چند سامنے کے اور عقلی دلائل درودِ ابراہیمی سے اس لیے دیئے ہیں کہ بہت سارے لوگ اس درود کا ذکر کرکے اپنی سیادت کو چمکانے اور اس سے وہ فوائد اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے دین نے انہیں تفویض کیے ہی نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی قرآن اور متعدد احادیث میں آل سے متعلق اس مسئلے کی بہت صاف انداز میں وضاحت کی گئی ہے ۔ ان براہین کے بعد سمجھنے اور ماننے والے کسی ذہن میں کو ئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ لیکن ایک خاص گمراہ اور مشرک فرقے کے لوگ آلِ رسول کے اس مسئلے کو (اور اسی طرح کے کئی بے اصل اور بے سروپا موضوعات کو)ایک بنیادی اور اہم نکتہ بنا کر ہرزہ سرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد بھی صاف ظاہر ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالٰی ہم سب کو حقیقت کو سننے ، سمجھنے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(واٹس ایپ سے منقول)
 

علی وقار

محفلین
آپ عزت رشوت کے طور پر کرتے ہیں بلکہ کم ہمتی کے باعث۔
مرشد سائیں، کم ہمتی بد زبانی سے بدرجہا بہتر ہے۔

دراصل، اپنی تربیت ہی ایسی نہیں ہوئی کہ سخت بات کہوں۔ اور، سخت بات سننے سے بچنا بھی چاہتا ہوں۔ آپ اسے کم ہمتی کہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہے۔
 

سید رافع

محفلین
مرشد سائیں، کم ہمتی بد عقیدگی سے بدرجہا بہتر ہے۔

دراصل، اپنی تربیت ہی ایسی نہیں ہوئی کہ سخت بات کہوں۔ اور، سخت بات سننے سے بچنا بھی چاہتا ہوں۔ آپ اسے کم ہمتی کہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہے۔
دیکھیں اخلاق تعلقات بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ نامعلوم آپ ہر ایک سے کیوں تعلق بڑھانا چاہتے ہیں؟ پھر کیامیں سب کو اپنے نزدیک بلا کر ان کے ساتھ ہنسی مذاق کروں گا یا گپ شپ کروں گا؟ یا ان سے مالی یا دیگر منفعت حاصل کروں گا؟ اس طرح کے سب سے بہترین اخلاق تجار کے ہوتے ہیں تاکہ تجارت بڑھے۔

سخت بات وہ کیا ہوتی ہے؟ یہ کہ کسی کو تم کہہ کر مخاطب کر لیا جائے؟ یا کم فہمی ظاہر ہونے کے بعد اسے کم عقل کہہ دیا جائے؟ ایسی تکلف آپ ہی روا رکھیں اور سب کو خوش رکھیں۔
 

علی وقار

محفلین
مجھے تو حیرت ہے تمام احباب نے کس طرح اس شخص کی بداخلاقی کوبرداشت کیا ہے ۔
چچا غالب فرما گئے،
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

محفل میں ویرانی چھائی تھی کہ یکا یک مرشدی کے تاگہء پُر انوار نے چہار سُو روشنیاں بکھیر دیں۔ یہ الگ بات کہ اب آنکھیں چندھیا سی گئی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ پیر ناکامل کے رخصت ہو جانے کے بعد محفل ایک پھر ویران سرائے کا منظر پیش کرنے لگ جائے۔ اس لیے، ہم تو نیک طینت بزرگ کے فرمودات سے بہرہ ور ہو رہے ہیں اور یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ آنجناب جو فرمائیں گے، اس کے بالکل برعکس عمل کیا کریں گے تاکہ ان کی شان اور انفرادیت قائم رہے۔
 
Top