اس بارے میں بھی کچھ تفصیلات درکار ہیں ۔ اُمید ہے آپ اس ساری سازش کی قلعی کھل کر بیان کریں گے کہ ملالہ ، ملالہ بہت ہوگیا ۔تعلیم کے موضوع کو ملوث کر کے کلچر بدلنے کی سازشیں ہورہی ہیں
دیکھ لو آج کا مسلمان۔۔۔ ۔۔۔ اورمسلمانوں کی ہسٹری پڑھ لیں
اس بارے میں بھی کچھ تفصیلات درکار ہیں ۔ اُمید ہے آپ اس ساری سازش کی قلعی کھل کر بیان کریں گے کہ ملالہ ، ملالہ بہت ہوگیا ۔تعلیم کے موضوع کو ملوث کر کے کلچر بدلنے کی سازشیں ہورہی ہیں
دیکھ لو آج کا مسلمان۔۔۔ ۔۔۔ اورمسلمانوں کی ہسٹری پڑھ لیں
چلیں شکر ہے سمجھ آگئی۔۔۔دیر سے ہی سہیبلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔اس نسل نے نہ تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا ، جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
۔ اسپر کمنٹس کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں مجھ پر کمنٹس کرنے کے لئے نہییںچلیں شکر ہے سمجھ آگئی۔۔۔ دیر سے ہی سہی
لکھنے والا کا نام نہیں ۔۔۔ اور روزنامہ میں چھپ گیا ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
لندن ( مانیٹرنگ دیسک) طالبان کی گولی کا نشانہ بن کر دلوں کی دھڑکن بننے والی ملالہ یوسف زئی کو بینظر بھٹو کے صاحبزادے بلاول، صاحبزادی آصفہ اور بختاور نے ’بینظیر‘ تسلیم کرلیا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم کی حیثیت سے نعرہ بھی لگادیا ہے، واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ روز ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے اور پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکیا ، اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے جانشین اوراُن کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے اُسی منصب کے لیے ملالہ کے حق میں نعرہ لگادیا جس عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی محترم بے نظیر بھٹو کا نام لے کر نعر ہ لگایاکرتی تھی ۔مبصرین کے خیال میں بے نظیر بھٹو کی اولاد نے اب ملالہ کو بھی بے نظیر جیسا محسوس کرلیا ہے اور ویسی ہی لیڈر مان لیاہے ۔ ملالہ کے پہلے دن سے لیکر نوبل انعام نہ ملنے کے اعلان تک کے سفر کی کہانی بیان کرتے ہوئے بی بی سی نے لکھا ہے کہ کہانی تو یہ محبتوں کی ہے لیکن اس سے قبل شاید ہی محبت کے کسی قصے میں اتنی نفرت بھی دیکھنے کو ملی ہو۔جمعرات کو رات بھر لاکھوں پاکستانی ملالہ یوسفزئی کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے اور ہزارہا نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسے نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجیں۔لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نہ ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔لیکن نوبیل امن انعام کے اعلان سے پہلے کے چند دنوں میں پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے جس بے رحمی سے ملالہ یوسفزئی کے خلاف زہر اگلا گیا اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان لوگوں کی نفرت واقعی ملالہ کے لیے ہے یا اس کا اصل ہدف کوئی اور یا کچھ اور ہے۔پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔اس نسل نے نہ تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا ، جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
اسپر کیا کمنٹس ہیں آپ سبکا۔
یہ روزنامہ پاکستان کا حصہ ہے اور لکھنے والے کا نام نہیں لکھا گیا۔
بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہےلکھنے والا کا نام نہیں ۔۔۔ اور روزنامہ میں چھپ گیا ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔
معلوم کریں کہیں مقبول جان اورریا تو نہیں ہیں ۔
آپ کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ روزنامے میں کوئی بھی تحریر بغیر کسی حوالے سے نہیں چھپتی ۔ خیر معلوم ہوجائے گا کہ کالم نگار کون تھا ۔ یا آپ جان بوجھ کر کسی کی خوشی دیکھنے کے لیئے کالم نگار کا نام حذف کررہے ہیں ۔بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہے
میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کو خوش ہے اور کون کیا ۔
بھائی جان روزنامہ پاکستان سے لیاگیا ہے
میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کو خوش ہے اور کون کیا ۔
میں تو مزا لینا چاہتا ہوں کل پرسوں عید ہےآپ کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ ۔ روزنامے میں کوئی بھی تحریر بغیر کسی حوالے سے نہیں چھپتی ۔ خیر معلوم ہوجائے گا کہ کالم نگار کون تھا ۔ یا آپ جان بوجھ کر کسی کی خوشی دیکھنے کے لیئے کالم نگار کا نام حذف کررہے ہیں ۔
اچھا آپ مزا لے رہے ہیں تو لیتے رہیں ۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ یہ ٹاپک سنجیدہ ہے ۔ اور صرف سنجیدہ لوگوں کے لیئے ہے ۔میں تو مزا لینا چاہتا ہوں کل پرسوں عید ہے
پہلے نام صحیح لکھنے کی سعادت حاصل کرلیں ۔ پھر جواب بھی دیتا ہوں ۔طفری بھائی
آپ امریکہ میں پیدا ہوئے کیا
ماشاء اللہ اپنے جنم بھومی سے بہت محبت کرتے ہیں
یہ کالم اپنی اصل صورت میں یہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔بلاول ، آصفہ اور بختاور نے ملالہ کو’ ماں‘ مان لیا
12 اکتوبر 2013 (02:25)
لندن ( مانیٹرنگ دیسک) طالبان کی گولی کا نشانہ بن کر دلوں کی دھڑکن بننے والی ملالہ یوسف زئی کو بینظر بھٹو کے صاحبزادے بلاول، صاحبزادی آصفہ اور بختاور نے ’بینظیر‘ تسلیم کرلیا ہے اور مستقبل کی وزیراعظم کی حیثیت سے نعرہ بھی لگادیا ہے، واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ روز ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے اور پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہارکیا ، اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے جانشین اوراُن کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے اُسی منصب کے لیے ملالہ کے حق میں نعرہ لگادیا جس عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی محترم بے نظیر بھٹو کا نام لے کر نعر ہ لگایاکرتی تھی ۔مبصرین کے خیال میں بے نظیر بھٹو کی اولاد نے اب ملالہ کو بھی بے نظیر جیسا محسوس کرلیا ہے اور ویسی ہی لیڈر مان لیاہے ۔
یہ روزنامہ پاکستان کا حصہ ہے اور لکھنے والے کا نام نہیں لکھا۔
ظفریپہلے نام صحیح لکھنے کی سعادت حاصل کرلیں ۔ پھر جواب بھی دیتا ہوں ۔
میں 13 کھلاڑی ہوںاچھا آپ مزا لے رہے ہیں تو لیتے رہیں ۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ یہ ٹاپک سنجیدہ ہے ۔ اور صرف سنجیدہ لوگوں کے لیئے ہے ۔
اچھا اگر مزا لینا ہے تو یہ بھی پرھئیے۔۔۔امید ہے عید تک دذارہ ہوجائے گا اتنے مزے سے ہی اسکے بعد کوئی نیا ڈوز ڈھونڈیں گے آپکے لئیےمیں تو مزا لینا چاہتا ہوں کل پرسوں عید ہے
شاباش ۔۔۔ اب یہ مشق جاری رکھیں ۔ اور بعد میں کم ازکم سات سو دفعہ ایک پرچے پر لکھ کر آگے بڑھادیں ۔ تاکہ مذید لوگ بھی اس ثواب سے مستفید ہوسکیں ۔ظفری
ظفری بھائی جان
اب بتائیں