۴ سال مزید پچھتا لیں۔ یہ حکومت کہیں نہیں جا رہی
الیکشن دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی پہلے دن ہی قائم کر دی گئی تھی۔ تاحال دھاندلی کا شور مچانے والی اپوزیشن کی اس میں شمولیت صفر رہی ہے۔چار حلقے کھلوا کر دیکھ لیں۔
کمیٹی؟ وہ بھی پارلیمانی یعنی پانچ سال تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔الیکشن دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی پہلے دن ہی قائم کر دی گئی تھی۔ تاحال دھاندلی کا شور مچانے والی اپوزیشن کی اس میں شمولیت صفر رہی ہے۔
جی جو اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گا فارغ ہوگا۔اور سنا ہے کچھ بڑے افسروں مطلب کور کمانڈرز کو بھی فارغ کردیا ہے باجوے نے ؟؟
الیکشن کمیشن، الیکشن ٹریبونل اور عدالتوں میں تالے نہیں لگے۔ جن حلقوں میں اعتراض ہے اس کی شکایت ان اداروں میں کی جا سکتی ہےکمیٹی؟ وہ بھی پارلیمانی یعنی پانچ سال تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔
اسٹیبلشمنٹ سے روایتی مفاہمت کی سیاست۔ اوپر اوپر سے میاں صاحب ہمیشہ ڈٹ جاتے ہیں اور اندر خانے انہی کے ساتھ ڈیلیں اور ڈھیلیں طے کرتے ہیں۔وہ کیا فیکٹرز تھے جن کی وجہ سے میاں نواز شریف نے خود یا اپنی پارٹی کو مولانا کے مارچ اور لاہور کے جلسے سے دور رکھا؟
جی جو اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گا فارغ ہوگا۔
ارے واہ۔ جن آرمی چیفس کے خلاف انقلاب لانا تھا ان کی حق تلفی کی اتنی فکر! یعنی آپ کے مولانا کے دھرنے کے پیچھے وہ جرنیل ہیں جو آرمی چیف بننے سے قبل ہی ریٹائر ہو جائیں گےحق تلفی کسے کہتے ہیں ؟؟؟
نہ وزیر اعظم کا استعفی ملے گا نہ جرنل باجوہ کی ایکسٹینشن کینسل ہو گی۔ حق تلفی کے مارے جرنیلوں نے جتنا زور لگانا ہے لگا لیںحق تلفی کسے کہتے ہیں ؟؟؟
مولانا کے مارچ کا الیکشن دھاندلی، مہنگائی، یہودیوں اور قادیانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مارچ کا مقصد حکومت کو دباؤ میں لا کر جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن کینسل کروانا ہے۔ تاکہ سول ملٹری تعلقات جو ابھی تک ایک پیج پر چل رہے ہیں میں رخنہ پیدا کیا جائے۔ اس سے زیادہ اس احتجاج کی کوئی حیثیت نہیں ہےحکومت اور اپوزیشن میں اخلاقی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہر دو کا معاملہ یہ رہا کہ اخلاقیات اور اصولوں کے بھاشن دیتے رہو لیکن مفادات کے حصول کے لیے جہاں جس وقت جو داو چلتا نظر آئے اسے اختیار کرلو۔
کل عمران احتجاج کر رہے تھے اور میاں اور مولانا صاحبان انہیں باجماعت مشورے دیا کرتے تھے کہ معاملات سڑکوں پر حل نہیں ہوتے آپ عدالت جا کر اپنا مقدمہ ثابت کیجیے۔ آج عمران حکومت میں ہیں اور ان کے ناصح حضرات عدالت میں جا کر دھاندلی ثابت کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ آج عمران خان حکومت میں ہیں تو وہ بھی اقوال زریں سنا رہے ہیں کہ سڑکوں پر آ کر بھلا کبھی کسی نے وزیر اعظم سے استعفی مانگا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ان کا استعفی مانگنے کا انداز بھی ایسا ہی تھا۔
آج عمران خان اپوزیشن کو سڑک سے اتر کر قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں حالانکہ انہوں نے عدالت میں دھاندلی کا کیس ہارنے کے باوجود اور پینتیس پنکچروں کی بات کو سیاسی بیان قرار دینے کے باوجود ہنگامہ کھڑا کیے رکھا
(آصف محمود)
مولانا کے مارچ کا الیکشن دھاندلی، مہنگائی، یہودیوں اور قادیانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مارچ کا مقصد حکومت کو دباؤ میں لا کر جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن کینسل کروانا ہے۔ تاکہ سول ملٹری تعلقات جو ابھی تک ایک پیج پر چل رہے ہیں میں رخنہ پیدا کیا جائے۔ اس سے زیادہ اس احتجاج کی کوئی حیثیت نہیں ہےحکومت اور اپوزیشن میں اخلاقی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہر دو کا معاملہ یہ رہا کہ اخلاقیات اور اصولوں کے بھاشن دیتے رہو لیکن مفادات کے حصول کے لیے جہاں جس وقت جو داو چلتا نظر آئے اسے اختیار کرلو۔
کل عمران احتجاج کر رہے تھے اور میاں اور مولانا صاحبان انہیں باجماعت مشورے دیا کرتے تھے کہ معاملات سڑکوں پر حل نہیں ہوتے آپ عدالت جا کر اپنا مقدمہ ثابت کیجیے۔ آج عمران حکومت میں ہیں اور ان کے ناصح حضرات عدالت میں جا کر دھاندلی ثابت کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ آج عمران خان حکومت میں ہیں تو وہ بھی اقوال زریں سنا رہے ہیں کہ سڑکوں پر آ کر بھلا کبھی کسی نے وزیر اعظم سے استعفی مانگا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ان کا استعفی مانگنے کا انداز بھی ایسا ہی تھا۔
آج عمران خان اپوزیشن کو سڑک سے اتر کر قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں حالانکہ انہوں نے عدالت میں دھاندلی کا کیس ہارنے کے باوجود اور پینتیس پنکچروں کی بات کو سیاسی بیان قرار دینے کے باوجود ہنگامہ کھڑا کیے رکھا
(آصف محمود)
اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ ابھی تک دھرنے کے شرکا نے گملا بھی نہیں توڑا۔ اسلام آباد پہنچ کر دیکھتے ہیں۔مولانا کا آزادی مارچ ، عمرانی دھرنے سے ہزار گنا منظم اور سماجی اخلاقیات کا حامل ہے