انعام جی
معطل
ویسے مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نواز شریف میں وہ کون سی قائدانہ خوبی ہے جس کی بنا پر اس کو لائیک کیا جائے۔ یہ نہ گفتار کا غازی نہ کردار کا غازی۔ نہ اس کو تقریر کا فن آتا ہے اور نہ کام کرنے کا حؤصلہ اس میں پایا جاتا ہے۔صورتا ڈمب، جسمانا بم، مزاجا غبی۔نہ اس باتوں میں کوئی بھی رتی برابر گہرائی و گیرائی نظر آتی ہے وہی عمومی انداز بیان و ٹھیلوں والوں کی صدا جیسی تقریر۔ بھینسوں کے سری پائے کا ناشتہ کرتے کرتے، کم از کم بھینس کے سری پائے کا ان کے سری پایوں میں واضح نفوز دیکھا جاسکتا ہے نہ چال میں چستی نہ بندہ کہیں سے ایکٹو لگے،نہ ہی زیادہ پڑھا لکھا ہے یہ شخص، نہ ہی موجودہ صورت حال کا اس کو ادارک ہے۔ پھر مزید خصوصیات ملاحظۃ کیجئے مصیبت پڑے تو نہ مردوں کی طرح جھیل پائے اور نہ حالات سے لڑ پائے۔خواتین کے مافق فریاد کنندہ ہو، ساتھیوں کو چھوڑ کے باہر بھاگ جائے ، ایک نمبر کا اسیٹس کو کا سمبل۔ پنجاب کی حکومت کی خاطر پانچ سال زرداری کو سر پر سوار کیے رکھا، ایسی اپوزیشن کا کردار ادا کیا کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اے این پی اور متحدہ کہاں ختم ہوتی ہے اور مولانا فضلو کی بغل میں بیٹھے گولو مولو نواز شریف کی ن لیگ کہاں سے شروع۔پھر یہی نہیں ہر وہ معاملہ جس میں زرداری نے قوم کو مبتلائے مصیبت کیا، ہر اس معاملے میں نہ چھوٹے میاں کچھ کر سکے اور نہ بڑے میاں۔ کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ اور لا قانونیت و دہشت گردی اقتدار میں آکر ختم کر دیں گے کیا پنجاب ان کے پانچ سالوں تک ان دونوں میں مبتلائے عذاب نہیں رہا؟ پھر کیسے یہ پورے ملک میں اس مصیبت کو ختم کر سکتے ہیں؟
چھوٹے میاں کی ہر اسکیم کا جائزہ لیجے جو پانچ سالوں تک پیش کی جاتی رہی، سستی روٹی، دانش اسکول لیپ ٹاپ اور میٹرو بس سروس۔ ان میں دانش اسکول کا مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم بقیہ جواحؤال پتہ چلا ہے تو ان سب میں ایک چیز بالکل یکساں ہے اور وہ یہ کہ سب اسکیم عجلت میں بنائی گئیں ہیں، ان سب کا فائدہ ان پر آئی لاگت کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور لانگ ٹرم میں ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور جتنا پیسہ ان میں لگایا گیا ان سے اگر بھر پور پلانگ کی جاتی تو کہیں بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے۔
موجودہ نواز شریف کا ایک مسئلہ اور ہے کہ قید کاٹنے اور ملک سے باہر جلاوطنی گزارنے کے بعد یہ صاحب زیادہ محتاط ہوگے ہیں اور ہر اس بات پر،جس سے ان کو یا ان کیے اقتدار کو کوئی بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کمپروپئز کے لیے فورا تیار ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ زرداری کو سہتے رہے، اسی لیے ریمنڈیوس کیس میں دونوں میاں برادران منہ میں چسنی لیے بیٹھے رہے، ایک طرف ایم کیو ایم کو گالیاں دیتے رہے اور وقتا فوقتا ان سے گلے ملنے کے لیے بے تاب بھی ہوتے رہے۔اور اسی طرح مشرف کی آمد کے بعد شیر نیل کٹر نکال کر اپنے پنجوں کے ناخن کاٹنے لگا۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ کہ نہ صرف ان کی کثیر دولت ملک سے باہر ہے بلکہ یہ دولت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، حال میں ہی انجم عقیل جیسے پاکباز کو میاں جی ٹکٹ سے نوازا ہے اس سے ان کی اس خصلت پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ان کی واحد خوش قسمتی یہ ہے کہ تازہ بہ تازہ اس ملک کے عوام نے زرداری کو جھیلا ہے جس کو جھیلنے کے بعد شاید شیطان کی حکومت بھی بہتر لگے، چاروں صوبوں میں شہباز شریف کی حکومت واقعتا بہتر رہی کیوں کہ سندھ میں ایک ایسا بڈھا حکومت کرتا رہا جس کو نہ سنائی دیتا تھا نہ دکھائی، رہی سہی کسر ایم کیو ایم اور اے این پی نے پوری کر دی، بلوچستان میں ایک مسخرہ اور سرحد میں ایک ایسا شخص جس کو نہ کسی نے کبھی ٹی وی پر سنا نہ اپنے صوبے میں کام کرتادیکھا۔ سو ان بھانڈں کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کا پو بارا ہو گیا اور وہ اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق نمبر ون رہے۔سو بھائیو اگر اگر زرداری سے محض انیس بیس والے حالات چاہتے ہو تو شیر کو ووٹ دو تاہم یاد رکھو کوئی شریف شیر آج تک نہیں دیکھا گیا ہے اور اس شیر نے بھی کھانے پینے اور خود غرضی کی روایت سے باز نہیں آنا ہے۔میاں صاحب آج کوئی پہلی بار برسر اقتدار نہیں آنے والے یہ مسلسل اقتدار میں ہی رہے ہیں ان کو اب کیا آزمانا اور کب تک آزمانا؟
چھوٹے میاں کی ہر اسکیم کا جائزہ لیجے جو پانچ سالوں تک پیش کی جاتی رہی، سستی روٹی، دانش اسکول لیپ ٹاپ اور میٹرو بس سروس۔ ان میں دانش اسکول کا مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم بقیہ جواحؤال پتہ چلا ہے تو ان سب میں ایک چیز بالکل یکساں ہے اور وہ یہ کہ سب اسکیم عجلت میں بنائی گئیں ہیں، ان سب کا فائدہ ان پر آئی لاگت کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور لانگ ٹرم میں ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور جتنا پیسہ ان میں لگایا گیا ان سے اگر بھر پور پلانگ کی جاتی تو کہیں بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے۔
موجودہ نواز شریف کا ایک مسئلہ اور ہے کہ قید کاٹنے اور ملک سے باہر جلاوطنی گزارنے کے بعد یہ صاحب زیادہ محتاط ہوگے ہیں اور ہر اس بات پر،جس سے ان کو یا ان کیے اقتدار کو کوئی بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کمپروپئز کے لیے فورا تیار ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ زرداری کو سہتے رہے، اسی لیے ریمنڈیوس کیس میں دونوں میاں برادران منہ میں چسنی لیے بیٹھے رہے، ایک طرف ایم کیو ایم کو گالیاں دیتے رہے اور وقتا فوقتا ان سے گلے ملنے کے لیے بے تاب بھی ہوتے رہے۔اور اسی طرح مشرف کی آمد کے بعد شیر نیل کٹر نکال کر اپنے پنجوں کے ناخن کاٹنے لگا۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ کہ نہ صرف ان کی کثیر دولت ملک سے باہر ہے بلکہ یہ دولت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، حال میں ہی انجم عقیل جیسے پاکباز کو میاں جی ٹکٹ سے نوازا ہے اس سے ان کی اس خصلت پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ان کی واحد خوش قسمتی یہ ہے کہ تازہ بہ تازہ اس ملک کے عوام نے زرداری کو جھیلا ہے جس کو جھیلنے کے بعد شاید شیطان کی حکومت بھی بہتر لگے، چاروں صوبوں میں شہباز شریف کی حکومت واقعتا بہتر رہی کیوں کہ سندھ میں ایک ایسا بڈھا حکومت کرتا رہا جس کو نہ سنائی دیتا تھا نہ دکھائی، رہی سہی کسر ایم کیو ایم اور اے این پی نے پوری کر دی، بلوچستان میں ایک مسخرہ اور سرحد میں ایک ایسا شخص جس کو نہ کسی نے کبھی ٹی وی پر سنا نہ اپنے صوبے میں کام کرتادیکھا۔ سو ان بھانڈں کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کا پو بارا ہو گیا اور وہ اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق نمبر ون رہے۔سو بھائیو اگر اگر زرداری سے محض انیس بیس والے حالات چاہتے ہو تو شیر کو ووٹ دو تاہم یاد رکھو کوئی شریف شیر آج تک نہیں دیکھا گیا ہے اور اس شیر نے بھی کھانے پینے اور خود غرضی کی روایت سے باز نہیں آنا ہے۔میاں صاحب آج کوئی پہلی بار برسر اقتدار نہیں آنے والے یہ مسلسل اقتدار میں ہی رہے ہیں ان کو اب کیا آزمانا اور کب تک آزمانا؟