وہ تو خیر مذاق میں لکھا تھا کہ چھ سات دیوان پیے بغیر نہیں لکھے جاتے۔۔۔ ورنہ فی الحقیقت کئی ایسے شعرا کو جانتا ہوںجو کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور انہوں نے کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور ایسوں کو بھی جانتا ہوں جو شعر کہنا تو کیا پڑھنا بھی نہیں جانتے اور میخانے پی جاتے ہیں۔
شعر میں مے اور شراب کے الفاظ عموماً استعارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور آپ کوکئی نعتیہ و حمدیہ اشعار میں بھی یہ استعارہ با آسانی مل جائے گا۔
ایسے ہی ایک شاعر کا واقعہ سنا تھا جو اپنے اشعار میں مے، شراب، مینا، جام، سبو، پیالہ، صراحی، پینا پلانا، وغیرہ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کیا کرتے تھے۔ کسی مشاعرے میں میزبانوں نے ان کے آگے بھی یہی سوچ کر جام رکھ دیاکہ اتنے "شرابی اشعار" لکھتے ہیں تو یقیناً پیتے ہی ہوں گے۔ ان شاعر صاحب نے جام واپس کیا اور ایک فی البدیہہ شعر سنا دیا کہ
میں شرابی نہیں ہوں شاعر ہوں
اصطلاحاً شراب پیتا ہوں