مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

سید رافع

محفلین
چڑ ہرگز نہیں ہے کسی سے بھی۔ وارد سے میری مراد یہ تھی کہ جو اہلبیت کا وطن تھا وہاں تو سید لفظ صرف کسی کو عزت دینے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے۔ہندوستان میں یہ آلِ رسول کی نسبت کے لیے کس نے استعمال کرنا شروع کیا؟ کیا آلِ رسول نےخود اپنے لیے یہ لفظ چُنا یا ان کے عقیدت مندوں نے انہیں عزت دینے کے لیے استعمال کیا۔ کیونکہ خاندانی طور پر تو ان کو یا علوی یا فاطمی یا ہاشمی کہا جاسکتا ہے۔
عربی اور فارسی لفظ "سید" کے معنی "آقا"، "مالک"، یا "سردار" کے ہیں۔ ہند کی اردو زبان کے الفاظ ترکی کے علاؤہ ان دو زبانوں سے آئیں ہیں۔ ترک خلافت عثمانیہ میں شریف امام حسن ع اور سید امام حسین ع کو کہنے کا عام رواج تھا۔ کیونکہ ہند کے مسلمان اس خلافت کو مانتے تھے تو فارسی اور اردو کی کتابوں میں رائج الفاظ نقل ہوتے گئے اور زبان زد عام ہو گئے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سادات کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہونے سے بچا جائے...
ان کی نسبت اولاد رسول ہونے کے باعث ہر مسلمان کو ان سے محبت کرنی چاہیے، ان کا ادب و لحاظ کرنا چاہیے...
یہ تو ہوئی عام حالات کی بات...
خاص حالات میں اگر کوئی سید بدلحاظ ہو، سامنے والے کو ایذا پہنچائے، یا بہت بددین ہو تو بھی...
ان کو ستانے کے بجائے درگزر والا معاملہ کریں اور ان سے الگ ہوجائیں. تاکہ نہ آپ کو ان سے ایذا پہنچے نہ ان کو آپ سے...
اس کے علاوہ باقی سب معاملات میں سادات ہر مسلمان کے برابر ہیں .اگر ان میں دین کی کوئی کمزوری ہے یا دنیا میں کوئی کمزور ہے تو ان کو ضرور سمجھایا جائے گا، نصیحت کی جائے گی جیسا ہر مسلمان کو اچھے انداز سے کی جاتی ہے...
شریعت کے لیے سید غیر سید سب برابر ہیں. جرم پر سب کو یکساں سزا ملے گی. اور گناہ پر یکساں پکڑ...
دوسروں کے لیے تو سید کا لحاظ کرنا ضروری ہے لیکن سید کے لیے خود کا دوسروں سے ادب کروانا یا اس بات کا منتظر رہنا کہ دوسرے ان کا ادب کریں بالکل مناسب نہیں...
اللہ کی نظر میں محبوب وہی ہے جو ان کی شریعت پر زیادہ عمل کرے. یہی وجہ ہے کہ غیر سید خدا کے قرب میں عبادات و تقوی کی برکت سے لاکھوں سید سے آگے بڑھ گئے...
خدا کی طرف سے ان کا محبوب بننے کا قاعدہ کلیہ یہی ہے...
ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم.....!!!
 

سید رافع

محفلین
ایک مسلمان کے اسی گناہ پر اظہار بیزاری ہو رہا ہے کہ اس نے دین کو کھیل تماشا اور فلسفے کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ دین اخلاص کا نام ہے اور ہرگز فلسفہ نہیں۔

جنہوں نے طائف کے سفر میں
وہ کفار تھے۔ یہ مسلمان ہیں۔ یہ شغل کرتے مسلمان ہلکے پھلکے زبان کے نشتر سے عقل اور اخلاص کی راہ راست پر آجائیں گے۔ پھر شہد پلائیں۔ پہلے کھینچ کر میٹھے جھرنے اور دریا تک لانا ہو گا۔ انکے ساتھ فلسفہ فلسفہ نہ کھلیں۔ ڈانٹ پلا دیں تاکہ کم از کم چشتی سلسلے کی قوالی سننے میں ہی لگیں۔ اس خیال سے کہ آزادی سے صرف گانے سننے چھوڑنا ہی ہو گا تاکہ قرآن سمجھنے کے لیے وقت ملے۔
 

علی وقار

محفلین
ایک مسلمان کے اسی گناہ پر اظہار بیزاری ہو رہا ہے کہ اس نے دین کو کھیل تماشا اور فلسفے کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ دین اخلاص کا نام ہے اور ہرگز فلسفہ نہیں۔


وہ کفار تھے۔ یہ مسلمان ہیں۔ یہ شغل کرتے مسلمان ہلکے پھلکے زبان کے نشتر سے عقل اور اخلاص کی راہ راست پر آجائیں گے۔ پھر شہد پلائیں۔ پہلے کھینچ کر میٹھے جھرنے اور دریا تک لانا ہو گا۔ انکے ساتھ فلسفہ فلسفہ نہ کھلیں۔ ڈانٹ پلا دیں تاکہ کم از کم چشتی سلسلے کی قوالی سننے میں ہی لگیں۔ اس خیال سے کہ آزادی سے صرف گانے سننے چھوڑنا ہی ہو گا تاکہ قرآن سمجھنے کے لیے وقت ملے۔
صدقے!
 

سید رافع

محفلین
سادات کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہونے سے بچا جائے...
ان کی نسبت اولاد رسول ہونے کے باعث ہر مسلمان کو ان سے محبت کرنی چاہیے، ان کا ادب و لحاظ کرنا چاہیے...
یہ تو ہوئی عام حالات کی بات...
خاص حالات میں اگر کوئی سید بدلحاظ ہو، سامنے والے کو ایذا پہنچائے، یا بہت بددین ہو تو بھی...
ان کو ستانے کے بجائے درگزر والا معاملہ کریں اور ان سے الگ ہوجائیں. تاکہ نہ آپ کو ان سے ایذا پہنچے نہ ان کو آپ سے...
اس کے علاوہ باقی سب معاملات میں سادات ہر مسلمان کے برابر ہیں .اگر ان میں دین کی کوئی کمزوری ہے یا دنیا میں کوئی کمزور ہے تو ان کو ضرور سمجھایا جائے گا، نصیحت کی جائے گی جیسا ہر مسلمان کو اچھے انداز سے کی جاتی ہے...
شریعت کے لیے سید غیر سید سب برابر ہیں. جرم پر سب کو یکساں سزا ملے گی. اور گناہ پر یکساں پکڑ...
دوسروں کے لیے تو سید کا لحاظ کرنا ضروری ہے لیکن سید کے لیے خود کا دوسروں سے ادب کروانا یا اس بات کا منتظر رہنا کہ دوسرے ان کا ادب کریں بالکل مناسب نہیں...
اللہ کی نظر میں محبوب وہی ہے جو ان کی شریعت پر زیادہ عمل کرے. یہی وجہ ہے کہ غیر سید خدا کے قرب میں عبادات و تقوی کی برکت سے لاکھوں سید سے آگے بڑھ گئے...
خدا کی طرف سے ان کا محبوب بننے کا قاعدہ کلیہ یہی ہے...
ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم.....!!!
یہ کل کا کل بے جان فلسفہ ہے۔ حالانکہ ایک بھی غیر سید کسی سید کے بغیر آج تک مقبول نہیں ہوا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ‎ (52:21)

اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی) (درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا
( طاہر القادری )
---
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے
(ابو الاعلی مودودی)
---
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
(فتح محمد جالندھری)
---
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں
(احمد رضا خان)
---
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے
(جوناگڑھی)

شریعت کے لیے سید غیر سید سب برابر ہیں. جرم پر سب کو یکساں سزا ملے گی. اور گناہ پر یکساں پکڑ...
السلام علیکم محترم سید عمران صاحب ، مندرجہ بالا آیت اور اس کے مختلف علماء کی طرف سے تراجم ملاحظہ ہوں۔ کیا اس آیت سے ہم سادات کی امتیازی حیثت اخذ کر سکتے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 123 پر درج ہے:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب حسن کو ابنی ھذا سید فرمایا ، اسی طرح حضرتِ فاطمہ کو سیدۃ نسآء اھل الجنۃ فرمایا

عرب میں سید کا لفظ بمعنی نسب استعمال نہیں ہوتا۔

صفحہ 124 پر درج ہے:
آج بھی عرب ممالک میں اولادِ رسول کو سید کے بجائے شریف کہا جاتا ہے اور ہمارے ہند و پاک میں انہیں سید یا آل رسول کہا جاتا ہے۔

صفحہ 132 پر درج ہے:
مجموعی طور پر حسنینِ کریمین کو سیدا شباب اھل الجنۃ کے الفاظ سے یاد فرمایا۔

بحوالہ: لفظ سید کا پس منظر ، کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر ، صفحات :123,124,132
کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر ،صفحہ 161 پر لکھا ہے:
لفظ سید کے اطلاق میں علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح:
ترجمہ:سادات فاطمیہ کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ اصطلاح میں شریف کا اطلاق اُن پر ہوتا ہے نہ کہ اُن کے غیر پر۔ علامہ جلال الدین سیوطی ، اپنے رسالے میں جس کا نام زینبیہ ہے ، یوں لکھتے ہیں: شریف (یعنی سید) کے اسم کا اطلاق صدر اول میں ہر اس آدمی پر کیا جاتا تھا جو اہل بیت سے ہو۔ چاہے وہ حسنی ، حسینی ہو یا علوی ہو۔ جو محمد بن حنفیہ کی اولاد سے ہیں یا ان کے علاوہ جو بھی علی بن ابی طالب کی اولاد سے ہو یا جعفر طیار کی اولاد سے ہو ، جنہیں اس نسبت سے جعفری کہا جاتا تھا ، یا جناب عقیل کی اولاد ہو جو عقیلی کہلاتے تھے یا حضرت عباس کی اولاد سے ہوں ، جو عباسی کہلاتے ہیں ، اسی لیے علامہ حافظ ذہبی کی تاریخ کو ایسے القاب سے بھرا ہوا پاو گے مثلا الشریف العباسی ، الشریف العقیلی ، الشریف الجعفری اور الشریف الزینبی۔ پس جب مصر میں فاطمیوں کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے لفظ شریف (جو ہمارے ہاں سید کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے) کو فقط حسنی حسینی خانوادوں کے لئے مخصوص و محدود کر دیا ، جو آج تک مصر میں رائج ہے یعنی آج بھی مصر کے باشندے لفظِ شریف بمعنی سید اُسی آدمی کے نام کے ساتھ لکھتے یا بولتے ہیں جو جنابِ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کی صحیح النسب اولاد سے ہو۔
 

اربش علی

محفلین
وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُو۟لَ۔ٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّ۔ۧنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَٱلصَّ۔ٰلِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُو۟لَ۔ٰٓئِكَ رَفِيقًۭا

جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا اور صدّیقین اور شہدا اور صالحین ۔کیسے اچّھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسّر آئیں۔

(النساء: 69)
 

الف نظامی

لائبریرین
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ‎(9:119)‏
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ‎(9:119)‏
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو
اب یقیناً پوچھا جائے گا کہ "اہلِ صدق" کون لوگ ہوتے ہیں اور خود ہی جواب عنایت کیا جائے گا کہ "سادات"
 

اربش علی

محفلین
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ‎(9:119)‏
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو
تو کیا آپ کے مطابق صادقین سے مراد سید ہیں؟ اور غیر سید خدا نخواستہ اہلِ کذب ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
تو کیا آپ کے مطابق صادقین سے مراد سید ہیں؟ اور غیر سید خدا نخواستہ اہلِ کذب ہیں؟
میری اتنی علمی حیثیت نہیں کہ یہاں قطعیت سے کلام کر سکوں۔ مفسرین اور علمائے دین زیادہ بہتر فرما سکتے ہیں کہ آیت کا مدعا کیا ہے۔ مجھے تو صرف معیت کے لفظ ( مَعَ )نے اس آیت کو یہاں شئیر کرنے پر مائل کیا کیوں کہ آپ نے جو آیت شئیر کی اس میں آخرت میں معیت کا ذکر ہے اور اس آیت میں دنیا میں معیت کا حکم ہے۔

یعنی دنیا میں صادقین کی معیت ایک اہم امر ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔

البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ آخرت میں معیت نبیوں ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہے جب کہ دنیا میں معیت اختیار کرنے کا حکم صدیقین کے ساتھ ہے۔ یعنی اب انبیا تو تشریف لے گئے ، اور شہدا کا شہادت سے قبل معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ شہید ہوں گے تاکہ ان کی معیت اختیار کی جائے۔ باقی بچے صدیقین اور صالحین۔ اور اللہ تعالی نے دنیا میں صدیقین کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح صدیقین اور صالحین میں فرق معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کیا ہے؟
میرا خیال ہے یہ درجات کا فرق ہے۔
صدیقین کو آیت میں پہلے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان کا درجہ صالحین سے بلند ہے۔ باقی علمائے دین ، مفسرین بہتر جانتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اب یقیناً پوچھا جائے گا کہ "اہلِ صدق" کون لوگ ہوتے ہیں اور خود ہی جواب عنایت کیا جائے گا کہ "سادات"
اگر آپ کا روئے سخن میری طرف ہے تو میں یہ کہوں کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اہل صدق کون ہیں اور علمائے دین و مفسرین زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں
لہذا انہی کا لکھا ہوا درج کر رہا ہوں۔
-----
خانقاہوں، مدرسوں، مسجدوں میں رہنے والے یہ ہی تو اہلِ حق وصدق ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اپنے کردار، اعمال اور اقوال سے سچ / حق کی آواز بلند کی ہے

یہاں پر حضرات مفسرین نے ایک اور باریک نکتہ بھی بیان فرمایا کہ: ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کے بجائے ’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کیوں نہیں کہا گیا؟ اس بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ:
’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کے بجائے ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کا لفظ اختیار فرما کر عالم اور صالح کی پہچان بھی بتلادی کہ صالح/عالم صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جس کا ظاہر وباطن یکساں ہو، نیت وارادے کا بھی سچا ہو، قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔(معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)

’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ صفتِ تقویٰ حاصل کرنے لیے طریقۂ صالحین وصادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، اس میں شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت ومجالست اور ان کے مشورے کو بھی دخل تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہیے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔ (معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)

بحوالہ: جامعہ علوم الاسلامیہ ، بنوری ٹاون
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر آپ کا روئے سخن میری طرف ہے تو میں یہ کہوں کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اہل صدق کون ہیں اور علمائے دین و مفسرین زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں
لہذا انہی کا لکھا ہوا درج کر رہا ہوں۔
-----
خانقاہوں، مدرسوں، مسجدوں میں رہنے والے یہ ہی تو اہلِ حق وصدق ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اپنے کردار، اعمال اور اقوال سے سچ / حق کی آواز بلند کی ہے

ہاں پر حضرات مفسرین نے ایک اور باریک نکتہ بھی بیان فرمایا کہ: ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کے بجائے ’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کیوں نہیں کہا گیا؟ اس بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ:
’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کے بجائے ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کا لفظ اختیار فرما کر عالم اور صالح کی پہچان بھی بتلادی کہ صالح/عالم صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جس کا ظاہر وباطن یکساں ہو، نیت وارادے کا بھی سچا ہو، قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔(معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)

’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ صفتِ تقویٰ حاصل کرنے لیے طریقۂ صالحین وصادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، اس میں شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت ومجالست اور ان کے مشورے کو بھی دخل تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہیے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔ (معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)

بحوالہ: جامعہ علوم الاسلامیہ ، بنوری ٹاون
میں نے یہ "ان صاحب" کے بارے میں عرض کیا تھا جو ہر ایک کو لیکچر دیتے پھر رہے ہیں، جن کے نزدیک ہم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے بھٹکانے والے اور اکیلے وہی اجالوں کے پیامبر ہیں۔
 
محمد احسن سمیع راحلؔ یہاں پر فیس پام کی اشد ضرورت ہے۔
اللّٰہ تباہ کرے ایسے بے عقلوں کو جو قتال فی سبیل اللّٰہ پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یہی لوگ تھے جو امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کے خاندان سمیت شہادت کو درست گردانتے رہے۔
ظفری صاحب کی تشخیص 16 آنے درست معلوم ہوتی ہے...
 

سید عمران

محفلین
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ‎ (52:21)

اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی) (درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا
( طاہر القادری )
---
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے
(ابو الاعلی مودودی)
---
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
(فتح محمد جالندھری)
---
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں
(احمد رضا خان)
---
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے
(جوناگڑھی)

السلام علیکم محترم سید عمران صاحب ، مندرجہ بالا آیت اور اس کے مختلف علماء کی طرف سے تراجم ملاحظہ ہوں۔ کیا اس آیت سے ہم سادات کی امتیازی حیثت اخذ کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام
نہیں...
یہ آیت بلاتخصیص ہر نیکو کار مومن اور اس کی نیک اولاد کے لیے ہے...
اگر اولاد کے نیک اعمال والدین کے مقابلہ میں کم ہوں گے تو اللہ تعالی مراحم خسروانہ کی بدولت اس کو والدین سے ملادیں گے!!!
 
Top