الف نظامی

لائبریرین
مختصراً یہ کہ اسلام آباد پہنچنے تک حکومت کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ اسے مسلسل یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اپوزیشن ایک پیج پر نہیں ، سندھ میں بلاول اور لاہور میں شہباز شریف مولانا کے دھرنے میں نہیں آئے ،بتایا گیا کہ میاں نواز شریف نے مولانا سے ملنے سے انکار کردیادوسری طرف مولانا اسلام آباد پہنچنے تک یہی باور کرواتے رہے ہمارا مارچ ہے دھرنا نہیں۔ بہت سے تجزیہ نگار کل تک اپوزیشن کے حوالے سے بلکل مختلف تجزیے کرتے رہے مگر اسلام آباد جلسے میں بلاول اور شہباز شریف نے شرکت کرکے خطاب کیا اور مولانا نے حکومت کو تین دن کی مہلت دے دی ۔۔۔۔ بہر حال مولانا اپنا پہلا پتہ کھیلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور بظاہر لگتا ہے کہ ان کا پلان بی شروع ہوچکا ہے. معلوم رہے کہ بہت کچھ پہلے سے طے ہے۔ ۔
(عابد گیلانی)
 

الف نظامی

لائبریرین
‏علم حاصل کرو ،تاکہ تمہیں پتہ چل سکے "اِیاک نعبدوایاک نَستعِین" کے بعد ناچ گانا نہیں بلکہ"اِھدِناالصراطَ المُستقیم" آتا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
جمہوریت =الیکشن + بنیادی حقوق+ جان کا تحفظ + روزگار + ریاستی فیصلوں میں عوام کا دخل + سوشل سیکیورٹی + مساوات + آزاد عدلیہ + آزاد میڈیا + طاقت ور اور کمزور کا فرق ختم ہونا + گڈ گورننس
لاجواب! ناروے میں ایسی ہی جمہوریت ہے۔
https%3A%2F%2Fblogs-images.forbes.com%2Fniallmccarthy%2Ffiles%2F2018%2F02%2F20180201_Democracy_Index.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
ہائبرئیڈ ریجیمز (انتخابی آمریت):
یہ ناقص جمہوریت سے بھی نیچے کا درجہ ہے ، اس کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں ایک سیاسی آمریت قائم ہو جاتی ہے۔
ہائبرئیڈ ریجیمز یہ بالکل گرا ہوا آخری درجہ ہے ، یہ ان ریاستوں کا ہے جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر الیکشن کے ذریعے جو سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں اُن کا طرز عمل آمرانہ ہوتا ہے۔ یعنی جمہوریت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ عوام صرف پانچ سال کے بعد پرچی ڈالتے ہیں ووٹ کی اور بس ! اس کے علاوہ کوئی حق عوام کو نہیں پہنچتا جو جمہوریت انہیں دینا چاہتی ہے ۔اس لیے اس Hybrid Regimes کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ پاکستان درجہ بندی کے حساب سے ہائبرئیڈ ریجیمز میں آتا ہے
مولانا کی دھمکی پر ہائبریڈ حکومت کی چیخیں نکل گئیں :)

فوج غیرجانب دار ادارہ ہے سڑکوں پر آکر الزام تراشی درست عمل نہیں، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک جمع۔ء 1 نومبر 2019
1865014-asif-1572630816-568-640x480.jpg

فوج حکومت کو آئین کی حدود میں رہ کر سپورٹ کررہی ہے، میجر جنرل آصف غفور (فوٹو: فائل)


ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جان لے فوج غیر جانب دار ادارہ ہے سڑکوں پر آکر اس طرح الزام تراشی کرنا اچھا فعل نہیں، امن و امان کا مسئلہ ہوا تو حکومتی فیصلے پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جان لے فوج غیر جانب دار ادارہ ہے، پاک فوج کسی جماعت کے بجائے جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہے اور حکومت کو آئین کی حدود میں رہ کر سپورٹ کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانون ذمہ داری پوری کی اور ہمارا تعاون جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتا ہے، فضل الرحمن واضح کریں ان کا اشارہ کس طرف ہے؟ فضل الرحمن کا ریفرنس عدالتوںِ، فوج یا الیکشن کمیشن کی جانب ہے؟ فوج نے الیکشن میں اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی، اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ فوج پر الزام تراشی کے بجائے متعلقہ اداروں کے پاس جائے یوں سڑکوں پر آکر الزام تراشی کرنا اچھا فعل نہیں، ملک کسی انتشار کا شکار ہوا تو یقیناً ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سینئر سیاست دان ہیں، انہیں پتا ہے کہ پاکستان نے پچھلے 20 سال میں بہت مشکل وقت گزارا ہے، اس وقت بھی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری ہے، ایل او سی پر اس وقت بھی جوان اور شہری شہید ہورہے ہیں، بھارت نے جارحیت کی تو اس کو منہ توڑجواب دیا گیا، ردالفساد آپریشن بھی مکمل طور پر جاری ہے، خیبر پختون خوا اور قبائل علاقوں میں بحالی کا عمل جاری ہے جب کہ فوج قیام امن کے لیے ملک بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کر رہی ہے۔

دھرنے میں نقص امن سے متعلق صورتحال کے سوال پر آصف غفور نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو بہتر کوآرڈی نیشن کے ساتھ چل رہی ہیں، جلسہ بھی ہوا اور لوگ پہنچے ہمیں امید ہے معاملات بہتری کی جانب جائیں گے تاہم دھرنے میں بعد میں کیا صورتحال ہوگی اس حوالے سے جو بھی فیصلہ حکومت کرے گی اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی کیوں کہ ملک کے استحکام کو کسی بھی صورت نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
’فضل الرحمان بتائیں وہ کس ادارے کی بات کر رہے ہیں،الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہونگے‘

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج غیرجانبدار ادارہ ہے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو میں ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جائیں، سڑکوں پر آکر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سینیئر سیاستدان ہیں جو بات کہتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کیا کہہ رہے ہیں، پہلی بات تو ان سے یہ پوچھنے کی ہے کہ وہ کس کی بات کررہے ہیں، ان کا اشارہ الیکشن کمیشن،عدالتوں یا فوج کی طرف ہے؟ اگر انہوں نے فوج کی بات کی تو اپوزیشن کے سمجھنے کی بات ہے کہ فوج غیرجانبدار ادارہ ہے، ہم آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہماری سپورٹ ایک جمہوری منتخب حکومت کے ساتھ ہے، کسی ایک جماعت کیلئے نہیں، اگر الیکشن کی شفافیت سے متعلق شکایت ہے تو تحفظات متعلقہ ادارے کے پاس لے کر جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی، الیکشن کو ایک سال گزر گیا ہے، اس کے باوجود ان کا آئینی حق ہے کہ تحفظات متعلقہ ادارے کے پاس لیکر جائیں، مولانا فضل الرحمان اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جائیں کیوں کہ سڑکوں پرآکر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ ہمیں جمہوری روایات اور طریقوں کے مطابق چلنا چاہیے، حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی بنی ہے، وہ آپس میں بہتر کوآرڈیشن کررہی ہیں، امید ہے کہ کمیٹیوں کا کام بہترطریقے سے آگے چلے گا۔

آئین و قانون کے دائرے میں حکومت کی سپورٹ کررہے ہیں: ترجمان پاک فوج
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج ایک قومی اور غیرجانبدار ادارہ ہے، حکومت کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر سپورٹ کررہے ہیں، آگے کیا صورت حال بنتی ہے، اس میں بھی قانون اور آئین کے تناظر میں جو بھی فیصلہ حکومت کرے گی، قانون کے مطابق اس پر کارروائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ملکی استحکام کو کسی بھی صورت نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ہم نے جان اور مال کی قربانی دے کر ملک میں امن قائم کیا، اس وقت بھی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھی ظلم و ستم جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہادرقبائل اورعوام نے گزشتہ دو دہائیاں مشکل میں گزاریں، رد الفساد پورے ملک میں جاری ہے تاکہ دائمی امن قائم ہو، ملک میں کوئی بھی انتشار ملک کے مفاد میں نہیں۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کا آزادی مارچ اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال چکا ہے اور مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کیلئے اتوار تک کی مہلت دی ہے۔

تقریر کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’ہم مزید صبرو تحمل کا مظاہرہ نہیں کرسکتے، ہم اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اداروں کےساتھ تصادم نہیں چاہتے، لیکن ہم اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، عوام کا فیصلہ آچکا ہے، حکومت کو جانا ہی جانا ہے‘۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ’دھرنے کے شرکاء ڈی چوک کی طرف جانا چاہتے ہیں، میں نے آپ کی بات سن لی ہے، نواز شریف نے بھی سن لی ہے، آصف علی زرداری نے بھی سن لی ہے اور ہم جنہیں سنانا چاہ رہے ہیں وہ بھی سن لیں‘۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائےگی، ڈی جی آئی ایس پی آر
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 01 نومبر 2019

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک کے استحکام کو کسی صورت نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فوج ایک غیر جانب دار اور قومی ادارہ ہے اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر تعاون کررہا ہے۔

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ میں حکومت کو دی گئی مہلت پر میزبان کی جانب سے کیے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘آج جلسے میں جہاں یہ بات چیت ہوئی وہاں اپوزیشن کی لیڈر شپ موجود تھی اور مولانا فضل الرحمٰن تجربہ کار سیاست دان ہیں اور جو بات وہ کرتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں’۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میزبان کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘پہلی بات تو ان سے یہ پوچھنے کی ہے کہ وہ کس ادارے کی بات کررہے ہیں، کیا ان کا حوالہ الیکشن کمیشن کی طرف ہے، عدالتوں کی طرف ہے یا فوج کی طرف ہے، لیکن جیسے آپ کہہ رہے کہ انہوں نے فوج کی بات کی، اگر ایسا ہے تواپوزیشن کی سمجھنے کی یہ بات ہے کہ فوج ایک غیر جانب دار ادارہ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری سپورٹ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہے کسی ایک جماعت کے لیے نہیں ہے لیکن انہیں اگر الیکشن کی شفافیت سے متعلق شکایت ہے تو وہ اس سلسلے میں فوج کو گھسیٹ رہے ہیں تو پہلی بات یہ ہے کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اورقانونی ذمہ داری پوری کی ہے’۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘ پھر بھی انہیں کوئی شکایت ہے تواس سلسلےمیں ایک سال کا عرصہ گزر گیاہے، اس کے باوجود ان کا آئینی حق ہے کہ وہ اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جائیں، سڑکوں پرآکر صرف الزام تراشی سے مسئلے حل نہیں ہوتے تو ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ اس اپنے آئینی حق کو استعمال کریں اور جو بھی الزامات ہیں وہاں لے کر جائیں بجائے اس طرح فوج پر الزام تراشی کریں’۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے پچھلے 20 سال میں خاص طور پر بہت مشکل وقت گزارا ہے، پاکستانی قوم نے پاکستانی افواج نے دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ کیا ہے جس کا کوئی اور ملک اور کوئی دوسری فوج نہیں کرسکی، ہم نے جانوں کی اور مال کی قربانی دے کر ملک میں امن وامان پیدا کیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت بھی لائن آف کنٹرول میں کشیدگی ہے، ہمارے جوان اور معصوم بے گناہ نہتے شہری شہید ہورہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ مقبوضہ کشمیر میں کیسے ظلم و ستم جاری ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت پاکستان کی ایک لاکھ فوج مشرقی سرحد پر فرائض انجام دے رہی ہے، دوسری طرف مغربی سرحد پر دیکھیں تو وہاں حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں ہم بہت سارا کام سرحد پر کر رہے ہیں تقریباً 2 لاکھ فوج وہاں مصروف ہے’۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘ہمارے بہادر قبائل اور کے پی کے بہادر عوام نے پچھلی دو دہائیاں بہت مصیبت میں گزاری ہیں، اب ان کی فلاح و بہبود اور بحالی کا وقت ہے، تعلیم، صحت اور باقی تمام سہولیات بہتر کرنے میں بھی ہم حکومت کی بھرپور مدد کررہے ہیں کہ وہاں کام بہتر ہو’۔

میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘ردالفساد پورے ملک میں جاری ہے، اس سلسلے میں بھی فوج پورے ملک میں مصروف ہے اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہورہے ہیں تاکہ ملک میں دائمی امن قائم ہوسکے’۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘ان حالات میں اگر ملک کسی قسم کا انتشار کا شکار ہوتا ہے تو یقیناً یہ ملکی مفاد میں نہیں ہے، ہمیں جمہوری روایات اور ان کے طریقوں کے مطابق چلنا چاہیے، جس سیاسی جماعت کو جو بھی مسئلہ ہے وہ آئین اور قانون کے اندررہتے ہوئے اس مسئلے کو متعلقہ اداروں کے ساتھ حل کریں تو نہ صرف جمہوریت کے لیے بہتر ہوگا بلکہ ملک کے استحکام کو بہتر کرنے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوگا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی تک تو حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹیاں بنی ہیں وہ آپس میں بہتر رابطے سے چل رہی ہیں، جلسہ بھی ہوا اور جس طریقے سے پہنچے بھی ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ بہتر طریقے سے کام آگے چلے لیکن افواج پاکستان ایک قومی ادارہ ہے غیر جانب ادارہ ہے اور حکومت کے ساتھ آئین اور قانون کی باونڈری کے اندر رہتے ہوئے ان کی سپورٹ کرتے ہیں’۔

جلسے میں صورت حال میں خرابی کی صورت میں کیا کارروائی ہوگی تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ‘آگے کیا صورت حال ہوگی اور آگے کیسے چلتی ہے اس میں بھی آئین اور قانون کے تناظر میں جو بھی فیصلہ حکومت کرے گی اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، لیکن ملک کے استحکام کو کسی بھی صورت میں نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب سا کنٹینر ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر شہبازشریف نے کہا کہ صرف نواز شریف ہی پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکتا ہے۔ اور نیچے عوام نے تالیاں بجائیں ۔ بلاول نے کہا کہ آصف علی زرداری کے قیادت میں پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور نیچے عوام نے تالیاں بجائیں۔ آسفندیار ولی کہا کہ صرف عوامی نیشنل پارٹی سہی جماعت ہے۔ فضل الرحمن تو لگا ہی اسی بات پر ہے کہ صرف میرے قیادت میں پاکستان ایک اسلامی ریاست بن سکتا ہے اور نیچے عوام تالیاں بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب سا کنٹینر ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر شہبازشریف نے کہا کہ صرف نواز شریف ہی پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکتا ہے۔ اور نیچے عوام نے تالیاں بجائیں ۔ بلاول نے کہا کہ آصف علی زرداری کے قیادت میں پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور نیچے عوام نے تالیاں بجائیں۔ آسفندیار ولی کہا کہ صرف عوامی نیشنل پارٹی سہی جماعت ہے۔ فضل الرحمن تو لگا ہی اسی بات پر ہے کہ صرف میرے قیادت میں پاکستان ایک اسلامی ریاست بن سکتا ہے اور نیچے عوام تالیاں بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔
 
Top