یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز شریف وزیراعظم تھے اور انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ ٹرائل شروع کرنے سے قبل انہوں نے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت اہم سیاستدانوں کو اعتماد میں لیا۔
نواز شریف کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اس ٹرائل کے خلاف تھے۔ انہوں نے ایف آئی اے کے ذریعے آصف زرداری کے خلاف تحقیقات شروع کردیں۔ اب زرداری صاحب کو پیغامات ملنے لگے کہ آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن زرداری نے یہ پیغام نظر انداز کئے۔ جب ان پر دبائو بڑھا تو انہوں نے دبائو کم کرنے کے لئے اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کردی۔ اس تقریر سے اگلے دن ان کی نواز شریف کے ساتھ ملاقات طے تھی۔
نواز شریف نے یہ ملاقات منسوخ کردی۔ مولانا نے دونوں کے درمیان پل بننے کی کوشش کی لیکن زرداری صاحب کا دماغ الٹ چکا تھا۔ وہ علاج کے لئے بیرونِ ملک چلے گئے، انہیں پیغام بھیجا گیا کہ واپس مت آنا ورنہ برا انجام ہوگا۔ زرداری صاحب نے اپنے مختلف رابطے استعمال کئے اور جنرل راحیل شریف کو نیوٹرل کردیا۔ راحیل شریف کے ساتھ خاموش مفاہمت کے بعد وہ پاکستان واپس آگئے اور انہوں نے نواز شریف سے انتقام کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا۔
مولانا نے انہیں بہت روکا لیکن وہ نہیں رکے۔ پھر پاناما اسیکنڈل آگیا۔ نواز شریف مئی 2016میں علاج کے لئے بیرون ملک گئے تو انہیں کہا گیا واپس مت آنا انجام برا ہوگا۔ وہ واپس آگئے اور عدالت نے انہیں نااہل کردیا۔ اب مولانا فضل الرحمٰن کو احساس ہونے لگا کہ ان کے ساتھ بھی کچھ ہونے والا ہے۔
وہ زرداری اور نواز شریف کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتے رہے اور ان کوششوں کی وجہ سے پرائم ٹارگٹ بن گئے۔ عمران خان ان سے شدید نفرت کرنے لگے حالانکہ 2002میں عمران خان نے مولانا کو وزیراعظم کا ووٹ دیا تھا۔ 2018کے انتخابات قریب آئے تو مولانا کے بارے میں عجیب عجیب باتیں گردش کرنے لگیں کبھی کہا گیا کہ وہ ایک مغربی ملک کے خفیہ ادارے سے پائونڈ لیتے ہیں، کبھی کہا گیا کہ ان کا دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ ہے۔
جون 2018میں مولانا فضل الرحمٰن نے ایک نشست میں بتایا کہ عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، مجھ پر دبائو ہے کہ میں اس کی حمایت کروں لیکن میں نے انکار کردیا ہے، انتخابات سے پہلے لوگوں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جائیں گی، میڈیا پر پابندیاں لگائی جائیں گی، نہ سیاست بچے گی نہ صحافت، اس لئے مل کر اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوگی۔ اس بقا کی جنگ کے لئے جون 2018کے وسط میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا کے علاوہ پرویز رشید، فرحت اللہ بابر، شبلی فراز، بزرگ صحافی ایم ضیاء الدین، افضل بٹ، منیزے جہانگیر، مطیع اللہ جان اور میں نے گفتگو کی اور سیاست و صحافت کو بچانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر اتفاق کیا لیکن ہمیشہ کی طرح نہ اہلِ صحافت متحد ہوئے اور نہ اہلِ سیاست۔
انتخابات والے دن ہمیں بدترین سنسر شپ کا سامنا تھا۔ رات گیارہ بجے مولانا کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ہروایا جارہا ہے، عمران خان کو لایا جارہا ہے لیکن تم دیکھنا میں عمران کو وہ سبق سکھائوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔
انتخابات کے بعد انہوں نے ایک سال تک تیاری کی اور جولائی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ انہیں روکنے کی بہت کوشش ہوئی، وہ نہ رکے تو آصف زرداری کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش ہوئی۔
زرداری صاحب نے ماضی کے دھوکوں کو سامنے رکھتے ہوئے انکار کردیا۔ اب نواز شریف صاحب سے گزارش کی جارہی ہے کہ آپ بیرون ملک چلے جائیں لیکن وہ ابھی تک بیرون ملک جانے کے لئے تیار نہیں۔
مولانا کہتے تھے کہ کوئی میرے ساتھ آئے نہ آئے میں اسلام آباد آئوں گا اور عمران خان کو رلائوں گا۔ آپ ان سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کا اصل ایجنڈا عمران خان کو رلانا ہے اور اس سوچ کو شکست دینا ہے جو سیاستدانوں کو قومی مفاد کے نام پر استعمال کرکے ردی کی ٹوکری یا جیل میں پھینک دیتی ہے کیونکہ ان سیاستدانوں نے آئین پامال کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کی گستاخی کی تھی، اگر اس سوچ نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو پھر مولانا مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں گے لیکن یہ مذاکرات عمران کے بغیر ہوں گے۔
(
حامد میر)