نومبر کے پہلے ہفتے پر ایک نظم
خنک ہوا کا برہنہ ہاتھوں سے زرد ماتھے سے
پہلا پہلا مکالمہ ہے
ابھی یہ دن رات سرد مہری کے اتنے خوگر نہیں ہوئے ہیں
تو پھر یہ بے وزن صبح کیوں بوجھ بن رہی ہے
سواد آغاز خشک سالی میں کیوں ورق بھیگنے لگا ہے
دھواں دھواں شام کے الاؤ میں کوئی جنگل جلے
کہ روٹھی ہوئی تمنا
خزاں کا پانی کوئی اشارہ نہیں سمجھتا
یہ نہر اب تک پرانے پہرے میں چل رہی ہے
عجیب تاثیر آخر شب کے آسماں کی
ہوا چلے یا زمین گھومے
فصیل کہرے کی کوئی سورج نہیں گراتا
زمین سے ملبہ گئے دنوں کا کوئی ستارہ نہیں اٹھاتا
طویل راتیں کہ مختصر دن
کثیر وعدے قلیل عمریں
عبث حساب و شمار اس کا جو گوشت اس سال ناخنوں سے جدا ہوا ہے
سکڑتے لمحے کی ایک سرحد سے تا بہ حد دگر وہی کار ستر پوشی
وہ موئے تن ہو کہ تار پنبہ کہ بال و پر عکس آئینہ کے
ہر ایک کترن پہ زردیاں بانٹنے درختوں کے فیصلے ہیں
اداس پتا
خزاں کا پانی نئے معانی نہیں سمجھتا
سو نہر اب تک پرانے پہرے میں چل رہی ہے
اختر حسین جعفری