بارہ مہینوں کی چٹپٹی نظم
کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی
جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی
پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروری ميں
جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں
کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر
اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا
دنيا بدل رہي تھی موسم بدل رہا تھا
ليکن مئی جو آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ
دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں
تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں
ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی
اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر
بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر
تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا
دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے
ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا، يہ سال دوسرا ہے
شاعر نامعلوم