منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
`
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی رہ جائے گا
سب باتیں ان کی سن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگیں ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو​
 

عرفان سرور

محفلین
کتنے بے کل نین ہیں
`
کتنے بے کل نین ہیں اس کے
اک پل بھی انھیں چین نہیں
رت بسنت کی تتلیاں جیسے
خواب ابد کی کھڑکیاں جیسے
سورج پر دو بدلیاں جیسے
امر سہاگ کے ان نگروں میں
کوئی برہہ کی رین نہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
خوبصورت زندگی کو ہم نے کیسے گزارا​
`​
آج کا دن کیسے گزرے گا کل گزرے گا کیسے​
کل جو پریشانی میں، بیتا وہ بھولے گا کیسے​
کتنے دن ہم اور جئیں گے کام ہے کتنے باقی​
کتنے دکھ ہم کاٹ چکے ہیں اور ہیں کتنے باقی​
خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات گنوا دی​
چھوٹے چھوٹے وہموں ہی میں ساری عمر بتا دی​
 

عرفان سرور

محفلین
شکر پڑیاں کی پہاڑی پر نظم
`
کچھ دیار غیر کے کچھ اپنے قصبوں کے شجر
کچھ شناسا اور کچھ انجانے شہروں کے شجر
دوریوں پر سلسلے کہسار پراسرار کے
اور اس دھندلے جہاں میں نیلے خوابوں کے شجر
اس مقام سبز سے نیچے نشیب شہر میں
ایک پاکیزہ سفیدی اور گلیوں کے شجر
میں ہوں اور سحر سفر ہے اور رستوں کی ہوا
سرفراز اقبال ہے اور اس کی باتوں کے شجر​
 

عرفان سرور

محفلین
فصل بہاراں میں شہر کی فکر
`
نیم، املی کے، سفیدے کے درختوں سے پرے
سبز حرفوں کی طرح کی تتلیاں، اڑتی ہوئیں پھولوں، گھروں کے درمیاں
چند خوش، رنگیں مسافر قافلوں اور راستوں اور منزلوں کے درمیاں
اس کتاب رنگ و نگہت کے علاقوں سے پرے
شہر کی خبروں سے کچھ افسردہ سا دل ہے میرا
فکر ہست و بود کی دیوانگی میں مبتلا ہے دل میرا
در سے باہر آ کے دیکھو، دور تک میدان میں
گرد اڑاتی پھر رہی ہے پھر ستمبر کی ہوا
اس کے آخر پر نگر ہے عصر کے ہیجان میں
اور سارے منظروں پر ایک بے پایاں خلا​
 

عرفان سرور

محفلین
سو جاؤ، آرام کرو
`
سو جاؤ، آرام کرو
تم جو اتنے دُکھی رہے ہو
سو جاؤ ،آرام کرو
اب خوشیوں کو
اپنے دل میں مہماں بن کر آنے دو
دل کو جلانے والے ظالم
اندیشوں کو جانے دو
وہ جو تمہا رے من میں بسی تھی
اس ناری نے
اب تو تم سے ملنے کا
اقرار کیا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
کہنے والی بات میں دیر کی وجہ
`
یہی اصل حقیقت ہے
کہ میری بے رخی چاہت
ہوئی مثل قفس مجھ کو
’’ مجھے تم سے محبت ہے ‘‘
بس اتنی بات کہنے میں
لگے بارہ برس مجھ کو​
 

عرفان سرور

محفلین
گانے والے پنچھی کی ہجرت
`
ہری شاخ کانپ رہی ہے
تھوڑی دیر پہلے
یہاں ایک عجیب رنگ کا پنچھی بیٹھا گا رہا تھا
کسی نے اسے ڈرا دیا اور وہ اڑ گیا
ہری شاخ اس کے اڑنے کے بوجھ سے کانپی تھی
کچھ دیر اسی طرح کانپتی رہے گی​
 

عرفان سرور

محفلین
شہروں کے مکان
`
ان مکانوں میں ہے کیا
بے روح لوگوں کے سوا
ثابت و سیّار ساعتیں
صبح بہار میں اے
جا کے ملوں گا میں کبھی
جس سے بچھڑ گیا تھا میں
عہد خزاں کی شام میں
شام فراق تھی مجھے
باب دیار یار سی
سیر سواد دل ربا
نافہ مشکبار سی
خواہش ارض منتظر
تازہ نئے نظام میں​
 

عرفان سرور

محفلین
صبح صادق کا پھیلاؤ
`
اذاں مسجدوں سے اٹھی جس گھڑی
ہواؤں کے دل اور گہرے ہوئے
کنارے فلک کے اور گلابی ہوئے
گلابی سے پھر وہ سنہرے ہوئے​
 

عرفان سرور

محفلین
ان لوگوں سے خوابوں میں ملنا ہی اچھا رہتا ہے
`
تھوڑی دیر کو ساتھ رہے کسی دھندلے سے نقشے پر
ہاتھ میں ہاتھ دیے گھومے کہیں دور دراز کے رستے پر
بے پردہ استھانوں پر دو اڑتے ہوئے گیتوں کی طرح
غصے میں کبھی لڑتے ہوئے کبھی لپٹے ہوئے پیڑوں کی طرح
اپنی اپنی راہ چلے پھر آخر شب کے میداں میں
اپنے اپنے گھر کو جاتے دو حیراں بچوں کی طرح​
 

عرفان سرور

محفلین
لاہور میں ایک صبح
`
شبنم چمک رہی ہے سورج کی روشنی میں
رنگت مہک رہی ہے پھولوں کی تازگی میں
تتلی نے پنکھ کھولے اک لال پنکھڑی پر
جیسے کتاب کو مخمل کی پالکی پر
اتری کسی جہاں سے منظر کی یک رخی پر​
 

عرفان سرور

محفلین
کراچی کی سیر کے دوران
`
نصف شب سے صبح دم کے راستے میں بحر ہے
صبح سے پھر نصف شب کے راستے میں بحر ہے
شام کے آغاز سے تشنگی سی دل میں تھی
ایک کم آباد قریے کی ہوا میں سیر کی
یہ میری خواہش سواد بحر میں پوری ہوئی​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک منظر
`
رات کلیاں سنگترے کے پیڑ سے ٹوٹ کر گریں
صاف، چٹیل گوشئہ گلشن کی ویراں راہ پر
دھوپ کے رنگ میں ایک نیا رنگ
پیلا پھول اک زرد گڑھا ہے
جس میں شہد کی مکھی
ڈھونڈ رہی ہے چیز کوئی
جو اس نے یہاں تھی رکھی
شہر کی بوند کہ زھر ہے کوئی
یا کوئی پھول کی پتی
پیلا پھول ہے روشن جیسے
دھوپ میں روشن بتی​
 

عرفان سرور

محفلین
سفر میں ایک منزل یہ بھی
`
اک روئے دل فریب و دلآرا ہے زندگی
اک اور زندگی کا اشارہ ہے زندگی
یا میری چشم مست کا دھوکا ہے زندگی
اے رب ذوالجلال بتا کیا ہے زندگی
قصر شہی کی قید میں جینا ہے زندگی
محرومیوں کی آگ میں جلنا ہے زندگی
بے سود انتظار میں مرنا ہے زندگی
اک شہر اجنبی کا تماشا ہے زندگی
ملتی ہے اس سفر میں کہیں منزلِ مراد
یا پھر اسی طرح سے بھٹکنا ہے زندگی​
 

عرفان سرور

محفلین
چھ رنگیں دروازے
`
یہ راز خاص مجھ پہ کبھی آشکار کر
مجھ کو بھی اپنے دل کبھی رازدار کر
چھ رنگیں دروازے
چھ رنگوں کے پھول کھلے ہیں
میرے گھر کے آگے
کسی نئے سکھ کے دروازے
خواب سے جیسے جاگے
ان کے پیچھے رنگ بہت ہیں
اور بہت اندازے
ان کے پیچھے شہر بہت ہیں
اور بہت دروازے​
 

عرفان سرور

محفلین
حمد
`
چپ گلی محلے میں
شام کی طرح آیا
بے شمار باغوں پر
ابر کی طرح چھایا
خواب میں کبھی دیکھا
سامنے کبھی آیا
طائروں کی دل سوزی
رہرووں کی جا نکاہی
رات کی مناجاتیں
رنجش سحر گاہی
رعد جب گرجتا ہے
کوہ جب لرزتے ہیں
بے کنار دشتوں پر
ابر جب برستے ہیں
ک طویل ہستی کے
بے شمار حصے ہیں
ساری یاد اس کی ہے
سارے اس کے قصے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
سپنا آگے جاتا کیسے
`
چھوٹا سا اِک گاؤں تھا جس میں
دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
جمالِ ابر و باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں ہو گی​
 

عرفان سرور

محفلین
کچھ باتیں ان کہی رھنے دو
`
کچھ باتیں ان سنی رھنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا
سب باتیں اُسکی سُن لیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بیکلی رھنے دو
اک رنگین اَن بنی دنیا پر
اک کھڑکی اَن کھُلی رھنے دو​
 
Top