فاروق سرور خان
برادر ! اس دھاگے کے آغاز ہی سے میں اسے پڑھ رہا ہوں مگر میں نے درمیاں میں مداخلت صرف اس وقت کی جب معاملہ تلخ ہونے لگتا ۔پیارے بھائی ! جس طرح آپ کو اپنی بات کھنے کا حق ہے اسی طرح دوسرے کو بھی حق ہے آپ سمیت سب کو
اس تہذیب و رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جس کی تربیت ہمارے معاشرے اور والدین نے دی ہے ۔ ہمارا طرز تخاطب ،ایک ایک عمل اسی تربیت کا پر تو ہوتا ہے ۔
بات ملالہ کی ہو رہی تھی محفل کا کوئی ساتھی ایسا نہیں ہوگا جسے اس کا افسوس نہ ہو اور یہ اسی ملال کی وجہ ہے کہ وہ اس دہشت گردی کا الزام ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کاروائی امریکہ کے اشاروں پر امریکہ کے پروردہ طالبان کی کاروائی ہے ۔۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد سے دو درجن سے زائد حملے صرف تعلیمی اداروں اور سکول بسوں پر حملے ہوئے جن میں سینکڑوں طلبہ اور متعدد خواتین اساتذہ شہید ہوئے۔ اس سے امریکہ کو کیا فائد ہ ہوا اس کا فائد اسی میں ہے کہ پاکستانی قوم میں اتحاد و اتفاق پیدا نہ ہو انہیں اپنے عقیدے ، نظریات،اداروں ، پر یقین نہ رہے ۔جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو دشمن کو آدھی کامیابی مل جاتی ہے اس کے بغیر بیرونی قوت کسی بھی ملک میں مداخلت نہیں کرسکتی ۔
میں خود ایک ایسے ہی سانحہ کا متاثرہ شخص ہوں اور کئی دیگر متاثرین کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر کاٹ چکا ہوں ۔ میں اسلامی یونیورسٹی پر خود کش حملےکے ایک متاثرہ خاندان کو جانتا ہوں بچی کے والد ایک بنک کے اعلیٰ افسر ہیں ۔ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹کے حملے کے بعد سے ۶ دسمبر ۲۰۰۹ تک یہ خاندان پمز ہسپتال کے سبزہ زار میں سرد موسم اور بارشوں میں دن رات رہتا تھا ۔ان کو ہسپتال کے برامدے سے بھی چوکیدار سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے نکال دیتا تھا ۔ اس کے علاوہ اپنی بچی کے علاج اور دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹروں ، خون کی بوتلوں کے لیے بھاگ دوڑ کی پریشانی اس کے علاوہ تھی ۔ یہی ڈاکٹر خلیق جو ٹی وی پر آ کر ملالہ کے لیے پریزینٹیشن دے رہے تھے ۔ پمز کے آی ٹی سی میں صبح آتے اور اس کے بعد نظر نہ آتے ۔ آخر ۶ دسمبر کو یہ طالبہ اپنے ہموطنوں کی خود غرضی کا داغ لےکر مالک حقیقی سے جا ملی ۔ آپ ہیوسٹن میں اس درد کو یقیناً امریکہ ہی کی نظر سے دیکھیں گے ۔یہ بھی طالبہ تھی علم کی شمع روشن کرنے ہی جارہی تھی ۔اسی طرح اورکزئی ایجنسی ، کامرہ ، بڈھ بیر ، پشاور و دیگر علاقوں میں سکول کی بسوں اور سکولوں میں ہونے والے حملوں سے شہید ہونے والے بھی علم کی شمع ہی روشن کر رہے تھے خواتین اساتذہ کس طرح خطرہ مول لیتے ہوئے علم پھیلانے کے لیے گھر سے آج بھی نکلتی ہیں ۔ یہاں تو ہر سکول ،کالج میں ملالہ ہیں ۔ اللہ رب العزت ان کے ایمان ، عزت ، جان و مال کی حفاظت فرمائے (آمین) کسی کے لیے بانکے مون ، ابامہ یا دیگر عالمی شخصیات کو درد نہ ہوا ۔ ہاں ! کئی ایسے سکول جو تباہ ہوے تھے وہاں اپنے سلیبس کے ساتھ سکول قائم کیے گئے ہیں ۔ اور جس طرح قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں امریکی عہدےدار کا ذکر کیا ہے جس نے کہا تھا کہ ہم سکالر شپ اس لیے نہیں دیتے کہ آپ تعلیم ہی حاصل کریں آپ کو امریکی ثقافت و تہذیب بھی اپنانی چائیے اور اس حقیقت سے تو آپ با خبر ہی ہونگے کہ مغرب اور مغربی گماشتے اسلام میں خواتین کے پردے سے کتنا خوفزدہ ہیں اس ملالہ کو یہ تکریم صرف اور صرف اس لیے مل رہی ہے کہ امریکہ یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ جو ہمارے ہمدرد ہوتے ہیں ہم انہیں کس طرح بچاتے ہیں اور کتنی عزت دیتے ہیں ورنہ مخالفین کے لیے تو بگرام ،ابو غریب اور گوانتامونے جیسے عقوبت خانے ہیں ۔
آخر میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے ایک طویل مراسلہ پڑھا ۔ اور دعا کرتا ہوں کہ آپ اسے ایک پاکستانی کی نگاہ سے پڑھیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ قوم کو امریکہ ، اور امریکہ کے پروردہ طالبان ، تفرقے ،نفرتوں سے نجات دے اور ہمیں صراط مستقیم ، اتحاد عطا فرمائے (آمین)