برادرِ عزیز ، کسی کے نظریات پر قدغن لگانا محفل کی بنیادی پالیسی کے خلاف ہے لیکن دورانِ گفتگو ان نظریات کو کسوٹی بنا کر بات کرنا مفید نہیں ہوا کرتا،اس سے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ جو اراکین بھی یہاں بات کر رہے ہیں وہ یکساں محترم و معزز ہیں اور یہی احترام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے نظریات و عقائد کا بھی پاس کریں۔ ذاتی طور پر ایک ضمنی بات کہہ دوں کہ کوئی بھی مسلمان کبھی قبر کو نہیں پوجتا۔ بے شک آپ کسی دربا پر موجود چرس کے نشے میں دھُت نیم وا آنکھوں کے ساتھ کسی تربت پر جھُکے چرسی یہ پوچھیں کہ کیا تم اس تربت والے کی عبادت کرتے ہو تو اس کا جواب نہیں میں ہو گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے لوگوں کی کم علمی انہیں عقیدت میں غلو پر اکسا دیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا تعلیمی المیہ ہے اور ہمارے اہلِ علم کو اس پر توجہ دینا چاہئیے۔ لیکن افسوس کہ اہلِ علم خود مسلکی خانوں میں بُری طرح بٹے ہوئے ہیں۔برصغیر کے مسلمان جب مسلمان ہوئے تو بہت سارے ہندوانہ رسم و رواج اپنے ساتھ لائے جن میں قبر کی پوجا عام بات ہے۔
اب تو ہندو کہتے ہیں کہ " ہم کب غلط ہیں تو لوگ بت زمین کے اندر قبر میں پوچھتے ہو اور ہم بت کو سامنے رکھ کر۔
اسی طرح زرتش کی آتش بازی اور شب برات کی آتش بازی۔ ملاؤں کا کرسمس میں کیک کاٹنا۔ اور اسی طرح اپنے بڑوں کی یاد میں عرس کرنا
جلیبیاں باٹنا۔ جب " عبداللہ ابن سبا" کے ماننے والے ملا بنے گے تو اس طرح کا رد عمل سامنے آئے گا۔ پھر یہود نصارا حاوی ہونگے۔
پھر کوئی بیٹی ، کوئی بیوی، کوئی ماں اور کوئی بہن محفوظ نہیں رہے گی۔
یہ تشدد ، خودکش حملہ ، کیمائی ہتھیار،نیوکلیر ہتھیار سب انہیں کی ایجاد ہے اور ہمارا معاشرہ "گینی پگ" ہے
ٹیپوسلطان کے ساتھ بھی غدار تھے، سراج الدولہ کے ساتھ بھی۔ اسی طرح آج پاکستان میں ہورہا ہے
ان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو نہیں معلوم کے استعمال کے بعد کیا ہوتا ہے جیسے "ضیالحق" کے ساتھ انکے بڑے بڑے
کرنل بھی مارڈالے۔ قرآن کریم میں بنی اسرئیل کے بارہ میں کافی آیا ہے اور اسی طرح ایمان والوں کے بارہ میں بھی۔
اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ یایھاالذین آمنو پر عمل کرنے ہے یا بنی اسرئیل جیسے خسارہ پانے والوں پر۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بس حق پھیلانے کی ذمہ داری تھی اور ہم سب کی ذمہ داری بھی یہی ہے
جب ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ اب میرا کیا کام ہے تو رسول العالمین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو میرا کام وہ تمہارا کام۔ اس کےبعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 6 ایسے مردوں کے لے آئے جو عشرہ مبشرہ بنے۔
ہم سب لوگ جانتے ہیں کیا صحیح کیا غلط۔ پھر بھی ہم لوگ غلط کرتے چلے جاتے ہیں اور اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ یہاں کوئی طفل بھی موجود ہے جو طفلیاں کرے۔ ہر کوئی اس کوشش میں لگا ہے کہ وہ صحیح ہے دوسرا غلط۔
چور کے لئے پولیس اور قانون دہشت گرد ہیں ڈاکؤوں کے لئے سب مال حلال ہے۔ یہ وہ زمانہ آگیا ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا تھا
کہ ایک زمانہ ایسا آئےگا اس دور لوگ حق کی بات سے ناحق کریں گے۔ شرابی کو شراب اچھی لگتی ہے اس لئے وہ اس کی راہ میں رکاوٹ کو غلط ثابت کرنے کی جتن کرتا ہے زانی بھی زنا کے بارہ میں یہی کہتا ہے کہ " جب دودھ بازار میں مل جاتی ہے تو گائے پالنے کی کیا ضرورت"۔
خیر۔
اللہ کے پیغام کو مختصرا بیان کردیتا ہوں۔
حق آئےگا باطل مٹے گا، اور باطل مٹنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے۔
اسلام ضرور غالب آئے گا
تم دیکھنا اک نا اک دن۔
یہ دھاگہ ملالہ کے حوالے سے بین الاقوامی اور حکومتی سطح کے سیاسی و انتظامی اقدامات اور ان کے نتائج و عواقب پر مبنی بحث پر مشتمل ہے اس لئیے اسی میدان میں رہتے ہوئے بات کرنا زیادہ سود مند رہے گا۔