من کہ مسمی چھوٹا غالبؔ

مقدس

لائبریرین
‫جو لکھا ہے اس کا مطلب ہوا میں آپ کو باجی (یعنی بہن) کہتا ہوں، آپ مجھے پاجی (شرارتی) کہیں‬

ہیں ناں
 

شمشاد

لائبریرین
باجی کا مطلب تو مجھے لُغت میں نہیں ملا لیکن پاجی کا معنی جو تم نے اخذ کیا ہے وہ لُغت میں شامل کروانا پڑے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھا یہاں چھوٹے میاں اپنا تعارف کرا رہے ہیں تفصیلی، لیکن پتہ چلا کہ یہ محض ٹریلر ہے۔
۔۔۔
میں تو اکثر کہتا ہوں ’من ترا پاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘۔یا ’وایسے ورسا‘۔ ’باجی‘ والی پیروڈی پہلی بار سنی۔
شمشاد ’پاجی‘ اردو ہندی لغات میں تو موجود ہے، فارسی عربی میں نہیں ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز بھائی لفظ پاجی موجود بھی ہے اور اس کے کئی مطالب بھی موجود ہیں، لیکن جو مطلب مقدس نے لیا ہے، وہ نہیں ہے، میں اُسی کو شاملِ لغت کرنا چاہ رہا تھا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
السلامُ علیکم !!!
مرزا نوشہ اسد اللہ بیگ غالبؔ کے نادر خطوط جو انہوں نے اپنی وفات تک اپنے شاگردوں ، دوستوں کو لکھے ، اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے خطوط کے مجموعے کتابی صورت میں شائع کیے، مگر کیا کہنے غالبؔ کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کے، زمین پر تو چرچا تھا ہی عالم بالا اور عالمِ ارواح میں بھی جناب قبلہ غالبؔ کےڈنکے بجتے تھے، یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور عالمِ ارواح میں رہتا تھا، مجھے جنابِ غالبؔ سے ایک گونہ عقیدت اور اس سے بڑھ کر محبت سی ہو گئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے 14 جنوری 1869 ء کو شاگرد ہونے کی درخواست بھیجی ، جو کہ صد شکر غالبؔ نےقبول فرما لی، اور مجھے اپنی شاگردی میں لے لیا، یوں خاکسار کو بھی غالبؔ سے روحانی خط و کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ لیکن اس وقت تک چونکہ (بقول غالبؔ)ان کی عالمِ خاکی سے رہائی کا وقت قریب تھا، اس لیے وہ جلد ہی عالمِ بالا تشریف لے آئے، اور مجھے قدموں میں رہنے کا موقع ملا۔
پھر 1984 ء کا سال شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ اب کے جنت سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی میری باری ہے، بس صاحبو!! حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، داغِ جدائی دل پر لیے، روتا ہوا عالمِ خاکی میں آن وارد ہوا،
اس سے آگے ملاحظہ ہوں:
عالم خاکی میں وارد ہونے کے بعد چلانے لگا: " مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے میں اندھا پیدا ہوا ہوں۔"
دائی نے ڈانٹ کر کہا:" ابے چُپ! بجلی نہیں ہے۔"
بڑی مایوسی سے فرمانے لگا:" لگتا ہے پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔" :):):)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
لیکن 1984ء میں تو بجلی بھی تھی اور لوڈ شیدنگ بھی نہیں ہوتی تھی۔

لوڈشیڈنگ تو نہ تھی محترم لیکن یہ اور بات ہے کہ حبیب جالب 1984 میں "ضیاء" کے ہوتے ہوئے بھی "ظلمت" کا رونا کچھ اس طرح رویا کرتے تھے ۔۔۔

ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے جہاں تک ہماری یاداشت ساتھ دیتی ہے ، پردہء تخیل پر معروف اداکار آغاطالش مرحوم کی تصویر ابھر رہی ہے ۔۔۔ وہ ضیاء دور میں لوڈشیڈنگ کی افادیت پر "اشتہاری درس" دیا کرتے تھے ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
وہ تو حبیب جالب لکھتے تھے ناں، ان کا غالب سے کیا واسطہ؟
ایک تو یہ کہ غالب اور جالب ہم قافیہ ہیں، دوسرا یہ کہ دونوں شاعر ہیں اور تیسرا یہ کہ "چھوٹا غالب" کا "غالب" سے جو واسطہ ہے اس معاملے کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اس سے آگے ملاحظہ ہوں:
عالم خاکی میں وارد ہونے کے بعد چلانے لگا: " مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے میں اندھا پیدا ہوا ہوں۔"
دائی نے ڈانٹ کر کہا:" ابے چُپ! بجلی نہیں ہے۔"
بڑی مایوسی سے فرمانے لگا:" لگتا ہے پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔" :):):)
دیوار کیا گری میرے مکاں کی:laugh:
 

ساجد

محفلین
دیوار کیا گری میرے مکاں کی:laugh:
جناب چھوٹاغالبؔ صاحب و شمشاد بھائی ،دیوار پکی تھی نہ کچی بلکہ سبطِ علی صبا (شاعر) نے دیوار کا نقشہ اصل میں یوں کھینچا ہے
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے
ہم عوام نے اس خستہ کو کچا بنا دیا ہے۔​
 
Top