مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

کچھ کیریکٹر اللہ پاک محفلوں میں ہر رنگ بھرنے کو تخلیق فرماتا ہے ۔ ایسے میں سبحان اللہ کہہ دیا کریں ۔ فیس پام کی چنداں حاجت نہیں ہے
مجھے تو یہ کچھ اس قسم کا رنگ لگ رہا ہے جو چھوٹے بچے پنسل کلر بکس میں موجود تمام پنسلوں کو ملا کر تخلیق کرتے ہیں... :)
 
مجھے تو یہ کچھ اس قسم رنگ لگ رہا ہے جو چھوٹے بچے پنسل کلر بکس میں موجود تمام پنسلوں کو ملا کر تخلیق کرتے ہیں... :)
چلو فیر کہہ دو سبحان اللہ
ہر عیب اور کمی سے پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ہر گروہ میں کچھ لوگ ایسے بنائے جو اپنی دنیا سے باہر ہر کسی کو جینے کا حق بھی اپنی صوابدید پر دینا چاہتے ہیں ۔ اللہ رسول کو مانیں گے ضرور لیکن ان کی ایک نہیں مانیں گے اپنے فلسفوں میں مست الست اپنی دنیا میں اپنے تئیں ساری دوسری دنیا کو بلا دلیل بے ایمان سمجھیں گے اور پھر بد زبانی بھی کریں گے
 

سید رافع

محفلین
مجھے مسئلہ غربت سے پیدا گھٹن کا لگتا ہے۔

خیر میں کون ہوتا ہوں۔ لیکن کافی اعلی ترین انسانوں یعنی رسولوں کو بھی طعنے ہیں دیے جا سکتے ہیں۔ آپکی آسانی کے لیے الفاظ درج کر رہا ہوں تاکہ وقت ضرورت استعمال کر سکیں۔

سورہ ص (38:86)
الْمُتَكَلِّفِينَ"
بناوٹی

سورہ الحجر (15:6):
لَمَجْنُونٌ"
دیوانہ

سورہ الفرقان (25:41):
هُزُوًا
مذاق اڑاتے ہیں

سورہ الانبیاء (21:36):
هُزُوًا
مذاق اڑاتے ہیں

سورہ التوبہ (9:61):
"وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ
اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو کان ہے (یعنی ہر بات کو سن لیتا ہے)۔

عقل سے کام لیں۔ یہ اصل ہے۔

آپ کس گروہ سے ہیں؟

جس کی راہ پر کھینچ رہے ہو اس سے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس سلسلے میں کیا کہتا ہے ۔
کیا کہتا ہے؟ آپ بتائیں۔

جو جھوٹی نہ ہوں۔ سچ جھوٹ کون بتائے گا؟

اب آل محمد ص۔

اہلبیت تو گزر گئے۔

آل محمد ص زندہ ہیں اور قیام قیامت تک آپکی ہر نماز میں سے درود میں حصہ پا رہے ہیں۔

فلسفیانہ موشگافیوں
بنو عباس کو جانتے ہیں؟ وہ یہ فلسفہ آل محمد ص سے مقابلہ کرنے اور ذہنوں کو منتشر کرنے کے لیے لائے تھے۔

مامون عباسی خلیفہ کو جانتے ہیں؟ اس نے کیوں امام رضاع آل محمد ص کو لکھ کر دیا تھا کہ میرے بعد آپ خلیفہ ہوں گے؟ ایسا اس نے کیوں کہا؟ اور کیوں اپنی بیٹی کی شادی آل محمد ص میں کی؟

بھئی کوئی بھی مسلمان مسند پر بیٹھ جائے اور قرآن کی تشریح کرے، کیا خیال ہے؟
کیا اصل میں آپ کو مختلف قسم کے لوگوں کو راہ راست پر لانے کا للہی طریقہ معلوم ہے؟

کیا آپ کے علم میں ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کی اکثریت خوارج کے اثرات کے زیر اثر ہے یا الحاد کے زیر اثر ہے؟

کیا آپ کے علم میں ہے کہ آل محمد ص مسلمان نما خوارج کو قتل تک کر دیتے ہیں۔
نہرِ نَہروان کا واقعہ 37 ہجری میں پیش آیا جب حضرت علیؓ کی خلافت کے دوران خوارج نے ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ خوارج وہ گروہ تھا جو صفین کی جنگ کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان ہونے والی ثالثی سے ناراض ہو کر علیحدہ ہو گیا تھا اور انتہا پسند نظریات کا حامل تھا۔ انہوں نے نہروان کے علاقے میں جمع ہو کر مسلم آبادی پر ظلم و ستم کرنا شروع کر دیا اور بے گناہ لوگوں کو قتل کیا۔ حضرت علیؓ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ باز نہ آئے تو حضرت علیؓ نے اپنی فوج کے ساتھ نہروان کا رخ کیا۔ ایک مختصر مگر شدید جنگ کے بعد حضرت علیؓ کی فوج نے خوارج کو شکست دی اور ان کی اکثریت کو قتل کر دیا۔ اس معرکے سے حضرت علیؓ کی حکومت کو وقتی طور پر استحکام ملا، لیکن خوارج کی باقیات نے بعد میں دوبارہ فتنہ انگیزی جاری رکھی۔

گالی گلوچ جیسے بے اصل باتیں کرتے ہیں ۔
بعض مسلمان شغل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو راہ راست پر لانے کی حکمت اور طریقہ تلوار نہیں زبان کی نوک ہے۔ دل پر چیرا لگائیں اور قلب میں موجود زہر کو رسنے دیں۔ بعد میں ان کو آل محمد ص کے میٹھے جھرنے تک لے جائیں اور شہد پلائیں۔

سورہ التوبہ (9:65-66):
"وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ * لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ"
اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہیں گے: ہم تو صرف بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دو: کیا تم اللہ سے، اس کی آیات سے اور اس کے رسول سے تمسخر کر رہے تھے؟ معذرت مت کرو، تم یقیناً اپنے ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو۔

عقل سے کام لیں
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
ریورس گیئر تو نہ لگائیں؟

ویسے آپ اچھے خاصے ہیں، ماشاءاللہ۔

پیشنگوئی کا ظاہری ہیئت سے کوئی تعلق نہ ہے۔ یہ پیشنگوئی کے تقاضے کا سوانگ تو میں نے خود کو مریدی کے چکر سے بچانے کے لیے رچا رکھا ہے۔
نہیں یہ نہیں کہا۔ آپ اپنی تصویر پروفائل پر لگائیں یا مجھے ہی بھیج دیں۔
 
صہیونیت کیا ہے اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے ۔؟؟ تو ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے گا اور اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ دار آل رسول کا نام لے کر ایسے کسی عمل پر کبھی مصر ہوا تو اس کی پہچان کیا ہوگی اور بچنے کا کیا طریقہ ہوگا ۔
آپ سے بحث نہیں کر رہا کچھ سوال کر رہا ہوں اگر ان کا آپ کے افکار کی روشنی میں جواب مل جائے تو عنایت ہوگی
 
سلام کہ کر اس لڑی سے جا چکا تھا لیکن چونکہ یہ لڑی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو ایک دفعہ پھر محفلین سے کچھ پوچھنے کو دل چاہ رہا ہے۔
علوی،ہاشمی وغیرہ تو نسب کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن لفظ سید عربی زبان کا ایک عام مستعمل لفظ ہے جیسے اردو میں جناب۔
عربی خبریں سنیں تو بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ سعودی شہزادے نے سید شہباز شریف کا استقبال کیا۔ یا
سعودی شہزادے نے سید ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کیا۔
پھر یہ نسبی سید کہاں سے وارد ہوگئے؟
 
پھر یہ نسبی سید کہاں سے وارد ہوگئے؟
میں عموما اس لفظ کے استعمال کے جواز کا حامی ہوں... نسب کے اظہار کے لیے کوئی بھی لفظ اختیار کرنے میں کوئی حرج یا مضائقہ نہیں... ہند وپاک میں آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اپنی شناخت کہ لیے یہ لقب اختیار کیا تو کوئی بری بات نہیں.

مگر پھر کچھ "اٹھانے والے" نظر آ جاتے ہیں :)

چونکہ یہ لڑی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی
لڑی نہ ہوئی، لڑی بنانے والے کی آنت ہو گئی :)
 
میں عموما اس لفظ کے استعمال کے جواز کا حامی ہوں... نسب کے اظہار کے لیے کوئی بھی لفظ اختیار کرنے میں کوئی حرج یا مضائقہ نہیں... ہند وپاک میں آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اپنی شناخت کہ لیے یہ لقب اختیار کیا تو کوئی بری بات نہیں.
یہ تو صرف ہندو پاک کا معاملہ ہوا۔آج کل آلِ رسول کے نسب کے لیے عرب میں کیا لفظ استعمال ہوتا ہے؟
مگر پھر کچھ "اٹھانے والے" نظر آ جاتے ہیں :)
:)
لڑی نہ ہوئی، لڑی بنانے والے کی آنت ہو گئی :)
:)
 

سید رافع

محفلین
یہ مراسلہ تو اور بھی آپ کے خلاف جا رہا ہے۔
اس مراسلے میں بتایا جا رہا ہے کہ غیر سید کے پاس اپنے وقت کے سید السادات سے زیادہ علم ہے۔
موسیٰ ع کا گھونسا پڑتا یا وہ داڑھی کو کھینچتے تو پتہ چلتا کہ ان کو بھیجنے کی حکمت کیا تھی۔

اور عیسیٰ ع کی محبت ایسی کہ گھونسا مارنا تو درکنار ایک تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کر دینے کی تعلیم تھی۔

ابراہیم ع کے پاس ہوتے تو وہ ایک دن اللہ سے کہتے کہ قلبی تسلی کے لیے ذرا دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔

نوح کے پاس ہوتے تو وہ ایسی غرق کرنے کی دعا کرتے کہ معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑتے۔

آدم کے پاس ہوتے تو وہ ایسا پھل کھا رہے ہوتے جو کھانا ہی منع کر دیا گیا تھا۔

تو تمہارا ایمان ہر نبی سے، ہر سید سے اٹھتا جاتا۔ ہر چیز تعارض کرتی اور باہم متصادم دکھائی دیتی۔

پھر اللہ کو دیکھتے تو مضل کی تجلی کا عظیم سمندر بھی وہیں سے اور ہادی کی تجلی کا عظیم سمندر بھی وہیں سے نکل رہا ہوتا۔ تم سوچتے کہ یہ کیا بات ہوئی؟

غیب کی راہ میں جمع بین الضدین کی خوب پریکٹس کر لینی چاہیے۔ اسی لیے مطلب سے زیادہ مراد پر توجہ رکھنی چاہیے۔

اللہ نے جناب خضر علیہ السلام کو علم لدنی اس لیے دیا ہے کہ کائنات میں جہاں جہاں تکوینی معاملات میں ہدایت کی ضرورت ہو وہ مل جائے۔ کیوں مرا یا مارا، کیوں فائدہ یا نقصان ہوا، کیوں وہ بچ گیا اور یہ تباہ ہو گیا۔ یہ سب تکوینی معاملات ہیں۔ موسیٰ ع شریعت کے علم سے منور تھے اور اسی کو سکھانے کے لیے بنی اسرائیل نہ کے ساری دنیا کی جانب مبعوث کیے گئے۔ ان کو تکوینی علوم کی ضرورت نہ تھی۔

تکوین اور تقدیر میں فرق ہے۔ خضر بھی تکوین کو نافذ کرنے کے پابند ہیں ناکہ انکو تقدیر کا علم ہے۔ تکوین اللہ کے حکم سے کائنات اور ہر چیز کی تخلیق اور وجود میں آنا ہے، جب کہ مقدر اللہ کا وہ علم اور فیصلہ ہے جو اس نے پہلے سے ہر چیز کے بارے میں طے کر لیا ہے۔ تکوین کا تعلق براہ راست اللہ کے فعل سے ہے جب کہ مقدر اللہ کے علم اور تقدیر سے جڑا ہوا ہے۔

اللہ لغو سے پاک ہے۔ کسی نبی تک کو وہ علم نہیں دیتا کہ جس کی اسکو ضرورت نہیں۔ لیکن یہ صرف نبی ہی بتا سکتا ہے کہ اسکو کیا دیا کیا نہیں دیا۔ ہر ہما شما اس بھید سے واقف نہیں الا یہ کہ نبی ہی مطلع کر دے کہ کس غیب پر اسکو مطلع کیا گیا اور کیا روک لیا گیا۔ ہمارے لیے اللہ بھی غیب ہے کیونکہ ہم کوشش نہیں کر رہے۔ نبی کے لیے نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمارے لیے مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ یعنی کنجیاں بھی بھید ہی ہیں کیونکہ ہم کوشش نہیں کررہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
موسیٰ ع کا گھونسا پڑتا یا وہ داڑھی کو کھینچتے تو پتہ چلتا کہ ان کو بھیجنے کی حکمت کیا تھی۔

اور عیسیٰ ع کی محبت ایسی کہ گھونسا مارنا تو درکنار ایک تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کر دینے کی تعلیم تھی۔

ابراہیم ع کے پاس ہوتے تو وہ ایک دن اللہ سے کہتے کہ قلبی تسلی کے لیے ذرا دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔

نوح کے پاس ہوتے تو وہ ایسی غرق کرنے کی دعا کرتے کہ معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑتے۔

آدم کے پاس ہوتے تو وہ ایسا پھل کھا رہے ہوتے جو کھانا ہی منع کر دیا گیا تھا۔

تو تمہارا ایمان ہر نبی سے، ہر سید سے اٹھتا جاتا۔ ہر چیز تعارض کرتی اور باہم متصادم دکھائی دیتی۔

پھر اللہ کو دیکھتے تو مضل کی تجلی کا عظیم سمندر بھی وہیں سے اور ہادی کی تجلی کا عظیم سمندر بھی وہیں سے نکل رہا ہوتا۔ تم سوچتے کہ یہ کیا بات ہوئی؟

غیب کی راہ میں جمع بین الضدین کی خوب پریکٹس کر لینی چاہیے۔ اسی لیے مطلب سے زیادہ مراد پر توجہ رکھنی چاہیے۔

اللہ نے جناب خضر علیہ السلام کو علم لدنی اس لیے دیا ہے کہ کائنات میں جہاں جہاں تکوینی معاملات میں ہدایت کی ضرورت ہو وہ مل جائے۔ کیوں مرا یا مارا، کیوں فائدہ یا نقصان ہوا، کیوں وہ بچ گیا اور یہ تباہ ہو گیا۔ یہ سب تکوینی معاملات ہیں۔ موسیٰ ع شریعت کے علم سے منور تھے اور اسی کو سکھانے کے لیے بنی اسرائیل نہ کے ساری دنیا کی جانب مبعوث کیے گئے۔ ان کو تکوینی علوم کی ضرورت نہ تھی۔

تکوین اور تقدیر میں فرق ہے۔ خضر بھی تکوین کو نافذ کرنے کے پابند ہیں ناکہ انکو تقدیر کا علم ہے۔ تکوین اللہ کے حکم سے کائنات اور ہر چیز کی تخلیق اور وجود میں آنا ہے، جب کہ مقدر اللہ کا وہ علم اور فیصلہ ہے جو اس نے پہلے سے ہر چیز کے بارے میں طے کر لیا ہے۔ تکوین کا تعلق براہ راست اللہ کے فعل سے ہے جب کہ مقدر اللہ کے علم اور تقدیر سے جڑا ہوا ہے۔

اللہ لغو سے پاک ہے۔ کسی نبی تک کو وہ علم نہیں دیتا کہ جس کی اسکو ضرورت نہیں۔ لیکن یہ صرف نبی ہی بتا سکتا ہے کہ اسکو کیا دیا کیا نہیں دیا۔ ہر ہما شما اس بھید سے واقف نہیں الا یہ کہ نبی ہی مطلع کر دے کہ کس غیب پر اسکو مطلع کیا گیا اور کیا روک لیا گیا۔ ہمارے لیے اللہ بھی غیب ہے کیونکہ ہم کوشش نہیں کر رہے۔ نبی کے لیے نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمارے لیے مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ یعنی کنجیاں بھی بھید ہی ہیں کیونکہ ہم کوشش نہیں کررہے۔
بعد المشرقین
 

سید رافع

محفلین
عقل کی کمی کی وجہ سے لگ رہا ہے۔

اصل میں قرآن میں کسی خضر کا نام ہی مذکور نہیں۔

یہ بھی علم نہیں کہ وہ جن کو علم لدنی حاصل تھا غیر سید تھے۔

موسیٰ ع سید السادات شاید آپ نے ان معنوں میں لیا ہے کہ وہ وقت کے رسول تھے، سو ان سے زیادہ کوئی اس وقت میں افضل نہ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ جو بھی ہو جس کے علم پر وقت کے سب سے افضل شخص، یعنی موسیٰ ع کو صبر نہ ہوا، اس سے لازم آتا ہے کہ:

1) موسیٰ ع کو رسول اور سید السادات ہونے کے باوجود ایک عام سید (یا غیر سید) سے کم علم تھا۔
2) موسیٰ ع کو کل غیب کا علم نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو علم لدنی کا علم بھی ہوتا۔

یہی الجھن ہے؟
 

سید رافع

محفلین
سلام کہ کر اس لڑی سے جا چکا تھا لیکن چونکہ یہ لڑی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو ایک دفعہ پھر محفلین سے کچھ پوچھنے کو دل چاہ رہا ہے۔
علوی،ہاشمی وغیرہ تو نسب کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن لفظ سید عربی زبان کا ایک عام مستعمل لفظ ہے جیسے اردو میں جناب۔
عربی خبریں سنیں تو بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ سعودی شہزادے نے سید شہباز شریف کا استقبال کیا۔ یا
سعودی شہزادے نے سید ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کیا۔
پھر یہ نسبی سید کہاں سے وارد ہوگئے؟
وارد سے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آپ کو نسبی سیدوں سے چڑ سے محسوس ہو رہی ہو؟

جب امام حسن و حسین ع کی مبارک ولادت ہوئی تو جب سے سید زادوں کا وجود ہے۔

"سید" کے ساتھ مختلف الفاظ اور القاب کا استعمال مختلف ثقافتوں، علاقوں اور زمانوں میں کیا جاتا رہا ہے، جیسے "شریف"، "خان"، "میر"، "امام" ، "زیدی" "مولا" وغیرہ، تاکہ سید خاندان کی عزت اور اعلیٰ مقام کو ظاہر کیا جا سکے۔

ابھی قریب ہی کے دور میں شریف امام حسن ع اور سید امام حسین ع کی اولادوں کو کہا جاتا تھا۔

ویسے ابھی بھی مطلب و معنی پر ہی توجہ ہے جبکہ مراد سارے جہان میں واضح ہے!
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 123 پر درج ہے:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب حسن کو ابنی ھذا سید فرمایا ، اسی طرح حضرتِ فاطمہ کو سیدۃ نسآء اھل الجنۃ فرمایا

عرب میں سید کا لفظ بمعنی نسب استعمال نہیں ہوتا۔

صفحہ 124 پر درج ہے:
آج بھی عرب ممالک میں اولادِ رسول کو سید کے بجائے شریف کہا جاتا ہے اور ہمارے ہند و پاک میں انہیں سید یا آل رسول کہا جاتا ہے۔

صفحہ 132 پر درج ہے:
مجموعی طور پر حسنینِ کریمین کو سیدا شباب اھل الجنۃ کے الفاظ سے یاد فرمایا۔

بحوالہ: لفظ سید کا پس منظر ، کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر ، صفحات :123,124,132
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
ویسی ہی ایک تحریک ہے جیسے کہ تحریک پاکستان۔ جو معصوم بھٹکتے یہودیوں نے مسلمانوں اور استعمار سے تنگ آ کر شروع کی تاکہ کوئی تو سکون سے رہنے کی جگہ ملے۔ اصل برے استعمار کے ساتھی ہیں۔

اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ دار آل رسول کا نام لے کر ایسے کسی عمل پر کبھی مصر ہوا تو اس کی پہچان کیا ہوگی اور بچنے کا کیا طریقہ ہوگا ۔
آل رسول ص کا نام لے کر اگر کوئی صہونیت کی تحریک کو صحیح جانتا ہے تو ٹھیک ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ سب کو رہنے کہ جگہ ملے۔ بلکہ صہونیوں کے ساتھ مل کر استعماریوں کا محاصرہ کرنا چاہیے۔ اصل میں سودی نظام کی وجہ سے وسائل بے دین لوگوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ یہودی ہو یا کوئی اور سب کے ساتھ عدل سے رہیں اور خوب دلیل کے ساتھ ان سے بات کریں۔

کیونکہ مسلمان اس وقت کمزور ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو یا تو ہجرت کرنی چاہیے یا ہجرت کرنے والوں کے لیے مواخات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ صرف لفنگا مسلمان ہتھیار اٹھا کر عورتوں بچوں کے درمیان چھپ کر فساد پھیلائے گا جیسا کہ حماس، حزب اللہ، ایران یا دیگر کر رہے ہیں۔

پاکستانیوں کو خاص کر چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کو، یہودیوں کو، ہندوں کو اپنے گھروں میں پناہ دیں۔ ہر غریب کو اپنے گھر میں پناہ دیں۔

اس وقت غریب اور امیر اشرافیہ کی لڑائی ہے اور احمق پاکستانی سمجھ رہیں ہیں کہ یہ کوئی مذہبی جنگ وغیرہ ہے۔ لاحول ولا
 

اربش علی

محفلین
صفحہ 123 پر درج ہے:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب حسن کو ابنی ھذا سید فرمایا ، اسی طرح حضرتِ فاطمہ کو سیدۃ نسآء اھل الجنۃ فرمایا

عرب میں سید کا لفظ بمعنی نسب استعمال نہیں ہوتا۔

صفحہ 124 پر درج ہے:
آج بھی عرب ممالک میں اولادِ رسول کو سید کے بجائے شریف کہا جاتا ہے اور ہمارے ہند و پاک میں انہیں سید یا آل رسول کہا جاتا ہے۔

صفحہ 132 پر درج ہے:
مجموعی طور پر حسنینِ کریمین کو سیدا شباب اھل الجنۃ کے الفاظ سے یاد فرمایا۔

بحوالہ: لفظ سید کا پس منظر ، کتاب: نام و نسب از سید نصیر الدین نصیر ، صفحہ ،124 ، 123
اس کتاب کے صفحہ نمبر 8 پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
بندۂ عشق شدی، ترک نسب کن جامی
کہ درین راہ فلان ابن فلان چیزی نیست
 
وارد سے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آپ کو نسبی سیدوں سے چڑ سے محسوس ہو رہی ہو؟
چڑ ہرگز نہیں ہے کسی سے بھی۔ وارد سے میری مراد یہ تھی کہ جو اہلبیت کا وطن تھا وہاں تو سید لفظ صرف کسی کو عزت دینے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے۔ہندوستان میں یہ آلِ رسول کی نسبت کے لیے کس نے استعمال کرنا شروع کیا؟ کیا آلِ رسول نےخود اپنے لیے یہ لفظ چُنا یا ان کے عقیدت مندوں نے انہیں عزت دینے کے لیے استعمال کیا۔ کیونکہ خاندانی طور پر تو ان کو یا علوی یا فاطمی یا ہاشمی کہا جاسکتا ہے۔
 
کیونکہ مسلمان اس وقت کمزور ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو یا تو ہجرت کرنی چاہیے یا ہجرت کرنے والوں کے لیے مواخات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ صرف لفنگا مسلمان ہتھیار اٹھا کر عورتوں بچوں کے درمیان چھپ کر فساد پھیلائے گا جیسا کہ حماس، حزب اللہ، ایران یا دیگر کر رہے ہیں۔
کیا آپ یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ حماس، حزب اللہ یا ایرانی (لفنگے اور فسادی مسلمان) جو یہ فساد کررہے ہیں کیا ان میں کوئی حقیقی سید نہیں ہوگا؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کیونکہ مسلمان اس وقت کمزور ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو یا تو ہجرت کرنی چاہیے یا ہجرت کرنے والوں کے لیے مواخات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔ صرف لفنگا مسلمان ہتھیار اٹھا کر عورتوں بچوں کے درمیان چھپ کر فساد پھیلائے گا جیسا کہ حماس، حزب اللہ، ایران یا دیگر کر رہے ہیں۔
محمد احسن سمیع راحلؔ یہاں پر فیس پام کی اشد ضرورت ہے۔
اللّٰہ تباہ کرے ایسے بے عقلوں کو جو قتال فی سبیل اللّٰہ پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یہی لوگ تھے جو امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کے خاندان سمیت شہادت کو درست گردانتے رہے۔
 
Top