شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۹۰
جو نثرِ خاتمہ ہے، اُس میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ ۲۷ رمضان ۱۲۸۰ھ کر افضل المطابع میں چھپ کر منظورِ نظر ہوا۔ سرورق پر مندرج سنہِ طباعت میں اور اس نثر میں بیان کردہ سنہِ طباعت میں جو اختلاف ہے، اُس کی وجہ وہی معلوم ہوتیہے جس کی طرف نسخۂ ض کے تعارف میں توجہ مبذولکرائی جا چکی ہے۔
سرورق پر یہ مرقوم ہے کہ : "در مطبع خاص افضل المطابع رونق طبع یافت۔" سرورؔ کی نثرِ خاتمہ میں سرورؔ نے بھی اسی مطبعے کی نشان دہی کی ہے: "شہر لکھنؤ محلہ فرنگی محل افضل المطابع میں چھپ کر منظور نظر ہوا۔ " لیکن مطبعے کی طرف سے جو نثرِ خاتمہ شامل کی گئی ہے، اُس میں یہ مرقوم ہے کہ " "باستشارۂ بحر نوال جامع ہر کمال ارسطو فطرت والا دود مان نواب سید فدا حسین خاں سلمہ المنان مطبع نجم العلوم لکھنؤ میں۔۔۔ آب و رنگ تازہ پایا۔۔۔ اربابِ ہم پیشہ سے امید ہے کہ جس قدر نسخے مطلوب ہوں مطبع نجم العلوم سے طلب فرمائیں" مطبع افضل المطابع اور مطبع نجم العلوم، دونوں کے مالک (غالباً) مولوی محمد یعقوب انصاری (۱) ہی تھے۔ اصل کتاب ص ۱۳۳ کے وسط میں ختم ہو جاتی ہے۔ اُس کے بعد سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر ہے جو ص ۱۳۴ کے وسط میں ختم ہوتی ہے۔ اُس کے بعد مطبعے کی طرف سے نثرِ خاتمہ ہے جو اس صفحے کی آخری سطر پر ختم ہوتی ہے۔ ص ۱۳۵ پر سرورؔ کی لکھی ہوئی ایک اور مختصر سی نثر ہے، جس کے ساتھ عنایت حسین گوپا موی کا قطعۂ تاریخِ طبع (۲) ہے۔ یہ اس صفحے کی آخری
-------------------------------------------------------------------------
(۱) سرورؔ کی دوسری کتاب شبستانِ سرور کے ناشر یہی مولوی محمد یعقوب تھے؛ اس کتاب کے سرورق پر مطبے کا نام "نجم العلوم" لکھا ہوا ہے اور اندرونی ورق پر صراحت ہے کہ یہ کتاب "مطبع نجم العلوم کارنامہ لکھنؤ میں بہ اہتمامِ محمد یعقوب" چھپی ہے۔ اس سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے کہ "نجم العلوم" کے مالک یہی تھے۔ ہفتے وار"کارنامہ" کے مالک تو یہی مولوی یعقوب تھے۔ اختر شہنشاہی میں مرقوم ہے کہ مولوی یعقوب انصاری کئی مطبعوں کے مالک تھے۔ مزید دیکھیے ضمیمۂ نمبر ۴ بہ ذیلِ "محمد یعقوب انصاری۔"
(۲) اس قطعے کے یہ اشعار بہت اہمیت رکھتے ہیں :
چھپا تھا میر حسن کے یہ پہلے مطبعے میں
زمانہ اُس کو ہوا بیس (۲۰) سال سے بھی سوا
جو نثرِ خاتمہ ہے، اُس میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ ۲۷ رمضان ۱۲۸۰ھ کر افضل المطابع میں چھپ کر منظورِ نظر ہوا۔ سرورق پر مندرج سنہِ طباعت میں اور اس نثر میں بیان کردہ سنہِ طباعت میں جو اختلاف ہے، اُس کی وجہ وہی معلوم ہوتیہے جس کی طرف نسخۂ ض کے تعارف میں توجہ مبذولکرائی جا چکی ہے۔
سرورق پر یہ مرقوم ہے کہ : "در مطبع خاص افضل المطابع رونق طبع یافت۔" سرورؔ کی نثرِ خاتمہ میں سرورؔ نے بھی اسی مطبعے کی نشان دہی کی ہے: "شہر لکھنؤ محلہ فرنگی محل افضل المطابع میں چھپ کر منظور نظر ہوا۔ " لیکن مطبعے کی طرف سے جو نثرِ خاتمہ شامل کی گئی ہے، اُس میں یہ مرقوم ہے کہ " "باستشارۂ بحر نوال جامع ہر کمال ارسطو فطرت والا دود مان نواب سید فدا حسین خاں سلمہ المنان مطبع نجم العلوم لکھنؤ میں۔۔۔ آب و رنگ تازہ پایا۔۔۔ اربابِ ہم پیشہ سے امید ہے کہ جس قدر نسخے مطلوب ہوں مطبع نجم العلوم سے طلب فرمائیں" مطبع افضل المطابع اور مطبع نجم العلوم، دونوں کے مالک (غالباً) مولوی محمد یعقوب انصاری (۱) ہی تھے۔ اصل کتاب ص ۱۳۳ کے وسط میں ختم ہو جاتی ہے۔ اُس کے بعد سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر ہے جو ص ۱۳۴ کے وسط میں ختم ہوتی ہے۔ اُس کے بعد مطبعے کی طرف سے نثرِ خاتمہ ہے جو اس صفحے کی آخری سطر پر ختم ہوتی ہے۔ ص ۱۳۵ پر سرورؔ کی لکھی ہوئی ایک اور مختصر سی نثر ہے، جس کے ساتھ عنایت حسین گوپا موی کا قطعۂ تاریخِ طبع (۲) ہے۔ یہ اس صفحے کی آخری
-------------------------------------------------------------------------
(۱) سرورؔ کی دوسری کتاب شبستانِ سرور کے ناشر یہی مولوی محمد یعقوب تھے؛ اس کتاب کے سرورق پر مطبے کا نام "نجم العلوم" لکھا ہوا ہے اور اندرونی ورق پر صراحت ہے کہ یہ کتاب "مطبع نجم العلوم کارنامہ لکھنؤ میں بہ اہتمامِ محمد یعقوب" چھپی ہے۔ اس سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے کہ "نجم العلوم" کے مالک یہی تھے۔ ہفتے وار"کارنامہ" کے مالک تو یہی مولوی یعقوب تھے۔ اختر شہنشاہی میں مرقوم ہے کہ مولوی یعقوب انصاری کئی مطبعوں کے مالک تھے۔ مزید دیکھیے ضمیمۂ نمبر ۴ بہ ذیلِ "محمد یعقوب انصاری۔"
(۲) اس قطعے کے یہ اشعار بہت اہمیت رکھتے ہیں :
چھپا تھا میر حسن کے یہ پہلے مطبعے میں
زمانہ اُس کو ہوا بیس (۲۰) سال سے بھی سوا