جاسم محمد

محفلین
روک سکو تو روک لو مولانا آیا رے ، مولانا آیا رے ، مولانا آیا رے​
EIN93xk-Wk-AEMMh1.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
انسانی شعور بھی کیا عجیب چیز ہے۔ بلندی کا رخ کرتا ہے تو افلاطون سے لے کر دیکارت تک، اور غزالی سے لے کر اقبال تک سب سمجھا دیتا ہے۔ تنزل کا رخ کرتا ہے تو اسی فلسفی کو عمران خان جیسے گدھے کی پوچھل پکڑا دیتا ہے۔ سعدی کا مصرع کیا فٹ بیٹھ رہا ہے
گہے بر طارم اعلی نشینم
گہے بر پشت پائے خود نبینم
(رعایت اللہ فاروقی)
 

جاسم محمد

محفلین
۔ تنزل کا رخ کرتا ہے تو اسی فلسفی کو عمران خان جیسے گدھے کی پوچھل پکڑا دیتا ہے۔
تو مولانا جیسے زیرک فلسفی اور سیاست دان خود کیوں ماضی میں پی پی پی اور ن لیگ جیسے گدھوں کی پوچھل تھام کر حکومت کرتے رہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ابھی ایک برس پورا ہوا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا تیار ہے۔
آپ کہیں گے یہ کون سی انہونی بات ہے؟ ماضی میں آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف بھی تو لانگ مارچ اور دھرنے ہوتے رہے ہیں‘ اب عمران خان کے خلاف ہورہا ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے۔
عمران خان کے خلاف متوقع دھرنوں اور ماضی کے دھرنوں میں بڑا فرق ہے۔
جب زرداری حکومت کے خلاف طاہرالقادری نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت تک پیپلز پارٹی ماضی میں دو تین دفعہ اقتدار لے چکی تھی۔ بھٹو صاحب کے بعدبینظیر بھٹو بھی وزیراعظم رہ چکی تھیں۔ لوگ ان کی اچھی بری گورننس دیکھ چکے تھے۔ کارگردگی کا جائزہ لیا جاچکا تھا۔ اب چوتھی دفعہ پیپلز پارٹی پاور میں تھی۔ زرداری اور حواریوں کے قصے سب جانتے تھے۔ سوئٹزر لینڈ میں منی لانڈرنگ مقدمات بن اور بھگت چکے تھے۔ جن حالات میں بینظیر بھٹو ماری گئیں‘ اس سے پارٹی کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی تھی‘ اسی سے وہ پاور میں بھی آگئی ‘ورنہ الیکشن جیتنے کے حالات اچھے نہ تھے۔ داد دیں زرداری اینڈ کمپنی کو‘ مجال ہے انہوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہو۔ انہوں نے وہیں سے دوبارہ کھاتہ کھولا جہاں 1996ء میں بند ہوا تھا‘ جب زرداری گورنر ہاؤس لاہور سے گرفتار ہوئے اور بی بی کی حکومت توڑدی گئی تھی۔
اگرچہ طاہر القادری کا مقصد کچھ اور تھا۔ کچھ دن اپنا شو کیا‘ کچھ شرائط لکھوائیں اور لوٹ گئے۔ پیپلز پارٹی نے بھی فوراً ہامی بھر لی‘ کہ ہم نے کون سی پوری کرنی ہیں۔ قادری صاحب کو بھی علم تھا کہ پیپلز پارٹی نے عمل نہیں کرنا‘ لیکن دونوں کو فیس سیونگ چاہیے تھی۔پھر زرداری حکومت کو نواز شریف کے لانگ مارچ کا سامنا کرنا پڑا جب ججز بحالی کے لیے وہ لاہور سے نکلے۔ لیکن بڑا لانگ مارچ اور دھرنا عمران خان نے ایک سو چھبیس دن اسلام آباد میں دیا‘ جس نے نواز شریف حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن چکے تھے اور بقول عامر متین کے‘ پنجاب میں رنجیت سنگھ کے بعد سب سے طویل اقتدار شریف خاندان کا تھا۔ راتوں رات ارب پتی بننے کی کہانیوں کا اب سب کو علم تھا۔ کیسے پنجاب کو لوٹا گیا۔ شریف خاندان کی حفاظت کے نام پر دس پندرہ ارب روپے لگے اور تین ہزار سکیورٹی اہلکار ہٹو بچو کے کام پر لگے رہتے تھے۔ بچے دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں خرید چکے تھے۔اس لیے جب عمران خان نے دھرنا دیا تو لوگوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ہاؤس آف شریف کس لیول پر ملک کے وسائل کو لوٹ چکا ہے ۔ اسی دور میں پانامہ آیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ آج دو سابق وزرائے اعظم جیل میں ہیں۔لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ پیپلز پارٹی اور شریف خاندان کو تین تین چار چار دفعہ حکومتیں کرنے کے بعد لانگ مارچ یا دھرنے کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ جس کا جواز بن چکا تھا کہ وہ گورننس میں ناکام‘ لیکن لوٹ مار میں کامیاب تھے۔
تو پھر عمران خان کے خلاف ایک سال کے اندر دھرنا کیوں؟
اس لیے کہ جب عمران خان کے وزیر یا حامی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ہاتھوں برسوں برباد رہنے اور لٹنے کے بعد یہ لوگ عمران خان کو چند برس دینے کو بھی تیار نہیں تو ان کی بات میں وزن لگتا ہے۔ ان کے حامی‘ جن کی تعداد بڑی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے ‘ پوچھتے ہیں کہ اگر ان لٹیروں کو تین تین دفعہ وزیراعظم اور صدر برداشت کر لیا تو اب کون سی قیامت آگئی ہے کہ عمران خان کے خلاف دھرنے شروع ہوگئے ہیں؟جو بات عمران خان اور ان کے حامی نہیں سمجھ پا رہے ‘ یہ ہے کہ آپ نے جس طرح خود کو عوام کے سامنے پیش کیا تھا اس کے بعد یہی ہونا تھا۔
جس دن عمران خان کی وزیراعظم بننے کے بعد اینکرز سے ملاقات ہوئی تو میرے جیسے بیماری کی حد تک آئیڈیلسٹ کا یہ خیال تھا کہ وہ اپنی بات یہاں سے شروع کریں گے: میرے دوستو میں نے بائیس برس اس دن کے لیے تیاری ‘محنت اور جدوجہد کی اور آج کامیاب ہوگیا ہوں۔ مجھے آپ لوگوں سے رعایت یا فیور نہیں چاہیے۔ آپ مجھے پہلے دن سے جج کریں‘ مجھے میرے پہلے دن‘ پہلے فیصلے اور میری ٹیم سلیکشن سے جج کریں۔ مجھے آپ لوگوں نے رعایت نہیں دینی بلکہ نواز شریف اور زرداری سے زیادہ سخت معیار پر پرکھنا ہے‘ کیونکہ مجھ سے لوگوں نے بہت توقعات باندھ رکھی ہیں۔لیکن ہم سب کو دھچکا لگا جب انہوں نے کہا کہ ان کے فیصلوں پر تنقید نہ کی جائے ‘کیونکہ حالات ان کی توقع سے بہت خراب ہیں۔ حالات خراب تھے تو ان کی جگہ بنی تھی‘ اگر شریف اور زرداری اچھی حکومت کرتے تو عمران خان کو کس نے وزیراعظم بنانا تھا؟ عمران خان کو تو ان سب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی کرپشن اور بیڈ گورننس نے انہیں اُبھرنے کا موقع دیا‘ لیکن ہوا یہ کہ عمران خان صاحب نے ایک گھنٹہ خاور ماینکا خاندان کا پاک پتن میں پولیس کے معاملے پر جارحانہ انداز میں دفاع کیا‘ جس پر مجھے اور دیگر صحافیوں کو کہنا پڑ گیا کہ جو بندہ اپنے کزنز ماجد خان سے لے کر حفیظ اللہ نیازی تک کو خاطر میں نہیں لایا وہ اب مانیکا فیملی کا دفاع کررہا تھا۔ اسی وقت سب کو لگا‘ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد بدل گئے ہیں۔ چوہدریوں‘ فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال کی ماردھاڑ کی بات ہوئی تو غصے میں کہا : فرشتے کہاں سے لاوں؟ ہم سب حیرانی سے ان کے پیش کردہ جواز سن رہے تھے۔
انہیں یقینا پانچ سال ملنے چاہئیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس ٹیم کے ساتھ پانچ سال پورے کر سکیں گے جو انہوں نے چنی ہے یا انہیں چن کر دی گئی ہے؟ جب وہ خود اپنی ٹیم سے مطمئن نہیں تو دوسرے کیسے ہوں گے؟ان کے اپنے فیصلے ایسے ہیں جن سے عوام مایوس ہوئے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ اعظم سواتی‘ جن کے فراڈ اور بدعنوانیوں کی فائلیں سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے پیش کیں اور جن کے خلاف آرٹیکل باسٹھ ‘تریسٹھ کے تحت کارروائی ہونے والی تھی‘ نے ڈر کے مارے استعفیٰ دے دیا۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ نیب اور ایف آئی اے کو وہ جے آئی ٹی کی فائلیں بھیجتے اور اعظم سواتی کے خلاف مقدمے درج ہوتے ‘ مگرانہیں نہ صرف بچا لیا گیا بلکہ کچھ د یر بعدانہیں دوبارہ وزیر بنا کر پارلیمنٹ چلانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ عامر کیانی پر دوائیوں کی قیمتیں بڑھانے کے سکینڈل میں سنگین الزامات لگے اور انہیں ہٹا دیا گیا تھا‘ اب پارٹی کا اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ علی زیدی اپنے جس دوست کے گھر رہتے ہیں‘ اس پر فراڈ کے مقدمے ایف آئی اے نے درج کر رکھے ہیں‘ اسے اب پشاور میٹرو میں چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ زلفی بخاری کو نیب نوٹس بھیج چکا ہے لیکن وہ پیش نہیں ہوتے ۔ مطلب یہ کہ جن باتوں پر خان صاحب کبھی گرجتے برستے تھے اور شریفوں اور زرداریوں کو سناتے تھے وہ اس وقت وہی کام کررہے ہیں۔ یہی دیکھ لیں چینی کی قیمت کہاں پہنچ گئی‘ ڈینگی سے پچاس لوگ مارے گئے ہیں لیکن حکومت پریشان نہیں لگتی۔ پنجاب میں جس طرح کی بدترین گورننس سامنے آئی وہ آپ نے دیکھ لی۔ بجلی ‘گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھیں‘ ڈالر مہنگا اور اب فواد چوہدری کا بڑا اعلان کہ چار سو محکمے بند کئے جا رہے ہیں جس سے ہزاروں مزید بیروزگار ہو جائیں گے۔ انہی حالات میں پنجاب میں ایم پی ایز اور وزیروں نے اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھا لیں‘ وزیروں‘ مشیروں کے بیرون ملک دورے اوربڑے کاروباریوں کو تین سو ارب روپے معاف کیے جانے لگے تھے‘ کیونکہ کچھ دوستوں کا فائدہ ہونا تھا۔
اب خان صاحب ہر اس بات سے انکاری ہیں جس کا وعدہ کیا تھا۔ زرداری سے وعدے توڑنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے ہیں۔عمران خان سے وعدے توڑنے کی بات کریں تو وہ فرماتے ہیں سمجھدار انسان یوٹرن لیتا ہے۔ کوئی مشکلات کا ذکر کرے تو وہ آگے سے ریاستِ مدینہ پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہاں بات نہ بنے تو چینی ماڈل‘ پھر یورپی‘ کبھی ملائیشیا تو کبھی ترکی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریری مقابلے میں عمران خان صاحب کو کوئی نہیں ہراسکتا‘لیکن وہی بات کہ ملک محض تقریروں اور دعووں سے چلتے تو ہم آج سپر پاور ہوتے۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو عمران خان کو نہیں پہچان پاتا۔ جس تبدیلی کے لیے انہوں نے بائیس برس محنت کی تھی وہی تبدیلی اب عمران خان کو دبوچ رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی دیکھ لیں چینی کی قیمت کہاں پہنچ گئی‘ ڈینگی سے پچاس لوگ مارے گئے ہیں لیکن حکومت پریشان نہیں لگتی۔ پنجاب میں جس طرح کی بدترین گورننس سامنے آئی وہ آپ نے دیکھ لی۔ بجلی ‘گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھیں‘ ڈالر مہنگا اور اب فواد چوہدری کا بڑا اعلان کہ چار سو محکمے بند کئے جا رہے ہیں جس سے ہزاروں مزید بیروزگار ہو جائیں گے۔
معیشت کے حوالہ سے حکومت بے بس ہے کیونکہ یہ سابقہ حکومتوں کے کرتوتوں سے جڑی ہوئی ہے۔ باقی گوڈ گورننس کے فقدان کے حوالہ سے کلاسرا صاحب نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ معیشت کے علاوہ ہر جگہ عوام کو گوڈ گورننس کے ذریعہ ریلیف فراہم کیا جا سکتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا آ رہے ہیں
29 اکتوبر ، 2019
image3.jpeg
عمار مسعود

اگر آپ الٹے قدموں بھاگ رہے ہوں تو ضروری نہیں کسی رکاوٹ سے ٹکرا کر ہی گریں، ایسی حالت فرار میں آپ اپنے بوجھ سے بھی منہ کے بل گر سکتے ہیں۔
بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بار بار اپنی پریس کانفرنسز اور ٹویٹس میں یہ فرما رہی ہیں کہ مولانا حلوہ کھانے کے شائق ہیں اور اسی سیاسی حلوے کی تلاش میں عازم اسلام آباد ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے گرانے کو حلوے کی طرح سہل سمجھ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے آزادی مارچ کا کراچی سے آغاز کر دیا ہے۔ افراد کی گنتی کا کس کے پاس وقت ہے لیکن مولانا کے مخلص کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے تھی۔
مولانا کے استقلال میں آزادی مارچ کے پہلے اور آغاز تک رتی برابر فرق نہیں ہے۔ وہ اسی خود اعتمادی کے ساتھ حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مولانا کے مطالبات استعفے تک محدود نہیں ہیں وہ انتخابی اصلاحات بھی چاہتے ہیں اور نئے انتخابات بھی ان کے مطالبات کا اہم جزو ہیں۔
مولانا کو راستے میں لگی رکاوٹیں یا کارکنوں کی گرفتاریاں، ان کے حوصلے پست نہیں کر رہیں۔ وہ اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔ ابھی تک انہوں نہ کوئی مذہبی بنیادوں پر نعرہ لگایا ہے نہ کسی کو کافر قرار دیا ہے۔ وہ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ سول سپریمیسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ جمہوری اقدار کی بات کر رہے ہیں۔
pervez_khattak-file_0.jpg


وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت آزادی مارچ کے شرکا شہر کے وسط یا ریڈ زون کا رخ نہیں کریں گے۔ فوٹو: فائل

دوسری جانب حکومت سراسیمگی کا شکار ہے۔ اس کے ہر اقدام سے خوف جھلکتا ہے۔ اپوزیشن کو کنٹینر دینے کا وعدہ کرنے والے اب جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستے بند کر رہے ہیں۔ میڈیا پر ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کی ایک ایک لمحے کی کوریج سے مستفید ہونے والے اب پابندیاں لگا رہے ہیں۔

پیمرا کبھی مولانا کے جلسوں کی کوریج کو روکتا ہے کبھی مولانا کے انٹرویو والے پروگرام چلنے نہیں دیتا۔ کبھی اینکرز کی دوسرے پروگراموں میں شرکت کی پابندی لگاتا ہے کبھی چینلوں میں سے آواز غائب ہو جاتی ہے۔ کبھی مولوی کفایت اللہ کو گرفتار کر کے پر اسرار مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کبھی حافظ حمد اللہ کی شہریت ہی منسوخ کر دی جاتی ہے۔
کبھی مولانا کو انڈین لابی کا حصہ قرار دیا جاتا ہے کبھی کرپشن کے الزامات لگتے ہیں۔
اس سارے کھیل میں مولانا کو نواز شریف کی مکمل تائید حاصل ہے۔ نواز شریف کو جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ مولانا کی ہلہ شیری کرتے ہیں، چاہے وہ جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات ہو، نیب کی گرفتاری سے پہلے کا مرحلہ ہو یا پھر ضمانت کے بعد ہسپتال میں شدید بیماری میں کوئی بیان ہو۔
شہباز شریف مصلحت پسند ہیں لیکن پھر بھی مسلم لیگ ن کا جی ٹی روڈ کا ورکر اگر سڑکوں پر آ گیا تو حکومت کے قدم اکھڑ جائیں گے۔
نواز شریف کی صحت کے معاملے پر حکومت نے جس خوف زدگی کا مظاہرہ کیا ہے اسی سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ سے باہر ہو چکے ہیں۔ اب ہر موبائل میں عمران خان کی انتقامی تقریروں کے کلپس موجود ہیں ۔ اب ہر موبائل مِں اپوزیشن کی تضحیک کی وڈیوز موجود ہیں۔ اب ہر موبائل میں جیل میں اے سی اتار لینے کی دھمکی موجود ہے۔
اب ہر موبائل میں مولانا فضل الرحمن کے بارے میں خان صاحب کی تمسخر آمیز کلمات کی وڈیو موجود ہے۔ اب ہر قدم الٹا پڑ رہا ہے۔ اب ہر بات طعنہ بن رہی ہے۔ اب ہر تدبیر تعذیر بن رہی ہے۔
نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ایک سی بات کر رہے ہیں۔ ایک سی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک سے بیانات دیتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے نواز شریف وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جیل میں اس حالت میں پہنچ گئے کہ جان پر بن گئی اور دوسری جانب مولانا دندناتے پھر رہے ہیں۔
ان دو شخصیات میں صرف اتنا فرق ہے کہ نواز شریف ایک سیاسی لیڈر ہیں اور مذہبی رہنما نہیں۔

حکومت پریشانی کے عالم میں میڈیا پر مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ زیادہ کچھ کہنے کا وقت نہیں بس اتنی سی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب اچانک پیمرا کو صحافتی اقدار کا خیال آ جائے، جب اچانک غیر جمہوری طریقے سے آئے وزرا جمہوریت کا ماتم کرنے لگ جائیں، جب یک دم معشیت برباد کرنے والوں کو سیاسی استحکام کی یاد آجائے، جب ایک دم سے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دینے والوں کو امن عامہ کی صوت حال یاد آ جائے، تو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ’مولانا آ رہے ہیں‘۔
000_1j63yc.jpg

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے ’آزادی مارچ‘ کا آغاز کراچی سے ہو گیا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی

اس موقعے پر حکومت کو کوئی مشورہ دینا کوئی اتنی مفید بات نہیں لیکن اگر استدعا کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا کا گلا اس حد تک نہ دبایا جائے کہ سارے چینل اچانک’مولانا آ رہے ہیں‘ کے گیت گانے لگیں ۔ پھر حکومت کے پاس الٹے پاؤں بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اگر آپ الٹے قدموں بھاگ رہے ہوں تو ضروری نہیں کسی رکاؤٹ سے ٹکرا کر ہی گریں، ایسی حالت فرار میں آپ اپنے بوجھ سے بھی منہ کے بل گر سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
استعفی دیں شیخ رشید صاحب کے دشمن
31/10/2019 سعدیہ احمد

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ہم یونیورسٹی کی ایک اسائنمنٹ کے بہانے لوہاری دروازے گئے۔ جی، بہانہ ہی تھا ورنہ عمر کے اس حصے میں کون کافر ریسرچ کا شوق لے کر بیٹھے تھا۔ لاہور شہر میں اپنائیت کا یہ عالم ہے کہ ہم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون بیٹھا ہے۔ جھٹ سے انجان لوگوں کو بھائی، خالہ اور چچا بنا لیتے ہیں۔ کسی کو بھی نام سے پکارنا ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔

تلی ہوئی رہو مچھلی کھاتے ہوئے دکان بزرگ ریڑھی بان سے گفتگو شروع ہو گئی۔ انہوں نے ہم سے ہماری تعلیم اور والد صاحب کا ذریعہ معاش پوچھا۔ ‘ابو کیا کرتے ہیں؟’ جب تسلی ہو گئی کہ ہمارا تعلق ایک شریف گھرانے سے ہے تو ان صاحب نے ہمیں جھٹ اپنی بیٹیاں بنا لیا اور ہمیں نصیحتیں کرنے لگے۔ دوبارہ واضح کرتے چلیں کہ عمر کے اس حصے میں انسان کو اپنا آپ عقل کل لگتا ہے اور گیان سے خاص طور پر خار آتی ہے۔ اس لیے چنداں یاد نہیں کہ انہوں نے کیا تلقین کی تھی ماسوائے اس کے کہ کبھی زندگی میں اپنے کسی فعل کا ذمہ دار دوسرے کو مت ٹھہراو۔ اگر ایک غلطی کی ہے تو اسے کسی دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اس کا ادراک کرو۔ اس کا اعتراف کرو۔

مچھلی تلتے ہوئے اپنا چہرہ پونچھتے بزرگ کی یہ بات آج بھی یاد ہے۔ یاد رہنی بھی چاہیئے۔ سب کچھ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کے لیے نہیں ہوتا۔ جس معاشرے میں بچے کی بیماری کا الزام بھی پڑوسن کی کالی نظر پر دھر دیا جاتا ہے وہاں کسی کا ایسی بات کرنا واقعی غیر معمولی قصہ تھا۔ آج بھی یاد ہے۔ آج صبح اٹھتے ہی تیزگام ایکسپریس کی بوگیوں میں آگ لگنے کی خبر سننے کو ملی۔کئی لوگ جل کر بھسم ہوگئے۔ بہت سے زخمی ہو گئے جن کی یہ گارنٹی بھی نہیں کہ وہ بچ پائیں گے یا نہیں۔ کتنے خاندان ختم ہو گئے۔ کتنی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔

معلوم ہوا ہے کہ بوگی میں پڑے گیس کے سلنڈر سے آگ لگی ہے۔ جو ہوا بہت برا ہوا۔ لیکن ایک بات کہوں؟ صرف یہی برا نہیں ہوا۔ وزیر ریلوے جو بھارت کو تو خوب اچھل اچھل کر دھمکیاں دیتے ہیں اپنی وزارت میں ہونے والے اس اندوہناک واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الٹا مرنے والوں پر مدعا ڈال رہے ہیں۔ ظاہری بات ہے۔ قصور مرنے والے کا ہی ہے۔ عملہ تو یوں بھی گونگا، بہرا، اور نابینا تھا جس نے یہ سلنڈر ٹرین میں آنے دیا۔۔وزیر صاحب کو بھی تو محض بیان داغنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ تو وہ برساتے ہی رہتے ہیں۔ ریل گاڑیاں پٹڑی سے الٹنے کے قصے بھی ان کی وزارت میں بڑھ چکے ہیں لیکن یہ سب بھی مسافروں کا قصور ہے۔ کس نے کہا تھا ٹرین پر چڑھیں؟ بیل گاڑیوں پر کیوں نہیں سفر کرتے؟ سب مسافروں کا قصور ہے۔

سب مہنگائی پچھلی حکومت کا قصور ہے۔ ہسپتالوں میں مفت ادویات نہ ملنا گذشتہ حکومت کی کرپشن ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام عالم میں ہماری تنہائی مسلم امہ کا خون سفید ہونے کی وجہ سے ہے۔ لاہور فضائی آلودگی کی خطرناک حدود عبور کر چکا ہے جو کہ بھارت کا قصور ہے۔ ڈینگی کی وبا موسم کی وجہ سے پھیلی ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شان و شوکت سے مقیم ہے کیونکہ مولویوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ سب اپوزیشن کا قصور ہے۔ سیاسی قیدی اور پروفیسر نیب کی تحویل میں یا تو مار دیے جاتے ہیں یا مرنے کے قریب پہنچا دیے جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے۔

صلاح الدین اور سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے قاتلوں کی زندگیاں گلزار ہیں تو یہ ان کے لواحقین کا قصور ہے۔ سب کسی نہ کسی کا قصور ہے۔ حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ نہ اپنی مرضی سے آئے نہ اپنی مرضی سے کچھ کر پائے۔ ان کا کوئی قصور نہیں۔ ایک عام سے آفس میں بھی اگر کسی اسٹاف ممبر سے کوئی سنگین غلطی ہو تو مینیجر کی جواب طلبی ہوتی ہے کہ میاں ان سب کے باس تو تم ہو۔ اللہ نے ہر حاکم کو اس کی رعیت کے معاملات کا جوابدہ ٹھہرایا ہے۔ دریائے فرات پر کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو سوال حضرت عمر سے لیا جانا تھا۔

شیخ رشید صاحب، مدینہ کی ریاست میں حاکم ہر بات کے جوابدہ ہیں۔ یہاں تو زندہ انسان جل کر خاکستر ہو گئے اور آپ میں ابھی بھی اتنا حوصلہ ہے کہ مرنے والوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ وہ جو خان صاحب نے گلہ کیا تھا کہ انہیں اچھی ٹیم نہیں ملی کہیں وہ آپ کو تو نہیں کہہ رہے تھے؟ کاش آپ بھی اس دن ہمارے ساتھ لوہاری دروازے چلتے اور ان بزرگ سے زندگی بھر کا درس لے کر آتے۔ استعفی دیں آپ کے دشمن۔
 
آزادی مارچ: 'عوام کسی کٹھ پتلی کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں'
ویب ڈیسک01 نومبر 2019


0
Translate
5dbb41d0697e9.jpg

عوام نہ کسی سلیکٹڈ کو مانتے ہیں، نہ کسی کٹھ پتلی کو مانتے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی — فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ آج عوام نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی کٹھ پتلی کے سامنے سر جھکانے اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

اسلام آباد میں آزادی مارچ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'آزادی مارچ کے شرکا کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے متفقہ طور پر حکومت کو گھر جانے کا پیغام دے دیا اور عوام نے بتادیا کہ وہ کسی کٹھ پتلی کے سامنے سر جھکانے اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'عوام نہ کسی سلیکٹڈ کو مانتے ہیں، نہ کسی کٹھ پتلی کو مانتے ہیں اور نہ ہی کسی آمر یا سلیکٹر کے آگے سر جھکانے کو تیار ہیں، عوام صرف اور صرف جمہوریت اور کٹھ پتلیوں اور سلیکٹرز سے آزادی چاہتے ہیں۔'

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 'جو قوتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہ ہو بلکہ ریاست ہو، ڈنڈا ہو اور بندوق ہو ان قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا مگر ہم نے کسی آمر کے آگے سر نہیں جھکایا، کسی آمریت کو قبول نہیں کیا، پھر بےنظیر بھٹو شہید نے پارٹی کا پرچم تھاما اور آمر سے ٹکرائیں لیکن سر نہیں جھکایا اور دہشت گردوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جام شہادت نوش کیا۔'


آزادی مارچ: جے یو آئی (ف) کا قافلہ اسلام آباد میں داخل

ان کا کہنا تھا کہ جس جمہوریت کی خاطر ہم نے اتنی قربانیاں دیں آج اسی جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں، عوام کے جمہوری حقوق چھینے جارہے ہیں، آج بھی سسٹم کو فیل کروایا جاتا ہے، الیکشن میں دھاندلی کروائی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک نالائق، نااہل اور کٹھ پتلی کو سلیکٹ کرکے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے اور وہ کٹھ پتلی اس ملک کی جمہوریت، مفاد اور معیشت پر حملہ کرتا آرہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی حکومتیں عوام کا خیال نہیں رکھتیں، مہنگائی کرکے عام آدمی کا معاشی قتل کیا جارہا ہے، ٹیکسز کی وجہ سے چھوٹے تاجروں کا معاشی قتل ہو رہا ہے جبکہ پنشنز میں اضافہ نہ کر کے بزرگوں کا معاشی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 'آج تمام سیاسی جماعتوں اور عوام نے مل کر وزیر اعظم کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ سلیکٹڈ کو جانا پڑے گا، وزیر اعظم کو جانا پڑے گا اور اپوزیشن کی جدوجہد کامیاب ہوگی۔'

واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایچ- 9 میٹرو گراؤنڈ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی زیر اہتمام اپوزیشن کے 'آزادی مارچ' کا پنڈال سج چکا ہے جہاں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قافلے پہنچ چکے ہیں۔

آزادی مارچ کا اہم جلسہ جمعہ کو ہوگا جس میں سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف خطاب کریں گے۔
 
Top