نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے
سنا ہے اب کے بہار موسم خزاں کی باتوں میں آ گیا ہے
یہ کیا غضب ہے کہ جس نے عہد بہار چاہا نہ عشق دیکھا
نظام ہجر و وصال سارا اسی کے ہاتھوں میں آ گیا ہے
بہار تو اک مغالطہ ہے خزاں کی روپوش حیرتوں کا
جو اس طلسم جہاں سے گزرا وہ داستانوں میں آ گیا ہے
وہ جس کے دامن میں شاعری تھی بہار لہجے کی لٹ لٹا کر
اے رب لفظ و بیاں وہ شاعر تری پناہوں میں آ گیا ہے
بہار کیا اب خزاں بھی دیکھے غرور حسن سخنوری میں
جو آسمانوں میں جا بسا تھا زمیں کے قدموں میں آ گیا ہے
بہار رت میں بچھڑ کے تجھ سے جو دل پہ گزری وہ دل ہی جانے
ہمیں تو اتنا پتا ہے یارو لہو تک آنکھوں میں آ گیا ہے
منور جمیل