منتخب اشعار برائے بیت بازی!

شمشاد

لائبریرین
نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں اُٹھتا
کہ نیچے آسماں کے اور نیا اک آسماں ہوتا

جو روتا کھول کر جی تنگنائے دہر میں عاشق
تو جوئے کہکشاں میں بھی فلق پر خوں رواں ہوتا
(ابراھیم ذوق)
 

فریب

محفلین
اب ہم کس کی راہ تکیں اور کس کی خاطر پھول چنیں
وہ من موہن اپنے گھر سے باہر ہی کب آتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے
چمن میں راس نہ آئے گی یہ بہار مجھے

تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے
(عزیز وارثی)
 

فریب

محفلین
یارو! دلِ وحشی کو سنبھالو کہ سرِ بزم
وہ دشمنِ جاں نذرِ وفا مانگ رہا ہے۔۔۔۔

(محسن نقوی)
 

تیشہ

محفلین
یہ اداسیوں کا جمال ہے کہ ہمارا اوجِ ِکمال ہے
کبھی ذات سے بھی چھپا لیا کبھی شہربھر کو بتادیا،



،ا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا
میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا
اٹھ کے منزل ہی اگر آئے تو شاید کچھ ہو
شوقِ منزل میں میرا آبلہ پا ہو بیٹھا
(فرحت شہزاد)
 

شمشاد

لائبریرین
اک مدت ہوئی اک زمانہ ہوا
خاکِ گلشن میں جب آشیانہ ہوا
زلفِ برہم کی جب سے شناسائی ہوئی
زندگی کا چلن مجرمانہ ہوا
(ساغر صدیقی)
 

الف نظامی

لائبریرین
ایں از جمالِ زلف و رخ تو حکایتیست
والیل و والضحی کہ نشانِ تو آفرید​
جان و دلم فدائے کریمے کہ او مرا
نغمہ طرز و زمزمہ خوانِ تو آفرید​
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دہواں نہیں​
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرعرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیں جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جسکا مکاں نہیں​
سر عرش پر ہے تری گذر ، دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں​
ترا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سروِچماں نہیں​
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں​
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلامیں میری بلا
میں گدا ہوں‌اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھا
حضورِ خاکِ مدینہ خمیدہ ہونا تھا​
اگر گلوں کو خزاں رسیدہ ہونا تھا
کنارِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا​
حضور ان کے خلاف ادب تھی بیتابی
مری امید تجھے آرمیدہ ہونا تھا​
نظاہ خاکَ مدینہ کا اور تیری آنکھ
نہ اس قدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا​
کنارِ خاک مدینہ میں راحتیں ملتیں
دل حزیں تجھے اشک چیدہ ہونا تھا​
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا
نہ صبر دل کو غزال رمیدہ ہونا تھا​
یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیں
عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا​
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو
سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا​
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی
کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا​
ٹپکتا رنگِ جنوں عشق شہ میں ہر گل سے
رگ بہار کو نشتر رسیدہ ہوناتھا​
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز
کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا​
مرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر
کوئی تو شہد شفاعت چشیدہ ہونا تھا​
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہوں
کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہوتا تھا​
رضا جو دل کو بنانا ہے جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قید خودی سے رہیدہ ہونا تھا​
از شاہ احمد رضا خان
 
Top