جاسم محمد

محفلین
مولانا کی یہ بات پوری قوم کے دل کی آواز ہے
ان کا پلان تو یہی ہے کہ دو دن بعد اداروں کے خلاف زہر اگلا جائے۔ عام میڈیا تو نہیں دکھائے گا۔ ہاں سوشل میڈیا پر یہ سب وائرل ہو جائے گا۔ پھر ادارے مولانا کو گرفتار کریں یا چھوڑ دیں ان کی مرضی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
انتخابی اصلاحات میں بنیادی بات یہ ہے کہ الیکشن سے قبل امیدوار کی اہلیت کا جائزہ اور سکروٹنی۔ جس دن اس پر صحیح معنوں میں عمل ہوگیا پاکستان میں مثبت تبدیلی آجائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
انتخابی اصلاحات میں بنیادی بات یہ ہے کہ الیکشن سے قبل امیدوار کی اہلیت کا جائزہ اور سکروٹنی۔ جس دن اس پر صحیح معنوں میں عمل ہوگیا پاکستان میں مثبت تبدیلی آجائے گی۔
ووٹر کی سکروٹنی بھی ہونی چاہئے ۔ ایک پلیٹ بریانی یا قیمے والے نان پر ووٹ دینے والوں سے ووٹ ڈالنے کا حق واپس لے لینا چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک نیازی سب پہ بھاری!
Captur22e-1.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
ووٹر کی سکروٹنی بھی ہونی چاہئے ۔ ایک پلیٹ بریانی یا قیمے والے نان پر ووٹ دینے والوں سے ووٹ ڈالنے کا حق واپس لے لینا چاہئے۔
ووٹر کا حق اختیار ایک دفعہ کا ہے اور امیدوار کا حق اختیار منتخب ہوجانے کے بعد پانچ سال تکہے لہذا اہم یہی ہے کہ امیدواروں کی سکروٹنی اور اہلیت کا جائزہ لیا جائے اور ووٹر کے لیے 18 سال کا ہونا ہی اہلیت کا معیار ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آج وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان میں تقریر کے دوران کل کتنے الزامات مولانا پر لگائے کوئی ان کی فہرست بنا سکتا ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
آج وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان میں تقریر کے دوران کل کتنے الزامات مولانا پر لگائے کوئی ان کی فہرست بنا سکتا ہے؟
وزیر اعظم نے مولانا پر جو الزامات لگائے ان میں سے ایک الزام لگانا بھول گئے اور وہی مولانا کے آزادی مارچ کا بنیادی مقصد ہے۔ بوجھو تو جانیں!
 

آصف اثر

معطل
اس مارچ کے بعد فوج میں بیٹھے غیرملکی ایجنٹس آفیسرز کے لیے آئندہ انتخابات میں اپنے مقاصد حاصل کرنا مشکل تر ہوجائےگا۔ یہ بھی کافی ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس مارچ کے بعد فوج میں بیٹھے غیرملکی ایجنٹس آفیسرز کے لیے آئندہ انتخابات میں اپنے مقاصد حاصل کرنا مشکل تر ہوجائےگا۔ یہ بھی کافی ہوگا۔
جو سیاست دانوں کی ناکامی ہے اس کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرانا غلط ہے، ملک کی اصل ضرورت انتخابی اصلاحات ہے جس کی راہ میں کوئی فوجی آفیسر رکاوٹ نہیں۔ لیکن چونکہ اس سے سیاست دانوں کے مفادات پر زد پڑتی ہے لہذا وہ انتخابی اصلاحات نہیں کرتے۔
 

آصف اثر

معطل
جو سیاست دانوں کی ناکامی ہے اس کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرانا غلط ہے، ملک کی اصل ضرورت انتخابی اصلاحات ہے جس کی راہ میں کوئی فوجی آفیسر رکاوٹ نہیں۔ لیکن چونکہ اس سے سیاست دانوں کے مفادات پر زد پڑتی ہے لہذا وہ انتخابی اصلاحات نہیں کرتے۔
پچھلے انتخابات میں فوج کی جانب سے خوف ناک دھاندلی کی جانب اشارہ کیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پچھلے انتخابات میں فوج کی جانب سے خوف ناک دھاندلی کی جانب اشارہ کیا ہے۔
اگر فوج نے دھاندلی کی ہے تو اس کا مطلب ہے موجودہ پارلیمان میں موجود سب حکومتی سیاست دانوں دھاندلی میں شریک ہیں۔
لہذا وہ سب سیاست دان اس بات کے پہلے ذمہ دار ہیں۔
اگر فوج نے اس الیکشن میں دھاندلی کی ہے تو اس سے قبل والے الیکشنوں میں بھی دھاندلی کی ہوگی لہذا ان سب الیکشنز میں جیتنے والے سارے سیاست دان دھاندلی کے عمل میں شریک ہیں۔
یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ پھر سیاست دان کیسے معصوم ہوگئے ان کو کیسے اس دھاندلی کے عمل کا ذمہ دار نہ سمجھا جائے اور ان کو غیر ملکی ایجنٹ کیوں نہ کہا جائے؟
کیا سیاست دانوں نے انتخابی اصلاحات یعنی الیکشن سے قبل امیدوار کی اہلیت کی جانچ پڑتال اور سکروٹنی پر کچھ کام کیا ہے؟
وہ یہ کام کیوں کریں گے جس سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو!
ادھوری صداقت سے ادھورا نتیجہ اخذ ہوتا ہے ، صرف فوج پر لعن طعن کر کے آپ کامریڈ یا انقلابی نہیں بن سکتے ، سیاست دان بھی اس کوڑھ کی کاشت میں برابر کے شریک ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟

اگر یہ نظام ہے تو پھر بد نظمی کیا ہوتی ہے؟
وہ نام نہاد پاکستانی نظامِ جمہوریت کے دانش ور جو جمہوریت کا نام لیتے نہیں تھکتے اور پاکستان میں موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں ان سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ نظام ہے کیا؟ اگر اسی کا نام نظام ہے تو پھر بد نظمی کسے کہتے ہیں؟ آپ کس نظام کی بات کرتے جو قوم کو کرپشن، فراڈ، ناانصافی، جہالت، قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ دے اور اسے ذلت و رُسوائی سے ہم کنار کرے۔
اِنتخاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ ووٹر کو ووٹ ڈالتے ہوئے یہ پتہ ہو کہ میرے ووٹ سے کیا change آسکتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام اور طرزِ انتخاب ہے کہ اگر پارٹیوں کی پالیسیز میں کوئی فرق اگر ہے تو وہ گالیوں کا فرق ہے، دنگے فساد کا فرق ہے۔ وہ فرق برادری اِزم اور خاندانی وابستگیاں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو آج تک سیاسی طور پر پوجتے ہوئے ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں کسی منشور سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں شعور کا عالم یہ ہو اور یہ بھی کوئی نہ پوچھے اور نہ جانے اور سمجھے کہ ان پارٹیز کی پالیسیز میں کیا فرق ہے تو وہاں کس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے؟ پیپلز پارٹی 70ء میں جب پہلی بار آئی تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دور تھا، مسلم لیگیں اور دوسرے لوگ ایک طرف تھے۔ اس وقت نظریات کا ایک فرق ضرور تھا، بعد میں نتائج کیا آئے یہ الگ بحث ہے۔ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی اور ایک ڈائریکشن بنی، قومی پالیسی کا ایک نقشہ تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور جانے کے بعد آنے والے سب اَدوار دیکھ لیں ان میں سوائے الفاظ کے، نعروں کے، تقریروں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔ اب ترجیحات ہیں نہ پالیسیز ہیں اور نہ ہی پلاننگ۔ صرف ایک دوسرے کو گالی گلوچ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تہمتیں ہی پارٹیوں کا کل منشور ہے۔
کیا اس نظام سے آپ اِس ملک کو بچانا چاہتے ہیں؟ اِس سیاسی اور انتخابی روِش سے تبدیلی کی اُمید رکھتے ہیں کہ روشن سویرا طلوع ہو؟ خدارا! اِس سازش کو سمجھیں۔ ابھی تین چار سال میں جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا کیا یہ بھیانک مستقبل کی خبر نہیں دے رہا؟ اب پھر وہی پرانا میلہ لگے گا، ٹکٹیں بکیں گی، پارٹیاں میدان میں کودیں گی، جلسے شروع ہو جائیں گے اور لوگ جوش و خروش سے آجائیں گے، کہیں ایمانی جوش ہوگا تو کہیں جمہوری جوش ہوگا اور کہیں نظریاتی جوش ہوگا۔ بس پوری قوم دوبارہ بے وقوف بنے گی، الیکشن ہوگا، ووٹ ڈالیں گے، جب نتائج آئیں گے تو اِسی طرح کی ایک نئی پارلیمنٹ تمام تر خرابیوں کے ہمراہ دوبارہ آپ کے سامنے کھڑی ہوگی۔ Split mandate کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کے لیے پھر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گا اور قوم گئی جہنم میں! یہ ہے پاکستان کا نظام جمہوریت اور طرز انتخاب۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے قوم کو کیا دیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ آپ کون ہیں پوچھنے والے، ہمیں قوم نے mandate دیا ہے۔ لوگوں کے ووٹوں سے آئے ہیں۔ اگر ہم نے کچھ نہ دیا تو اگلے الیکشن میں قوم ہمیں مسترد کردے گی۔ اس جملے کے سوا سترہ کروڑ عوام کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ حالانکہ الیکشن کیا ہے؟ یہ دراصل 5 سال کے بعد اس قوم کو پھر سے بے وقوف بنا کر انہیں اس بات کا علم ہے کہ مروّجہ باطل سیاسی نظامِ اِنتخاب کے ہوتے ہوئے کسی میں ان کو مسترد کرنے کی طاقت نہیں۔ تبھی تو دس دس مرتبہ منتخب ہو کر تیس تیس سالوں سے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اے اہلیانِ پاکستان! جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا، ہمیں اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوگی اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا؛ سب کچھ لا حاصل ہے۔
تبدیلی کا صرف ایک راستہ ہے
عزیزانِ وطن! جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تبدیلی مسلح طاقت سے نہیں آسکتی، یہ دہشت گردی کا راستہ ہے۔ نہ فوج کے ذریعے آسکتی ہے کیونکہ یہ آمریت کا راستہ ہے اور نہ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے کیونکہ یہ کرپشن کھولنے کا راستہ ہے۔ اب آخری بات سن لیجیے! اگر قوم عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے، اس قوم کے نوجوان پڑھے لکھے لوگ وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بزرگوں کا حاصل کیا ہوا یہ وطنِ عزیز غیروں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس نظامِ انتخاب کے خلاف بغاوت کے لیے کھڑے ہو جایئے، یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اس نظامِ انتخاب کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کی مثالیں خلیج اور عرب ممالک کی حالیہ لہر میں موجود ہیں جس کے تحت مصر، لیبیا اور تیونس کے لوگوں نے تبدیلی کو ممکن بنایا۔ جس طرح ایران کے عوام نے شہنشاہیت کو رخصت کیا۔ یہ نظامِ انتخاب آپ کا رضا شاہ پہلوی ہے جس کے خلاف ایرانی قوم اٹھی تھی، یہ نظام انتخاب آپ کے ملک کا قذافی ہے جس کے خلاف لیبیا کی عوام اُٹھی، اِس نظام کے خلاف اُس طرح اُٹھیے جس طرح تیونس اور مصر کے لوگ اُٹھے اور عشروں سے قائم آمریت کا تختہ الٹ دیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟
  • اُس کے پاس علم ہے
  • دیانت ہے
  • سفید پوشی ہے اور ملک و قوم کا درد ہے
  • اس کے پاس دماغ ہے
  • صلاحیت ہے
  • deliver کرنے کی capability بھی ہے
یعنی وہ سارا کچھ ہے جس پر قوم فخر کر سکتی ہے۔

لیکن اس انتخابی نظام کے سامنے ان کی تمام صلاحیتیں صفر ہیں۔ حالانکہ اس ملک کی عوام میں talent کی کمی نہیں۔ اس میں امریکی قوم سے بھی بہتر talent ہے۔ خدا کا فضل ہے اس سرزمین پاکستان پر کہ یہاں کے ڈاکٹرز، انجینئرز، قانون دان، economists، sociologists وغیرہ مغربی اور یورپی اقوام سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں، کسی شعبے میں ہم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں لیکن نظام ہم سب کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہاں تو سیاست وہی کر سکتا ہے جس کے پاس طاقت ور گھوڑے یعنی winning horses ہوں۔
جہاں حکومت سازی کے لیے گھوڑوں کی سی مار دھاڑ پر مبنی طاقت درکار ہو وہاں دانش و حکمت اور علم و بصیرت وغیرہ کی کیا قدر ہوگی؟
فکر کی صلاحیت اور ذہنی قابلیت کو کتنا weight مل سکے گا؟

پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟ سے اقتباس
 

الف نظامی

لائبریرین
siasi-masaala.jpg

انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائطِ اہلیت کا مسئلہ
انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائط کا مسئلہ انتہائی اہم اور غور طلب ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت میں سربراہ ریاست سے لے کر ایک ادنی سرکاری اہلکار تک تمام عہدے اور ذمہ داریاں سراسر امانت کا درجہ رکھتی ہیں اور امانت کے بارے میں قرآن مجید کا اصولی حکم یہ ہے :
ان اللہ یامرکم ان تودو الامانات الیٰ اھلہا (النساء 58:4)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تمام قسم کی امانتیں صرف انہی لوگوں کےسپرد کی جائیں جو ان کو سنبھالنے کے اہل ہوں​
صاف ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت ، وزارت ، صدارت اور وزارت عظمی کے مناصب سے بڑی امانتیں اسلامی ریاست میں اور کیا ہو سکتی ہیں؟ لہذا ان کے لیے اسلام نے صراحت کے ساتھ امیدواروں کی شرائطِ اہلیت مقرر کی ہیں جن پر پورا اترنا بالترتیب ہر منصب کے امیدوار کے لیے ضروری بلکہ ناگزیر ہے ورنہ یہ اقدام امانت میں خیانت تصور ہوگا۔
قرآن حکیم سے اس سلسلے میں کم از کم 6 شرائط کا پتہ چلتا ہے
1- ایمان
غیر مسلموں کے لیے نشستوں کی تخصیص اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب اس اصول میں استثنی کا درجہ رکھتا ہے
2- عملِ صالح
کم از کم معیارِ سیرت و کردار جو اسلام کی رو سے عدالت میں قبول شہادت کے لیے ضروری ہے تا کہ ایسے امیدواروں کے منتخب ہونے سے ریاست کی نظریاتی خالصیت محفوظ ہو سکے اور اس میں اخلاق و شرافت کا نظام جاری کیا جا سکے۔
مندرجہ بالا دونوں شرائط درج ذیل آیت سے مستنبط ہوتی ہیں
وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصلحتِ لیستخلفنھم فی الارض (النور 55:24)
اللہ تعالی نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے ، وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں مستخق اقتدار ٹھہرائے گا۔
3-کم از کم معیار تعلیم
جو استعمالِ حق رائے دہندگی کے لیے ضروری ہے۔ رائے دہندہ کا اعلی تعلیم یافتہ یا دینی علوم میں ماہر ہونا ضروری نہیں۔ صرف اس قدر تعلیم ضروری ہے کہ جس سے معاملہ فہمی میں آسانی ہو سکے۔(مزید بسطۃ فی العلم و الجسم : قیادت اور علم)
4- شخصی وجاہت و استحکام
امیدوار صاحب الرائے ہو۔ پختہ اور مضبوط شخصیت کا مالک ہو۔محض دوسروں کی ہاں میں ہاں ملانے والا نہ ہو۔
ان شرائط کے بارے میں قرآن یوں شہادت فراہم کرتا ہے:
ان اللہ اصطفٰہ علیکم و زادہ بسطۃ فی العلم و الجسم (البقرہ 247:2)
اللہ تعالی نے اسے اقتدار کے لیے منتخب کر لیا اور اس اسے مقصد کے لیے علمی وسعت اور جسمانی وجاہت عطا فرمائی۔
5۔ حکمت و دانائی / تدبر و بصیرت
6۔ فیصلہ کن اور موثر بات کرنے کی صلاحیت( اظہار ما فی الضمیر کی قدرت)
ان شرائط کے بارے میں قرآن کہتا ہے
آاٰتینٰہُ الحکمۃ و فصل الخطاب (ص ، 20:38 )
اور ہم نے اسے (امور حکمرانی بہتر طور پر چلانے کے لیے) حکمت و دانائی اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔
تاکہ قوم کے نمائندے وہ اشخاص ہوں جو صاحبِ حکمت و بصیرت ہوں۔ معاملات کی صحیح سوجھ بوجھ رکھیں اور واضح پروگرام کے حامل ہوں۔ مزید برآں ان میں اپنا نقطہ نظر فیصلہ کن اور موثر طریقے سے پیش کرنے کی صلاحیت اور جرات بھی ہو۔ تاکہ صحیح معنوں میں حق نمائندگی ادا کر سکیں ورنہ وہ نمائندے محض کٹھ پتلی بنے رہیں گے اور اکثریتی طبقہ جمہوریت کی بنا پر آمریت قائم کرنے میں قائم ہوجائے گا۔
احادیث نبوی اور فقہ اسلامی کی تصریحات سے بھی ان امور کی تائید ہوتی ہے۔ لہذا ہر منصب اور عہدے کی اہمیت و عظمت کی مناسبت سے ان شرائط اہلیت کا معیار سربراہ مملکت سے لے کر عام ارکان پارلیمنٹ تک ہر ایک کے لیے بالترتیب متعین کیا جاسکتا ہے لیکن شرائط کا اصولی پیمانہ بہرحال وضع کر دیا گیا ہے۔
ان میں سے ایمان ، تعلیمی معیار ، سیرت و کردار اور اخلاق و شرافت کا کم از کم معیار وہ شرائط ہیں جنہیں امیدواروں کے طے کرنے کے لیے کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔ اس کا تفصیلی اور عملی طریقِ کار بھی آسانی سے وضع کیا جاسکتا ہے اور اس کا فیصلہ عدلیہ پر مشتمل انتخابی کمشن کر سکتا ہے اور بقیہ شرائط جن میں شخصی وجاہت و استحکام ، حکمت و دانائی ، معاملات کی سوجھ بوجھ اور اظہار ما فی الضمیر کی اہلیت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا تعین انتخابی کمشن کے بجائے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس امر کا فیصلہ کر سکیں کہ کون کی صحیح نمائندگی کرنے کا اہل ہے اور کون نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کا موجودہ نظام حکومت 1850ء میں انگریز کا قائم کردہ نظام ہے جس میں اِختیارات صرف چند اَفراد کے ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسا نظامِ حکومت چاہتے ہیں جس کا ماڈل حضور نبی اکرم نے دیا تھا۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ ہے۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو ریاست بنایا تو participatory democracy (شراکتی جمہوریت) دی اور devolution of power کے ذریعے اِختیارات کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر اُن کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر اُن کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی اور تمام اِختیارات آقا نے نیچے منتقل کر دیے۔ عام آدمی کی براہِ راست حکمرانوں تک رسائی تھی اور حکمرانوں کا براہِ راست عوام سے رابطہ تھا اور لوگوں کے مسائل فوری حل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کو اُس مدینہ ماڈل کے مطابق بنایا جائے۔

میں اہم تبدیلیاں suggest کر رہا ہوں۔ ان کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس نظام کو چھوڑنا ہو گا، اس نظام سے نکلنا ہو گا۔
اتنا بڑا شرم ناک تماشا اختیارات کو جمع کرنے کا دنیا میں کہیں نہیں۔
میں نے ساری دنیا کا حکومتی نقشہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ دنیا کے سارے ممالک نے اختیارات چالیس چالیس، پچاس پچاس، ستر سترصوبے بنا کے نیچے تقسیم کر دئیے، مرکز کے پاس امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر، ساڑھے انیس ہزار لوکل گورنمنٹس پورا امریکہ 1900 مئیر، ناظم چلا رہے ہیں؛ اوبامہ نہیں چلا رہا۔ اوباما امریکہ کے اوپر کے معاملات کو دیکھتا ہے، ملک عوام کے حقوق کو مئیر چلاتے ہیں۔ یہی نظام ترکی کا، یہی نظام جاپان کا، یہی چائنہ کا، یہی ایران کا، یہیں ملائشیا کا سب ملکوں کا یہی نظام۔ ہمارے چار صوبے تا کہ گردنیں اکڑی رہیں، اختیارات بڑھیں۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تماشا بنا رکھا ہے اور اختیارات یا مرکز کے پاس یا بڑے بڑے چار صوبوں کے پاس، عوام کلیتاً محروم۔ جس نے رحیم یار خان اور صادق آباد سے چلنا ہے وہ عدل و انصاف لینے کے لیے لاہور آئے، ظلم کی انتہا ہے۔ راجن پور سے چلنے والا لاہور آئے۔ بلوچستان کے اندرون سے چلنے والا کوئٹہ جائے، اندرون سندھ سے جانے والا کراچی جائے۔

میں جو ویژن دینا چاہتا ہوں پاکستان کیا نیا ماڈل اس میں پاکستان کے کم سے کم 35 صوبے ہونے چاہئے۔ جب تک 35 صوبے، مطلب ہر ڈویژن صوبہ ہو گا اور فاٹا بھی صوبہ بنے گا، پانا بھی صوبہ بنے گا۔ ہر ڈویژن کو صوبہ اور کمشنر کا فنڈ اس صوبے کے گورنر کو دے دیا جائے، دنیا کے کسی ملک میں انڈیا کے سوا، کسی صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا۔ کسی صوبے میں صوبائی وزراء نہیں ہوتے پاکستان کے صوبوں سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا تا کہ ارب ہا روپے کے فنڈ جو حرام خوری، عیاشی اور سرکاری پروٹوکول پہ جاتے ہیں وہ براہ راست غریبوں میں تقسیم ہو سکیں اور صوبے کا گورنر کمشنر کی جگہ اور ضلعے پر مئیر ہو گا، وی سی کمشنر ختم کر دئیے جائیں اور تحصیل پر ڈپٹی میئر ہوگا۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کے حکمران۔

اور مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہونے چاہیے تا کہ مرکز کی عیاشی بھی ختم کی جائے: صرف سٹیٹ بینک اور کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائیر ایجوکیشن، اِن لینڈ سکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررزم تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ اس طرح کے چند محکمے، پانچ سے سات محکمے مرکز کے پاس باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل کر دئیے جائیں اور صوبوں کے بعد پھر وہ سارے محکمے ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔ ٹرانسپورٹ بھی ضلعی حکومت کے پاس، پانی، بجلی، سوئی گیس، واٹر، فوڈ، ایجوکیشن، میڈیکل، سکیورٹی، سڑکیں، پولیس سب اختیارات ضلعی حکومتوں کو دے دئیے جائیں تا کہ وہاں کے ٹیکس وہاں لگیں اور لوگوں کو براہ راست داد رسی مل سکے۔ اور یہ فراڈ بڑے بڑے حکمرانوں کا ختم کر دیا جائے، ان بتوں کو پاش پاش کر دیا جائے۔


http://ur.minhaj.org.pk/wiki/پاکستان_کے_روشن_اور_مستحکم_مستقبل_کا_اِنقلابی_لائحہ_عمل
 

الف نظامی

لائبریرین
جمہوریت کے اجزائے ترکیبی:
ہر پانچ سال بعد الیکشن ہو جانا جمہوریت نہیں ہے بلکہ
جمہوریت =الیکشن + بنیادی حقوق+ جان کا تحفظ + روزگار + ریاستی فیصلوں میں عوام کا دخل + سوشل سیکیورٹی + مساوات + آزاد عدلیہ + آزاد میڈیا + طاقت ور اور کمزور کا فرق ختم ہونا + گڈ گورننس
 

الف نظامی

لائبریرین
جمہوریت-Democracy

ہمارے ہاں بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کا معنیٰ و مفہوم بگاڑ دیا گیا ہے اور اسے محض سیاسی اور انتخابی آمریت کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جمہوریت کا پورا معنیٰ اور مفہوم اس کی ضرورت و مقاصد مکمل طور پر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں کہ یہ ہے کیا نظام؟

جمہوریت کی اقسام:-
کامل جمہوریت:
جس میں جمہوریت اپنے صحیح معنیٰ و مفہوم کے ساتھ اور اپنی روح کے ساتھ اور اپنے مقاصد کے ساتھ موجود ہے اسکو کامل جمہوریت کہتے ہیں

ناقص جمہوریت:
کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان میں کچھ چیزیں ڈیموکریٹک ہیں‘ کچھ چیزیں آمرانہ ہیں گویا اس کے اندر مکسچر ہے کچھ جمہوری اقدار و روایات کا اور کچھ حصہ آمرانہ روایات و اقدار کا ہے۔

ہائبرئیڈ ریجیمز (انتخابی آمریت):
یہ ناقص جمہوریت سے بھی نیچے کا درجہ ہے ، اس کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں ایک سیاسی آمریت قائم ہو جاتی ہے۔

ہائبرئیڈ ریجیمز یہ بالکل گرا ہوا آخری درجہ ہے ، یہ ان ریاستوں کا ہے جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر الیکشن کے ذریعے جو سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں اُن کا طرز عمل آمرانہ ہوتا ہے۔ یعنی جمہوریت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ عوام صرف پانچ سال کے بعد پرچی ڈالتے ہیں ووٹ کی اور بس ! اس کے علاوہ کوئی حق عوام کو نہیں پہنچتا جو جمہوریت انہیں دینا چاہتی ہے ۔اس لیے اس Hybrid Regimes کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ پاکستان درجہ بندی کے حساب سے ہائبرئیڈ ریجیمز میں آتا ہے

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے محقق اینڈریس شیڈلر کے مطابق انتخابی آمریت ایک فوگی زون( Foggy Zonee ) ہے ، دھندلا علاقہ ہے جہاں جمہوریت کا سورج نظر نہیں آتا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف انتخابی عمل کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں اور پوری دنیا اس کو جھوٹ کہتی ہے ، اس کو فراڈ کہتی ہے کہ محض الیکٹورل پراسیس ، چار یا پانچ سال کے بعد الیکشن میں چلے جانا ، محض یہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت ایک پورا نظام ہے۔

اگر جمہوریت کے دس بنیادی حصے کر دیں تو اس میں ایک جزو الیکشن بھی ہے اور الیکشن کیا ہے اِس جمہوریت میں؟ انتقالِ اقتدار کے لیے الیکشن ایک پر امن جمہوری آلہ ہے ،ایک ٹول ہے۔ تو الیکشن ایک جزو ہے۔ انتخابات ساری جمہوریت نہیں ہے ، 9 اجزا اور ہیں وہ سارے پائے جائیں تو اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔

Elections have been an instrument of authoritarian control well as a means of Democratic Government
سٹینفورڈ یونیورسٹی امریکہ کےپروفیسر لیری ڈائمنڈ جو پولیٹیکل سائنس پرایک اتھارٹی ہیں، نے اسی چیز کو اپنے آرٹیکل

Elections without Democracy : Thinking About Hybrid Regimes

میں واضح طور پر بیان کیاہے ۔
وہ کہتا ہے:
دنیا میں ایسے ممالک ہیں کہ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر عوام کو جمہوریت نہیں ملتی۔ اکا دکا جمہوری چیزیں وہ کر دیتے ہیں مثلاً پریس کو آزادی دے دینا ، میڈیا کوایک آدھ چیز دے کروہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ ہم نے پریس کو آزادی دے رکھی ہے ، مگر عوام کو اس جمہوریت سے کیا ملا ہے؟
  • ان کو بنیادی حقوق ملےہیں؟
  • ان کو جان کا تحفظ ملا ہے؟ روزگار ملا ہے؟
  • ریاستی فیصلوں میں عوام کا دخل ہو گیا ہے؟
  • ان کو سوشل سکیورٹی ملی ہے؟

یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو جمہوریتوں میں پائی جاتی ہیں۔جمہوریت میں ایک غریب آدمی بھی عدالت میں چلا جائے مغربی دنیا میں ، جمہوریت میں اور مقابلے میں امیر شخص ہو تو وہاں امیر اور غریب عدالت پہ اثر انداز نہیں ہو سکتے۔تو وہاں قانون کی بالادستی ہے۔
جمہوریت یہ کلچر دیتی ہے ، عوام کو یہ چیزیں ملتی ہیں ، روزگار ملتا ہے ، صحت ، تعلیم کی سہولیات دیتے ہیں. یہ نہ ہو کہ پانی،بجلی ، گیس سے عوام محروم ہوں تو اس کو جمہوریت کوئی نہیں کہتا۔ یہ جو شور ہے کہ جمہوریت ہونی چاہئے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جمہوریت ہے کیا؟

( ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک تقریر سے ماخوذ اقتباس ، تلخیص و تہذیب شدہ )
 
Top