انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائطِ اہلیت کا مسئلہ
انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائط کا مسئلہ انتہائی اہم اور غور طلب ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت میں سربراہ ریاست سے لے کر ایک ادنی سرکاری اہلکار تک تمام عہدے اور ذمہ داریاں سراسر امانت کا درجہ رکھتی ہیں اور امانت کے بارے میں قرآن مجید کا اصولی حکم یہ ہے :
ان اللہ یامرکم ان تودو الامانات الیٰ اھلہا (النساء 58:4)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تمام قسم کی امانتیں صرف انہی لوگوں کےسپرد کی جائیں جو ان کو سنبھالنے کے اہل ہوں
صاف ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت ، وزارت ، صدارت اور وزارت عظمی کے مناصب سے بڑی امانتیں اسلامی ریاست میں اور کیا ہو سکتی ہیں؟ لہذا ان کے لیے اسلام نے صراحت کے ساتھ امیدواروں کی شرائطِ اہلیت مقرر کی ہیں جن پر پورا اترنا بالترتیب ہر منصب کے امیدوار کے لیے ضروری بلکہ ناگزیر ہے ورنہ یہ اقدام امانت میں خیانت تصور ہوگا۔
قرآن حکیم سے اس سلسلے میں کم از کم 6 شرائط کا پتہ چلتا ہے
1- ایمان
غیر مسلموں کے لیے نشستوں کی تخصیص اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب اس اصول میں استثنی کا درجہ رکھتا ہے
2- عملِ صالح
کم از کم معیارِ سیرت و کردار جو اسلام کی رو سے عدالت میں قبول شہادت کے لیے ضروری ہے تا کہ ایسے امیدواروں کے منتخب ہونے سے ریاست کی نظریاتی خالصیت محفوظ ہو سکے اور اس میں اخلاق و شرافت کا نظام جاری کیا جا سکے۔
مندرجہ بالا دونوں شرائط درج ذیل آیت سے مستنبط ہوتی ہیں
وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصلحتِ لیستخلفنھم فی الارض (النور 55:24)
اللہ تعالی نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے ، وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں مستخق اقتدار ٹھہرائے گا۔
3-کم از کم معیار تعلیم
جو استعمالِ حق رائے دہندگی کے لیے ضروری ہے۔ رائے دہندہ کا اعلی تعلیم یافتہ یا دینی علوم میں ماہر ہونا ضروری نہیں۔ صرف اس قدر تعلیم ضروری ہے کہ جس سے معاملہ فہمی میں آسانی ہو سکے۔(مزید
بسطۃ فی العلم و الجسم : قیادت اور علم)
4- شخصی وجاہت و استحکام
امیدوار صاحب الرائے ہو۔ پختہ اور مضبوط شخصیت کا مالک ہو۔محض دوسروں کی ہاں میں ہاں ملانے والا نہ ہو۔
ان شرائط کے بارے میں قرآن یوں شہادت فراہم کرتا ہے:
ان اللہ اصطفٰہ علیکم و زادہ بسطۃ فی العلم و الجسم (البقرہ 247:2)
اللہ تعالی نے اسے اقتدار کے لیے منتخب کر لیا اور اس اسے مقصد کے لیے علمی وسعت اور جسمانی وجاہت عطا فرمائی۔
5۔ حکمت و دانائی / تدبر و بصیرت
6۔ فیصلہ کن اور موثر بات کرنے کی صلاحیت( اظہار ما فی الضمیر کی قدرت)
ان شرائط کے بارے میں قرآن کہتا ہے
آاٰتینٰہُ الحکمۃ و فصل الخطاب (ص ، 20:38 )
اور ہم نے اسے (امور حکمرانی بہتر طور پر چلانے کے لیے) حکمت و دانائی اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔
تاکہ قوم کے نمائندے وہ اشخاص ہوں جو صاحبِ حکمت و بصیرت ہوں۔ معاملات کی صحیح سوجھ بوجھ رکھیں اور واضح پروگرام کے حامل ہوں۔ مزید برآں ان میں اپنا نقطہ نظر فیصلہ کن اور موثر طریقے سے پیش کرنے کی صلاحیت اور جرات بھی ہو۔ تاکہ صحیح معنوں میں حق نمائندگی ادا کر سکیں ورنہ وہ نمائندے محض کٹھ پتلی بنے رہیں گے اور اکثریتی طبقہ جمہوریت کی بنا پر آمریت قائم کرنے میں قائم ہوجائے گا۔
احادیث نبوی اور فقہ اسلامی کی تصریحات سے بھی ان امور کی تائید ہوتی ہے۔ لہذا ہر منصب اور عہدے کی اہمیت و عظمت کی مناسبت سے ان شرائط اہلیت کا معیار سربراہ مملکت سے لے کر عام ارکان پارلیمنٹ تک ہر ایک کے لیے بالترتیب متعین کیا جاسکتا ہے لیکن شرائط کا اصولی پیمانہ بہرحال وضع کر دیا گیا ہے۔
ان میں سے ایمان ، تعلیمی معیار ، سیرت و کردار اور اخلاق و شرافت کا کم از کم معیار وہ شرائط ہیں جنہیں امیدواروں کے طے کرنے کے لیے کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔ اس کا تفصیلی اور عملی طریقِ کار بھی آسانی سے وضع کیا جاسکتا ہے اور اس کا فیصلہ عدلیہ پر مشتمل انتخابی کمشن کر سکتا ہے اور بقیہ شرائط جن میں شخصی وجاہت و استحکام ، حکمت و دانائی ، معاملات کی سوجھ بوجھ اور اظہار ما فی الضمیر کی اہلیت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا تعین انتخابی کمشن کے بجائے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس امر کا فیصلہ کر سکیں کہ کون کی صحیح نمائندگی کرنے کا اہل ہے اور کون نہیں۔