مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر سید تمہارے جیسے ہی لوگ ہیں اور جیسے تمہارے خاندان و آل اولاد میں ہیں
سید ہمارے جیسے لوگ ہیں
بد دیانتی کرنے والوں سے کیا بات ہو۔
پہلے آپ اپنے آپ کو اقوال و افعال میں درست کر لیں پھر کوئی اور بات ہو گی۔
گالم گلوچ اور کینہ پروری کا مرض آپ کو لاحق ہے اس کا کسی اچھے طبیب سے علاج کروائیں پھر آپ سے بات ہو سکے گی۔ تب تک کے لیے والسلام ۔
 

سید رافع

محفلین
انبیاء علیہم السلام ، اللّٰہ پاک کے چنیدہ اشخاص ہوتے ہیں۔
انبیاء کے بھی تو ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، نکاح کرتے ہیں اور اولاد ہوتی ہے۔ اس کا پتہ کیسے چلے گا کہ وہ چنیدہ ہیں؟ بس وہ کہہ دیں اور ہم مان لیں؟
 

سید رافع

محفلین
بد دیانتی کرنے والوں سے کیا بات ہو۔
پہلے آپ اپنے آپ کو اقوال و افعال میں درست کر لیں پھر کوئی اور بات ہو گی۔
گالم گلوچ اور کینہ پروری کا مرض آپ کو لاحق ہے اس کا کسی اچھے طبیب سے علاج کروائیں پھر آپ سے بات ہو سکے گی۔ تب تک کے لیے والسلام ۔
کیا بددیانتی کی؟ بھاگو نہیں۔ اس بات کا جواب دو کہ کیوں میں زکوۃ نہیں لے سکتا اور تم لے سکتے ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت عطا کرنے کے بعد چند نصیحتیں کیں جن میں سے ایک درج ذیل ہے:
اس ملک (مہار شریف ، پنجاب) میں جب تم مستقل طور پر سکونت پذیر ہو جاو گے تو تمہاری طرف سادات ، حضرت گنج شکر کی اولاد اور علماء و فقراء رجوع کریں گے۔ اُن کا ادب و احترام بجا لانا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا۔
بحوالہ: حضرت قبلہ عالم احوال و مناقب از پروفیسر افتخار احمد چشتی ، صفحہ 143، چشتیہ اکادمی فیصل آباد
 

La Alma

لائبریرین
بحثیت مسلمان یہ گفتگو پڑھ کر کر دلی رنج ہوا۔
ایسی زکوٰۃ کا نہ لینا ہی بہتر، جس میں ضرورت مندوں کی عزتِ نفس کو مجروح کیا جاتا ہو۔ انکو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہو۔ حیرت ہے کہ ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر یہ تفریق آج بھی قائم ہے۔ کالے گورے اور عربی عجمی کا فرق، جو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا، وہ کسی اور صورت میں مسلمانوں میں آج بھی موجود ہے۔ افسوس صد افسوس!!
 
خواجہ شمس العارفین نے فرمایا کہ سید کی تعظیم دوسروں پر واجب ہے۔ بندہ نے عرض کیا کہ اگر سید زادہ خلاف شرع کرتا ہو ، تو اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
فرمایا: اس صورت میں بعض علما کے نزدیک تعظیم جائز نہیں ، لیکن فقیر کے خیال میں سادات کی تعظیم محض رسولِ خدا کی نسبت کی وجہ سے کرنی چاہیے نہ کہ ان کے علم اور تقوی کی وجہ سے۔
بحوالہ: مرات العاشقین، اردو ترجمہ ملفوظات خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ، مجلس 4: تعظیم و تکریمِ سادات ، صفحہ 37
حدیث ثقلین رسول اللہ کی ایک مشہور اور متواتر حدیث ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: "میں تمھارے درمیان میں اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت یا اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں۔ قرآن اور اہل بیت قیام قیامت تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے"۔ سنن نسائی۔

جناب سید رافع صاحب ، جناب الف نظامی صاحب!
سادات کی تعظیم درست اور اہلِ بیت کی تعظیم و تکریم ایمان کا حصہ۔
لیکن جناب اب بھی اس بیان کی دلیل نہیں ملی کہ:
حقیقی آل محمد ﷺ کے قلب تک گناہ کا اثر نہیں پہنچتاچاہے زنا و چوری ہی میں کیوں نہ مبتلا ہو۔
صرف ایک بزرگ کے قول سے الف نظامی صاحب نے یہ بتایا کہ گنہگار سید کی تعظیم کرنے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
آپ فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیں جب تک اس بیان کی دلیل نہیں آئے گی آپ پر بار رہے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین

اربش علی

محفلین
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا

ہم سےقتیبہ بن سعید نےبیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سےعروہ نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

(صحیح بخاری: 3475)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا

ہم سےقتیبہ بن سعید نےبیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سےعروہ نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

(صحیح بخاری: 3475)
ان صاحب کو اب بھی سمجھ آنے کا نہیں۔ انہوں نے تو قرآن کی آیت کا بھی اپنا مفہوم گھڑ رکھا ہے اس حدیث کا بھی گھڑ لیں گے۔
 

سید رافع

محفلین
جناب سید رافع صاحب ، جناب الف نظامی صاحب!
سادات کی تعظیم درست اور اہلِ بیت کی تعظیم و تکریم ایمان کا حصہ۔
لیکن جناب اب بھی اس بیان کی دلیل نہیں ملی کہ:
حقیقی آل محمد ﷺ کے قلب تک گناہ کا اثر نہیں پہنچتاچاہے زنا و چوری ہی میں کیوں نہ مبتلا ہو۔
صرف ایک بزرگ کے قول سے الف نظامی صاحب نے یہ بتایا کہ گنہگار سید کی تعظیم کرنے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
آپ فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیں جب تک اس بیان کی دلیل نہیں آئے گی آپ پر بار رہے گا۔
قلب کیا ہوتا ہے؟ جہاں اثر پہچنے کی بات ہے۔
 

اربش علی

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: '' یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔
حضور صلی الله علیه و آله و سلم نے یہ حکم اس لیے دیا تھا کیوں کہ اگر بنی ہاشم کو زکوٰۃ قبول کرنے کی اجازت دے دی جاتی، تو یقینی تھا کہ بہت سے لوگ حضور صلی الله علیه و آله و سلم کے خاندان کے احترام میں فقط انھیں کو زکوٰۃ دینا شروع کر دیتے، اور بعد میں حضور صلی الله علیه و آله و سلم پر الزام اٹھتا کہ آپ نے زکوٰۃ کا نظام نعوذ باللہ اپنے خاندان کو کھِلانے کے لیے شروع کیا۔
 
قلب کیا ہوتا ہے؟ جہاں اثر پہچنے کی بات ہے۔
آپ قلب کا جو مرضی مطلب لے لیں۔ بس ان گناہوں کی حقیقی سادات کے ساتھ وابستگی ثابت کردیں جس کی وجہ آپ کا یہ بیان بن گیا جو آج کے سادات کو غلط فہمی میں ڈال رہاہے۔ (لیکن تاریخِ اسلام سے)۔
 

سید رافع

محفلین
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا

ہم سےقتیبہ بن سعید نےبیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سےعروہ نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

(صحیح بخاری: 3475)
اس حدیث کو یہاں آپ کے پیش کرنے کا مقصد؟
 

اربش علی

محفلین
اس حدیث کو یہاں آپ کے پیش کرنے کا مقصد؟
اگر آپ اپنے گذشتہ مراسلے پڑھیں تو مقصد واضح ہو جائے گا۔
حقیقی آل محمد ﷺ کے قلب تک گناہ کا اثر نہیں پہنچتاچاہے زنا و چوری ہی میں کیوں نہ مبتلا ہو۔
آپکو بہت سے ایسے سید مرد و عورت مل جائیں گے جو قبیح جرم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔انکی سزا بھی وہی ہے جو اسلام میں ہر ایک کے لیے ہے۔
آل محمد ﷺ کے لیے اللہ نے بہت سے فطری اسباب دھبوں سے طہارت کے لیے رکھے ہوئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ہرمسلمان ہر صلوۃکے آخر میں درود پڑھ رہا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
آپ قلب کا جو مرضی مطلب لے لیں۔ بس ان گناہوں کی حقیقی سادات کے ساتھ وابستگی ثابت کردیں جس کی وجہ آپ کا یہ بیان بن گیا جو آج کے سادات کو غلط فہمی میں ڈال رہاہے۔ (لیکن تاریخِ اسلام سے)۔
کیونکہ نہ تم علم کی راہ سے آ رہے ہو اور نہ ہی محبت کا قرینہ تمھیں قبول ہے سو تمہاری پریشانی اور حیرانگی بڑھانے کے لیے یہ عرض ہے کہ کنعان سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا لیکن کافر تھا۔
 

سید رافع

محفلین
بحثیت مسلمان یہ گفتگو پڑھ کر کر دلی رنج ہوا۔
ایسی زکوٰۃ کا نہ لینا ہی بہتر، جس میں ضرورت مندوں کی عزتِ نفس کو مجروح کیا جاتا ہو۔ انکو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہو۔ حیرت ہے کہ ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر یہ تفریق آج بھی قائم ہے۔ کالے گورے اور عربی عجمی کا فرق، جو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا، وہ کسی اور صورت میں مسلمانوں میں آج بھی موجود ہے۔ افسوس صد افسوس!!
لیکن جو فرق انہی رسول عربی ﷺ نے رکھے انکو بھی مٹا دیں؟
 
Top