مقدمہ فسانہ عجائب از رشید حسن خاں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۰

جو نثرِ خاتمہ ہے، اُس میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ ۲۷ رمضان ۱۲۸۰ھ؁ کر افضل المطابع میں چھپ کر منظورِ نظر ہوا۔ سرورق پر مندرج سنہِ طباعت میں اور اس نثر میں بیان کردہ سنہِ طباعت میں جو اختلاف ہے، اُس کی وجہ وہی معلوم ہوتیہے جس کی طرف نسخۂ ض کے تعارف میں توجہ مبذولکرائی جا چکی ہے۔

سرورق پر یہ مرقوم ہے کہ : "در مطبع خاص افضل المطابع رونق طبع یافت۔" سرورؔ کی نثرِ خاتمہ میں سرورؔ نے بھی اسی مطبعے کی نشان دہی کی ہے: "شہر لکھنؤ محلہ فرنگی محل افضل المطابع میں چھپ کر منظور نظر ہوا۔ " لیکن مطبعے کی طرف سے جو نثرِ خاتمہ شامل کی گئی ہے، اُس میں یہ مرقوم ہے کہ " "باستشارۂ بحر نوال جامع ہر کمال ارسطو فطرت والا دود مان نواب سید فدا حسین خاں سلمہ المنان مطبع نجم العلوم لکھنؤ میں۔۔۔ آب و رنگ تازہ پایا۔۔۔ اربابِ ہم پیشہ سے امید ہے کہ جس قدر نسخے مطلوب ہوں مطبع نجم العلوم سے طلب فرمائیں" مطبع افضل المطابع اور مطبع نجم العلوم، دونوں کے مالک (غالباً) مولوی محمد یعقوب انصاری (۱) ہی تھے۔ اصل کتاب ص ۱۳۳ کے وسط میں ختم ہو جاتی ہے۔ اُس کے بعد سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر ہے جو ص ۱۳۴ کے وسط میں ختم ہوتی ہے۔ اُس کے بعد مطبعے کی طرف سے نثرِ خاتمہ ہے جو اس صفحے کی آخری سطر پر ختم ہوتی ہے۔ ص ۱۳۵ پر سرورؔ کی لکھی ہوئی ایک اور مختصر سی نثر ہے، جس کے ساتھ عنایت حسین گوپا موی کا قطعۂ تاریخِ طبع (۲) ہے۔ یہ اس صفحے کی آخری
-------------------------------------------------------------------------
(۱) سرورؔ کی دوسری کتاب شبستانِ سرور کے ناشر یہی مولوی محمد یعقوب تھے؛ اس کتاب کے سرورق پر مطبے کا نام "نجم العلوم" لکھا ہوا ہے اور اندرونی ورق پر صراحت ہے کہ یہ کتاب "مطبع نجم العلوم کارنامہ لکھنؤ میں بہ اہتمامِ محمد یعقوب" چھپی ہے۔ اس سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے کہ "نجم العلوم" کے مالک یہی تھے۔ ہفتے وار"کارنامہ" کے مالک تو یہی مولوی یعقوب تھے۔ اختر شہنشاہی میں مرقوم ہے کہ مولوی یعقوب انصاری کئی مطبعوں کے مالک تھے۔ مزید دیکھیے ضمیمۂ نمبر ۴ بہ ذیلِ "محمد یعقوب انصاری۔"

(۲) اس قطعے کے یہ اشعار بہت اہمیت رکھتے ہیں :

چھپا تھا میر حسن کے یہ پہلے مطبعے میں
زمانہ اُس کو ہوا بیس (۲۰) سال سے بھی سوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۱

سطر پر ختم ہوتا ہے (یہ مکمل حصہ ضمیمہ نمبر ۱ میں شامل ہے) اور یہیں پر کتاب ختم ہو جاتی ہے۔

اس نسخے میں پچھلے نسخوں کے مقابلے میں اضافے بھی ہیں اور لفظی تبدیلیاں بھی ہیں۔ مثلاً ص ۱۶ پر (سطر ۵ سے سطر ۱۴ تک) معتمد الدولہ کے داروغۂ باورچی خانہ "میاں (۱) محمد اشرف" کے متعلق جو کچھ مرقوم ہے، وہ صرف اس نسخے میں ہے۔ یا مثلاً ص ۲۵ پر "باریک بیں ۔۔۔ ہم نہ ہوں گے" یہ پورا ٹکڑا (سطر ۲ سے سطر ۵ تک) اس نسخے کے سوا کسی اور نسخے میں موجود نہیں۔ لفظی تبدیلیاں تو بہت سی ہیں (دیباچے اور "بیانِ لکھنؤ" کے اختلافات کا احوال ضمیمۂ اختلافِ نسخ سے معلوم کیا جا سکتا ہے)۔ اس نسخے کا نشان ل ہے۔

(۸) اس فہرست کا آٹھواں نسخہ وہ ہے جسے منشی نول کشور نے سرورؔ سے حقوقِ اشاعت
--------------------------------------------------------------
پھر اس نے جلوہ دیا مصطفائی مطبعے کو
سہ بارہ مُہرِ مصنف سے پھر صحیح چھپا

کیا صحیح مصنف نے پھر یہ افسانہ
اور اس کو حاجی محمد حسین نے چھاپا

غرض کہ بیس (۲۰) دفعہ شہر لکھنؤ میں چھپا
نہ کچھ صحیح و غلط کا مگر خیال کیا

تلاش اب جو ہوئی شائقوں کو پھر اس کی
سرور" نے بھی طبیعت کا زُور دکھلایا

کیا درست فسانے کو اب جو چوتھی بار
ہوئی دو آتشہ پھر یہ مےِ سرور افزا

پھر اپنے ہاتھ سے اک خاتمے پہ نثر لکھی
جو اعتبار ہوا سب کو اس کی صحت کا

سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ کتاب پہلی بار مطبع میر حسن رضوی میں چھپی تھی۔ یعنی نسخۂ ح بلا شبہہ اس کتاب کی اشاعتِ اول ہے۔ تیسرے مصرعے میں نسخۂ ض کا ذکر ہے، کیوں کہ مُہرِ مصنف اُسی کے آخر میں ہے۔ تیسرے شعر میں نسخۂ ک کا ذکر ہے اور اس کا کہ اس پر مصنف نے نظرِ ثانی کی تھی۔ چھٹے شعر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس نسخے (یعنی نسخۂ ل) کے لیے سرورؔ نے چوتھی بار نظرِ ثانی کی ہے۔ اس سے یہ بات قطعی طور پر واضے ہو جاتی ہے کہ سرورؔ کے نظرِ ثانی کردہ نسخے صرف چار ہیں (یعنی ض، ک، ف، ل) اور یہ بالکل درست ہے۔ اس طرح نسخۂ د اس اس فہرست سے خود بہ خود خارج ہو جاتا ہے۔
-----------------------------------------------------------
(۱) کوشش کے باوجود میں ان کے متعلق کچھ معلوم نہیں کر سکا۔ اسی لیے ان کا نام ضمیمۂ نمبر ۴ میں شامل نہیں ہو سکا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۲

خریدنے کے بعد (۱) ۱۲۸۳ھ (۶۷ – ۱۸۶۶) میں بہت اہتمام کے ساتھ چھاپا تھا۔ کتابت اور طباعت کے لحاظ سے بلا شبہہ یہ اعلا درجے کا اڈیشن ہے؛ لیکن اس اڈیشن کے متعلق یہ غلط فہمی جو پھیل گئی ہے کہ یہ سرورؔ کا نظرِ ثانی کیا ہوا اڈیشن ہے؛ وہ درست نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اس میں بہت سی رنگین تصویریں ہیں۔ تصویریں تو معمولی ہیں، لیکن رنگ اس قدر پختہ ہیں کہ اب تک ماند نہیں پڑے ہیں۔ گہرے رنگ کا مضبوط بادامی کاغذ ہے، مسطر ۲۳ سطری ہے، جدول رنگین ہے، عنوانات سُرخ روشنائی سے لکھے گئے ہیں۔ شاعروں کے تخلص، مصرعوں کے درمیان کا نشان، لفظِ مصرع، غزل، رباعی وغیرہ؛ ان سب کو سُرخ روشنائی سے لکھا گیا ہے۔ کُل صفحات ۱۷۸۔ ص ۱۷۴ پر کتاب ختم ہو جاتی ہے، ص ۱۷۵ سے منشی فدا علی عیشؔ لکھنوی کی لکھی ہوئی نثرِ خاتمہ "مشعرِ حالِ مولفِ باکمال" شروع ہوتی ہے جو ص ۱۷۶ پر ختم ہوتی ہے۔ اس میں انھوں نے سُرورؔ کے لیے یہ بھی لکھا ہے کہ آج کل "جناب موصوف بلدۂ محمد آباد عرف بنارس میں تشریف فرما ہیں۔" اِسی صفحے پر تین قطعاتِ تاریخِ طبع ہیں۔ ص ۱۷۷ سے منشی فدا علی عیشؔ ہی کی دوسری نثر ہے، جس میں اُنھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ "منشی نول کشور نے نسخۂ نظر ثانی فرمودۂ مولف کے موافق طبع کرنے کا قصد کیا ۔" اِس کے بعد عیشؔ نے اس کی صراحت کی ہے کہ اِس نسخے کی کتابت منشی گوبند لال فضاؔ نے کی ہے، تصویریں شیخ قائم علی
---------------------------------------------------------------
(۱) نیر مسعود صاحب نے لکھا ہے : "۱۲۸۳ھ / ۱۷۶۷ء میں منشی نول کشور نے سرورؔ سے فسانۂ عجائب کا حقِ تالیف خرید کر رجسٹری کرا لیا" (رجب علی بیگ سرور، ص ۱۳۶)۔ مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ حقوقِ اشاعت کی خرید اور اس نسخے کی اشاعت، یہ دونوں واقعے ایک ہی سال یعنی ۸۳ھ؁ کے نہیں ہو سکتے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ اس اشاعت کے سرورق پر "۱۲۸۲ھ" درج ہے؛ یعنی اس سنہ میں کام شروع ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ حقوقِ اشاعت اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ اِس سنہ کے اوائل میں خریدے گئے ہوں گے۔ میرے سامنے ایسی کوئی تحریر موجود نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ حقوقِ اشاعت کب خریدے گئے تھے۔ اس نسخے کی اشاعت کا اہتمام و انتظام ۱۲۸۲ھ میں شروع ہو چکا تھا اور سرورؔ اُس وقت بنارس میں تھے (جیسا کہ عیشؔ نے لکھا ہے) تو پھر یہ لکھا پڑھی کب ہوئی اور کیسے ہوئی؟ لکھا پڑھی ہوئی تو تھی، مگر مجھے یہ نہیں معلوم کہ کب ہوئی تھی اور کس طرح ہوئی تھی۔ ہاں ڈاکٹر سلیمان حسین نے اپنے مرتبہ نسخے کے مقدمے میں اِسے ۱۲۸۲ھ کا واقعہ بتایا ہے (ص ۳۷)۔ یہ ممکن ہے، مگر ماخذ کا حوالہ اُنھوں نے نہیں دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۳

مصور نے بنائی ہیں اور شیخ امیر علی صاحب نے "باریکا جدول کشی کا کھینچا۔" آخری صفحے پر دو (۲) مزید قطعات ِ تاریخِ طبع ہیں۔ جو نسخہ میرے پیشِ نظرہے، وہ اِسی صفحے پر ختم ہو جاتا ہے۔

عیشؔ نے یہ جو لکھا ہے کہ "نسخۂ نظرِ ثانی فرمودۂ مولف کے موافق طبع کرنے کا قصد کیا"، غالباً اِسی جملے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ سرورؔ نے اپنے معمول کے موافق اِس اشاعت کے لیے بھی نظرِ ثانی کی تھی؛ حالاں کہ اس جملے سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ "نسخۂ نظرِ ثانی فرمودۂ مولف" تو کئی ایک موجود تھے، ایسا کوئی بھی نسخہ مراد لیا جا سکتا ہے۔ عیشؔ نے اپنی دونوں نثروں میں سرورؔ سے متعلق اور اِس اشاعت سے متعلق بہت سی باتیں لکھی ہیں؛ اگر سرورؔ نے اس اشاعت کی خاطر اپنی کتاب پر ایک بار پھر نظرِ ثانی کی ہوتی، تو یہ ایسی اہم بات تھی کہ اِسے تو خاص طور پر لکھا جاتا۔ کم از کم یہ تو لکھا ہی جا سکتا تھا کہ اِس اشاعت کےل یے مصنف نے خاص طور پر نظرِ ثانی کی ہے؛ مگر عیشؔ نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی (اور وہ لکھتے بھی کیسے، سرورؔ نے نظرِ ثانی کی ہوتی تو وہ لکھتے۔ رہا "نسخۂ نظرِ ثانی فرمودۂ مولف"، تو وہ ایک نہیں، کئی ایک موجود تھے)۔ غلط فہمی کو اچھی طرح رفع کرنے کے لیے عیشؔ کی دوسری نثر کا متعلق حصہ نقل کرتا ہوں: "عالی جناب۔۔۔ منشی نول کشور والا پایگاہ کو خیال طبع فسانۂ عجائب آیا۔ ایک دن ارشاد کیا کہ یہ کہانی لاثانی مع تصویرات مطبوع ہو۔ ایسی عمدہ چھپے کہ آج تک نہ چھپی ہو۔۔۔کار پردازان مطبع کو حکم کا انتظار تھا، فضل الٰہی سے سب سامان طبع تیار تھا۔ نسخۂ نظر ثانی فرمودۂ مولف کے موافق طبع کرنے کا قصد کیا۔"

اِس عبارت سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ مصنف کا نظرِ ثانی کیا ہوا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا، ورنہ منشی نول کشور یہ کہتےکہ اُس خاص نسخے کے مطابق یہ کتاب طبع ہو۔ میرا خیال ہے کہ عیشؔ کی اس عبارت کے بعد یہ خیالِ باطل پوری طرح ذہن سے نکل جائے گا کہ یہ نول کشوری اشاعتِ خاص کر اِس مطبعے کے لیے سرورؔ کے نظرِ ثانی کیے ہوئے متن پر مبنی ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ "نسخۂ نظرِ ثانی فرمودۂ مولف" کے مطابق یہ کتاب چھپی ہے، تو غلط نہ ہو گا، کیوں کہ ایسے کئی نسخے موجود تھے۔ سرورؔ نے جن نسخوں پر نظرِ ثانی کی ہے، اُن میں اُن کی لکھی ہوئی نثر بھی شامل ہے، جس میں وہ اِس کی صراحت کرتے ہیں کہ میں نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۴

اِس نسخے پر نظرِ ثانی کی ہے، اور جس ناشر کی فرمایش پر وہ نظرِ ثانی کرتے ہیں، اُس کا نام اور اُس کے مطبعے کا نام بھی شامل کرتے ہیں۔ اِس نسخے میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔ "بیانِ لکھنؤ" میں جہاں لکھنؤ کے مطبعوں کا بیان ہے، وہاں اِس نسخے میں وہی عبارت ملتی ہے جو اشاعتِ اول (ح) اور اشاعتِ ثانی (ض) میں ہے۔ یعنی یہ پورا حصہ ح یا ض سے نقل کر لیا گیا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس عبارت میں میر حسن کا نام بھی اُسی طرح برقرار ہے اور اُن کے مطبعے کا ذکر بھی موجود ہے۔ البتہ مطبعے کے ذکر میں اُس پر (۱) کا نشان بنا کر حاشیے میں یہ لکھا گیا ہے: "واضح ہو کہ یہ مطبع فی الحقیقت ایسا ہی تھا مگر اب بہ سبب نامساعدت زمانۂ ناہجاز کے بالکل بند ہو گیا ہے" (ص ۱۲)۔ اگر سرورؔ، منشی نول کشور کے چھاپنے کے لیے نظرِ ثانی کرتے، تو ظاہر ہے کہ اِس مقام پر اُن کے مطبعے کا ذکر ہوتا اور یہ حاشیے والی سطر نہ ہوتی۔ ایک بات اور : اِس نسخے کے سرورق پر سالِ طبع ۱۲۸۲ھ درج ہے، لیکن آخر میں جو قطعاتِ تاریخِ طبع ہیں، اُن میں سالِ طبع ۱۲۸۳ھ مندرج ہے (اور مادہ ہاے تاریخ سے یہی سنہ نکلتا بھی ہے)۔ یہ وہی صورت ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آ چکا ہے، کہ کتابت ۱۲۸۲ھ میں شروع ہوئی ہو گی اور طباعت ۱۲۸۳ میں مکمل ہوئی۔ اس اشاعت کے متن کا تقابل جب دوسرے نسخوں سے کیا گیا، تو ایک یہ بات بھی سامنے آئی کہ اِ س نول کشوری نسخےمیں متعدد مقامات پر تحریف کی کارگزاری بھی ملتی ہے۔ میں بربناے اختصار صرف چار (۴) مثالوں پر اکتفا کروں گا۔

(۱) اِس نول کشوری اشاعت میں (آیندہ اِسے ن کہا جائے گا) "بیانِ لکھنؤ" میں ایک ٹکڑا یوں ہے : "فصل بہار کی صنعت پروردگار کی" (ص ۶)۔ سب نسخوں میں "فصل" کی جگہ "باغ" ہے۔ غالباً اس خیال سے کہ "باغ" کی صورت میں قافیہ بندی بگڑ جائے گی، اُسے "فصل" سے بدلا گیا ہے۔ (۲) ن میں ص ۸ پر ایک ٹکڑا یوں ملتا ہے : "باہر بندو اُس کے پنے جو پائیں" جب کہ اور سب نسخوں میں "اس کے پنے" کی جگہ "اورگی کی پنی" ہے، غالباً "اورگی کی پنی" کو بے معنی سمجھ کر بدل دیا گیا ہے۔ (ہمارے نسخے میں یہ جملہ ص ۱۵ پر ہے)۔ (۳)ہمارے نسخے میں ص ۷۱ پر ایک شعر یوں ہے:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۵

پر تلک تھا جس مکاں پر شمع رویوں کا ہجوم
چھانتے ہیں اب وہاں پر خاکِ پروانے کو ہم

سب نسخوں میں "پر تلک" ہے ("پر" بہ معنی گزشتہ، جیسے پر سال)۔ صرف ن میں "کل تلک" ہے (ص ۳۵)۔ "پر تلک" کو مُصحح نے غالباً بے معنی سمجھ کر اُسے "کل تلک" سے بدل دیا۔ (۴) ہمارے نسخے میں ص ۱۵۷ پر ایک جملہ یوں ہے: "دن دیے لٹ گیا عشق کا بیپاری"۔ سب نسخوں میں یہاں "دن دیے" ہے، صرف ن میں "دن دہاڑے" ہے (ص ۷۹)۔ یہاں بھی مصحح نے غالباً "دن دیے" کو بے معنی یا متروک سمجھ کر "دن دہاڑے" سے بدل دیا۔ میرا خیال ہے کہ اثباتِ مدعا کے لیے یہ مثالیں کافی ہوں گی۔

یہ اشاعت صحیح معنی میں کم یاب ہے۔ اِس کا ایک نسخہ انجمن ترقیِ اُردو (نئی دہلی) کے کتب خانے میں محفوظ ہے اور وہی پیشِ نظر ہے۔ اِس نسخے کے سلسلے میں اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے، اُس سے اِس کتاب کے اہم نسخوں کی فہرست میں اِس نسخے کو بھی شامل کرنے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے، اسی لیے اسے بھی شامل کیا گیا۔ اس نسخے کا نشان ن ہے۔ اِن مذکورہ نسخوں کی ترتیب اِس طرح ہو گی :

(۱)۔۔۔مطبوعۂ مطبعِ حسنیِ میر حسن رضوی لکھنؤ (طبعِ اول) ۔۔۔ ۱۲۵۹ھ ۔۔۔ح
(۲)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ مصطفائی لکھنؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۶۲ھ۔۔۔م
(۳)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ حیدری لکھنؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۶۲ھ۔۔۔د
(۴)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ حسنیِ میر حسن رضوی لکھنؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۶۳ھ۔۔۔ض
(۵)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ محمدی کان پور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۲۶۷ھ۔۔۔ک
(۶)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ افضل المطابع محمدی کان پور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۷۶ھ۔۔۔ف
(۷)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ افضل المطابع لکھنؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۸۰ھ۔۔۔ل
(۸)۔۔۔۔"۔۔مطبعِ نول کشور لکھنؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۸۳ھ۔۔۔ن

(۲)دوسرے درجے میں وہ نسخے آتے ہیں جن کی تدوین کے نقطۂ نظر سے تو کچھ اہمیت نہیں، مگر محض قدامت کے لحاظ سے یا ایسی ہی کسی وجہ سے اُن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ میری نظر سے ایسے جو نسخے گزرے ہیں، اُن میں سب سے نمایاں حیثیت اُس نسخے کی ہے جو دہلی میں مولوی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۶

کریم الدین کے مطبعے میں چھپا تھا۔ سالِ طبع : ۱۲۶۱ھ۔ اِس کے آخر میں عبارتِ خاتمت الطبع میں مرقوم ہے :

"للہ الحمد والمنتہ کہ نسخۂ عجیبہ و قصہ غریبہ جان عالم شہزادہ بزبان اُردو مسمی بفسانۂ عجائب از مصنفات مرزا رجب علی بیگ متخلص بسرور کہ بیک واسطہ سلسلہ تلمزرا بمیر سوز میر سانند در ماہ شوال روز پنجشنبہ تاریخ ۱۳، ۱۲۶۱؁ہجری مطابق ۱۶، اکتوبر ۱۸۴۵؁ء قاضی کے حوض پر مطبع رفاہ عام میں باہتمام مولوی کریم الدین صاحب کے چھاپہ ہوا۔"

کُل صفحات ۲۱۱۔ مسطر اُنیش سطری۔ کتابت معمولی۔ اِس کے آخر میں شرفُ الدولہ کی مدحیہ نثر شامل ہے۔ یہ اشاعت لفظ بہ لفظ اشاعتِ اول (نسخۂ ح) کے مطابق ہے۔ یہاں تک کہ ہر صفحے کا اختتا اُسی لفظ پر ہوا ہے جس لفظ پر نسخۂ ح کے صفحے کا اختتام ہوتا ہے۔ ح میں اور اِس میں بس یہ فرق ہے کہ بعض الفاظ کا املا اِس میں ح سے مختلف ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ محض کتابت کا معاملہ ہے اور کچھ نہیں(۱)۔ اِس نسخے کی اصل اہمیت دو (۲) باتوں میں پنہاں ہے: ایک تو یہ کہ یہ پہلا دہلوی اڈیشن ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو مطبوعہ نسخے اب تک میرے علم میں آئے ہیں، اُن میں طبع اول (۱۲۵۹ھ) کے بعد یہ سب سے قدیم (۲) اڈیشن ہے۔ یہ اشاعت کم یاب ہے۔ مجھے بہت سی تلاش کے بعد
--------------------------------------------------------------------------
بس ایک نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ خاتمت الطبع کی عبارت میں ح میں "سلسلۂ تلمذرا بہ جرات مئ سانند" ہے۔ اِس اشاعت میں اُس کی تصحیح کر دی گئی ہے اور جراتؔ کی جگہ میر سوزؔ کا نام لکھا گیا ہے۔

(۲) کریم الدین نے اپنے تذکرے طبقاتِ شعراے ہند میں سرورؔ کا احوال بھی درج کیا ہے، اُس کے ذیل میں یہ بھی لکھا ہے: "ایک قصہ فسانۂ عجائب زبان اُردو میں اس کی تصنیف سے بہت مشہور ہے جو کہ دو (۲) دفعہ لکھنؤ میں چھپا اور ایک دفعہ میرے اہتمام سے دہلی میں درمیان مطبع بندہ کے ۱۲۶۱؁ ہجری میں چھپا" (ص ۴۳۹)۔" ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی کتاب اُردو کی نثری داستانیں (اتر پردیش اُردو اکیڈمی اڈیشن) میں اس عبارت کو نقل کر کے لکھا ہے: "معلوم ہوتا ہے کہ کریم الدین نے اپنے تذکرے میں سرورؔ کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۷

معلوم ہوا کہ اِس کا ایک نسخہ کتب خانۂ جامع مسجد بمبئی میں محفوظ ہے۔ عزیزِ مکرم انور قمرؔ نے (جو مشہور افسانہ نگار ہیں) میری فرمایش پر بہت دوڑ دھوپ کے بعد اُس کے صفحات کا عکس حاصل کیا؛ وہی عکس پیشِ نظر ہے۔

دوسرا نسخہ وہ ہے جو "مطبع احمدی واقع شاہ درہ دلیائی ضلع میرٹھ" میں ۱۲۷۷ھ میں چھپا تھا۔ کُل صفحات ۱۳۰۔ مسطر پچیس ۲۵ سطری۔ کتابت، طباعت، کاغذ سب بہت معمولی ہیں۔ بہ حیثیتِ مجموعی نسخہ بھی معمولی ہے۔

لکھنؤ کے مطبعِ علوی کا چھپا ہوا ایک نسخہ (سالِ طبع : ۱۲۶۷ھ) اور مطبعِ مسیحائی لکھنؤ کا چھپا ہوا اڈیشن (سالِ طبع : ۱۲۶۷ھ) بھی نیر مسعود صاحب کی عنایت سے دیکھنے کو ملا۔ طباعت کے لحاظ سے یہ خاصے اچھے اڈیشن ہیں، لیکن تدوین کے نقطۂ نظر سے اِن میں کوئی بات قابلِ ذکر نہیں۔ یہ دونوں نسخے بالترتیب نسخۂ ض اور ک پر مبنی معلوم ہوتے ہیں۔ نصابی ضرورت سے بھی یہ کتاب چھپتی رہی۔ اِ س کا ایک اڈیشن مطبوعۂ کالج پریس کلکتہ پیشِ نظر ہے۔ سالِ طبع ۱۸۶۸ء۔ سرورق پر یہ صراحت موجود ہے: "صاحبانِ عالی شان کی ڈگری کے امتحان کے لیے مقارر ہے۔" مطبعِ مرآۃ الاخبار کلکتہ کا اڈیشن (سالِ طبع ۱۸۴۶ء) کا تعارگ نیر مسعود صاحب نے اپنی کتاب میں کرایا ہے۔ اُنہوں نے اِس کےمنظوم اڈیشنوں کا اور ہندی و انگریزی ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ غرض کہ ایسے بہت سے اڈیشنوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے؛ لیکن یہ سب تدوین کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، پچھلے مطبوعہ نسخوں کی نقل ہیں۔
------------------------------------------------------------------
حال ۱۲۶۲؁ھ کی ابتدا میں لکھا ہے اور لکھنؤ کی دو (۲) اشاعتوں سے مراد مطبعِ محمدی اور مطبعِ مصطفائی کے اڈیشن ہیں" (ص ۵۱۶)۔ مطبعِ محمدی کا اڈیشن تو ۱۲۶۷ھ میں چھپا تھا، اُس کے کیسے شامل کیا جا سکتا ہے؟ یہ تذکرہ ۱۸۴۸ء (۶۵، ۱۲۶۴ھ) میں چھپا تھا اور سرورؔ کا احوال کریم الدین نے ۱۸۴۷ء میں لکھا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کریم الدین نے یہاں دو (۲) اڈیشنوں سے نسخۂ ح (لازمی طور پر) اور نسخۂ م (بہ خیالِ غالب) مراد لیے ہیں۔ م ۱۲۶۲ھ میں چھپا تھا۔ (م کے لیے "بہ خیالِ غالبؔ یوں لکھا گیا ہے کہ نسخۂ د بھی اُسی سنہ میں چھپا تھا۔ چوں کہ م باضابطہ اشاعت ہے، اس لیے میں نے اُسے ترجیح دی ہے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۸

(۳) ایک جعلی اڈیشن – انجمن ترقیِ اُردو ہند کے کتاب خانے میں فسانہ عجائب کا ایک نسخہ محفوظ ہے جس کے سرورق کی آخری سطر میں لکھا ہوا ہے : "حسن سعی فضل حسین عرف محمد فیض لکھنوی سے مطبع جمنا داس اور بلدیو سہاے میں چپھی۔" (سالِ طبع : ۱۲۷۲ھ)، خاتمت الطبع کی عبارت میں مرقوم ہے کہ : "بالفعل اس کے چھاپنے کا قصد دل صفا منزل لالہ جمنا داس ادام اللہ افضالہم کے دل میں آیا۔۔۔ انہوں نے مصنفِ فسانہ سے کہ تابع فرمان بہ دل و جان ہے ارشاد کیا کہ پھر بہ نظر غور ابتدا سے انتہا تک اس کو دیکھ جائے۔۔۔ حسب ارشاد اس خجستہ نہاد کے نیاز قدیم نے کوشش عظیم سے ملاحظہ کر کے جہاں تہاں موقع پایا کچھ اور بڑھایا۔۔۔"۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لالہ جمنا داس کی فرمایش پر سرورؔ" نے اس نسخے پر نظرِ ثانی کی ہے مگر یہ سب جعل ہے۔ یہ نسخہ لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر نقل ہے مطبعِ محمدی کان پور کے اڈیشن (نسخۂ ک) کی۔ یعنی نسخۂ ک میں جس لفظ پر صفحہ ختم ہوتا ہے، اس نسخے میں بھی اُسی لفظ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ التزام آخر تک برقرار رہا ہے۔ بس آخر میں جہاں ک میں سرورؔ کی عبارتِ خاتمہ میں مولوی محمد حسین کا نام آیا ہے، وہاں لالہ جمنا داس کا نام لکھ دیا گیا ہے۔ دونوں نسخوں کا مسطر بھی ایک ہے اور تعداد صفحات بھی۔ یہ جعل سازی غالباً محض تجارتی اغراض کے تحت کی گئی ہے۔

نسخۂ ک کے متن پر مبنی ایک اور نسخہ بھی ہے، جسے ڈاکٹر فیروز احمد (جے پور) نے متعارف کرایا تھا اِس دعوے کے ساتھ کہ یہ بھی سرورؔ کا نظرِ ثانی کیا ہوا نسخہ ہے (رسالۂ آجکل اکتوبر ۱۹۸۴ء؁)۔ یہ نسخہ مطبعِ احمدی آگرہ کا چھپا ہوا ہے۔ سالِ اشاعت ۱۲۷۶ھ۔ یہ اشاعتِ ثانی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بار اس مطبعے سے اس سنہ سے پہلے چھپ چکا ہے۔ اس کا احوال بھی وہی ہے جو مطبعِ جمنا داس بلدیو سہاے والے نسخے کا ہے، کہ یہ بھی سر تا سر نسخۂ ک کی نقل ہے؛ مگر اس نسخے کے ناشر نے اپنی عبارتِ خاتمتُ الطبع میں (جسے مقالہ نگار نے نقل کر دیا ہے) کہ کہیں نہیں لکھا کہ مصنف نے اس اڈیشن کے لیے نظرِ ٹانی کی ہے، اس لیے اُس پر کچھ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ البتہ اُس نے یہ صراحت بھی نہیں کی کہ یہ کس اڈیشن کی نقل ہے؛ اس سے مقالہ نگار کو غلط فہمی ہوئیاور اُنھوں نے اسے ایک نیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۹

نسخہ اور اہم نسخہ فرض کر لیا۔ فیروز صاحب نے ازراہِ لطف اِس نسخے کے کچھ صفحات کا عکس مجھے بھیج دیا تھا اور میں نے نسخۂ ک سے اُن کا مقابلہ کر لیا تھا اور صورتِ حال سے اُن کو مطلع بھی کر دیا تھا۔

(۴) ہمارے زمانے میں بھی اِس کتاب کو متعدد حضرات نے مرتب کر کے شائع کیا ہے، لیکن بالعموم بہ لحاظِ متن یہ نسخے قابلِ توجہ حیثیت نہیں رکتھے؛ البتہ دو (۲) نسخے قابل ذکر ہیں: ایک نسخہ تو وہ ہے جسے میرے عزیز دوست اطہر پرویز مرحوم نے مرتب کیا تھا۔ ناشر : سنگم پبلشرز، الہٰ آباد۔ سالِ طبع : ۱۹۶۹ء۔ مرحوم نے فسانۂ عجائب کے ۱۲۷۶ھ والے اڈیشن (نسخۂ ف) اور مطبعِ احمدی شاہدرہ سے ۱۲۷۹ھ میں شائع شدہ (۱) اڈیشن کو بنیاد بنایا ہے۔ ۱۲۷۶ھ کے نسخے کا انتخاب اصولاً بالکل درست تھا، اِس لیے کہ اُس وقت تک ۱۲۸۰ھ والا نسخہ (ل) کسی کے علم میں ایا ہی نہیں تھا، ہم سبھی اِسی ۱۲۷۶ھ والے اڈیشن کو مصنف کا آخری نظرِ ثانی کردہ نسخہ مانتے تھے۔ (میں نے بھی شروع میں اِسی نسخے کو بنیاد بنایا تھا) لیکن مطبعِ احمدی شاہدرہ والے نسخے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں مرحوم نے اس نسخے کا کس بنا پر انتخاب کیا تھا۔ مرحوم کی توجہ مقدمے کے مباحث خاص کر اُس کے تنقیدی حصے کی طرف مبذول رہی اور یوں پنکچویشن وغیرہ کا اہتمام ویسا نہیں ہو پایا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ اُن کے مقدمے سے اُس خطی نسخے کا پتا چلا جو علی گڑھ میں ہے اور جس میں "بیانِ لکھنؤ" کا کچھ حصہ زیادہ ہے، اِسے اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ پھر بھی یہ نسخہ ایسے دوسرے نسخوں سے بہتر ہے؛ البتہ
--------------------------------------------------------------------------------
(۱) اطہر پرویز نے اِس نسخے کے آخر میں شامل عبارت، خاتمتُ الطبع نقل کر دی ہے، جس سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ اُس نسخے سے مختلف ہے جو ۱۲۷۷ھ میں اِسی مطبعے سے چھپا تھا اور جس کا ذکر اِس سے پہلے آ چکا ہے؛ مگر منقولہ عبارتِ خاتمہ میں یہ بھی مرقوم ہے کہ یہ کتاب تیسری بار چھپی ہے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ ۱۲۷۷ھ والی اشاعت، پہلی اشاعت ہو اور یہ ۱۲۷۹ھ والی اشاعت، تیسری اشاعت ہو، صرف مہتم اور مصحح کے نام بدل گئے ہوں، اور مجھے یہی بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۰

کتابت اچھی نہیں اور یہ چیز بہت کھٹکتی ہے۔

دوسرا نسخہ وہ ہے جسے ڈاکٹر سید سلیمان حسین نے مرتب کیا اور اتر پردیش اُردو اکیڈمی نے ٍ۱۹۸۱ء میں شائع کیا۔ اِس نسخے کا متن بہ قولِ مرتب دو (۲) نسخوں پر مبنی ہے: "اصل متن اُس نسخے پر مبنی ہے جو مطبعِ نول کشور لکھنؤ سے ۱۲۸۳ھ ۱۸۶۶ء میں چھپ کر شائع ہوا تھا۔ اس کے متعلق خیال یہ ہے کہ یہ مصنف کا آخری نظر یافتہ نسخہ ہے۔۔۔ دوسرا نسخہ وہ ہے جو ۔۔۔ ۱۲۶۷ھ۔۔۔ کو مطبعِ محمدی کان پور سے چھپ کر شائع ہوا تھا" (ص ۳۸)۔ اصولِ تدوین کے لحاظ سے اِن دونوں نسخوں کو متن کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ ۱۲۶۷ھ والا نسخہ یوں کہ وہ خاصا موخر ہے، اُس کے بعد کے مصنف کے نظرِ ٹانی کیے ہوئے نسخے موجود ہیں۔ اور مطبعِ نول کشور والا نسخہ یوں کہ خود مرتب کے پاس ایسی کوئی شہادت (یا دلیل) موجود نہیں جس کی بنا پر وہ کہ کہہ سکتے کہ مصنف نے اس پر نظرِ ثانی کی ہے۔ اُنھوں نے "خیال یہ ہے" لکھا ہے، اور اِس "خیال" کی بجائے خود کوئی حیثیت نہیں۔ مقدمہ اِس کا نسبتاً مختصر ہے۔ یہ نسخہ صرف اِس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اِس میں اصولِ تدوین کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے (۱)۔ کتابت اور طباعت بھی اچھی نہیں۔ ہاں مقدمے میں زبان اور بیان سے متعلق بعض کام کی باتیں لکھی گئی ہیں۔
---------------------------------------------------------------------
(۱) صرف ایک مثال سے صورتِ حال کا اندازہ کیا جا سکے گا۔ اِس نسخے میں ایک جملہ یوں مندرج ہے : "دن دہاڑے لُٹ گیا عشق کا بیوپاری" (ص ۱۸۷)۔ نسخۂ نول کشور (۱۲۸۳ھ) میں "دن دہاڑے" ہی ہے، لیکن آخری لفظ "بیپاری" ہے۔ نسخۂ محمدی کان پور (۱۲۶۷ھ) میں یہ جملہ یوں ہے: "دن دیے لٹ گیا عشق کا بیوپاری" (ص ۶۳)۔ اس ایک جملے میں پہلا جُز "دن دہاڑے‘ نسخۂ نول کشور سے لیا گیا ہے اور آخری جُز "بیوپاری" نسخۂ محمدی سے لیا گیا ہے (نسخۂ نول کشور میں "بیپاری" ہے)۔ جیسا کہ اِس سے پہلے لکھا جا چکا ہے، مصنف کے نظرِ ثانی کیے ہوئے جس قدر نسخے ہیں، اُن سب میں (بہ شمولِ طبعِ اول یعنی نسخۂ ح) "دن دیے" ہے (یہ لفظ لُغت میں موجود ہے)۔ نسخۂ نول کشور کے مصحح نے یہاں تحریف سے کام لیا ہے کہ "دن دیے" کو (غالباً بے معنی یا متروک سمجھ کر) متعارف لفط "دن دہاڑے" سے بدل دیا۔ چوں کہ مرتب نے نسخۂ نول کشور کو
 
ص 101
مخؔمور اکبر آبادی کے مرتب کیے ہوئے ایک نُسخے کا اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے۔(ناشر:رام نارائن لال بینی مادھو، الہ اباد)۔ میرے سامنے اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو ۱۹۷۶ میں چھپا ہے۔اِس کا متن کسی ایسے موخّر نول کشوری نسخے پر مبنی معلوم ہوتا ہے جس میں اغلاط اور تحریفات کی کمی نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ متن کا احوال سقیم ہے۔ مقدمے میں مرتّب نے خاص بات یہ لکھی ہے کہ سرور اکبر آباد (آگرہ) کے رہنے والے تھے۔ اُن کا یہ قول بھی غیر معتبر ہے۔ اُنھوں نے جس نسخے کو بنیاد بنایا ہے، اُس میں "بیانِ لکھنؤ" کے آغااز میں "متوطن حال" تحریر ہے، غالباََ اسی پر اکبر آبادی ہونے کے ہَوائی دعوے کی بنیاد رکھّی گئی ہے۔ غرض کہ یہ نسخہ ہر لحاظ سے غیر معتبر ہے۔ گیان چند جین صاحب نے ڈاکٹر رفیق حسین کے مرتب کیے ہوئے نسخے کا بھی ذکر کیا(اُردو کی نثری داستانیں)۔ میں نے اُسے نہیں دیکھا۔ خود جین صاحب نے اِس نسخے کے متعلّق جو چند جملے لکھے ہیں، وہی اِسے غیر معتبر مان لینے کے لیے کافی ہیں۔
بنیادی متن
فسانۂ عجائب کا بنیادی متن کے نام سے ڈاکٹر محمود الہیٰ نے ا،س کتاب کی ایک روایت شائع کی ہے (سالِ طبع:۱۹۷۳ء) جس کے متعلّق اُن کا خیال ہے کہ یہ اِس کتاب کی پہلی روایت ہے ۔ مطبوعہ کتاب کے مقابلے میں یہ مختصر ہے۔ اِس میں "بیانِ لکھنؤ" کا حِصہ تھوڑا سا ہے اور میر امن کا مطلق ذکر نہیں۔ اُن کو اِس کا مخطوطہ ملا تھا، جو ۱۲۵۵ھ اپنے متن کی بنیاد بنایا ہے، اِس لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اِسی کو نقل کرتے۔ اُنھوں نے یہی کیا، اور یہ جُملہ جو اصلاََ تحریف شدہ تھا، اُن کے متن میں شامل ہو گیا۔ ایک بات اور: مرتّب اپنے مقدّمے میں جہاں زبان و بیان پر گرتگو کی ہے، وہاں ایک عنوان قائم کیا ہے "دہلوی محاورے"۔ اپس کی ذیل میں انھوں نے "دن دیے" بھی لکھا ہے، یعنی یہ دہلوی محاورہ سرؔور کے یہاں موجود ہے اور مثال میں یہی جُملہ نقل کیا ہے:"دن دیے لُٹ گیا عشق کا بیوپاری"(ص۳۱)۔ یہ واقعتاََ اُلجھن میں ڈالنے والی بات ہے۔
 
ص 107
درمیان ذرا سا فصل پیدا ہو جائے,جو پڑھنے والے کی نظر میں بہ آسانی اور فوری طور پر آ جائے اور وہ سجھ لے کہ یہاں خواندگی میں ان لفظوں کو الگ الگ آنا چاہیے -اسکی وضاحت کے لیے شروع متن ہی سے ایک مثال پیش کروں گا۔"سزاوار حمد و ثنا خالق ارض و سما ،,جل و علیٰ ۔صانع بے چون و چرا ہے“(صٰ) اس جملے میں چار ٹکڑے ہیں۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے ٹکڑے بعد کاما آیا ہے۔مگر پہلے ٹکڑے کے بعد کاما آیا ہے ۔مگر پہلے ٹکڑے {سزاوارِ حمد و ثنا} کے بعد کاما نہیں آسکتا، کیونکہ یہ ٹکڑا اس طرح الگ اور معنوی طور پر خود مکتفی نہیں،جسطرح وہ ٹکڑے ہیں،مگر یہ بھی الگ سا!اس لیے اسے اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ذرا سا فصل پیدا ہو گیا ہے۔ اس اندازِ کتابت کو {اور اس کی افادیت کو} ہر جگہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس التزام کو نبھانے میں مشکل تو بہت پیش آئی! مگر بہ حال اسمیں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ التزام آخر تک بر قراررہا۔
مشؔدد حرفوں پر تشدید ضرور لگائی گئی ہے۔اسی طرح اضافت کے زیر بھی پابندی سے لگائے گئے ہیں۔اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔اضافت کا مسلئہ بعض مقامات پر خاصہ پریشان کن ہوتا ہے، ویسے بھی یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے،ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کد لیا گیا تھا اور پیشِ نظر رکھا گیا۔اس سلسلے میں
————————————————
؀۱
قاضی عبد الودود صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو لوگ کسی متن کو مرتب کرتے ہیں اور اسکا مسودہ کسی دوسرے شخص سے لکھواتے یا ٹائپ کراتے ہیں،تو وہ تدوین کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ لازم ہے کہ مرتب اپنے سے پورے متن کو نقل کرے،تاکہ مشخصات متن {بشمول املائے الفاظ} برقرار رہ سکیں۔میں نے اس قول کو گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اپنے قلم سے لکھا اور ایسے مقامات پر ،جہاں کاما کے بجائے دو لفظوں کے درمیان فصل رکھنا تھا،ایسے دو لفظوں کے درمیا ترچھا خط سرخ روشنائی سے کھینچا گیا ۔اس طرح التزام رہ پایا {اس کے باوجود تحسین کے اصل مستحق زیدی صاحب ہیں ،جنہوں نے اس متن کی کتابت کی ہے}۔
 
صفحہ 109
نمبر شمار ڈالنا پڑے تھے؛ انتسابِ اشعار کے نمبر شمار کو اُن سے الگ رکھنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ بعد میں اختلافِ نسخ والے ہندسے تو ہر صفحے سے مٹا دیے گئے، یہ انگریزی ہندسے باقی رہ گئے۔ ان کو بدلنے میں مزید طویل عمل تھا، یو انھیں برقرار رکھا گیا۔
میر سوز کے اشعار کے لئے اُن کے دیوان کا کئی جگہ حوالہ دیا گیا ہے؛ اس سے مراد وہ دیوان ہے جو رسالہٰ اردوئے معلّیٰ (دہلی یونیورسٹی) کے "میر سوز نمبر" میں شائع ہوا تھا۔
میر تقی میر کے اشعار کے لئے کلّیاتِ میر مرتّبہٰ آسی کا حوالہ دیا گیا ہے؛ "کلّیات" سے یہی مراد ہے۔
نوازش کے اشعار کا مقابلہ اُن کے خطّی دیوان مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے کیا گیا ہے۔ میرے علم میں یہ اس دیوان کا واحد نسخہ ہے۔ (یہ دیوان اب تک غیر مطبوعہ ہے)۔
ناسخ کے اشعار کے لئے کلّیاتِ ناسخ طبعِ اوّل (1254ھ) اعر طبعِ ثانی (1262ھ) دونوں نسخے پیشِ نظر رہے۔

(4) دیباچہ کتاب میں (ص ا سے ص 31 تک) افراد، مقامات، عمارات (وغیرہ) کے جو نام آئے ہیں (اس میں شعراء کے تخلص بھی شامل ہیں) چوتھے ضمیمے میں انکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ چار نام ایسے ہیں جو دیباچہ کتاب میں شامل نہیں، اصل کتاب میں ہیں؛ یہ نام ہیں: مرزا حسین بیگ، درگا پرشاد مدہوش، للّو جی اور گھنٹا بیگ کی گڑھیّا۔
اوّل الذّکر سرور کے خاص دوست تھے اور باشندہ لکھنؤ۔ مدہوش نے اس کتاب کی تاریخ لکھی ہے جو شامل کتاب ہے اور یہ بھی سرور کے احباب میں سے تھے۔ لکھنؤ میں للّو جی اپنے زمانے کے کتھک کے باکمال فن کار تھے اور آخر الذّکر لکھنؤ کے ایک محلے کا نام ہے؛ اس بنا پر ان ناموں کی شمولیت ضروری سمجھی گئی؛ اسے استثنا سمجھا جائے۔
دیباچہ کتاب (اور کتاب) میں جمشید، رستم، اسفندریار، حاتم جیسے متعدّد نام آئے ہیں؛ لیکن یہ نام عموماً صفاتی حیثیت میں آئے ہیں (جیسے؛ جم شوکت) ایسے ناموں کو فرہنگ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کتاب میں معروف شعراء کے جو نام (یا تخلص) آئے ہیں؛ (جیسے انشا، مصحفی وغیرہ) ان سے لوگ عموماً واقف ہی ہیں، اس لئے اِن کو اس ضمیمے میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہی صورت معروف شہروں کے ناموں کی ہے (جیسے؛
 
ص 110
کلکتہ، ملتان، کان پور، دہلی وغیرہ) سرور کے رکھّے ہوئے 'نام' جیسے: انجمن آرا، زر نگار، فسحت آباد بھی اسی ذیل میں آتے ہیں، کیوں کہ یہ نام محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔
(۵) پانچواں ضمیمہ تلفّظ اور املا سے متعلّق ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاص خاص الفاظ پر جو اعراب لگائے گئے ہیں یا جو املا اختیار کیا گیا ہے، اُس کی وجہ اور بُنیاد کیا ہے۔
(۶) چھٹا ضمیمہ "الفاظ اور طریقِ استعمال" پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے لفظوں اور عبارت کے ٹکڑوں کو یک جا کر دیا گیا ہے جو اُس عہد کی زبان پر کام کرنے والوں کے مفید مطلب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمیمے کے اندراجات سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سُرور کی زبان کا احوال کیا ہے، اس میں کس قدر پُرانا پن ہے اور کچھ لفظوں کو اُنہوں نے کیسے عجب ڈھنگ سے استعمال کیا ہے، جمع الجمع، عدد معدود میں واحد اور جمع کی نسبت کا احوال کیا ہے اور مبیّنہ متروک لفظوں کا کس قدر ذخیرہ اُن کی اِس کتاب میں محفوظ ہے (یعنی ایسے لفظ اور ایسا طریقِ استعمال، جسے بعد والوں نے متروک اور غیر مستحسن قرار دیا)۔
(۷) ساتواں ضمیمہ اختلافِ نسخ کا ہے۔ اس ضمیمے کے سلسلے میں دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ ضمیمه صرف دیباچۂ 'فسانۂ عجائب' پر مشتمل ہے (یعنی ص ۱ سے ص ۳۱ تک) دوسری بات یہ ہے کہ ابتدا میں جب اس کام کا خاکہ بنایا گیا تھا تو یہ طے کر دیا گیا تھا کہ مکمل متن پر مشتمل ضمیمۂ اختلافِ نسخ تیّار کیا جائے گا۔ خاص کر اِسی کام کے لیے وہ سارے نسخے ڈھونڈے گئے جن کی شمولیت ضروری تھی۔ بہت کچھ دیدہ ریزی کے بعد مکمّل اختلافِ نسخ کا ضمیمہ تیّار کر لیا گیا۔ اس کے لیے ہر صفحے پر متن میں نمبر شمار بھی ڈالے گئے۔ یہ ضمیمہ پچاسی (۵۵) صفحات میں سما پایا تھا۔ (اُس وقت تک نسخۂ د کی اطّلاع نہیں تھی اور ن کی پہلی اشاعت [۱۲۸۳ھ] نہیں ملی تھی، دوسری اشاعت سے کام لیا گیا تھا۔ باقی سب نسخے یعنی ح، م، ض، ک، ف، ل موجود تھے۔ اِن سات (۷) نسخوں کی مدد سے اختلافِ نسخ تیّار کیا گیا تھا)۔ جب سب کام مکمّل ہو گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ ضخامت کی وجہ سے یہ کتاب نہیں چھپ سکتی [وہی پرانی بات، دفتری خامہ فرسائی)۔ مشورہ کیا گیا، طے یہ ہوا کہ اختلافِ نسخ کے اس حصّے کو شامل نہ کیا جائے، اِس طرح کچھ تو ضخامت
 
Top