سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ایک بیانیہ چلا آرہا ہے۔ وہی بیانیہ جو اب صرف ان کا نہیں رہا بلکہ پاکستان کی پوری اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسے اپنا چکی ہے۔ یوں یہ اب ایک جماعت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کی حد تک جزوی طور پر قومی بیانیہ بن چکا ہے۔
جزوی یوں کہ حکومت میں شامل جماعتیں اور ان کے ووٹرز اس بیانیے کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بیانیے کا ایک حساس پہلو بھی ہے جس کا اپوزیشن جماعتوں کو ادراک تو یقیناً ہوگا مگر اس ادراک کو وہ ورکرز کی سطح پر منتقل کرتے نظر نہیں آرہے۔
اگر معاملات اپوزیشن کی امیدوں کے مطابق آگے بڑھتے ہیں اور آنے والے دنوں میں نتائج ان جماعتوں کے حق میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو تب یہ حساس پہلو یکدم ابھر کر سامنے آئے گا۔ اور جب یہ ابھر کر سامنے آئے گا تو درد سر اسٹیبلشمنٹ کے لئے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی قیادت کے لئے پیدا کرے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں میڈیا سے گفتگو اور جلسوں کے دوران تقاریر میں اس پہلو پر اشارتاً سہی مگر روشنی ڈالتے جایا کریں۔ تاکہ کل کلاں ان کو اپنے ہی ورکرز کی جانب سے کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز اس خوشنما دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت عوامی راج نام ہے۔ اس راج میں جو بھی ہوتا ہے بس عوام کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جمہوری نظام کی کوئی حقیقی تصویر نہیں ہے۔ اس نظام کا ایک حصہ وہ ہے جو نظر آرہا ہوتا ہے۔ یعنی منتخب نمائندوں کی حکومت اور ان کی ماتحت بیوروکریسی۔ جبکہ دوسرا حصہ وہ ہے جو سات پردوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ سات پردوں کے پیچھے چھپے اس حصے کواسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔
کسی بھی ملک کا رخ اس کی قومی سلامتی پالیسی سے طے ہوتا ہے۔ یہ پالیسی کا بنیادی فریم اسٹیبلشمنٹ ہی ترتیب دیتی ہے۔ اس پالیسی کو نہایت راز داری میں رکھ کر اس کی روشنی میں ایک خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی ہے جو دنیا کے لئے اس ریاست کی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ صدارتی نظام والے ملک میں صدر اور پارلیمانی نظام والے ملک میں وزیر اعظم اس پالیسی کی روشنی قانون سازی اور عملداری کا خاکہ بنا کر اسے پارلیمنٹ کے پاس بھیجتا ہے اور اس کی منظوری حاصل کرتا ہے۔ قانون سازی اور عملدرآمد کے اس خاکے میں حسب ذوق رنگ بھرنے کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ قومی سلامتی پالیسی سے یہ خاکے اور اس کے رنگ متصادم نہ ہوں۔
یہ درست ہے کہ اس پالیسی میں جمہوری نظم کے منتخب حصے کا اِن پٹ بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر یہ اِن پٹ کوئی پرابلم نہ کھڑی کر رہا ہو تو اسے حصہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر صدر یا وزیر اعظم کو ہی قدم پیچھے لینے ہوتے ہیں۔
بسا اوقات حکمران اسے انا کا بھی مسئلہ بنا لیتے ہیں اور وہ من مانی پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے وقتی طور پر پریمئر انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ برطرف کردیا جائے یا فوج کے سربراہ کو سبکدوش کردیا جائے۔ جس سے وقتی طور پر سربراہ حکومت اس خوش فہمی کا شکار بھی ہوسکتا ہے کہ دیکھا کیسا سیدھا کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے سربراہانِ حکومت کے ساتھ پھر اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کرتی ہے وہ دنیا کے ہر اہم ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی اس بالادستی کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ سیکورٹی کلیئرنس ملے بغیر نہ تو کوئی سربراہ حکومت بن سکتا ہے اور نہ ہی وزیر مشیر۔ اور کلیئرنس دینے یا نہ دینے کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم پنٹاگون بریفنگ لینے گئے تو انہیں یہ کہہ کر بریفنگ دینے سے انکار کردیا گیا کہ آپ کی سیکورٹی کلیئرنس ابھی ہمیں موصول نہیں ہوئی۔ اگر بات محض عوامی ووٹ کی ہوتی تو وہ تو بائیڈن کو مل چکا۔ اسے اپنی ٹیم چننے کا اختیار بھی ہے مگر اس ٹیم کو اختیارات ملنا سیکورٹی کلیئرنس سے مشروط ہے جو عوام نے نہیں اسٹیبلشمنٹ نے دینی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اپنا وجود شو کرنے کا بہت شوق ہے۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ یہ شوق نہیں رکھتی۔ وہ پیچھے رہ کر اپنا کام کرتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار انتہائی غیر معمولی حالات میں اپنی موجودگی کا قومی سطح پر احساس بھی دلا دیتی ہے۔ مثلاً دو چار سال قبل برطانوی پالیمان میں کشمکش کی صورتحال پیدا ہوئی تو نہایت جارح مزاج اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہونے لگے۔
اس موقع پر برطانوی فوج نے صاف کہدیا کہ اگر آنے والے وقت میں جرمی کوربن کے وزیراعظم بننے کا امکان پیدا ہوا تو انہیں بطور وزیر اعظم قبول نہیں کریں گے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ایسی رپورٹس بھی برٹش میڈیا میں آئیں کہ برطاوی فوج کے بعض اہلکاروں نے نشانہ بازی کی مشق کے لئے جرمی کوربن کی تصاویر استعمال کی ہیں۔ تب برطانیہ میں کسی نے بھی یہ ہنگامہ کھڑا نہیں کیا کہ فوج کو جرات کیسے ہوئی سیاسی معاملات میں دخل دینے کی۔
دوسری مثال افغانستان میں امریکی فوج کے سابق کمانڈر جنرل میک کرسٹل کی ہے جنہوں نے ایک انٹرنیشنل میگزین سے بات کرتے ہوئے صدر اوبامہ پر تنقید کردی تھی۔ جنرل میک کرسٹل کو صدر اوباما نے فورا برطرف کردیا مگر قصور یہ نہیں بتایا گیا کہ جمہوریت میں مداخلت کیوں کی ؟ بلکہ یہ بتایا گیا کہ اندر کی بات میڈیا کے ذریعے پبلک کیوں کی ؟ جنرل میک کرسٹل کے خیالات کوئی ذاتی خیالات نہ تھے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خیالات تھے۔
صدر اوباما نے میک کرسٹل کے تو برطرف کردیا مگر اسٹیبلشمنٹ کا بنیادی مطالبہ بھی تسلیم کرلیا۔ ایک تیسری اور سب سے اہم مثال یوٹیوب پر امریکی اوان نمائندگان اور سینٹ کی پبلک ہیئرنگ کی ایسی مختلف ویوڈیوز میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں کوئی حکومتی وزیر، کسی ادارے کا سربراہ یا جنرل کمیٹی کے بعض سوالات کا جواب دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔
حالانکہ قانوناً ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کمیٹی انکار کی وجہ پوچھتی ہے تو آگے سے کہا جاتا ہے کہ یہ پبلک ہیئرنگ ہے میں اس میں جواب نہیں دوں گا۔ اگر کمیٹی چاہے تو “اِن کیمرہ” بتا سکتا ہوں۔ یہ اِن کیمرہ اموراسٹیبلشمنٹ سے ہی متعلق ہوتے ہیں۔ جن کے معاملات اخفا میں ہی رکھے جاتے ہیں۔ انہیں کانگریس یا سینٹ کے اوپن اجلاس میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔
ملک کی داخلہ پالیسی میں اسٹیبلشمنٹ کا اتنا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اصل محاذ خارجہ امور کا ہے جس پر اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرپ ہوتی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی غلطی یہ ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اور اسے عوامی نمائندوں کی تحقیر کا بھی شوق ہے۔ ورنہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہوتا تو یہ انکار سب سے زیادہ امریکہ اور برطانیہ میں ہی پایا جاتا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اسی انداز سے چلنا چاہئے جس انداز سے بڑے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ چل رہی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے موجود تو رہنا ہے کیونکہ یہ ریاست کے تحفظ کی بنیاد ہے۔ تو ڈھنگ سے رہنے میں ہی ملک کا فائدہ ہے۔ اس پس منظر کے ہوتے یہ بات طے ہے کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہ تو ختم ہو رہا ہے اور نہ ہوگا۔
معاملات اپوزیشن نے اسی سے طے کرنے ہیں۔ سو ایسے میں اگر سول بالادستی کی تصویر اپوزیشن یہ پیش کرے گی کہ ان کی تحریک کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ حکومت کے نیچے لگ جائے گی تو یہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
کل جب یہی اپوزیشن اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات فائنل کرے گی تو اپوزیشن جماعتوں کے کارکن ہی ان سے پوچھیں گے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ اب آر ہوگا یا پار۔ تو پھر آپ نے اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کرلیا ؟ تب اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر جتنے بھی فلسفے جھاڑ لیں ان کا ورکر مطمئن نہ ہوگا۔ سو بات صاف کہنی چاہئے کہ “ہمارا جھگڑا اداروں سے نہیں افراد سے ہے” کا مطلب یہی ہے اسٹیبلشمنٹ کو تھلے لگانے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ہم بس اسے سات پردوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔