طلبا کی عمر کا یہ حصہ ویسے بھی پروپگنڈہ اسٹیج ہوتا ہے اور ان میں ابھی تنقیدی اور موضوع کو ہر ممکن زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
یعنی مسلمانوں کا اپنے بچوں کو اسلامیات پڑھانا پروپگنڈہ کے تحت آئے گا؟
البتہ ہائر ایجوکیشن، کالج یونیورسٹی لیول میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھنا طلبا کے اذہان کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ اس وقت طلبا عمر کے ایسے حصے میں ہوتے ہیں کہ ان کو تنقید، تدبر، مختلف زاویے سے ہر موضوع کو سمجھنا لازمی ہوتا ہے۔ جس میں اسلامیات و دیگر مذاہب کی تعلیم شامل ہے۔
یعنی اُنہیں ( آپ کے خیال مین جبری طور پر) والدین کے دین پر رکھنا تعلیم کے نام پر کھلواڑ کرنا ہے۔
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے بھائی کہ اسلام سب سے زیادہ غور و تدبر پر زور دیتا ہے۔ اور جبری طور پر کسی کو دین پر رکھنے یا دین تبدیل کرنے کو نا پسند کرتا ہے۔ اسلام تحقیق کو پسند کرتا ہے روکتا نہیں ہے۔
پھر اگر یہ جبری تعلیم ہی ہے تو آپ کسی کے ساتھ کب تک زبردستی کر سکتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن وہ خود مختار ہو جاتا ہے اور اپنی مرضی کا دین اختیار کرتا ہے ۔
تو کیا جو لوگ اسلام پر ساری زندگی گزار دیتےہیں وہ جبری مسلمان ہوتے ہیں؟
جب ایک دانستہ پالیسی کے تحت اونچے لیول پر بھی اساتذہ مسلمان رکھے جاتے ہیں تو مدرس میں سے غیرجانبداری کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے کہ تعلیم انٹرسٹ ریٹ اور نظریہ ارتقا کی دینی ہے۔ اور کلاس میں ڈھونڈورا اپنے مذہب کا پیٹا جا رہا ہے۔ والدین اتنا پیسا خرچ کر کے اس لئے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں کہ تعلیم کی آڑ میں اساتذہ کے دینی و مذہبی عقائد ان کو بتائے جائیں؟
والدین اتنا پیسہ اس لئے بھی نہیں خرچ کرتے کہ اُن کے بچوں کو قران کے صریح اصولوں کے خلاف کر دیا جائے۔
ایسی تعلیم سے اللہ سب مسلمانوں کے بچوں کو بچائے۔