سید شہزاد ناصر
محفلین
زندہ بادگزشتہ ہفتے کے روز ہمارا بیمار موبائل فون ایسا پاگل ہوا کہ اس نے ہمیں بھی اپنے ساتھ پاگل کردیا۔ کچھ کر کرا کے اسے زندہ تو کرلیا لیکن بوجوہ کونٹیکٹس کو واپس نہ لا سکے۔ پھر دوستوں کے ساتھ صدر گشت پر نکل گئے، یوں کونٹیکٹس واپس لانے کا وقت بھی نہ مل سکا۔ دورانِ گشت ایک نمبر سے "حضوووووور" لکھا ہوا ایس ایم ایس موصول ہوا۔ ظاہر ہے کونٹیکٹس محفوظ نہ رہے تھے تو اب کیا پتا دوسری طرف کون تھا۔ ہم نے پوچھا کون؟ تو جواب میں کچھ جلی کٹی سی بات آئی۔ ہم نے لاکھ عذر پیش کیے کہ حضرت (یا خاتون جو بھی ہیں) نام بتا دیجیے، ہمیں افسوس ہے کہ کونٹیکٹس محفوظ نہ رہ سکے۔ تھوری دیر بعد فون کا چارج بھی ختم ہوا۔ اور کچھ گھنٹے بعد ہم نے گھر پہنچ کر اسے چارج کیا اور اون کیا تو مسڈ کول نوٹیفیکیشن آیا ہوا تھا، اسی نمبر سے جس سے ایس ایم ایس موصول ہوا تھا۔ ہم نے فورا اس امید پر کول ملائی کہ دوسری طرف کوئی خوبصورت سی کھنکتی ہوئی زنانہ آواز ہوگی۔ امیدوں پر ڈھیروں کے حساب سے برف پڑ گئی کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس تھی۔ آواز کیا تھی گویا بادل گرج رہے تھے یا شیر غرا رہا تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے عرضِ احوال کی، معذرت کی کہ کونٹیکٹس محفوظ نہیں رہ پائے اس لیے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جواب آیا "خاکسار کو فاتح الدین کہتے ہیں"۔۔۔ ہمیں کانوں پر یقین نہ آیا، سو دوبارہ پوچھا کیا کہتے ہیں؟ جواب ہنوز وہی تھا۔ ہمارے پیروں تلے زمین نکل چکی تھی کہ استادِ محترم اس خطا پر خوب خفا ہونگے کے نمبر کیوں نہ محفوظ رکھا۔ خیر گزری، مزاج اچھا تھا، ہنسی میں درگزر کر گئے۔
فرمانے لگے کہ میاں پیر کو کراچی ہمارے قدموں تلے ہوگا اور جمعرات کو ہی اسے اچھی طرح روندنے کی فرصت ملے گی تو ہمارے آستانے پر حاضری لگا جانا اور دوسروں کو بھی لے آنا۔ ہم نے سوچا جمعرات کا مبارک دن ہے اچھی بات ہے استاد جمعرات کو آپ کے آستانے پر قوالی نہ کی تو پھر کیا کیا۔ استادِ محترم کے حکم پر کچھ محفل کے دوستوں سے رابطہ کیا، کچھ کے نام ذہن سے نکل گئے کیوں کہ استاد کی آواز کی گھن گرج سن کر ہمیں حقیقتا 104 بخار نے آگھیرا تھا، جو کہ جمعرات تک رہا تھا۔ جن کے نام ذہن سے نکل گئے تھے ان سے معذرت
انیس الرحمن بھائی، مہدی نقوی حجاز اور خالد محمود چوہدری آنے کے امیدوار تھے۔ ہمیں جمعرات کو خیال آیا کہ محمداحمد بھائی سے بھی پوچھا جا سکتا ہے، لیکن وہ کام کی زیادتی اور طبیعت کی ناسازی کے باعث آنے سے قاصر رہے۔ مہدی نقوی حجاز مقررہ وقت پر آ نہیں سکتے تھے سو وہ کسی اور وقت استاد کے در پر حاضری دے چکے تھے۔
رات 8 بجے ہوٹیل پرل کونٹی نینٹل میں استاد کے آستانے پر حاضری قرار پائی تھی۔ ہم کراچی کے بے مہار ٹریفک کو چیرتے ہوئے پہلے لیاقت آباد پہنچے، انیس بھائی کو ساتھ لیا اور چل دیے جانبِ آستانہ۔ کراچی کے بے ہنگم ٹریفک سے ہماری ازلی دشمنی دیکھ کر انیس بھائی حیران ہوتے رہے اور ہمیں تسلیاں دے کر ٹھنڈا کرتے رہے۔ پرل کونٹی نینٹل پہنچ کر استاد کے بتائے ہوئے کمرے کے باہر پہنچ کر کول بیل بجائی اور تھوڑی دیر بعد استاد پڑھائی کا چشمہ پہنے دروازے میں نمودار ہوئے اور ایک نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے جھک کر بغل گیر ہوئے۔ جھکنا انہیں یوں پڑا کہ وہ پہاڑ اور ہم چیونٹی۔ ہم نے آستانے میں داخل ہونے سے قبل پاپوش اتارنے کی اجازت چاہی تو استاد نے فرمایا "نہ صرف اتارو بلکہ ہمارے سر پر بھی دے مارو"۔ ہم پاپوش میں آفتاب کی کرن لگانے سے قاصر تھے سو اتارے بغیر ہی گھس پڑے۔
ہم اور انیس بھائی تھوڑی دیر بیٹھے ہی تھے کہ خالد بھائی بھی آ پہنچے۔ ہم تینوں کو تھوڑی دیر گزری تھی کہ استاد کے پاس محفل کی جان جناب میم میم مغل (مغزل ) کی کول آئی کہ یہ نا معقول گارڈ بلیلہ کو اندر نہیں لانے دے رہا۔ استاد نے ایک فون گھمایا اور زبانِ فرنگ میں وہ بے نقط سنائی کہ مینیجر بھاگم بھاگ مغل بھائی کی بائک کو لینے دروازے پر جا پہنچا۔ مگر مغل بھائی بھی آخر مغل ہیں، فرمایا دفع ہوجا اے درباری، ہم اپنا گھوڑا باہر ہی پارک کریں گے۔ قصہ مختصر مغل بھائی تشریف لائے محبت سے ملے۔ فاتح بھائی نے ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں تو مغل بھائی نے ان کی قدم بوسی کی۔
ہم پانچ افراد میں سے جو پہلے مل چکے تھے اس کا نقشہ کچھ یوں ہے:
فاتح - مغل
مغل - امین
انیس - امین
خالد بھائی کی کسی سے بھی پہلی ملاقات تھی۔ ہماری فاتح بھائی اور خالد بھائی سے پہلی ملاقات تھی۔ انیس بھائی کی فاتح بھائی اور مغل بھائی سے پہلی ملاقات تھی۔ خالد محمود چوہدری بہت نرم گفتار اور محبت کرنے والے سیدھے انسان ہیں۔ انیس بھائی بہت کم گو اور شرمیلے سے ہیں فاتح بھائی یاروں کے یار ہیں، بہت ہنسنے ہنسانے والے اور محبت کرنے والے۔ مغل بھائی اور فاتح بھائی ہنسی مذاق کرتے رہے اور ہم کھانسی کے ساتھ ہنستے رہے اور سر دھنتے رہے۔
کئی گھنٹے ہنسی مذاق میں گزر گئے تو خیال آیا رات کافی بیت چکی ہے، کھانا کھا لینا چاہیے۔ کھانے کے مقام پر اتفاق نہ ہو سکا تو فاتح بھائی کے اصرار پر طے پایا کہ انہی کے آستانے میں کھانا منگوا لیا جائے۔ کھانے کے انتظار کو ہم نے باتوں کے لیے غنیمت جانا اور پھر سے ہنسی مذاق میں لگ گئے۔ کچھ شاعری کا تذکرہ ہوا کچھ شاعروں کا۔ ٹی وی پر فلم "غالب" لگی ہوئی تھی۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ غالب سے پہلے عامر لیاقت کا پروگرام لگا ہوا تھا ۔ غالب کی غزلیں سن کر فاتح بھائی کو حال آگیا تو جلدی سے مغل بھائی نے ان کے منہ میں سگریٹ لگائی، جس سے انہیں کچھ قرار ملا۔
بعد طعام استادِ محترم اور مغل بھائی نے اپنی اپنی اور کچھ دوسروں کی شاعری سنائی۔ بھارت کے شاعر عرفان صدیقی کا کچھ کلام پڑھا اور سنا گیا۔ گو کہ یہ سب کچھ ابھی نا کافی تھا اور محفل ابھی مزید جاری رہنی تھی۔ مگر رات کافی بھیگ چکی تھی، سو ہم سب فاتح بھائی سے اجازت لے کر اپنے اپنے گھروں کو چل پڑے۔ تشنگی کافی باقی رہ گئی تھی۔ یار زندہ صحبت باقی ۔
مزہ آ گیا ملاقات کا احوال پڑھ کر
کاش ہم بھی موجود ہوتے
شادو آباد رہیں