جب ملک کا اصل نام اسرائیل ہے تو اسے مقبوضہ یا مقتولہ فلسطین کیوں کہا جائے؟
یہ یہودیوں کا قبضہ کردہ فلسطین ہے۔ چاہے آپ اسے اسرائیل کا نام دیں یا کوئی اور۔ فلسطین یہودیوں کا اصل وطن نہیں بلکہ تاریخی طور پر یہ بھی حملہ آور ہوکر یہاں کے اصل قبائل سے برسرپیکار ہوئے اور وہاں قابض ہوئے۔ آپ جن کو حملہ آور مسلمان کہہ رہے ہیں یہ دوسری غلط فہمی ہے ، یہاں آباد اکثر مسلمان باہر سے نہیں آئے بلکہ یہیں کہ باشندوں نے اسلامی خلفاء کے دور میں اسلام قبول کیا اور مسلمان کہلائے۔ دنیا کے ہر ملک میں کہیں نہ کہیں سے لوگ آکر آباد ہوتے رہیں۔ اور یہاں بھی کچھ تعداد میں باہر سے مسلمان آئے ۔اور دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے یہاں آباد ان احسان فراموش اور انبیاء کے قاتل یہودیوں کو کچھ بھی نہ کہا ان کو آباد رہنے دیا۔ برعکس عیسائیوں کے جنہوں نے ہمیشہ یہودیوں کو ان کی حقیقت بتائی اور ذلیل کرتے رہے، قتل کرتے رہے، چاہے وہ اسلامی عہد ِ رفتہ میں تھا، یا اس کے بعد، یہ تو ان کہنہ مشق اور عیار یہودی سن رسیدہ بزرگوں کے ذہن نے کام کیا جنہوں نے عیسائیوں سے بدلہ لینے کے لیے عیسائیت کا روپ اختیار کیا پہلے انہیں توڑا ان سے مذہب سے لگاؤ نکال باہر کیا پھر انہیں فحاشی وعریانی کے سیلاب میں ایسا دھکیلا کہ آج تک اور آئندہ تک ان کی جانب سے یہودی بے فکر ہوئے۔ اب جو کانٹا رہ گیا ہے وہ مسلمان ہے۔یہ احسان فراموش جب برطانوی اور امریکی آشیر باد سے فلسطین آئے (یاد رہے دوسری بار قابض قوم کی صورت میں ) تو پہلے سے نہتے کیے گیے مسلمانوں سے بنو قریظہ واقعہ کا بھڑاس نکالا خوب قتلِ عام کیا ، پھر ان کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے کر کیمپوں میں دھکیل باہر پھینکا۔ اور آج تک پتھر کا جواب گولی سے دے رہے ہیں، کیا آپ نے 1947-48 میں ان کی آمد کے متعلق نہیں پڑھا ؟ آپ پھر بھی چاہے تو تاریخ پڑھیں۔ اور کچھ نہیں تو آپ مجھے صرف تاریخ کا ایک ایسا حوالہ دے جس میں مسلمانوں نے یہودیوں کو یا تو ذلیل کیا ہو اور یا قتل ، صرف ایک حوالہ۔
بنو قریظہ کا حوالہ نہیں مانگ رہا کیوں کہ جو دوسروں کو قتل کرنے کی سازش کریں ان کی سزا بھی قتل ہے اور پھر جب مقتول کسی نبی کو بنایا گیا ہوتو اس کی سزا پھر اللہ مقرر کرتا ہے، بنو قریظہ کے واقعے کو یہ لوگ اپنی اسلام دشمنی کی بنیاد ٹھہراتے ہیں ، مجھے حیرت اس پر ہے کہ جب انہوں نے خود معاہدے کے وقت دھوکے کی صورت میں قتل ہونے کی سزا پر دستخط کیے تو مسلمانوں کو سزاوار ٹھہرانے کی کیا تُک رہ جاتی ہے، حالاں کہ اگر یہ اپنے منصوبے میں کامیا ب ہوجاتے تو آج ایک بھی مسلمان نہ ہوتا ، ان کی منصوبہ بندی پورے مسلمان قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایسی تھی کہ نبی کو قتل کرو تو قوم بھی ختم، لیکن اس وعدہ خلاف اور دھوکہ باز قوم کو اللہ نے اپنے ہی جال میں ایسا کسا کہ آج تک ہاتھ مل رہے ہیں، آخریہی کافی ہے کہ جو اپنے ہی انبیاء کو تکلیفیں دے دے کر خوش نہ ہوئے ہو تو وہ بنی اسماعیل میں کسی نبی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں، آپ ﷺ نے ان کے ساتھ پھر احسان کیا کہ صرف بنو قریظہ ہی کے جوانوں کے قتل کا حکم دیا باقی کسی یہودی قبیلے کو کچھ بھی نہ کہا۔
آخر کیوں اس سے پہلے اور بعد کے تاریخ میں کسی ایک بھی یہودی کے قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اگر مسلمان چاہتے تو صلاح الدین ایوبی اور اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور میں ان کی بیخ اور بنیاد ختم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیا ان احسان فراموشوں کے پاس کوئی ثبوت ہیں جو آج مسلمانوں پر چڑھ دوڑ رہے ہیں؟