برادر محترم، ابن الحجر العسقلانيیہ کتب رسول اللہ کی سنت سے منسوب کی گئی ہیں اس لئے امت کا ان کی اطاعت پر اجماع ہے۔
جیسے قرآن حکیم کی آیات کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں۔ وہی کام احادیث کےساتھ کیوں نہیں ہو سکتا؟ آپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ بعض احادیث قرآن پاک کی تعلیم سے متصادم ہیں اس لئے باقی تمام احادیث کی کوئی حیثیت نہیں؟اب آپ ایک ایسی کتاب کے سہارے رسول اکرم کو الزام دیں گے کہ حضور نے ہاتھ کاٹ کر الگ کردیا تھا؟ جبکہ قرآن حکیم واضح طور پر قطع ید کی مثال پیش کررہا ہے۔ دونوں حوالوں کی گرامر دیکھ لیجئے۔ پھر نا تو جناب ابن الحجر، نا ہی بخاری صاحب اور نا ہی آپ موجود تھے کہ گواہ ہوں کہ ہاتھ واقعی کاٹ کر الگ کردیا گیا تھا؟
تو پھر اللہ تعالی کی واضح ایکسپلینیشن کیوں نہیں مان لیتے کہ ہات پر کاٹ لگانا ہے جیسا کہ یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر خواتین نے کیا۔
جیسے قرآن حکیم کی آیات کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں۔ وہی کام احادیث کےساتھ کیوں نہیں ہو سکتا؟ آپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ بعض احادیث قرآن پاک کی تعلیم سے متصادم ہیں اس لئے باقی تمام احادیث کی کوئی حیثیت نہیں؟
جزاک اللہ۔ میرا نکتہ نظر بھی یہی ہے۔روایات میں احادیث نبوی درست ہیں جب تک وہ قرآن حکیم کے واضح احکامات کے مطابق ہیں۔
بہت شکریہ۔ جب ایک بہترین کتاب اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم موجود ہے تو اس کے متفقہ ریفرنس پر تدبر فرمائیے۔ قرآن حکیم کو ایسی کتاب کی مدد سے ریجیکٹ نا کیجئے جو اللہ تعالی کی ہتک، رسول اکرم کی ہتک ، موسی علیہ السلام کی ہتک سے بھر پور ہے۔ یقینی طور پر مسلم علماء نے بہترین کوششیں کیں کہ روایت و احادیث نبوی کو ریکارڈ کیا جائے۔ لیکن ہتک الہی، ہتک نبوی، ہتک انبیاء اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کتب میں بہت کچھ قابل بحث ہے۔ سب بھائیوں اور بہنوں سے عرض ہے کہ بہتر یہ ہے کہ قرآن حکیم کے متفقہ احکامات پر تدبر فرمائیے۔ خاص طور پر ان معاملات میں جو حقوق العباد میں آتے ہیں۔جزاک اللہ۔ میرا نکتہ نظر بھی یہی ہے۔
غامدی ی ی ی ی ی لولمیں ایسا ہی سمجھتا ہوں، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ کتب روایات کے بارے میں ایک یو ٹیوب ویڈیو لنک کررہا ہوں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم کیا کہتا ہے، تمام روایات کو اسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے گا۔ قرآن حکیم کی تعلیم سے احادیث رسول اکرم کہیں بھی متصادم نہیں ہیں اس ویڈیو کے 11 منت 30 سیکنڈ پر دیکھئے اور اگلے دو منٹ تک دیکھئے۔ اس بارے میں جو رائے ان صاحب کی ہے وہی رائے غامدی صاحب کی ہے اور وہی رائے میری ہے۔ کہ محدب عد سہ قرآن حکیم ہے۔ روایات میں احادیث نبوی درست ہیں جب تک وہ قرآن حکیم کے واضح احکامات کے مطابق ہیں۔
متفق۔ میرا مشاہدہ بھی یہی ہے۔ دین کو تمثیلات اور تاویلوں سے سمجھنا ممکن نہیں۔کیونکہ بحث سے حاصل وصول کچھ نہیں ہونا اور تاویلوں کی بیماری منکرین حدیث اور مرزائی قوم کو برابر ہے ۔ وہ تمثیلوں کے ذریعے دین کی تشریح کرتے ہیں اور یہ تاویلوں کے ذریعے انکار حدیث کرتے ہیں
قرآن کریم فرقان حمید کلام اللہ ہے ۔ اور اس کلام اللہ کی عملی تفسیر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ قرآن کے قرب کا دعویٰ کرنے والے انکار حدیث پر کس قدر شیر ہوتے ہیں اس بیانیئے سے دیکھ لیں ۔ قرآن و حکمت کی تعریف میں یہ اپنی چٹنی ڈال کر بڑی سہولت سے احادیث کا انکار کر دیتے ہیں ۔ جبکہ احادیث کا علم رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں توازن اور احادیث کی تطبیق کس اصول کے تحت ہوتی ہے۔ لیکن انہیں تو عامۃ الناس کو اپنی تاویلوں سے اور علم حدیث اور سنت کی حیثیت سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔ لہذا عوام الناس ہوشیار رہے ۔ یہ قرآن فہمی کے نام پر کھلم کھلا انکار حدیث کی دعوت ہے۔ جب ایک بہترین کتاب اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم موجود ہے تو اس کے متفقہ ریفرنس پر تدبر فرمائیے۔ قرآن حکیم کو ایسی کتاب کی مدد سے ریجیکٹ نا کیجئے جو اللہ تعالی کی ہتک، رسول اکرم کی ہتک ، موسی علیہ السلام کی ہتک سے بھر پور ہے۔ یقینی طور پر مسلم علماء نے بہترین کوششیں کیں کہ روایت و احادیث نبوی کو ریکارڈ کیا جائے۔ لیکن ہتک الہی، ہتک نبوی، ہتک انبیاء اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کتب میں بہت کچھ قابل بحث ہے۔
بھائی سیدھی سی بات ہے۔ جو احادیث قرآنی تعلیمات سے متصادم ہیں وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے انکار حدیث نہیں کہہ سکتے۔یہ قرآن فہمی کے نام پر کھلم کھلا انکار حدیث کی دعوت ہے
صحیح احادیث کا قرآنی تعلیمات سے واضح متصادم ہونا انہیں بطور حجت شرعی اس مخصوص امر میں قابل قبول نہیں رہنے دیتا یہ ایک آفاقی اور تسلیم شدہ امر ہے اسے علماء درایت کے نام سے بیان کرتے ہیں لیکن قرآنی تعلیمات کی تشریح کون کرے گا۔اور اگر کوئی حدیث کسی قرآنی تعلیم کی وضاحت میں سامنے آتی ہے، قرآن سے براہ راست متصادم بھی نہیں ہے تو اسکا تصادم خود پیدا کر کے اس سے انکار کر دیا جائے گا کیا۔۔؟؟ یہ امر پچھلی بحث میں واضح ہو چکا ہے جہاں عورتوں کے اپنے ہاتھ کاٹنے کے عمل کو حدود اللہ کے قیام پر حجت بیان کر کے صریح انکار احادیث کیا گیا ہے اور بہانہ یہ لگایا گیا ہے کہ بتاؤ کتنا کاٹا، کہاں سے کاٹا ، الگ گرا کہ نہیں ، کٹ لگانا ہے وغیرہ وغیرہبھائی سیدھی سی بات ہے۔ جو احادیث قرآنی تعلیمات سے متصادم ہیں وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے انکار حدیث نہیں کہہ سکتے۔
آپ کو زبردست کی ریٹنگ شکریہ کے ساتھ۔ایک دفعہ پھر گزارش ہے کہ موضوع پر رہا جائے۔
یہ اسلامی فقہ پر ڈسکشن کی لڑی نہیں ہے۔
جزاکم اللہ خیر
اس سے مراد اسلامی سیاسی جماعتیں ہیں۔ جو اسلام کی بجائے اسلام آباد کی سیاست کرتی ہیں۔اس کا فیصلہ کس طرح ہوگا کہ "موجودہ حکومت کے ایسے اقدامات جنہیں اسلام پسند حلقے اسلام دشمنی سے تعبیر کر رہے ہیں" کونٓ سے اقدامات اسلامی ہیں اور کون سے اسلام دشمنی ؟؟؟؟
بہت ہی آسان، وہی اللہ ، جس نے قرآن حکیم نازل کیا وہی مثالوں سے ، سابقہ انبیاء کے قصوں سے ، اسی قرآں میں مکمل تفسیر بھی پیش کرتا ہے۔ لہذا ہم کسی بھی اصطلاح یا لفظ کے معانی کے لئے ٓاسی قرآن سے استفادہ کریں گے۔ ایک دوسرے دھاگے میں لکھ رہا ہوں کہ قرآں کے عربی متن کی کوالٹی کیا ہے؟ جب کہ کتب روایات میں توہین رسالت مآب، توہین الہی اور توہین اسلام کا مواد بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔یکن قرآنی تعلیمات کی تشریح کون کرے گا
اس وزیر اعظم کا واقعی دماغ خراب ہے
اوہو ایک تو یہ بڑا مسئلہ ہے۔ عمران خان اسلام پسندوں کو خوش کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھائیں تو لبرل ناراض۔ لبرلز کو خوش کرنے کیلئے اقدام کریں تو اسلام پسند ناراض۔ بھارت سے امن و سلامتی کی بات کریں تو عسکری انتہا پسند غصے میں۔ عسکریوں کو خوش کرنے کیلئے بھارت سے جنگ کا کہیں تو عالمی برادری آپے سے باہر۔اس وزیر اعظم کا واقعی دماغ خراب ہے
متفقلالی پاپ دیتے رہیں۔