مقدّس ریپ کیس

nazar haffi

محفلین
۔
مولوی کا ارادہ ممکن ہے کہ ان نو بالغ لڑکوں کو خوش کرنا بھی ہو جو اس کے ساتھ پرانے وقت سے گاڑھی سنگت میں تھے۔
http://urdu.dawn.com/news/1004313/23apr14-muqaddas-rape-kadhan-village-mosque-amar-sindhu-aq
تعجب ہے ان مولویوں پر جب کسی کے خلاف منہ کھولتے ہیں تو کافر اور مشرک سے نیچے تو انہیں کوئی گالی نہیں آتی ،جد دوسروں کی اصلاح پر کمر باندھ لیتے ہیں تو اپنے گریبان میں جھانکتے ہی نہیں ،ابھی آج کل میں نے جنسی جہاد یا جہاد النکاح کا چرچا سنا ہے،اب پتا نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے ،البتہ اگر جہاد النکاح کے نام پر گینگ ریپ ہورہاہے تو پھر میرے جیسے ایک بندے کو یہ کہنا کا پورا حق حاصل ہے کہ دین کے ساتھ دین کے نام پر جو کھیل یہ مولوی لوگ کھیل رہے ہیں وہ کوئی کافر اور مشرک آج تک نہیں کھیل سکا۔البتہ میری مراد تمام مولوی نہیں ہیں بلکہ صرف دین کے نام پر دین سے کھیلنے والے کھلاڑی مولوی ہیں۔
 

nazar haffi

محفلین
حیرت ہے کہ کسی مسلم صحافی نے اس پر کچھ نہیں لکھا ۔
وہ پاکستانی صحافی جو حق اور سچ بولنے کے لئے معروف ہیں یہ واقعہ انھیں نظر نہیں آیا ۔
امر سندھو۔۔۔ ۔http://en.wikipedia.org/wiki/Amar_Sindhu
تیری جراءت کو سلام
صحافت کی حرمت کو سلام
تعجب کے ساتھ ساتھ ڈوب مرنے کا مقام بھی ہے۔
 

حسینی

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون
بہت افسوسناک واقعہ ہے۔۔۔۔۔ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔
یقینا اس ملعون مولوی کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔۔۔ اس کا یہ جرم اپنی جگہ بہت بڑا۔۔۔۔ اس کے علاوہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یہ فعل بد کرنا الگ جرم۔۔۔ مسجد جیسی مقدس جگہ پر کرنا اک اور جرم۔۔۔ قرآن کو درمیان میں واسطہ قرار دے کر یہ فعل شنیع کرنا اک اور جرم۔
یا اللہ تو سب سے بڑا منصف ہے۔۔۔ اپنی بے آواز لاٹھی چلا دے۔۔ آمین
 

arifkarim

معطل
حیرت ہے کہ کسی مسلم صحافی نے اس پر کچھ نہیں لکھا ۔
وہ پاکستانی صحافی جو حق اور سچ بولنے کے لئے معروف ہیں یہ واقعہ انھیں نظر نہیں آیا ۔
امر سندھو۔۔۔ ۔http://en.wikipedia.org/wiki/Amar_Sindhu
تیری جراءت کو سلام
صحافت کی حرمت کو سلام


ہمارے "مسلم" صحافیوں کی تان محض یہود و نصاریٰ کے معاشروں پہ جاکر ٹوٹتی ہے!
 

nazar haffi

محفلین
ہمارے "مسلم" صحافیوں کی تان محض یہود و نصاریٰ کے معاشروں پہ جاکر ٹوٹتی ہے!
مولوی ہیں مصروف کر کےخود ہر کام کرتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر،گینگ ریپ،جنسی جہاد،جہاد النکاح،خود کش دھماکے۔۔۔امریکی ڈرون تو ویسے ہی بدنام ہیں جو ڈرون مولویوں نے اپنی بدکرداری سے چھوڑ رکھے ہیں وہ تو امریکی ڈرونز سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
 

nazar haffi

محفلین
مولوی ہمیں مصروف کر کےخود ہر کام کرتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر،گینگ ریپ،جنسی جہاد،جہاد النکاح،خود کش دھماکے۔۔۔ امریکی ڈرون تو ویسے ہی بدنام ہیں جو ڈرون مولویوں نے اپنی بدکرداری سے چھوڑ رکھے ہیں وہ تو امریکی ڈرونز سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔صحافی بیچارے تو مولویوں کے آگے پیچھے ہی بھاگتے رہتے ہیں
 

ام اریبہ

محفلین
مجھے اسلامی سزاؤں سے زیادہ انکے اطلاق پر اختلاف ہے۔ جب کسی جنسی بدفعلی، ریپ وغیرہ کی صورت میں چار گواہ مہیا نہ ہوں تو کیا جائے؟ مجرم اور مظلوم دونوں کو سزا دی جائے یا مجرم کو محض چار گواہ نہ ہونے کی صورت میں بر ازذمہ قرار دے دیا جائے جیسا کہ ضیاء کے حدود آرڈیننس کے وقت سے ہوتا چلا آیا ہے ۔ 2003 کی حکومتی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں قید خواتین میں سے 80 فیصد وہ ہیں جن کیساتھ زنا بالجر ہوا لیکن چونکہ وہ اسلامی قوانین کے مطابق 4 گواہ لانے میں ناکام رہیں یوں الٹا انپر کیس کر دیا گیا:

http://en.wikipedia.org/wiki/Hudood_Ordinance#Controversy
ٹیسٹ بھی تو گواہی ہی ہے ناں؟اور پھر معصوم بچیاں ؟
 
آپ بات کو غلط رنگ مت دیں برادرم۔۔۔
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ نایاب بھئی کو تو بیک جنبش قلم آپ نے "حدود اور تعزیر کی اسلامی سزاوں" سے ناواقف قرار دے ڈالا تو اب کچھ رہنمائی بھی فرما دیں۔۔۔
کیا جو سنہرا اصول میں نے اوپر بیان کیا اس میں کوئی شک ہے آپ کو؟ یا اس سے ہٹ کر بھی "حدود اور تعزیر کی اسلامی سزاوں" کے مطابق کسی درندے کو سزا مل سکتی ہے؟
رہی خالق کائنات اور اس کے قوانین کی بات تو گذشتہ 1500 سالوں میں ہر فرقے ہر مسلک نے اپنی الگ ہی انٹر پریٹیشن کر رکھی ہے ان قوانین کی۔۔۔ آپ کون سے قوانین کی کون سی انٹر پریٹیشن کر رہے ہیں، وہ بتا دیجیے۔
حدود کے بارے میں ، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر 4 گواہوں والی شرائط پوری نہ ہوں تودستیاب شہادتوں کی بناء پر عدالت تعزیر کی سزائیں دے سکتی ہے لیکن ابھی تک مجھے اس کا حوالہ نہیں مل سکا تو دین اسلام کے کسی مسئلہ پر میں بغیرعلماپنی ذاتی رائے دینے کی نسبت جاہل متصور ہونا بہتر خیال کرتا ہوں
من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار
(ترمذی،باب ماجاء یفسر القرآن،حدیث نمبر:۲۸۷۴)
جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب"البرہان فی علوم القرآن کی نوع ۴۱ میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:۱۶۴۔۱۷۰)
 
کیا ہم میڈیا میں شائع ہونے والی ہر بات پر یقین رکھتے ہیں ؟ اگر توخبر کسی مولوی کے خلاف ہے (HOT CAKE) تو پھر تو پکا ہی سچ ، کیوں؟ ، کیا خبروں میں جھوٹ نہیں ہوتا کیا بعض اوقات تردید نہیں آتی،
 

ملائکہ

محفلین
ایسے لوگوں کا حل یہی ہے کہ انھیں ڈائریکٹ شوٹ کردیں جہاں ملیں، قانون تو ریاست دینے سے انکاری ہے انسان خود ایسے لوگوں کو شوٹ کرکے دنیا سے ایک شیطان تو ختم کردے۔۔۔
 
ریپ / زنا کا جرم واقع ہونے کے لئے مجرم کا ایک عورت کے ساتھ ایسی پوزیشن میں پہونچنا ضروری ہے جہاں پر اسے عورت پر دست درازی کا اختیار حاصل ہوجائے۔ اسلام کے پورے معاشرتی اور اخلاقی احکامات اسی کے گرد گھومتے ہیں کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہی نہ ہو اور اگر فرض کریں کہ اگرکبھی کھلم کھلاپبلک کی موجودگی میں ہو تو 4 گواہوں کی دستیابی ممکن پھر عبرت ناک سزا - حد کی سزا ہے
 
مسلم نظام انصاف اور مغربی نظام انصاف
عقل دستیاب حقائق ،علم کے بنیاد پر کسی چیز کا فیصلہ کرتی ہے،عقل کم یا زیادہ یا بہترین ( افراد کےحساب سے) بھی ہو سکتی ہے اور دستیاب حقائق بھی ناقص بہتر یا بہترین ہو سکتے ہیں

مغرب اوراسلام کا نظام انصاف مختلف بنیادوں پر استوار ہے ، مغرب کے نظام کی بنیاد صرف اورصرف عقل پرہے اور مسلم نظام انصاف کی بنیاد قرآن و سنت کی راہنمائی میں یا اس کے تحت عقل کے استعمال پر ہے –مغربی نظام اس بات کو نہیں مانتا کہ مرنے کے بعد زندگی ہے اور یوم الحساب ہے لیکن اسلام کا نظام انصاف مرنے کے بعد زندگی اور یوم الحساب کاقائل ہے – ہم ایک مثال کے ذریعے دونوں نظاموں کا جائزہ لیتےہیں
ایک مثال – ایک قتل ہوتا ہے اور موقع پرگواہ موجود نہیں کوئی سراغ نہیں ہے
مغربی نظام انصاف سے قاتل بچ گیا تو اب انصاف کی کیا صورتحال ہے ؟؟؟؟ ایک بڑا سوالیہ نشان
اسلامی نظام انصاف میں اگرقاتل اس دنیا میں بچ گیا تو آخرت میں وہ گرفت میں آئے گا تو میرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے سزاؤں کے بارے تو اتنا علم نہیں بہر حال اللہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اجماع اور قیاس کی روشنی دکھائی ہے۔
مجھے جیلوں کے وزٹ کرنے کا اکثر موقع ملتا ہے۔ بڑوں کی جیلوں کے علاوہ بچوں کی بورسٹل انسٹی ٹیوشن اینڈ جے جیل بہاولپور میں بھی زنا کے مجرموں کی تعداد ہر وزٹ میں زیادہ نظر آتی ہے۔ اور اُن کے چہرے!!!استغفر اللہ! اِتنے مکروہ کہ وحشی جانور بھی اُن کے آگے اچھے لگیں۔حد یہ کہ نو سال ،دس سال کے بچے۔
ہم نے سوچا یہ کیوں ہے؟ ایک بار میں نے اپنے طلباء سے پوچھا " بچو !روڑی بھی کسی کو اچھی لگی ہے؟کیچڑ کے قریب سے گذرہو توآپ میں سے کون اُس میں لت پت ہونا چاہے گا؟سب نے کہا کہ کوئی بھی نہیں۔ آج کل کیچڑ آپ کی اُنگلی کے نیچے ہے۔ایک بٹن کی دُوری پر۔ بٹن دباتے جاؤ اور مزید کیچڑ میں دھنستے جاؤ،روڑی اور کیچڑ دیکھنا تو کراہیت کو بڑھاتا ہے۔بچو! یاد رکھو کیچڑ میں لت پت بندہ کی آنکھ میں وہ سب غلاظت آجائے گی اور جب وہ باہر نکلے گا تو اُسے ساٹھ،ستر سال کی امّاں بھی عورت لگے گی اور چند ماہ کی بچی بھی عورت دکھائی دے گی۔اور اگر اُس کی پہنچ ہو تو بتائیں اُسے کون روک سکے گا؟
لڑکے تو لڑکے اب لڑکیوں کو سنبھالنا اوکھا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ سے کون ڈرتا ہے؟ نہیں ہم معاشرے سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ اور فیملی پلاننگ نے یہ رہا سہا ڈر بھی ختم کر دیا ہے۔
ذرا سکولوں کے کالجوں کےحالات تو معلوم کریں رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک گورنمنٹ گرلزکالج کے طالبات کے واش روم میں"نائٹ ڈیوٹی کرنے والی لڑکیاں اِن نمبرز پر رابطہ کریں"
ساتویںجماعت کی بچی ایک میڈیکل سٹور پہ جاتی تھی۔ سٹور کے مالک سے اُس کے دوست نے پوچھا کہ یہ بچی کس لئے یہ خریداری کرتی ہے؟ مالک نے کہا کہ اِس کے والدین منگواتے ہوں گے۔ دوست کو تجسس ہؤا تو معلوم ہؤا کہ وہ بچی اور نویں جماعت کا لڑکا۔
وہ سب جو کل ہم مغربی معاشروں کے بارے میں پڑھتے تھے وہ اب ہمارے معاشرے میں بتدریج عام ہوتا جا رہا ہے۔یونیورسٹیوں کے حالات! استغفراللہ۔۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
مغربی نظام انصاف سے قاتل بچ گیا تو اب انصاف کی کیا صورتحال ہے ؟؟؟؟ ایک بڑا سوالیہ نشان
اسلامی نظام انصاف میں اگرقاتل اس دنیا میں بچ گیا تو آخرت میں وہ گرفت میں آئے گا تو میرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے
یہاں اس سے بھی بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ کسی قاتل کو صرف اسلئے چھوڑ دیا جائے کہ اس دنیا میں نہ سہی، اگلی دنیا میں تو سزا مل ہی جانی ہے۔ یوں جدید تفتیش جیسے کٹھن مراحل پر وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انصاف تو بہرحال مظلوم کو مل ہی جانا ہے۔ اس دنیا میں ہماری نااہلی سے نہ ملا تو اگلی دنیا ہی میں سہی۔


حد یہ کہ نو سال ،دس سال کے بچے۔
ہم نے سوچا یہ کیوں ہے؟
ساتویںجماعت کی بچی ایک میڈیکل سٹور پہ جاتی تھی۔ سٹور کے مالک سے اُس کے دوست نے پوچھا کہ یہ بچی کس لئے یہ خریداری کرتی ہے؟ مالک نے کہا کہ اِس کے والدین منگواتے ہوں گے۔ دوست کو تجسس ہؤا تو معلوم ہؤا کہ وہ بچی اور نویں جماعت کا لڑکا۔
نو دس سال کے بچوں کو اس قسم کی گھناؤنی بد فعلی کسنے سکھائی؟ یہ تو کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔اس عمر میں ہم کسی بھی قسم کے جنسی خیالات کے بارہ میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ہماری فہم سے بالا تر ہوتا ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ اسلئے ہوتاہے کہ یہاں کھلے عام ٹی وی، انٹرنیٹ، اور سر عام راہ چلتا ان معصوم آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے مشرقی اسلامی ملک میں جہاں کی اخلاقی اور تربیتی اقدار میں مغرب سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر وہاں بھی یہ سب کم سن بچوں میں فروغ پارہا ہے اور والدین چپ چاپ تماشہ دیکھ رہے ہیں تو پھر اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
 
مجھے سزاؤں کے بارے تو اتنا علم نہیں بہر حال اللہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اجماع اور قیاس کی روشنی دکھائی ہے۔
مجھے جیلوں کے وزٹ کرنے کا اکثر موقع ملتا ہے۔ بڑوں کی جیلوں کے علاوہ بچوں کی بورسٹل انسٹی ٹیوشن اینڈ جے جیل بہاولپور میں بھی زنا کے مجرموں کی تعداد ہر وزٹ میں زیادہ نظر آتی ہے۔ اور اُن کے چہرے!!!استغفر اللہ! اِتنے مکروہ کہ وحشی جانور بھی اُن کے آگے اچھے لگیں۔حد یہ کہ نو سال ،دس سال کے بچے۔
ہم نے سوچا یہ کیوں ہے؟ ایک بار میں نے اپنے طلباء سے پوچھا " بچو !روڑی بھی کسی کو اچھی لگی ہے؟کیچڑ کے قریب سے گذرہو توآپ میں سے کون اُس میں لت پت ہونا چاہے گا؟سب نے کہا کہ کوئی بھی نہیں۔ آج کل کیچڑ آپ کی اُنگلی کے نیچے ہے۔ایک بٹن کی دُوری پر۔ بٹن دباتے جاؤ اور مزید کیچڑ میں دھنستے جاؤ،روڑی اور کیچڑ دیکھنا تو کراہیت کو بڑھاتا ہے۔بچو! یاد رکھو کیچڑ میں لت پت بندہ کی آنکھ میں وہ سب غلاظت آجائے گی اور جب وہ باہر نکلے گا تو اُسے ساٹھ،ستر سال کی امّاں بھی عورت لگے گی اور چند ماہ کی بچی بھی عورت دکھائی دے گی۔اور اگر اُس کی پہنچ ہو تو بتائیں اُسے کون روک سکے گا؟
لڑکے تو لڑکے اب لڑکیوں کو سنبھالنا اوکھا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ سے کون ڈرتا ہے؟ نہیں ہم معاشرے سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ اور فیملی پلاننگ نے یہ رہا سہا ڈر بھی ختم کر دیا ہے۔
ذرا سکولوں کے کالجوں کےحالات تو معلوم کریں رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک گورنمنٹ گرلزکالج کے طالبات کے واش روم میں"نائٹ ڈیوٹی کرنے والی لڑکیاں اِن نمبرز پر رابطہ کریں"
ساتویںجماعت کی بچی ایک میڈیکل سٹور پہ جاتی تھی۔ سٹور کے مالک سے اُس کے دوست نے پوچھا کہ یہ بچی کس لئے یہ خریداری کرتی ہے؟ مالک نے کہا کہ اِس کے والدین منگواتے ہوں گے۔ دوست کو تجسس ہؤا تو معلوم ہؤا کہ وہ بچی اور نویں جماعت کا لڑکا۔
وہ سب جو کل ہم مغربی معاشروں کے بارے میں پڑھتے تھے وہ اب ہمارے معاشرے میں بتدریج عام ہوتا جا رہا ہے۔یونیورسٹیوں کے حالات! استغفراللہ۔۔
میرے شہر جل رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں جو عالم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اس خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے بس خنجر آزما ئی
ہم ہی قتل کر رہے ہیں ہم ہی قتل ہو رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں اے میرے وطن کے معصوم لوگو!
اے مہنگائی میں پسنے والو!
بھوک سے بچوں کو بیچنے والو!
اے ڈرون حملوں اور میزائلوں کا نشانہ بننے والو!
تم آخر چپ کیوں ہو؟کیوں تم نے اپنی زبان کو تالا لگا لیا ہی؟
کیا تم یہ ظلم سہنے کے لیے پیدا ہوئے ہو؟
یا پھر تمہاری ذہنیت بھی اپنے حکمرانوں کی طرح غلامانہ ہوگئی ہی؟
زر خرید غلام، غیروں کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو مارنے والے غلام….
جن کی غیرت اور عزت ختم ہو چکی ہے
جو اپنے ہی ملک کو غیروں کے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں
اپنے ہی لوگوں میں موت تقسیم کررہے ہیں۔
تم اُٹھو اور توڑ ڈالو یہ زنجیریں….
غلامی کی زنجیریں….
اور
انکار کر دو طاغوت کا
ہر طرح کا ظلم سہنے سے ….
اور
بدل ڈالو
یہ چہرہ یہ نظام….
کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے
”نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ،اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو“۔

آج ہماری جو حالت ہے وہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے
آج ہم نے قرآن سے دوری اختیار کر رکھی ہے
اور
اس کی تعلیمات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے
جس کی وجہ سے آج ہم راستہ بھٹک گئے
اگر آج بھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لے آئیں تو اجتماعی طور پر بہت بڑی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے
علامہ اقبال نے بھی فرمایا
”نہ ہو جس میں انقلاب موت ہے وہ زندگی“
ہمارے پیارے نبی جنہوں نے اپنی پوری زندگی دعوت ِدین میں گزاری
آج ہم نے اسے چھوڑ دیا اور اپنے پیٹوں کو بھرنے میں لگ گئے….
کیا ہم نے اپنی زندگیوں کا حق ادا کردیا ہے؟
انبیاءکرام علیہ السلام کے بعد اللہ نے یہ ذمہ داری مسلمانوں کو سونپی کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں….
کیا آج ہم نے فریضہ ادا کیا ہے
آؤ تم لوگ بھی آگے بڑھو اور اللہ کے اس گروہ کا ساتھ دو،
تمام تر نسلی اور قومی امتیازات کو بھلا کر اس ظالمانہ نظام کے خلاف باہر نکل آؤ
آو ہم سب مل کر اللہ کا رنگ اختیار کریں کہ سب سے اچھا رنگ اسی کا ہے
آؤ ہم سب مل کر ایک ہوجائیں اور ایک آواز بلند کریں
اس ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کا آغاز کریں
کیوں کہ تمام جہانوں کے اس رب کے سامنے جو یوم حشر کا بھی مالک ہے
جوابدہی تو کرنی ہے۔
 
یہاں اس سے بھی بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ کسی قاتل کو صرف اسلئے چھوڑ دیا جائے کہ اس دنیا میں نہ سہی، اگلی دنیا میں تو سزا مل ہی جانی ہے۔ یوں جدید تفتیش جیسے کٹھن مراحل پر وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انصاف تو بہرحال مظلوم کو مل ہی جانا ہے۔ اس دنیا میں ہماری نااہلی سے نہ ملا تو اگلی دنیا ہی میں سہی۔
۔
میں اپنی بات واضح نہیں کر پایا آپ دیکھئے میں نے یوں لکھا تھا آپ دوبارہ غورسے پڑھ لیں ، یہاں ایک مثال دی گئی ہے جس میں نہ تو گواہ موجود اور نہ ہی کوئی سراغ ، اس مفروضہ صورتحال کی بات ہے- باقی آپ کو حق حاصل ہے جو بھی سمجھیں

ایک مثال – ایک قتل ہوتا ہے اور موقع پرگواہ موجود نہیں کوئی سراغ نہیں ہے
مغربی نظام انصاف سے قاتل بچ گیا تو اب انصاف کی کیا صورتحال ہے ؟؟؟؟ ایک بڑا سوالیہ نشان
اسلامی نظام انصاف میں اگرقاتل اس دنیا میں بچ گیا تو آخرت میں وہ گرفت میں آئے گا تو میرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے
 

جاسمن

لائبریرین
یہاں اس سے بھی بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ کسی قاتل کو صرف اسلئے چھوڑ دیا جائے کہ اس دنیا میں نہ سہی، اگلی دنیا میں تو سزا مل ہی جانی ہے۔ یوں جدید تفتیش جیسے کٹھن مراحل پر وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انصاف تو بہرحال مظلوم کو مل ہی جانا ہے۔ اس دنیا میں ہماری نااہلی سے نہ ملا تو اگلی دنیا ہی میں سہی۔



نو دس سال کے بچوں کو اس قسم کی گھناؤنی بد فعلی کسنے سکھائی؟ یہ تو کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔اس عمر میں ہم کسی بھی قسم کے جنسی خیالات کے بارہ میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ہماری فہم سے بالا تر ہوتا ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ اسلئے ہوتاہے کہ یہاں کھلے عام ٹی وی، انٹرنیٹ، اور سر عام راہ چلتا ان معصوم آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے مشرقی اسلامی ملک میں جہاں کی اخلاقی اور تربیتی اقدار میں مغرب سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر وہاں بھی یہ سب کم سن بچوں میں فروغ پارہا ہے اور والدین چپ چاپ تماشہ دیکھ رہے ہیں تو پھر اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
ہم ایم اے میں تحقیق کر رہے تھے۔ موضوع تھا"مدرسوں میں بچوں کے ساتھ مظالم"(انگریزی میں بڑا سا موضوع تھا)۔لاہور میں بڑے،چھوٹے بہت مدرسوں میں گئے۔ سوائے چند بڑے مدرسوں کے بہت سے مدرسوں میں کسی نہ کسی طرح کی abuseہوتی تھی۔ کسی بھی طرح کی تفریح بالکل نہیں تھی بچے کھانا لینے باہر جاتے تھے۔مار تو عام تھی۔۔۔۔لمبی تفصیل ہے ۔۔۔۔ چند مدرسوں میں اساتذہ بہت کم البتہ بچے آپس میں نسبتاََ زیادہ۔۔۔۔۔تھے۔ دو زنجیربندھےدیکھے۔یہ ہیں ہمارے مولوی بنانے کے کارخانے(یقیناََ سب مدرسے ایسے نہیں ہیں۔ بہت اچھے ماحول والے بھی دیکھے ہیں)
ایسے ماحول میں نشونما لینے والوں کا ذہن کیسا ہو گا؟؟؟
ان کارخانوں سے نکلنے والے جنت،جہنم،گناہ،قبر کا عذاب،بیوی کے فرائض، وغیرہ وغیرہ پڑھ کر آتے ہیں۔انھوں نے قرآن رٹا ہوتا ہے،سیکھا نہیں ہوتا۔ کسی نے انھیں مارتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا
کہ اللہ بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کسی نے ان کو زنجیروں سے باندھتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ اللہ نے اس کتاب کو صرف رٹنے(نعوذ بااللہ) کے لئے نہیں بھیجا۔ یہ تو راہِ ہدایت ہے پیارے بچو۔ بچوں کے لئے کوئی عذاب نہیں ہے۔ اللہ بچوں سے پیار کرتا ہے۔ آؤ میرے ننھے فرشتو تمہارے سر پہ ہاتھ رکھوں۔ سبق یاد نہیں ،پھر کیا ہؤا، چلو ہم کھیلیں ،تھوڑی دیر بعد پھر سے دیکھتے ہیں ہمارا اللہ ہم سے کیا کہتا ہے۔
یہ تو خواب ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ ان کارخانوں سے جو روایتی مولوی نکلتے ہیں وہ گھٹے ہوئے ماحول کے عادی خود بھی ایسا ماحول وضع کرتے ہیں۔غربت،بھیک،معاشرے کا تحقیر وترحم والا رویہ،تفریح کے نام پہ صرف بیوی اور وہ بھی بچوں کی پیدائش،پرورش،گھر کے دھندوں میں الجھی ایک تھکی ہوئی عورت،جس میں چند سالوں بعد کوئی کشش نہیں رہتی۔ باہر ون سونی عورتیں سرِ عام گھومتی نظر آتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ گندی کتابیں لوگ اِس خوف سے نہیں رکھتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ لے،اب موبائل اور نیٹ نے یہ ڈر ختم کر دیا ہے۔ایک دیکھتا ہے تو اپنے جیسوں کو شیئر کراتا ہے۔
 
Top