منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
بے شمار آبادیاں ہیں
`
کون سا مہتاب ہے یہ کس جگہ کی چاندنی
کس زمانے کی ہوا ہے کس جہاں کی زندگی
بے شمار آبادیوں میں کس کے یہ آثار ہیں
ہے رفاقت میں مری کس خواب کی آوارگی​
 

عرفان سرور

محفلین
اپنا گھر بھول گیا ہے
`
سارے آسمان پر بادل چھائے ہیں
مجھے اپنا گھر بھول گیا ہے
میں گھر سے باہر
ضرورت کی کوئی چیز لینے کے لیے نکلا تھا
گھر سے باہر نکلنے کے بعد مجھے اپنا گھر بھول گیا ہے
اب میں اسے تلاش کر رہا ہوں
اسے کیسے تلاش کروں
اکّا دکّا کوئی درخت
کبھی کبھی، کہیں کہیں کوئی شناسا چہرہ
اور دور دراز میں کہیں کوئی مانوس عمارت
سمجھ میں نہیں آتا
ایسے نامکمل نشانوں کی معرفت اپنے گھر تک کیسے پہنچوں گا
میرے آس پاس خواب کی کیفیت ہے
اور میرا دل گھر واپس جانے کو چاہتا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
شب باراں میں کھو جاتا مکان یار نظروں سے
وہ برق شب کا اس در پر چمکنا ضروری تھا
اور میرے آس پاس خواب کی کیفیت ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
سفید دن کی ہوا
`
دُھند ہے اور شہر ہے اور خواب ہے
بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس کے پیچھے شہر ہے
بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس کے پیچھے شام ہے
بڑھتی جاتی دھند میں بازار ہیں اور خواب ہے
بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس میں بوئے آب ہے
بڑھتی جاتی دھند ہے اور شہر دلآرام ہے
دھندلے دھندلے لوگ ہیں اور باغ ہیں اور شام ہے
اور ان قیود کے اندر فریب ارض و سما
سیاہ شب کا سمندر
سفید دن کی ہوا​
 

عرفان سرور

محفلین
راحتیں جتنی بھی ہیں سب مشکلوں کے دم سے ہیں
زندگی میں جو بھی سکھ ہیں خواہشوں کے دم سے ہیں
شہر کا تبدیل ہونا، شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
منزلیں آسماں بہت تنہا سفر کرنے سے ہیں
رنج ہیں جتنے سفر میں ہمدموں کے دم سے ہیں
ایک بستی کی حفاظت خوف میں رہنے سے ہے
اور اس کے جشن دل کی وحشتوں کے دم سے ہیں
باغ، جنگل، خوشنما بیلیں مکانوں پر منیر
اس زمیں پر رنگ سارے پانیوں کے دم سے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
کس طرف جانا ہے مجھ کو کون سا رستہ ہے وہ
کتنی سمتوں رو رہا ہے کس طرف ہنستا ہے وہ
منزل موہوم ہے اور خواب ہیں چاروں طرف
کتنے پردوں سے پرے ہے کس جگہ رہتا ہے وہ
میں سمجھ بھی پاؤں گا اس کی زباں، گر مل گیا
کیا چھپا ہے اس کے اندر اور کیا کہتا ہے وہ
مشکلوں سے دور ہے اپنے مکان دور میں
یا ہماری ہی طرح کی مشکلیں سہتا ہے وہ
ایک دریائے فنا ہے اس کی ہستی اے منیر
خاک اڑتی ہے وہاں پر جس جگہ بہتا ہے وہچ​
 

عرفان سرور

محفلین
سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو
کسی کے حال کی مجھ کو خبر کچھ دیر رہنے دو
جڑے ہیں ان سے نادیدہ پرانے بام و دروازے
نئے شہروں میں یہ ویران گھر کچھ دیر رہنے دو
کہیں گزرے ہوئے ایام پھر واپس نہ آ جائیں
دل بے خوف میں اس کا خطر کچھ دیر رہنے دو
صبا کس رنگ سے باغوں میں چلتی سیر کرتی ہے
اسے اس اپنی دھن میں بے خبر کچھ دیر رہنے دو
منیر اس عالم روشن میں رہنا اور خوش رہنا
ابھی اس دن سے آگے کا سفر کچھ دیر رہنے دو​
 

عرفان سرور

محفلین
اک خیال خام میں مسحور کر رکھا مجھے
خود پرستی نے جہاں سے دور کر رکھا مجھے
بے سبب تھا اس جگہ پر وہ قیام سرسری
پر تھکن نے اس جگہ مجبور کر رکھا مجھے
خامشی سے دیر تک اس حسن کا تکنا مجھے
دیر تک اس یاد نے رنجور کر رکھا مجھے
تیرگی اطراف میں بیحد تھی لیکن اے منیر
سحر غم نے اس میں مثل نور کر رکھا مجھے​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک وعدہ جو مجھ سے کیا گیا ہے
`
اس کڑی مسافت میں
راہگزار آفت میں
اک طویل نفرت کی
بے کنار عادت میں
بے شمار نسلوں کی
بے وفا وراثت میں
منتظر ہیں میرے بھی
میرے ہم سفر کے بھی
ایک دن مسرت کا
ایک شب محبت کی
اک مقام راحت کا
اک فضا حفاظت کی
اک خیال دائم کا
ایک سوچ ثابت کا​
 

عرفان سرور

محفلین
خزاں ایک بہار رنگ موسم ہے
`
درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں
کبھی ایک کرکے ہوا کے مطابق
کبھی اچانک بے شمار ہوا کے مطابق
خزاں کے بہاروں میں خوب دلکشی ہے
وسوسوں اور وہموں سے بھری ہوئی
اور آوارہ خیالی اور اکساہٹوں سے بھری ہوئی
اور بے شمار خوشیوں سے بھری ہوئی
درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں
کبھی ایک کر کے​
 

عرفان سرور

محفلین
کوئی اک عمر خوشیوں کی بہت ہی دور ہے اس کو
سراپا دشت ہے لیکن چمن مستور ہے اس کو
کوئی مخفی حقیقت ہے بظاہر ابتر عالم میں
کوئی پوشیدہ نظارہ ہے جو مجبور ہے اس میں
خواب میں دیکھو اسے اور شہر میں ڈھونڈو اسے
وقفے وقفے سے رونق میں بیٹھے دیکھنا
مختلف لوگوں ، گھروں میں چلتے پھرتے دیکھنا
اس کی آنکھوں میں محبت کو دمکتے دیکھنا
دیکھ کر اس کو بچھڑ جانا ہجوم شہر میں
اور اک منظر میں پھر اس کو گزرتے دیکھنا​
 

عرفان سرور

محفلین
کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ہوئی نجات سفر میں فریب صحرا سے
سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا
برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح
فلک پہ برق کا وہ بیچ و تاب ختم ہوا
جواب نہ رہا میں کسی کے آگے منیر
وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک دور اُفتادہ پرانا قصبہ
`
اونچی اونچی دیواروں والے نیم آباد محلے
کی سنسان گلیوں
کم افراد والے کشادہ چوک سے نکل کر
دونوں اکٹھے چل رہی ہیں
بچہ ماں کی پناہ میں ہے
ماں بچے کی پناہ میں ہے
بچہ ماں کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے
ماں بچے کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے
اور دونوں آگے بڑھتے جاتے ہیں
سکول کی طرف ، بازار کی طرف
اور آگے کی سیر گاہوں کی طرف​
 

عرفان سرور

محفلین
زندگی ہے عدم کا رد عمل
ہر خوشی ہے الم کا رد عمل
ہر عمل ہے عمل کا رد عمل
ہر ستم ہے ستم کا رد عمل
میں کہ ہوں اپنے ہم کا رد عمل
اور کثرت ہے کم کا رد عمل
سو گیا ہے زیاں ہے کیا اے منیر
اک خوشی ایک غم کا رد عمل​
 

عرفان سرور

محفلین
قطعاتِ منیر
`
کاوش ناکام سے غم کو زیادہ کیا کریں
آج کی بے رونقی کا ہم مداوا کیا کریں
مے پئیں، لوگوں میں جائیں بے مزہ باتیں کریں
اور اس ماحول میں اس کے علاوہ کیا کریں
`
یہی واقعات ہیں کچھ یہاں
بڑے مختصر، بڑے دیر پا
کہ اثر سے جن کے بھری رہی
یہ بغیر معنی کی زندگی
`
تیرا ہونا ضروری تھا نہ ہونا بھی ضروری تھا
کسی بھی یاد کا ہستی میں ہونا بھی ضروری تھا
کہاں تک سوچتے رہتے اسے شام غریباں میں
تھکن اتنی سفر کی کہ سونا بھی ضروری تھا
 

عرفان سرور

محفلین
وہ سامنے بھی آئے تو دیکھا نہ کر اسے
گر وہ بچھڑ بھی جائے تو سوچا نہ کر اسے
اک بار جو گیا سو گیا بھول جا اسے
وہ گم شدہ خیال ہے پیدا نہ کر اسے
اب اس کی بات خالی ہے معنی سی اے منیر
کہنے دے جو وہ کہتا ہے روکا نہ کر اسے​
 

عرفان سرور

محفلین
قطعاتِ منیر
`
کسی جگہ جاتے ہیں اے دل اس جہاں کے رات دن
کس جہاں میں بس رہے ہیں اس جہاں کے رات دن
اب کہاں ہیں ہستیاں جو تھیں ہمارے درمیاں
کیا انہی کے ساتھ ہوں گے پھر یہاں کے رات دن
`
سکون دیتی ہے دل کو کبھی کبھی کی دعا
کبھی کبھی کی دعا میں ہے تازگی کی دعا
بہت دعائیں بھی دیتی ہے بے حسی دل کو
بہت دعائیں بھی ہوتی ہیں بے دلی کی دعا
`
انجام وصل یار جدائی کا وہی ہوا
دھڑکا لگا تھا جس کا بالآخر وہی ہوا
تنہا بہت تھا اس نگر کی طرف سفر
گو اس میں اس کے قرب کا احساس بھی ہوا
 

عرفان سرور

محفلین
ابیاتِ منیر
`
ذرا سی بات کو اتنا کیا بیاں میں نے
بنا دیا شب ہجراں کو داستاں میں نے
`
سدا آئینے میں خود پر نظر رکھتا ہے کیا تو
ہمارے حال کی بھی کچھ خبر رکھتا ہے کیا تو
`
بہت خیال فقط اس کی ایک جھلک میں ہے
کئی جمال ہیں پوشیدہ اس فلک میں ہیں
`
تیری تلاش میں یوں تو کہاں کہاں نہ گئے
جہاں پہ جانا تھا ہم کو مگر وہاں نہ گئے
`
یہ منظر ایک جیسا ہے جہاں تک دیکھتے جائے
دنیا ایک جیسی ہے جہاں تک سوچتے جائے
`
حجاب حسن میں یہ بے حجابی کس طرح آئی
چمن کے رنگ و بو میں یہ خرابی کس طرح آئی
`
کاسنی ریشم میں جسم یار کی یہ جگمگاہٹ دیکھ کر
خوش ہو اے دل بادلوں میں بجلیوں کی مسکراہٹ دیکھ کر
`
ہمیشہ ایک ہی عالم میں ہونا ہو نہیں سکتا
مسلسل کا کہیں آ کر بدلنا بھی ضرروی تھا
`
ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم
ڈر کر سمٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
`
سپنے بھیجے اور جگہ پر
آنکھیں رکھ لیں پاس
 
Top