چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
شکر ہے
مجھے پتا چل گیا اس کا مطلب اب
ہی ہی ہی
اس سے آگے ملاحظہ ہوں:السلامُ علیکم !!!
مرزا نوشہ اسد اللہ بیگ غالبؔ کے نادر خطوط جو انہوں نے اپنی وفات تک اپنے شاگردوں ، دوستوں کو لکھے ، اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے خطوط کے مجموعے کتابی صورت میں شائع کیے، مگر کیا کہنے غالبؔ کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کے، زمین پر تو چرچا تھا ہی عالم بالا اور عالمِ ارواح میں بھی جناب قبلہ غالبؔ کےڈنکے بجتے تھے، یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور عالمِ ارواح میں رہتا تھا، مجھے جنابِ غالبؔ سے ایک گونہ عقیدت اور اس سے بڑھ کر محبت سی ہو گئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے 14 جنوری 1869 ء کو شاگرد ہونے کی درخواست بھیجی ، جو کہ صد شکر غالبؔ نےقبول فرما لی، اور مجھے اپنی شاگردی میں لے لیا، یوں خاکسار کو بھی غالبؔ سے روحانی خط و کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ لیکن اس وقت تک چونکہ (بقول غالبؔ)ان کی عالمِ خاکی سے رہائی کا وقت قریب تھا، اس لیے وہ جلد ہی عالمِ بالا تشریف لے آئے، اور مجھے قدموں میں رہنے کا موقع ملا۔
پھر 1984 ء کا سال شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ اب کے جنت سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی میری باری ہے، بس صاحبو!! حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، داغِ جدائی دل پر لیے، روتا ہوا عالمِ خاکی میں آن وارد ہوا،
لیکن 1984ء میں تو بجلی بھی تھی اور لوڈ شیدنگ بھی نہیں ہوتی تھی۔
ایک تو یہ کہ غالب اور جالب ہم قافیہ ہیں، دوسرا یہ کہ دونوں شاعر ہیں اور تیسرا یہ کہ "چھوٹا غالب" کا "غالب" سے جو واسطہ ہے اس معاملے کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے ۔۔۔وہ تو حبیب جالب لکھتے تھے ناں، ان کا غالب سے کیا واسطہ؟
واہ کیا بات ہے ۔ اسے کہتے ہیں نہلے پہ دہلا ۔ بہت اعلیٰ"من ترا باجی بگویم ، تو مرا پاجی بگو"
دیوار کیا گری میرے مکاں کیاس سے آگے ملاحظہ ہوں:
عالم خاکی میں وارد ہونے کے بعد چلانے لگا: " مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے میں اندھا پیدا ہوا ہوں۔"
دائی نے ڈانٹ کر کہا:" ابے چُپ! بجلی نہیں ہے۔"
بڑی مایوسی سے فرمانے لگا:" لگتا ہے پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔"
جناب چھوٹاغالبؔ صاحب و شمشاد بھائی ،دیوار پکی تھی نہ کچی بلکہ سبطِ علی صبا (شاعر) نے دیوار کا نقشہ اصل میں یوں کھینچا ہےدیوار کیا گری میرے مکاں کی