منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
محبت اب نہیں ہو گی
.
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کے چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابرو باراں میں
دل نا آباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی​
 

عرفان سرور

محفلین
خموشی نے صدا ہونا نہیں ہے
در زنداں کو وا ہونا نہیں ہے
یہی سوچا مسلسل غم میں رہ کر
ہمیں غم سے رہا ہونا نہیں ہے
ملا ہوں یوں کسی گل رخ سے جیسے
کبھی اس سے جدا ہونا نہیں ہے
پرستش کر رہے ہیں ان بتوں کی
جنھیں اپنا خدا ہونا نہیں ہے
منیر اس خوب صورت زندگی کو
ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
پہلی بات ہی آخری تھی
.
پہلی بات ہی آخری تھی
اس سے آگے بڑھی نہیں
ڈری ہوئی کوئی بیل تھی جیسے
پورے گھر پہ چڑھی نہیں
ڈر ہی کیا تھا کہہ دینا میں
کھل کر بات جو دل میں تھی
آس پاس کوئی اور نہیں تھا
شام تھی نئی محبت کی
ایک جھجک سی تھی ساتھ رہی کیوں
قرب کی ساعت حیراں میں
حد سے آگے بڑھنے کی
پھیل کے اس تک جانے کی
اس کے گھر پر چڑھنے کی​
 

عرفان سرور

محفلین
یورش سخت جبر میں خواہش جام سی کبھی
عیش دوام سی کبھی ان ہوئے کام سی کبھی
صبح بہار میں کبھی صحن خزاں میں بھی کبھی
بجھتا ہوا شرر کبھی رنگوں کی شام سی کبھی
اور کسی جہان میں، حاضر جان سی کبھی
غیبوں کے سحر دور میں ساعت عام سی کبھی
برق بہار ہے یا ہے کوئی سکوت مسکوت غم فزا
رنگ خموش در کبھی رونق بام سی کبھی
مثل خیال خام دل جیسے کہیں رکی ہوئی
ثابت ماہ و سال میں سیر مدام سی کبھی
ہے یہ منیر شاعری میری فضائے زندگی
شامل حال سی کبھی ماضی کے دام سی کبھی​
 

عرفان سرور

محفلین
درخت بارش میں بھیگتے ہیں
.
کہ جیسے بھٹکے ہوئے مسافر
درخت بن کر کھڑے ہوئے ہیں
اک اور منظر میں جا بسیں گے
کچھ اس طرح سے رکے ہوئے ہیں
ذرا سی مہلت جو مل گئی ہے
خرابیاں ان میں آ گئی ہے
جو فاصلے ان کے بیچ میں ہیں
اداسیاں ان میں اگ رہی ہیں
کوئی فسانہ سا ہے یہ منظر
خراب و خوب جہان ثابت
فنا بقا سارے ساتھ مل کر
جو بکھرنے سے روکتے ہیں
درخت بارش میں بھیگتے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
غیر ثابت نظارے
.
جن وقتوں میں بیلیں درختوں پر چڑھتی ہیں
جن وقتوں میں روحیں نئے علم چڑھتی ہیں
سارے جہاں کے اوپر اک رنگ چمکتا ہے
جس کے اثر سے ظاہر ہوتا ہے روپ آنکھ کا
فرقت کے موڑ پر کچھ یار مل رہے ہیں
جسموں کی حد کے اندر ایک خواب کھل رہے ہیں
ہے یہی پہچان تیری اے جمال خوش ادا
روح کو بے چین کر دیتا ہے تیرا دیکھنا
کچھ گزشتہ اور آئندہ بہت ہی دور سے
یاد آتے ہیں فسردہ اور کچھ مسرور سے​
 

عرفان سرور

محفلین
آشوب شہر
.
اس خلائے شہر میں صورت نما ہوتا کوئی
اس نگر کے کاخ و کوہ میں بت کدہ ہوتا کوئی
منتشر افکار کی تجسیم تو ہوتی کہیں
سامنے اپنی نظر کے جسم سا ہوتا کوئی
یوں نہ مرکز کے لیے بے چین پھرتا میں کبھی
پیکر سنگیں سہی اپنا خدا ہوتا کوئی
وہ جو میں نے کھو دیا ہے اس جہاں کے شوق میں
اس جہان گم شدہ کا راستہ ہوتا کوئی
میں منیر آزردگی میں اپنی یکتائی سے ہوں
ایسے تنہا وقت میں ہمدم میرا ہوتا کوئی​
 

عرفان سرور

محفلین
تین عمریں گزرنے کے بعد بھی
.
یہ شجر جو شام خزاں میں ہیں
جو مکاں ہیں ان کے قریب کے
کسی عمر کی کوئی یاد ہیں
یہ نشان شہر حبیب کے
انھیں دیکھتا ہوں میں چپ کھڑا
جو گزر گئے ہیں انھیں سوچتا
یہ شجر جو شام خزاں میں ہیں
جو مکاں ہیں ان کے قریب کے
انہی بام در میں مقیم تھے
وہ مقیم شہر قدیم کے​
 

عرفان سرور

محفلین
رہ سیر شوق مدام پر
.
رہ شوق سیر مدام پر
کسی ایک خاص مقام پر
جو حیات ذات کا حال ہے
اسے کہنا صرف محال ہے
بڑی دور دور کے ہیں سلسلے
ہیں اسی کے ساتھ جڑے ہوے
کسی آگہی کے نشان سے
کسی زندگی کے گمان سے​
 

عرفان سرور

محفلین
بے خوابی کی ایک نظم
.
ایک جسم کو دوسرے جسم کے پنا
نیند نہیں آتی
وہ بے چین سا رہتا ہے
ساری بات ہے آنند کی
وہ آنند شراب کے گلاس میں ہے
یا کوئی دعا ہے بچپن کی
سونے سے پہلے کی
کوئی تاکید ہے ماں کی
یا کوئی آنکھ ہے جس میں التفات کی نظر تھی​
 

عرفان سرور

محفلین
سائے گھٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں
کوئی سخت وظیفہ ہے
جو ہم رٹتے جاتے ہیں
سورج کے آثار ہیں دیکھو
بادل چھٹتے جاتے ہیں
آس پاس کے سارے منظر
پیچھے بٹتے جاتے ہیں
دیکھ منیر بہار میں گلشن
رنگ سے اٹتے جاتے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
لفظوں اور نظموں کے اپنے موسم ہوتے ہیں
.
اک سپنے میں دو تین صدیاں
کچھ ٹوٹی کچھ جڑی ہوئیں
اپنے اپنے وہم میں پکڑی
اس پاس ہیں کھڑی ہوئیں
ایک سرے پر فوجیں ہی فوجیں
بستیاں آگ میں جلی ہوئیں
ایک طرف آباد گھروں پر
راتیں تاروں جڑی ہوئیں
ایک طرف روشن راہیں
غیب کے اندر گئی ہوئیں
اک رستے پر بیریوں پیچھے
ناریں کوٹھوں چڑھتی ہوئیں
اور اک صدی کے بچے لے کر
اور اک صدی میں کھڑی ہوئیں​
 

عرفان سرور

محفلین
اُس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
اک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل جو اس محفل کی شب میں اے منیر
اس حسیں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا​
 

عرفان سرور

محفلین
غم میں تھا رات کا جاگا ہوا تھا میں
صبح چمن میں چین سے سویا ہوا تھا میں
اک ہفت رنگ ہار گرا تھا میرے قریب
اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں
ترتیب مجھ کو پھر سے نئی عمر سے دیا
اک عمر کے طلسم میں بکھرا ہوا تھا میں
پہچان سا رہا تھا میں اطراف شام میں
ان راستوں سے پہلے بھی گزرا ہوا تھا میں
میں ڈر گیا تھا دستک غم خور یار سے
کچھ حادثات دہر سے سہما ہوا تھا میں
خود کھو گیا میں خواہش بے نام منیر
گھر سے کسی تلاش میں نکلا ہوا تھا میں​
 

عرفان سرور

محفلین
سہ حرفی
.
اتنی آساں زندگی کو اتنا مشکل کر لیا
جو اٹھا سکتے نہ تھے وہ غم بھی شامل کر لیا
بار ہستی ہی بہت تھا بستیوں کی زیست میں
نیستی کے خوف کو بھی خواہش دل کر لیا
ہم تھے تنہا بے روایت ساعتوں کی قید میں
جس سبب سے ہم نے خود کو اتنا مکمل کر لیا​
 

عرفان سرور

محفلین
اُس دن
.
میری بات کے جواب میں
اس نے بھی بات کی
اس کے بات کرنے کے انداز میں
دیر کے گرے ہوئے لوگوں
ڈرا دیے گئے شہروں کا عجز تھا
جو پختہ ہو گیا تھا
اس دن میں دیر تک اداس رہا
کیا حسن تھا کہ غرور حسن بھول گیا
اتنے برسوں میں اس پر کیا بیتی
میں نے اس سے نہیں پوچھا​
 

عرفان سرور

محفلین
اِس شامِ نوبہار میں
.
اس شام نوبہار میں آئے کہاں سے ہو
خوش خبریاں ہواؤں میں لائے کہاں سے ہو
پھیلی مہک سہاگ کی جام شراب سے
تازہ کھلے گلاب کی شراب خراب سے
خوشبو مکان دور کی لائے کہاں سے ہو
آئی صدا حبیب سی بزم جمال سے
پیدا ہوئی مثال سی خواب خیال سے
آئندہ کے جواب کے دائم سوال سے
اتنے بڑے خمار کو لائے کہاں سے ہو​
 

عرفان سرور

محفلین
تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو رفاقت نہیں ملی
ابتک میں اس گماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی صورت نہیں ملی
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
کہنا تھا جس کو اس سے کسی وقت میں مجھے
اس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیر
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی​
 

عرفان سرور

محفلین
سپنا آگے جاتا کیسے
.
چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دئیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں
ایک مقرر حد سے آگے
سوچ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے
سپنے کی بھی حد تھی آخر
سپنا آگے جاتا کیسے​
 

عرفان سرور

محفلین
گُم شدہ ننھا بچہ
.
تیرے بابا، میرے بابا، تم کہاں جا رہے ہو ؟
خدا کے لیے اتنا تیز نہ چلو
بات کرو، میرے بابا! اپنے ننھے بچے سے کوئی بات کرو
نہیں تو میں گم ہو جاؤں گا "
رات کی تاریک تھی، باپ وہاں نہیں تھا
بچہ شبنم سے تھا بھیگ گیا
دلدل گہری تھی اور بچہ رو دیا ہو کے مجبور
اور پھر دھند اڑ گئی بہت دور​
 
Top