حکومتی ترجمان اور بہی خواہ پوچھ رہے ہیں کہ مو لانا فضل الرحمان ”آزادی مارچ“ کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا موقف ہے کہ ابھی تو حکومت کو قائم ہوئے پندرہ مہینے ہوئے ہیں۔ اس قلیل مدت میں کارکردگی دکھانا ناممکن جبکہ ایک سالہ کارکردگی کی بنیاد پر کسی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا جائزبھی نہیں۔ حکومتی ترجمانوں اور ہمدردوں کے ساتھ اتفاق ہے کہ ایک سال میں کوئی بھی حکومت مسائل حل نہیں کر سکتی اور نہ ہی ایک سالہ کارکردگی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف احتجاج جائز ہے۔
لیکن مو لانا فضل الرحمان کا احتجاج حکومتی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ان کا موقف ہے کہ 25 جولائی 2018ء کو عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ وہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مارچ کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد جب حزب اختلاف کی پارلیمانی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا اس میں مو لانا فضل الرحمان نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ حزب اختلاف اسمبلیوں میں شرکت اور حلف لینے سے انکار کر دیں، لیکن دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ان کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کیا۔
اس انکار کے بعد مو لانا فضل الرحمان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مو لانا فضل الرحمان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج اتنی تاخیر سے کیوں کر رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مو لانا فضل الرحمان کی کوشش تھی کہ حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر چلیں، لیکن یہی دونوں سیاسی جماعتیں پس پردہ مقتدر قوتوں کے ساتھ ساز باز میں مگن تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کی کو شش تھی کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ ساز باز کرکے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کی سزا معاف کرکے ان کو چند برس کے لئے علاج کے بہانے ملک سے باہر بھیج دیں۔ پیپلز پارٹی کی بھی کوشش تھی کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری نہ ہو۔ ان کو بھی ریلف مل جائے اور وہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک چلے جائیں۔ مقتدر قوتیں بھی حزب اختلاف کے ساتھ وقت گزاری کرتی رہی۔ لیکن دونوں کے درمیان بات بننے کی بجائے بگڑتی گئی۔
آصف علی زردای گرفتار ہو ئے۔ حزب اختلاف نے اب براہ راست مقتدر قوتوں کے ساتھ ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ لیکن مقتدر قوتوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا یہ حملہ انتہائی بے دردی کے ساتھ ناکام بنایا۔ مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد یقین کامل ہو گیا کہ حکومت کے خلاف مقتدر قوتوں کے بغیر ایوان کے اندر تبدیلی لانا ناممکن ہے، اس لئے میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے میں مکمل ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔
میاں نواز شریف کی طرف سے مدد اور اجازت کے بعد مو لانا فضل الرحمان نے ”آزادی مارچ“ کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی اب بھی گومگو کا شکار تھی لیکن تیل اور اس کی دھار دیکھ کر مو لانا فضل الرحمان کی امامت میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک صف میں کھڑی ہو گئی۔ حکومت نے شروع میں مو لانا فضل الرحمان کے ”آزادی مارچ“ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس لئے کہ ان کو یقین تھا کہ اکیلے مو لانا فضل الرحمان ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
لیکن جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا تو پھر حکومت کی ایوانوں میں طوفان برپا ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دی۔ مولانا فضل الرحمان نے اس حکومتی کمیٹی کو اپوزیشن کی مشترکہ ”رہبر کمیٹی“ کی طرف بھیج دیا۔ اس فیصلے سے مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو پیغام دیا کہ حکومت صرف جے یو آئی سے مذاکرات نہیں کر رہی ہے بلکہ حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جبکہ حزب اختلاف کو بھی پیغام دیا گیا کہ حکومت صرف ان سے مذاکرات نہیں کر رہی ہے بلکہ حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا مذاکراتی کمیٹی قائم کرنا ایک نیک شگون تھا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس لئے یہ کمیٹی مو لانا فضل الرحمان کو ”آزادی مارچ“ ملتوی کر نے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
لیکن اب حالات نے ایک مرتبہ پھر پلٹا کھایا ہے۔ میاں نواز شریف کی صحت خراب ہے۔ عدالت نے طبی بنیادوں پر 8 ہفتوں کے لئے ان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ ان کے داماد محمد صفدر کی بھی ضمانت ہو گئی ہے۔ آصف علی زرداری بھی اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اب اگر مریم نواز کو بھی ضمانت مل جاتی ہے اور میاں نوا ز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو پھر مولانا فضل الرحمان کا سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
اس لئے کہ میاں شہباز شریف مو جودہ نظام کو پارلیمنٹ کے باہراحتجاج کر کے ختم کرنے کے حق میں ہر گز نہیں۔ اگر آصف علی زرداری کو بھی ضمانت مل جاتی ہے اور وہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک چلے گئے تو مولانا فضل الرحمان کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اس لئے کہ بلاول زرداری بھی نہیں چاہتے کہ مو جودہ نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے مو لانا فضل الرحمان نے تیاری کر رکھی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو پھر وہ اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم نے ”مارچ“ کا اعلان کیا تھا ”دھرنے“ کا نہیں اور پھر اسلام آباد میں مارچ ختم کر کے کسی اور شہر میں جلسے کا اعلان کرکے چلے جائیں گے۔
پھر بھی اگر کوئی زیادہ اصرار کرے گا تو مولا نا کا جواب ہو گا کہ یہ مارچ نہیں بلکہ ایک ”تحریک“ ہے جو جاری رہے گی۔ اس کے برعکس اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ریلف نہیں ملتا تو پھر مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں ہی قیام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن سوال پھر وہی کہ اگر مولانا کا قیام طویل ہو گیا تو کیا وزیر اعظم عمران خان استعفی دے کر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اگر ”آزادی مارچ“ میں کوئی گڑبڑ ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟
حالات کی خرابی کی صورت میں جو لائی 2020 ء کے بعد نئے انتخابات ہو سکتے ہیں اس لئے کہ وزیر اعظم عمران خان خود بھی وسط مدتی (مڈ ٹرم) انتخابات کے حامی ہیں۔ رہی یہ افواہیں کہ مائنس عمران خان فارمولے پر کام ہو رہا ہے۔ شاہ محمود، اسد عمر یا کسی اور کو شیروانی تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو میرے خیال میں یہ تمام صرف افواہیں ہی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں اب بھی مقتدر قوتوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں اگر ان کا کام نکل جاتا ہے تو پھر مو لانا کے پاس واپسی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ بہرحال وزیر اعظم عمران خان اور مو لانا فضل الرحمان کے درمیان اعصاب کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام؟