جاسم محمد
محفلین
مارکیٹ میں کیا نئے فرقے آ گئے ہیں؟ 1974 میں جب قادیانیوں کو کافر ڈکلیئر کیا گیا تھا تو اس وقت کے اخباروں نے 72 فرقے رپورٹ کئے تھے۔ایک سو آٹھ فرقوں میں کیا کامن ہے؟؟
مارکیٹ میں کیا نئے فرقے آ گئے ہیں؟ 1974 میں جب قادیانیوں کو کافر ڈکلیئر کیا گیا تھا تو اس وقت کے اخباروں نے 72 فرقے رپورٹ کئے تھے۔ایک سو آٹھ فرقوں میں کیا کامن ہے؟؟
بھائی شریعت سے مراد وہ احکامات الٰہیہ جو معاشرت و سماج سے متعلق ہمیں دین اسلام نے سکھائے ہیں۔ اور جن کی بنیاد پر قوانین اسلامی یا شرعی قوانین دنیا بھر میں بنائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں اختلاف، تنقید و تبدیلی کو مذہبی سیاست کرنا کہتے ہیں۔ پاکستان میں اول دن سے اسی قسم کی سیاست ہو تی رہی ہے۔ حقیقی عوامی ایشوز پر سیاست کم کم ہی ہوئی ہے۔ جس کے سنگین نتائج آج قوم بھگت رہی ہے۔شریعت اور شرارت میں کیا فرق ہے؟ پھر کون سی والی شریعت؟ میری والی یا آپ کی والی؟ یا شعہ والی یا سنی والیِ ؟ کسی شریعت کا تعلق فرمان الہی سے دور دور تک نہیں ہے۔ قران حکیم کے علاوہ ہر قسم کی شریعت شرارت ہے۔
شرارت تو یہ ہے کہ ایک ہستی کو نبی مانا جاتا ہے ۔ اس پر اترے ہوئے قرآن کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ لیکن اسی ہستی کی احادیث کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ جی ہم تو قرآن کو مانتے ہیں ۔ احادیث اور سنت کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یقینا یہ ہی شرارت ہے ۔شریعت اور شرارت میں کیا فرق ہے؟ پھر کون سی والی شریعت؟ میری والی یا آپ کی والی؟ یا شعہ والی یا سنی والیِ ؟ کسی شریعت کا تعلق فرمان الہی سے دور دور تک نہیں ہے۔ قران حکیم کے علاوہ ہر قسم کی شریعت شرارت ہے۔
کس کو کہہ رہے ہیں وہ تو دین ہی اسے کہتے ہیں جس میں حدیث کا انکار ہو ۔ رونا پیٹنا لگا رہتا ہے ان کا ۔ موضوع سے باہر کی باتوں کو اگنور کردیا کریں ۔ شرارتی لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ان کا کام ہی شہد لگا کر تماشا دیکھنا ہوتا ہے ۔ آپ موضوع پر رہیں ۔ اس دھاگے میں تحریک انصاف کے ان فیصلوں کی بات ہو رہی ہے جنہیں اسلام پسند عناصر اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی دھاگے میں کافی نقاط گنوا دیئے گئے ہیں اگر اس موضوع پر کچھ وضاحت ہے تو بہتر نہیں ہے تو کوئی جبر نہیں ہے ۔ رائے رکھنے میں ہر شخص آزاد ہے نہ تو کوئی کسی کو مسلمان کرنے کی کوشش میں ہے نہ کوئی کسی کو مروجہ نظامی جمہوریت پر ایمان لانے پر مجبور کر رہا ہے ۔ ایک مکالمہ ہے جو دو رائے رکھنے والوں میں ہو رہا ہے ۔ اس میں کوئی نہ تو جیت رہا ہے نہ ہار رہا ہے ۔ البتہ اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں جس میں دونوں آزاد ہیںبھائی شریعت سے مراد وہ احکامات الٰہیہ جو معاشرت و سماج سے متعلق ہمیں دین اسلام نے سکھائے ہیں۔ اور جن کی بنیاد پر قوانین اسلامی یا شرعی قوانین دنیا بھر میں بنائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں اختلاف، تنقید و تبدیلی کو مذہبی سیاست کرنا کہتے ہیں۔ پاکستان میں اول دن سے اسی قسم کی سیاست ہو تی رہی ہے۔ حقیقی عوامی ایشوز پر سیاست کم کم ہی ہوئی ہے۔ جس کے سنگین نتائج آج قوم بھگت رہی ہے۔
جیسے ہاروت ماروت جادو سکھاتے تھے۔مزید یہ بھی بتائیں کہ ریاست مدینہ میں اقلیتی استاد یعنی اب عیسائی جو تین خداؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ قل ھوا اللہ احد پڑھائیں گے؟؟ قادیانی اب ختم نبوت ﷺ کی تشریح کریں گے؟؟ کس حیثیت سے اسلامیات میں اقلیتی کوٹہ مختص کیا گیا ؟ براہ مہربانی وضاحت کریں
بے کار ہے ان صاحب سے بات کرنا۔!کس کو کہہ رہے ہیں وہ تو دین ہی اسے کہتے ہیں جس میں حدیث کا انکار ہو ۔ رونا پیٹنا لگا رہتا ہے ان کا ۔
جیسے ہاروت ماروت جادو سکھاتے تھے۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کسی چیز کو پڑھانے کے لیے اس کا علم ضروری ہے اس پر ایمان نہیں ۔ ہمارے ایک معاشیات کے استاد ہیں پچھلے سال وہ ہماری کلاس کو پڑھاتے تھے، جتنے دن تک تھیوریز آف انٹرسٹ کا ٹاپک چلا اتنے دن تک وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے اعلان کرتے تھے کی ربا اسلام میں حرام ہے اور میں اسے غلط سمجھتا ہوں لیکن چونکہ نصاب میں ہے اس لیے پڑھانا میرا فرض ہے۔ اسی طرح کتنے ہی مسلم اساتذہ تخلیق پہ ایمان رکھتے ہوئے ارتقاء کا نظریہ پڑھاتے ہیں۔یعنی وہ کہیں گے کہ یہ غلط ہے مت سیکھو۔ اور اگر تم یہ سیکھو گے تو پھر تمہاری اپنی ذمہ داری۔لیکن تمہارا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کسی چیز کو پڑھانے کے لیے اس کا علم ضروری ہے اس پر ایمان نہیں ۔ ہمارے ایک معاشیات کے استاد ہیں پچھلے سال وہ ہماری کلاس کو پڑھاتے تھے، جتنے دن تک تھیوریز آف انٹرسٹ کا ٹاپک چلا اتنے دن تک وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے اعلان کرتے تھے کی ربا اسلام میں حرام ہے اور میں اسے غلط سمجھتا ہوں لیکن چونکہ نصاب میں ہے اس لیے پڑھانا میرا فرض ہے۔ اسی طرح کتنے ہی مسلم اساتذہ تخلیق پہ ایمان رکھتے ہوئے ارتقاء کا نظریہ پڑھاتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کسی چیز کو پڑھانے کے لیے اس کا علم ضروری ہے اس پر ایمان نہیں ۔ ہمارے ایک معاشیات کے استاد ہیں پچھلے سال وہ ہماری کلاس کو پڑھاتے تھے، جتنے دن تک تھیوریز آف انٹرسٹ کا ٹاپک چلا اتنے دن تک وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے اعلان کرتے تھے کی ربا اسلام میں حرام ہے اور میں اسے غلط سمجھتا ہوں لیکن چونکہ نصاب میں ہے اس لیے پڑھانا میرا فرض ہے۔ اسی طرح کتنے ہی مسلم اساتذہ تخلیق پہ ایمان رکھتے ہوئے ارتقاء کا نظریہ پڑھاتے ہیں۔
سمجھ سے بالا تر ہے کہ اساتذہ اسکول میں بچوں کو درسی تعلیم دینے جاتے ہیں یا اپنے مذہب کی تبلیغ؟ بھئی اگر کا مذہب سودی نظام، نظریہ ارتعا کے خلاف ہے تو بچوں کو اس سے کیا لینا دینا؟ بچے وہی سیکھیں گے جو درس حکومت وقت نے سلیبس میں درج کر رکھا ہے۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ سلیبس کے مطابق بچوں کو تعلیم دے۔ نہ کہ بھری کلاس میں کھڑے ہو کر ڈرامہ شروع کردے کہ میں تو اسے نہیں مانتا لیکن مجبوراً پڑھا رہا ہوں۔ یہ تو اپنی ہی جاب پر کلہاڑا مارنے والی بات ہوئی۔اب اگر سائنس وغیرہ پڑھاتے ہوئے ٹیچر کہے کہ میرا نظریہ ارتقاء پر ایمان نہیں ہے تو اس سے صرف ایک ہی نظریے کی نفی ہوگی ۔
لیکن اگر کوئی شخص اسلامیات پڑھاتے ہوئے یہ کہے کہ جناب یہ خدا اور کتابیں وغیرہ سب ڈھکوسلے ہیں (نعوذ باللہ) تو پھر طلبہ کیا سوچیں گے اور اُن کا اسلامیات اور دینیات میں کہاں دل لگے گا اور اسلامی تعلیمات اُن کے دل میں کیسے گھر کریں گی۔
ضیا دور میں تو الٹا چکر چلا تھا۔ اس کے سنگین نتائج بھی قوم نے بھگت لیے۔ اگر ملک کے ہر ادارے کو “اسلامی” بنا دینے سے وہ ٹھیک ہوجاتا تو ضیا دور کے بعد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔افسوس کہ پاکستان میں اکثر حکومت میں آنے والوں کا رجحان لادینیت کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ ان میں سے اکثر اللہ اور رسول کے واسطے دے کر ووٹ مانگتے ہیں۔
سمجھ سے بالا تر ہے کہ اساتذہ اسکول میں بچوں کو درسی تعلیم دینے جاتے ہیں یا اپنے مذہب کی تبلیغ؟ بھئی اگر کا مذہب سودی نظام، نظریہ ارتعا کے خلاف ہے تو بچوں کو اس سے کیا لینا دینا؟ بچے وہی سیکھیں گے جو درس حکومت وقت نے سلیبس میں درج کر رکھا ہے۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ سلیبس کے مطابق بچوں کو تعلیم دے۔ نہ کہ بھری کلاس میں کھڑے ہو کر ڈرامہ شروع کردے کہ میں تو اسے نہیں مانتا لیکن مجبوراً پڑھا رہا ہوں۔ یہ تو اپنی ہی جاب پر کلہاڑا مارنے والی بات ہوئی۔
ضیا دور میں تو الٹا چکر چلا تھا۔ اس کے سنگین نتائج بھی قوم نے بھگت لیے۔ اگر ملک کے ہر ادارے کو “اسلامی” بنا دینے سے وہ ٹھیک ہوجاتا تو ضیا دور کے بعد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔
جیسے ہاروت ماروت جادو سکھاتے تھے۔
تیسرا آپ اپنا موقف بتائیں تو پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے کہ آپ کیا رائے رکھتے ہیں کہ اقلیت اسلامیات پڑھانے کی آپ حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔
میں اوپر ایک پوسٹ میں واضح کر چکا ہوں کہ اسکول لیول تک اسلامیات کی تعلیم مسلمان اساتذہ تک مقید رکھنا کوئی قابل اعتراض پاکیسی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیم ایک مسلم استاد یا استانی زیادہ بہتر انداز میں طلبا تک پہنچا سکتی ہے۔ طلبا کی عمر کا یہ حصہ ویسے بھی پروپگنڈہ اسٹیج ہوتا ہے اور ان میں ابھی تنقیدی اور موضوع کو ہر ممکن زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔میری سمجھ نہیں آتا کہ آپ اور باقی آپ کے ہم خیال کیوں غیر مسلموں سے اسلامیات پڑھوانے پر مصر ہیں ۔ کیا مسلمان بہترے نہیں ہیں اس میدان میں۔ اگر اقلیتوں کے کوٹے کا ہی مسئلہ ہے تو اُسے اسلامیات سے گھٹا کر دیگر سبجیکٹس میں بڑھا دیا جائے۔
میری پوسٹ میں مذکور دو بل جو پی ٹی آئی نے مدارس مساجد اور مدارس میں پڑھنے والی بچیوں کے خلاف پیش کئے ان کے بارے میں بھی وضاحت کریں۔سارے علما نہیں۔ صرف مولانا فضل الرحمان اور مولانا سراج الحق جواسلام کے نام پر اپنے مفاد کی سیاست کرتے ہیں۔
آپ نے تحریک انصاف کی گستاخ رسول کی سزائے موت ختم کرنے کی حمایت کی وضاحت نہیں کی۔ کیوں کس کے کہنے پر یہ حمایت کی گئی؟میں اوپر ایک پوسٹ میں واضح کر چکا ہوں کہ اسکول لیول تک اسلامیات کی تعلیم مسلمان اساتذہ تک مقید رکھنا کوئی قابل اعتراض پاکیسی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیم ایک مسلم استاد یا استانی زیادہ بہتر انداز میں طلبا تک پہنچا سکتی ہے۔ طلبا کی عمر کا یہ حصہ ویسے بھی پروپگنڈہ اسٹیج ہوتا ہے اور ان میں ابھی تنقیدی اور موضوع کو ہر ممکن زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
البتہ ہائر ایجوکیشن، کالج یونیورسٹی لیول میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھنا طلبا کے اذہان کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ اس وقت طلبا عمر کے ایسے حصے میں ہوتے ہیں کہ ان کو تنقید، تدبر، مختلف زاویے سے ہر موضوع کو سمجھنا لازمی ہوتا ہے۔ جس میں اسلامیات و دیگر مذاہب کی تعلیم شامل ہے۔
جب ایک دانستہ پالیسی کے تحت اونچے لیول پر بھی اساتذہ مسلمان رکھے جاتے ہیں تو مدرس میں سے غیرجانبداری کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے کہ تعلیم انٹرسٹ ریٹ اور نظریہ ارتقا کی دینی ہے۔ اور کلاس میں ڈھونڈورا اپنے مذہب کا پیٹا جا رہا ہے۔ والدین اتنا پیسا خرچ کر کے اس لئے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں کہ تعلیم کی آڑ میں اساتذہ کے دینی و مذہبی عقائد ان کو بتائے جائیں؟ اور یوں سرکاری سلیبس سے ان کو بددل کیا جائے۔ یہ معاملہ صرف اسلامیات تک محدود نہیں ہے۔ معاشیات میں سودی تھیوری اور سائنس میں ڈارون تھیوری پڑھاتے وقت مسلمان اساتذہ کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ اور غیر جانبداری کا عنصر مکمل غائب ہو جاتا ہے۔ جو کہ درست تدریسی عمل کیلئے نہایت ضروری ہے۔
سائنس میں ڈارون تھیوری ۔
ضیا نے تو اپنے اقتدار کا آغاز ہی اسلامی ریفرنڈم سے کیا تھا۔ ان کی ہلاکت تک ایوان میں قوانین سے لے کر افواج سے لیکر بینکس تک سب کے سب “اسلامی” ہو چکے تھے۔ ملک میں شرعی سزائیں دی جا رہی تھی۔ بدنام زمانہ حدود آرڈیننس اسی دور میں آیا۔ فوج کے جہادی و طالبان بھی اسی دور میں بنائے گئے۔ جبکہ نیشنل بینکس اس وقت بغیر یا بہت کم سود کے قرضے دیتے تھے۔ ان تمام اسلامی پالیسیز کے باوجود ملک کا بیڑا غرق ہوا۔ضیاء ایک آمر تھا اُس نے شرعی نظام حکومت نافذ کرنے کا تو کبھی دعویٰ نہیں کیا۔