مغرب ’ہولوکاسٹ‘ کی طرح توہین رسالت کرنے والوں پربھی پابندی لگائے، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
مغرب ’ہولوکاسٹ‘ کی طرح توہین رسالت کرنے والوں پربھی پابندی لگائے، وزیراعظم
ویب ڈیسک ہفتہ 17 اپريل 2021
2167973-imrankhan-1618644215-903-640x480.jpg

ٹی ایل پی کے خلاف اس لیے کی کیونکہ انہوں نے ریاست کی رٹ کوچیلنج کیا، وزیراعظم: فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے خلاف کارروائی انسداددہشت گردی قانون کے تحت کی۔

وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپرکہا کہ وہ عوام کویہ واضح کردیں کہ حکومت نے تحریک لبیک کےخلاف کارروائی انسداددہشت گردی قانون کے تحت کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی اس لیے کی کیونکہ انہوں نے ریاست کی رٹ کوچیلنج کیا اورسڑکوں پرتشدد کرنے سمیت عوامی اورقانون نافذ کرنے والوں پرحملہ کیا۔ اس تناظرمیں کوئی بھی قانون اورآئین سے بالاترنہیں ہوسکتا۔

اس سے قبل وزیراعظم نے کہا کہ بیرون ملک اسلاموفوبیا اورنسل پرستی میں ملوث انتہا پسند سن لیں حضوراکرمﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، بیرون ملک انتہا پسند ایک ارب 30 کروڑمسلمانوں کے جذبات کوٹھیس پہنچاتے ہیں، مسلمان سب سے زیادہ پیار اوراحترام حضوراکرمﷺ کا کرتے ہیں، ہم بے حرمتی کو برداشت نہیں کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مغربی دنیا نے ’ہولوکاسٹ‘ کے بارے میں کسی بھی منفی تبصرے پرپابندی لگائی، مغرب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کے لیے یہی معیاراپنائیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزپیغامات پھیلانے والوں کے لیے بھی سزا کا یہی معیار ہونا چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خود کچھ کرنے کا سوچو بابو ، مغرب نے وہی کرنا ہے جو ان کے مفاد میں ہے
یہود ، نصاری کو کہنے کے بجائے خود کچھ کر کے دکھائیں


مزید ڈی بریفنگ کے لیے :​
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
عمر کے 52 ویں سال سے گزر رہا ہوں۔ ان باون سالوں میں سپاہ صحابہ، ایم کیو ایم، لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد، لشکر جھنگوی، اور تحریک لبیک وغیرہ بنتے اور بکھرتے دیکھ چکا ۔ یہ ان تنظیموں کے نام ہیں جنہیں ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے وقتی ضرورت کے لئے بنایا اور پھر توڑ دیا۔ ان سب کے کارکنوں کو پکا یقین تھا کہ ان کی قیادت خلوص کے ساتویں آسمان پر ہے۔ مگر یہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ساتواں آسمان اسلام آباد کے سیونتھ ایوینیو کے قریب واقع ہے۔ تنظیمیں بنا کر انہیں قومی سطح پر چلانا اتنا ہی آسان ہوتا تو اس ملک میں سبزی کی دکانوں سے زیادہ تنظیمیں ہوتیں۔ کسی بھی تنظیم کے قومی سطح پر نہ ابھر سکنے کاسبب اس کی قیادت کی ناقص حکمت عملی یا نالائقی نہیں ہوتی بلکہ "فنڈز" کی کمی ہی واحد مسئلہ ہوتا ہے۔ ورنہ پاکستان تو ایسا ملک ہے کہ یہاں آلہ تناسل کی زیارت کرانے والے پیر کو بھی مرید مل جاتے ہیں۔ تنظیم بنانے کے لئے آپ کو ہر چھوٹے بڑے شہر میں دفاتر چاہئے ہوتے ہیں۔ ان کا کرایہ، ماہانہ یوٹیلیٹی بلز، کھانے پینے کے اخراجات۔ چوبیس گھنٹے کام کرنے والے عہدیداروں کی تنخواہیں اور چھوٹے شہروں میں سو ڈیڑھ سو ایسے ورکرز کے "وظیفے" جو روز دفتر کے چکر بھی کاٹا کریں اور بوقت ضرورت ایکشن میں آنے کے لئے بھی تیار ہوں۔ جو چھوٹے شہروں میں سو ڈیڑھ سو درکار ہوتے ہیں وہ بڑے شہروں میں پانچ سو سے ایک ہزار چاہئے ہوتے ہیں۔ پانچ سے دس ہزار میں پارٹ ٹائم ہائیر یہ مخلوق کس حد تک کار گر ہوتی ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے ان میں سے ہر بندہ بوقت ضرورت پانچ دس دوست لے ہی آتا ہے۔ یوں ہجوم تخلیق ہونے کا انتظام ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ پھر مرکزی قائدین کے گھر، ان کی گاڑیاں، گن مین، گاڑیوں کا پٹرول، جہازوں کے سیر سپاٹے۔ بیرون ملک کی سیر و تفریح یہ سب ملا کر یہ سلانہ ارب ڈیڑھ ارب کا بل بنتا ہے۔ وسائل کے بعد انتظار ہوتا ہے ٹاسک کا۔ جوں ہی انہی ایکشن میں آنے کا حکم ملتا ہے۔ ادھر یہ ایکشن میں آتے ہیں ادھر نامی گرامی کالم نگاروں اور اینکرز میں سے نصف کو یہ حکم دیدیا جاتا ہے کہ آپ ان کی حمایت کریں۔ باقی نصف سے کہا جاتا ہے کہ آپ تنقید کریں۔ یوں قومی میڈیا پر یہ فسادی چھا جاتے ہیں۔ تب نجم سیٹھی جیسا بندہ بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ "لشکر چوں چوں کا مربہ " ایک ابھرتی طاقت ہے۔ یوں ابھر آتی ہے ایک نئی تنظیم۔
پھر ہوتا یہ ہے کہ ان کی قیادت کو ایک دن یہ خوش فہمی لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ تو ایک بہت بڑی عوامی طاقت ہیں۔ سو یہ احساس ہوتے ہی یہ من مانی شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی اوقات بھولنے لگتے ہیں۔ شروع میں انہیں ڈھیل دی جاتی ہے کہ چلو ذرا دکھا لو اپنی خود مختاری۔ جب یہ خوب دکھا چکتے ہیں تو پھر وہ انہیں کتوں کی طرح شکار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تب یہ ساری اکڑ بھول جاتے ہیں۔ نہ انہیں مہاجر حقوق یاد رہتے ہیں، نہ ناموس رسالت، نہ ہی وہ باقی سارے ایجنڈے جن کے نام پر انہیں کھڑا کیا گیا تھا۔ 52 برس میں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ لشکر طیبہ کے سوا اسٹیبلیشمنٹ کی بنائی ہر تنظیم سرکش ہوئی ہے اور بالآخر پولیس مقابلوں میں ماری گئی۔ ان میں سے سب سے تیزی سے یہ تحریک لبیک فنا کے گھاٹ اتری نظر آرہی ہے۔ فی الحال انہیں چھترول پر رکھا گیا ہے۔ مگر میری یہ بات نوٹ کرلیں کہ اگر یہ صدق دل سے توبہ تائب نہ ہوئے تو ان کے بھی پولیس مقابلے طے سمجھئے۔ پابندی کا اگلا مرحلہ پولیس مقابلہ ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے سر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سو ریاست بصد شوق انہیں ٹھوک کر ایف اے ٹی ایف سے کہے گی
"دیکھا ہم نے تازہ انتہاپسندی کو بھی کیسے ٹھوکا ؟ نکالو اب ہمیں گرے لسٹ سے"
سو نوجوانوں سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔ انہیں میری باتیں سمجھنے میں ابھی پندرہ بیس سال اور لگیں گے۔ جو میری عمر یا اس سے اوپر کے ہیں ان سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو سنبھال کر رکھئے۔ یہ نہ ہو یہ ناموس رسالت کے نام پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنڈوں پر قربان ہوجائیں اور پھر امت کا رپورٹر آپ سے پوچھے
"شہیدا کا باپ بن کر کیسا فیل کر رہے ہیں ؟"
اور صرف یہی نہیں بلکہ اگلے دن رفیق افغان کلر پیج پر یہ خوش خبری بھی سنا رہا ہو
"شہید کی قبر سے خوشبو پھوٹ پڑی"
یہ "چ٭٭٭پے" پاکستان میں عام سی بات ہیں۔ اپنے بچوں کو ان کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمر کے 52 ویں سال سے گزر رہا ہوں۔ ان باون سالوں میں سپاہ صحابہ، ایم کیو ایم، لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد، لشکر جھنگوی، اور تحریک لبیک وغیرہ بنتے اور بکھرتے دیکھ چکا ۔ یہ ان تنظیموں کے نام ہیں جنہیں ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے وقتی ضرورت کے لئے بنایا اور پھر توڑ دیا۔
مذہبی جماعتوں کی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی اور گراتی ہے۔ عوام عام انتخابات میں اس مصنوعی نظام پر محض اپنا ٹھپہ لگانے جاتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ ملک میں جمہوریت ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مذہبی جماعتوں کی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی اور گراتی ہے۔ عوام عام انتخابات میں اس مصنوعی نظام پر محض اپنا ٹھپہ لگانے جاتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ ملک میں جمہوریت ہے۔
اچھی تقریر ہے بمعہ اس تقریر ھذا بروزن باز آ کے
 

حسرت جاوید

محفلین
پاکستانی نوجوان عوام کی اکثریت اس نشے میں دھت ہے کہ دنیا میں ہماری بڑی اہمیت اور بہت ہی پائے کا مقام ہے بس یہ پاکستانی سیاستدان ہمیں صحیح نہیں ملے۔ ایسی سوچ کو پروان چڑھانے میں اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی پیشواؤں کے گٹھ جوڑ کا بہت اہم کردار ہے۔ میٹرک تک جو نصاب ترتیب دیا جاتا ہے اس میں ذہن سازی اس طریقے سے کی جاتی ہے کہ انسان آگے کسی خاص میدان یا مضمون میں پی ایچ ڈی بھی کر لی سوچ وہیں ابجد میں دھنسی رہتی ہے۔ آرٹس بالخصوص تاریخ اور معاشرتی مضامین جو انسان کو انسانوں میں رہنے کے اصول اور سالہا سال پہ مبنی انسان اور معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور کامیابی و ناکامی کے اصولوں سے روشناس کرتے ہیں کو نہ صرف معاشرتی سطح پہ ڈسکرج کیا جاتا ہے بلکہ ان کا نصاب ایسا ترتیب دیا جاتا ہے جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔ یوں تاریخ میں ہم صحابہ کے جنگی کارناموں اور جغرافیہ میں ہم سطح مرتفع پوٹھوہار سے آگے نہیں جا پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے قوم معاشرتی تعلیم سے یکسر خالی ہوتی ہے، آئین و قانون، طرزِ معاشرت، انسان کا معاشرے میں کردار کیا ہے، سے تقریباً ناواقف ہوتی ہے۔ ان کو بس یہی زعم ہوتا ہے کہ پاکستان اسلام کا گڑھ ہے اور دنیا میں ہر لحاظ پہلے نمبر پہ جانے کے لیے ہمیشہ سے تیار کھڑا ہے لیکن یہ حکمران کسی کام کے نہیں جو اسلام اور پاکستان کی صحیح طور پر نمائندگی کر سکیں۔ ایسے میں قابلیت اور کارکردگی سے عاری سیاستدان وہی حرکتیں کرتے ہیں جو محترم عمران خان صاحب کر رہے ہیں یعنی قوم کی نفسیات سے کھیلنا، اس لیے وہ صبح شام ایسے بیان داغ دیتے ہیں جس سے قوم کو یہ محسوس ہو کہ نہ صرف یہ کہ عالمی پیمانے پہ ان کی ترجمانی صحیح ہو رہی ہے بلکہ قومی پیمانے پر وزیراعظم صاحب کی وہی سوچ ہے جو ہماری ہے۔ محترم عمران خان صاحب اپنی کارکردگی کو نفسیات سے کھیل کر پورا کرنا تو چاہ رہے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ بھوک اور بیروزگاری میں سروائیول کی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس میں اس قسم کا نشہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔
 

علی وقار

محفلین
مطالبہ تو درست ہے مگر منت سماجت مغرب سے نہ کریں، اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کریں اور مسلم ممالک کو متحرک کریں تاکہ اقوام متحدہ میں اقوامِ عالم کو اس حوالے سے کسی مشترکہ نکتے پر متفق کروایا جا سکے۔ مغربی ممالک ہماری بات پر کیوں کان دھریں؟ مسلم ممالک او آئی سی یا اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اگر کچھ نہ کر پائیں تو سمجھ جائیں کہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ ہماری بات بھی سنی بھی جا سکے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ناصر مدنی کہندا اے تحریک انصاف کہومت دے بارے چ
نکی جئی پدنی تے پِد پِد کردی
تے سارے پاکستان دی لِد کٹھی کردی

 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
( *معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹرسید محمد ہارون بخاری صاحب نے آخر اس ملاقات سے پردہ اٹھا دیا*)
2014 کے دھرنے میں وہ مقام بھی آیا جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات ہوئی۔ دراصل اسی ملاقات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے راستے بالکل جدا ہو گئے اور ڈاکٹر قادری آہستہ آہستہ دھرنے سے پیچھے ہٹنے لگے۔ ہمیں تو اس ملاقات کی تفصیل کا حال سے عرصہ سے معلوم تھا لیکن تب بیان کرتے تو یار لوگ مذاق اڑاتے لیکن اب شاید صحیح موقع ہے اس ملاقات کی تفصیل کو آشکار کرنے کا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ملاقات 3 گھنٹے 20 منٹ پر مشتمل تھی۔ جنرل راحیل کے دریافت کرنے پر کہ آپ کا دھرنے کا ایجنڈہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے تبدیلیءِ نظام کا ایجنڈہ بیان کیا۔ جب متبادل نظام پر گفتگو کا آغاز ہوا تو جنرل نے اپنے باقی جنرلز کو بھی بلا لیا اور اپنے سیکرٹری کو بھی اور کہا کہ پوائنٹس کو نوٹ کرتا رہے۔ ڈاکٹر صاحب لگاتار 3 گھنٹے متبادل نظام اور اس کے نفاذ کے طریقوں پر بولتے رہے، جنرلز حیرانی سے سنتے رہے، یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنا ایجنڈہ ملک کی مقتدر قوتوں کے سامنے رکھنے کا موقع ملا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ختم ہوئی تو انہیں بتایا گیا کہ عالمی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے فی الحال اس ایجنڈے کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کو یہ پیشکش کی گئی کہ ہمیں پتہ ہے کہ اصل دھرنا آپ کا ہے اور آپ کی وجہ سے ہی یہ ساری رونق لگی ہوئی ہے ، انہیں بتایا گیا کہ عوامی رنگ بنانا ہمارا کام ہے جس کے چاہیں حق میں بنا دیں جس کے چاہیں مخالف بنا دیں۔ ڈاکٹر صاحب کو پیشکش کی گئی ہم آپ کو سامنے لے آتے ہیں اقتدار پر لیکن کچھ شرائط کے ساتھ کہ کیبنٹ میں آدھے وزیر ہماری مرضی کے ہوں گے جس میں لال حویلی والے سمیت کئی اور ہوں گے، گجراتیوں سے اتحاد لازمی رکھنا ہو گا، خارجہ اور دفاعی امور میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اور نظام یہی رہے گا ۔۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمپرومائزڈ اقتدار پر معذرت کر لی اور کہا کہ میرا ایجنڈا نظام کی تبدیلی ہے، میں انتظار کر لوں گا، تب تک جب ملک کی مقتدر قوتوں اور عوام کو اس نظام کی خرابیوں کا مکمل شعور نہ آ جائے۔۔۔ یہ ملاقات ناکام ہو گئی۔۔ ڈاکٹر صاحب کو 100 فیصد یقین تھا کہ خان صاحب ضرور اس کمپرومائزڈ اقتدار کو قبول کر چکا ہوگا۔
خان صاحب کی جنرل راحیل سے ملاقات صرف 20 منٹ پر مشتمل تھی جس میں وہی شرائط کی پیشکش تھی جو ڈاکٹر قادری کو پیش کی گئی تھی البتہ ایک اضافی شرط بھی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبان بند رکھنی ہو گی۔ خان صاحب نے اس کمپرمائزڈ اقتدار کو قبول کر لیا۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ رنگ بنا دیا گیا ، لال حویلی سے لیکر گجرات تک سے اتحاد کرنا پڑا، خارجہ امور میں ہر جگہ جنرل صاحب ساتھ ساتھ شامل ہوئے جیسے بچے کا دھیان رکھا جائے کہ ہدایات کے خلاف کوئی غلط بات نہ کر دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبانیں بند کرنا پڑیں۔۔۔۔ اقتدار تو مل گیا لیکن نظام کی تبدیلی کی ہر کوشش دن بدن خواب ہی بنتی گئی۔
اس ملاقات کے بعد دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خاموشی سے اپنا دھرنا آہستہ آہستہ لپیٹ دیا۔ انہوں نے طعن و تشنیع کے تیر سہے لیکن ان کو خبر تھی ان کا راستہ اور ہے اور جنابِ خان کا اور۔۔
یہ وہ موقع تھا جو ادھورے اقتدار کی آس اور اپنی ذات پر خوش فہمی کی حد تک زعم نے اصل تبدیلی کا راستہ روک دیا۔ کاش خان صاحب کمپرومائز نہ کرتے اور اپوزیشن میں ہی رہنا قبول کر لیتے، اپوزیشن میں وہ خوب جچتے تھے۔۔ پھر استعفے بھی واپس ہوئے، تھوک کر چاٹنا پڑا لیکن نام نہاد تبدیلی کا خواب کبھی شرمندہءِ تعبیر نہ ہوا۔ اگر وہ 2018 میں بھی اپوزیشن میں ہی رہتے ، ادھوری سی کمزور بے انتہا کمپرومائزڈ حکومت کو قبول نہ کرتے تو آج وہ ایسی قوت بن چکے ہوتے جس کی لکار سے نظام لرزہ براندام ہوا ہوتا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کئی بڑے سر تختہ دار پر لٹکے سامانِ عبرت بنے ہوتے۔
4- الیکشن 2018 کے بعد حکومت میں آ کر جب ایک ڈیڑھ سال میں خان پر واضح ہو چکا تھا کہ وہ اس نظام کے ان دیکھے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اور کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ گجراتی، ایم۔کیو۔ایم، لال حویلیوں کے اتحاد پر کھڑی، پی۔ٹی۔آئی کی صفوں میں شامل گھاگ نالائق سیاستدانوں میں گھری کمزور سی حکومت ذرا سی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔۔۔۔ تو۔۔ اس وقت خان صاحب ہمت کا مظاہرہ کرتے، عوام کے سامنے آ کر عوام کو آگاہ کرتے کہ اس نظام میں رہ کر اس نظام کو تبدیل کرنا نا ممکن ہے، لہذا میں استعفٰی دے رہا ہوں، اس حکومت کو لات مارتا ہوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ میرا ساتھ دے کر اس نظام کو گرانے میں میری مدد کریں۔۔ اس عمل سے خان صاحب کی ساکھ کافی حد تک بحال ہو جاتی اور اسٹیبلشمینٹ کی کٹھ پتلی ہونے کا تاثر گہرا نہ ہوتا۔
لیکن خان صاحب کے ارد گرد گھاگ سیاستدانوں نے ان کو سب اچھا کی دلنواز لوری ہمیشہ سنائے رکھی۔
5- سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے بعد بھی ایک موقع آ گیا تھا کہ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے کے راستے پر چلنے کی بجائے عوام کو اعتماد میں لیکر استعفٰی دے دیتے یا اسمبلیاں توڑ دیتے۔ لیکن وہ اس موقع پر بھی کوئی بڑا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔۔ ۔۔۔ اب تو وہ ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جہاں قدم قدم پر وہ نئی سے نئی ذلتوں سے آشنا کیے جائیں گے، مزید بے بس کیے جائیں گے اور ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھ کر نظام کے رکھوالے حظ اٹھائیں گے۔
منجانب:
*پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ہارون بخاری* آف گجرات
 

الف نظامی

لائبریرین
پولیس کے زیرِ حراست تشدد (پروفیسر محمد مشتاق)
پرتشدد ہنگاموں کے بعد تحریکِ لبّیک پاکستان پر پابندی لگا دی گئی۔ بہت سارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ کل سے بہت ساری وڈیوز فیس بک اور وھاٹس ایپ وغیرہ پر گردش میں ہیں جن میں پولیس کے زیرِ حراست لوگوں پر تشدد کو باقاعدہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور تشدد کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس تشدد کو ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ گویا وہ دہشت پھیلانے کےلیے ان کلپس کو خود ہی استعمال کررہے ہیں۔
یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ قانون کی اتنی سنگین خلاف ورزیوں کو یوں کھلے عام شیئر کیا جارہا ہے اور پھیلایا جارہا ہے اور اس سے بھی زیادہ بے غیرتی کی بات یہ ہے کہ لوگ اس پر تبصرے کرکے قہقہے لگارہے ہیں اور جگتیں لگارہے ہیں۔
ابھی تک کوئی ایک پوسٹ میری نظر سے ایسی نہیں گزری جس میں اس بات پر توجہ دلائی گئی ہو کہ تشدد جرم ہے، مار پیٹ جرم ہے، تذلیل جرم ہے، گالم گلوچ جرم ہے، اور یہ سارے کام تب بھی جرائم تھے جب مظاہرین نے ان کا ارتکاب کیا، اور یہ اب بھی جرائم ہیں، اور زیادہ سنگین جرائم ہیں، جب پولیس ان کا ارتکاب کررہی ہے۔ اس کے جواب میں یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ "بدلہ" لیا جارہا ہے، یا ان کے "کرتوتوں کی سزا" ہے، یا یہ دوسروں کو "عبرت دلانے" کےلیے ہے کیونکہ یہ ساری باتیں تمام دہشت گرد اپنی دہشت گردیوں کو جواز دینے کےلیے ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کہاں مرگیا ہے؟ حقوقِ انسانی والی آنٹیاں کہاں چھپ گئی ہیں؟ عدم تشدد کے دعویداروں کی زبانوں میں کیوں آبلے پڑ گئے ہیں؟ اور عدلیہ کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟
یہ دوہرا معیار کب تک؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ایک بیانیہ چلا آرہا ہے۔ وہی بیانیہ جو اب صرف ان کا نہیں رہا بلکہ پاکستان کی پوری اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسے اپنا چکی ہے۔ یوں یہ اب ایک جماعت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کی حد تک جزوی طور پر قومی بیانیہ بن چکا ہے۔
جزوی یوں کہ حکومت میں شامل جماعتیں اور ان کے ووٹرز اس بیانیے کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بیانیے کا ایک حساس پہلو بھی ہے جس کا اپوزیشن جماعتوں کو ادراک تو یقیناً ہوگا مگر اس ادراک کو وہ ورکرز کی سطح پر منتقل کرتے نظر نہیں آرہے۔
اگر معاملات اپوزیشن کی امیدوں کے مطابق آگے بڑھتے ہیں اور آنے والے دنوں میں نتائج ان جماعتوں کے حق میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو تب یہ حساس پہلو یکدم ابھر کر سامنے آئے گا۔ اور جب یہ ابھر کر سامنے آئے گا تو درد سر اسٹیبلشمنٹ کے لئے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی قیادت کے لئے پیدا کرے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں میڈیا سے گفتگو اور جلسوں کے دوران تقاریر میں اس پہلو پر اشارتاً سہی مگر روشنی ڈالتے جایا کریں۔ تاکہ کل کلاں ان کو اپنے ہی ورکرز کی جانب سے کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز اس خوشنما دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت عوامی راج نام ہے۔ اس راج میں جو بھی ہوتا ہے بس عوام کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جمہوری نظام کی کوئی حقیقی تصویر نہیں ہے۔ اس نظام کا ایک حصہ وہ ہے جو نظر آرہا ہوتا ہے۔ یعنی منتخب نمائندوں کی حکومت اور ان کی ماتحت بیوروکریسی۔ جبکہ دوسرا حصہ وہ ہے جو سات پردوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ سات پردوں کے پیچھے چھپے اس حصے کواسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔
کسی بھی ملک کا رخ اس کی قومی سلامتی پالیسی سے طے ہوتا ہے۔ یہ پالیسی کا بنیادی فریم اسٹیبلشمنٹ ہی ترتیب دیتی ہے۔ اس پالیسی کو نہایت راز داری میں رکھ کر اس کی روشنی میں ایک خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی ہے جو دنیا کے لئے اس ریاست کی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ صدارتی نظام والے ملک میں صدر اور پارلیمانی نظام والے ملک میں وزیر اعظم اس پالیسی کی روشنی قانون سازی اور عملداری کا خاکہ بنا کر اسے پارلیمنٹ کے پاس بھیجتا ہے اور اس کی منظوری حاصل کرتا ہے۔ قانون سازی اور عملدرآمد کے اس خاکے میں حسب ذوق رنگ بھرنے کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ قومی سلامتی پالیسی سے یہ خاکے اور اس کے رنگ متصادم نہ ہوں۔
یہ درست ہے کہ اس پالیسی میں جمہوری نظم کے منتخب حصے کا اِن پٹ بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر یہ اِن پٹ کوئی پرابلم نہ کھڑی کر رہا ہو تو اسے حصہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر صدر یا وزیر اعظم کو ہی قدم پیچھے لینے ہوتے ہیں۔
بسا اوقات حکمران اسے انا کا بھی مسئلہ بنا لیتے ہیں اور وہ من مانی پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے وقتی طور پر پریمئر انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ برطرف کردیا جائے یا فوج کے سربراہ کو سبکدوش کردیا جائے۔ جس سے وقتی طور پر سربراہ حکومت اس خوش فہمی کا شکار بھی ہوسکتا ہے کہ دیکھا کیسا سیدھا کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے سربراہانِ حکومت کے ساتھ پھر اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کرتی ہے وہ دنیا کے ہر اہم ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی اس بالادستی کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ سیکورٹی کلیئرنس ملے بغیر نہ تو کوئی سربراہ حکومت بن سکتا ہے اور نہ ہی وزیر مشیر۔ اور کلیئرنس دینے یا نہ دینے کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم پنٹاگون بریفنگ لینے گئے تو انہیں یہ کہہ کر بریفنگ دینے سے انکار کردیا گیا کہ آپ کی سیکورٹی کلیئرنس ابھی ہمیں موصول نہیں ہوئی۔ اگر بات محض عوامی ووٹ کی ہوتی تو وہ تو بائیڈن کو مل چکا۔ اسے اپنی ٹیم چننے کا اختیار بھی ہے مگر اس ٹیم کو اختیارات ملنا سیکورٹی کلیئرنس سے مشروط ہے جو عوام نے نہیں اسٹیبلشمنٹ نے دینی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اپنا وجود شو کرنے کا بہت شوق ہے۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ یہ شوق نہیں رکھتی۔ وہ پیچھے رہ کر اپنا کام کرتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار انتہائی غیر معمولی حالات میں اپنی موجودگی کا قومی سطح پر احساس بھی دلا دیتی ہے۔ مثلاً دو چار سال قبل برطانوی پالیمان میں کشمکش کی صورتحال پیدا ہوئی تو نہایت جارح مزاج اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہونے لگے۔
اس موقع پر برطانوی فوج نے صاف کہدیا کہ اگر آنے والے وقت میں جرمی کوربن کے وزیراعظم بننے کا امکان پیدا ہوا تو انہیں بطور وزیر اعظم قبول نہیں کریں گے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ایسی رپورٹس بھی برٹش میڈیا میں آئیں کہ برطاوی فوج کے بعض اہلکاروں نے نشانہ بازی کی مشق کے لئے جرمی کوربن کی تصاویر استعمال کی ہیں۔ تب برطانیہ میں کسی نے بھی یہ ہنگامہ کھڑا نہیں کیا کہ فوج کو جرات کیسے ہوئی سیاسی معاملات میں دخل دینے کی۔
دوسری مثال افغانستان میں امریکی فوج کے سابق کمانڈر جنرل میک کرسٹل کی ہے جنہوں نے ایک انٹرنیشنل میگزین سے بات کرتے ہوئے صدر اوبامہ پر تنقید کردی تھی۔ جنرل میک کرسٹل کو صدر اوباما نے فورا برطرف کردیا مگر قصور یہ نہیں بتایا گیا کہ جمہوریت میں مداخلت کیوں کی ؟ بلکہ یہ بتایا گیا کہ اندر کی بات میڈیا کے ذریعے پبلک کیوں کی ؟ جنرل میک کرسٹل کے خیالات کوئی ذاتی خیالات نہ تھے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خیالات تھے۔
صدر اوباما نے میک کرسٹل کے تو برطرف کردیا مگر اسٹیبلشمنٹ کا بنیادی مطالبہ بھی تسلیم کرلیا۔ ایک تیسری اور سب سے اہم مثال یوٹیوب پر امریکی اوان نمائندگان اور سینٹ کی پبلک ہیئرنگ کی ایسی مختلف ویوڈیوز میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں کوئی حکومتی وزیر، کسی ادارے کا سربراہ یا جنرل کمیٹی کے بعض سوالات کا جواب دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔
حالانکہ قانوناً ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کمیٹی انکار کی وجہ پوچھتی ہے تو آگے سے کہا جاتا ہے کہ یہ پبلک ہیئرنگ ہے میں اس میں جواب نہیں دوں گا۔ اگر کمیٹی چاہے تو “اِن کیمرہ” بتا سکتا ہوں۔ یہ اِن کیمرہ اموراسٹیبلشمنٹ سے ہی متعلق ہوتے ہیں۔ جن کے معاملات اخفا میں ہی رکھے جاتے ہیں۔ انہیں کانگریس یا سینٹ کے اوپن اجلاس میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔
ملک کی داخلہ پالیسی میں اسٹیبلشمنٹ کا اتنا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اصل محاذ خارجہ امور کا ہے جس پر اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرپ ہوتی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی غلطی یہ ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اور اسے عوامی نمائندوں کی تحقیر کا بھی شوق ہے۔ ورنہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہوتا تو یہ انکار سب سے زیادہ امریکہ اور برطانیہ میں ہی پایا جاتا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اسی انداز سے چلنا چاہئے جس انداز سے بڑے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ چل رہی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے موجود تو رہنا ہے کیونکہ یہ ریاست کے تحفظ کی بنیاد ہے۔ تو ڈھنگ سے رہنے میں ہی ملک کا فائدہ ہے۔ اس پس منظر کے ہوتے یہ بات طے ہے کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہ تو ختم ہو رہا ہے اور نہ ہوگا۔
معاملات اپوزیشن نے اسی سے طے کرنے ہیں۔ سو ایسے میں اگر سول بالادستی کی تصویر اپوزیشن یہ پیش کرے گی کہ ان کی تحریک کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ حکومت کے نیچے لگ جائے گی تو یہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
کل جب یہی اپوزیشن اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات فائنل کرے گی تو اپوزیشن جماعتوں کے کارکن ہی ان سے پوچھیں گے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ اب آر ہوگا یا پار۔ تو پھر آپ نے اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کرلیا ؟ تب اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر جتنے بھی فلسفے جھاڑ لیں ان کا ورکر مطمئن نہ ہوگا۔ سو بات صاف کہنی چاہئے کہ “ہمارا جھگڑا اداروں سے نہیں افراد سے ہے” کا مطلب یہی ہے اسٹیبلشمنٹ کو تھلے لگانے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ہم بس اسے سات پردوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناصر مدنی کہندا اے تحریک انصاف کہومت دے بارے چ
نکی جئی پدنی تے پِد پِد کردی
تے سارے پاکستان دی لِد کٹھی کردی

عمران خان ان مولویوں کے نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ جلد اسے قادیانی اور یہودی ایجنٹ قرار دے دیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہیومن رائٹس کمیشن کہاں مرگیا ہے؟ حقوقِ انسانی والی آنٹیاں کہاں چھپ گئی ہیں؟ عدم تشدد کے دعویداروں کی زبانوں میں کیوں آبلے پڑ گئے ہیں؟ اور عدلیہ کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟
یہ دوہرا معیار کب تک؟
لتر پریڈ کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ ریاست نے بہت برداشت کر لیا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
ہاں جیسے عمران خان کی آمد سے پہلے ملک میں بھوک اور بیروزگاری ناپید تھی
بھوک اور بیروزگاری کبھی بھی کسی بھی ملک میں ناپید نہیں ہوتی حتی کہ امریکہ میں بھی نہیں۔ صرف اس کی شدت اور وسعت میں کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھوک اور بیروزگاری کبھی بھی کسی بھی ملک میں ناپید نہیں ہوتی حتی کہ امریکہ میں بھی نہیں۔ صرف اس کی شدت اور وسعت میں کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔
جس حساب سے پاکستان کی آبادی ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اگر سالانہ معیشت ۷ فیصد تک بڑھ نہ پائے تو غربت میں اضافہ ہی ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۲ کے بعد سے پاکستان کی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اس کا ذمہ دار بھی عمران ہی ہوگا حالانکہ ۱۹۹۰ میں نواز شریف پہلی بار ملک کا وزیر اعظم بنا تھا۔

 

حسرت جاوید

محفلین
جس حساب سے پاکستان کی آبادی ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اگر سالانہ معیشت ۷ فیصد تک بڑھ نہ پائے تو غربت میں اضافہ ہی ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۲ کے بعد سے پاکستان کی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اس کا ذمہ دار بھی عمران ہی ہوگا حالانکہ ۱۹۹۰ میں نواز شریف پہلی بار ملک کا وزیر اعظم بنا تھا۔

بات موجودہ دور کی چل رہی ہے اور موجودہ دور کا ذمہ دار عمران ہی ہے۔ یہ کہنا کہ یہ تو فلاں فلاں دور سے ایسا چل رہا ہے محض عذر ہے۔ حکمران مسائل حل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، صرف مذہبی کہانیاں سننے یا خوبصورتی کا دیدار کرنے یا ان کی پرستش کرنے کے لیے نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات موجودہ دور کی چل رہی ہے اور موجودہ دور کا ذمہ دار عمران ہی ہے۔
بیشک ہے البتہ بعض چیزوں کو تاریخی سمت اور تسلسل کے پیرائے میں سمجھنا پڑتا ہے۔ ۱۹۹۰ سے پاکستانی معیشت میں برآمداد کی شرح گرتی چلی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہر حکومت کو تجارتی خسارے پورا کرنے کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ اور یوں ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اگر پاکستانی معیشت بنگلہ دیش اور بھارت سے بہت پیچھے رہ گئی ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی برآمداد کا نہ بڑھنا ہے۔ یہاں سوال عمران خان کی بجائے ان جماعتوں سے ہونا چاہیے جو ۱۹۹۰ سے بار بار اقتدار میں رہے لیکن ملک کی معاشی سمت بہتر نہ کر سکے۔

 
Top