یہ سپورٹ چھن بھی سکتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ ڈجی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان حکومت کے دفاع میں نہ تھا، بلکہ، بطور ادارہ فوج کے دفاع میں تھا۔ دھرنا سمٹ گیا تو الگ بات، وگرنہ، فوج شاید خود کو تا دیر سیاست میں ملوث نہ رکھ پائے گی۔ بہتر ہو گا کہ اب تحریکِ انصاف اس دھرنے سے سیاسی انداز میں نپٹے۔ یقین جانیے کہ اگر خان صاحب نے 2014ء کے دھرنے میں کچھ غلط مثالیں قائم نہ کی ہوتیں، تو آج، وہ اس سے زیادہ مضبوط اخلاقی پوزیشن میں ہوتے۔ تب بھی یہ بات ان کے گوش گزار کی گئی تھی تاہم اقتدار کے لیے اُن کی تڑپ بھی دیدنی تھی۔ اس وقت وہ عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہیں۔ اقتدار بچانے کے لیے وہ فوج کو اپنا معاون سمجھتے ہیں؛ یہ محض ایک خوش فہمی ہے۔ جلد یا بدیر، یہ ادارہ اپنی پوزیشن کو امکانی طور پر کسی حد تک یا کافی حد تک بدل لے گا۔ خان صاحب کو دعا کرنی چاہیے کہ سردی سے گھبرا کر دھرنا منتشر ہو جائے وگرنہ آنے والے دنوں میں انہیں انتہائی سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ترجمان فوج کے بیان کو اس تناظر میں دیکھا جائے۔
حیرت کی بات ہے کہ فوج نے خود ہی سیاست دانوں کو اس موضوع پر بولنے کے لیے جواز فراہم کر دیا۔ افسوس، اس ادارے کو کیسے ترجمان مل گئے! فوج یہ دھرنا زور زبردستی سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے الا یہ کہ دھرنا خود ہی سمٹ جائے۔ اگر ریاست حرکت میں آ کر اس دھرنے کو سمیٹے گی تو پھر، اس کا ردعمل، ہر شہر میں دکھائی دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دھرنا کافی پلاننگ کے بعد دیا گیا ہے۔ یہ عمران خان کی حکومت کی سیاسی دانش کا امتحان ہے کہ وہ اس بحران سے کیسے نپٹتے ہیں۔فوج نے مولانا کے دھرنے سے ہوا نکال دی
ایسا نہیں ہے۔ کل مولانا نے اداروں کو دھمکی دی تھی کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ماضی میں جب فوج حکومت کاساتھ نہیں دیتی تھی تو یہی اپوزیشن کا گلدستہ میمو گیٹ اور ڈان لیکس سکینڈل کر کے افواج پاکستان کو بدنام کرتا تھا۔ اب جب کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے تو یہ چاہتا ہے کہ فوج حکومت کا ساتھ ختم کر دے۔ مضحکہ خیز۔حیرت کی بات ہے کہ فوج نے خود ہی سیاست دانوں کو اس موضوع پر بولنے کے لیے جواز فراہم کر دیا۔ افسوس، اس ادارے کو کیسے ترجمان مل گئے!
آپ کو ایسا لگ رہا ہے؛ ہمیں بیان پڑھ کر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ فوج عمران خان کا ساتھ نبھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ بین السطور مفاہیم پر توجہ دیجیے۔ایسا نہیں ہے۔ کل مولانا نے اداروں کو دھمکی دی تھی کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ماضی میں جب فوج حکومت کاساتھ نہیں دیتی تھی تو یہی اپوزیشن کا گلدستہ میمو گیٹ اور ڈان لیکس سکینڈل کر کے افواج پاکستان کو بدنام کرتا تھا۔ اب جب کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے تو یہ چاہتا ہے کہ فوج حکومت کا ساتھ ختم کر دے۔ مضحکہ خیز۔
اگر عمران خان کو فوج نے منظر سے ہٹا دیا تو بھی تحریک انصاف کو کچھ فرق نہ پڑے گا۔ مولانا کے دھرنے نے خود ثابت کیا ہے کہ ساری اپوزیشن ایک طرف اور ایک اکیلی تحریک انصاف دوسری طرف کھڑی رہتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ 2014 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا جب تحریک انصاف کا دھرنا تھا اور تمام جماعتیں اس کے خلاف اکٹھی ہو گئی تھیں۔ عوام سب دیکھ رہی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف عمران خان نے 22 سال جدو جہد کی۔ وہ لوگ 1 سال بعد ہی ان کی حکومت گرانے آ گئے ہیں۔یہ سپورٹ چھن بھی سکتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ ڈجی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان حکومت کے دفاع میں نہ تھا، بلکہ، بطور ادارہ فوج کے دفاع میں تھا۔ دھرنا سمٹ گیا تو الگ بات، وگرنہ، فوج شاید خود کو تا دیر سیاست میں ملوث نہ رکھ پائے گی۔ بہتر ہو گا کہ اب تحریکِ انصاف اس دھرنے سے سیاسی انداز میں نپٹے۔ یقین جانیے کہ اگر خان صاحب نے 2014ء کے دھرنے میں کچھ غلط مثالیں قائم نہ کی ہوتیں، تو آج، وہ اس سے زیادہ مضبوط اخلاقی پوزیشن میں ہوتے۔ تب بھی یہ بات ان کے گوش گزار کی گئی تھی تاہم اقتدار کے لیے اُن کی تڑپ بھی دیدنی تھی۔ اس وقت وہ عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہیں۔ اقتدار بچانے کے لیے وہ فوج کو اپنا معاون سمجھتے ہیں؛ یہ محض ایک خوش فہمی ہے۔ جلد یا بدیر، یہ ادارہ اپنی پوزیشن کو امکانی طور پر کسی حد تک یا کافی حد تک بدل لے گا۔ خان صاحب کو دعا کرنی چاہیے کہ سردی سے گھبرا کر دھرنا منتشر ہو جائے وگرنہ آنے والے دنوں میں انہیں انتہائی سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ظاہر ہے ترجمان فوج کھل کر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ غالبا پچھلے سال الیکشن سے قبل ان کے منہ سے نکل گیا تھا کہ "یہ تبدیلی کا سال ہے"آپ کو ایسا لگ رہا ہے؛ ہمیں بیان پڑھ کر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ فوج عمران خان کا ساتھ نبھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ بین السطور مفاہیم پر توجہ دیجیے۔
اِس وقت عوامی حمایت خان صاحب کے لیے اِس قدر نہ ہے۔ اگر وہ اس دھرنے کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو شاید جلد دوبارہ اُبھر نہ پائیں گے۔ یوں بھی، پہلے اُنہیں آزمایا نہ گیا تھا۔ کیا فائدہ! بائیس سالہ جدوجہد کے بعد بھی، فوج پر اس قدر بھروسا کہ دھرنے سے نپٹنے کے لیے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی طور پر مضبوط شخصیت کو ایسا بیان داغنا نہیں چاہیے تھا۔ دراصل، پاکستان میں تن تنہا کچھ کر لینا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہاں مل جل کر ہی بہتری کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔اگر عمران خان کو فوج نے منظر سے ہٹا دیا تو بھی تحریک انصاف کو کچھ فرق نہ پڑے گا۔ مولانا کے دھرنے نے خود ثابت کیا ہے کہ ساری اپوزیشن ایک طرف اور ایک اکیلی تحریک انصاف دوسری طرف کھڑی رہتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ 2014 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا جب تحریک انصاف کا دھرنا تھا اور تمام جماعتیں اس کے خلاف اکٹھی ہو گئی تھیں۔ عوام سب دیکھ رہی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف عمران خان نے 22 سال جدو جہد کی۔ وہ لوگ 1 سال بعد ہی ان کی حکومت گرانے آ گئے ہیں۔
یہ محترم آصف غفور کی بے وقت بولنے کی عادت ہے جو بعد میں ادارے کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ دھرنا سمٹ سکتا ہے، بس، کچھ دن کڑوی کسیلی ٹیبلٹس کھا لیں۔ دھرنے بازوں کو بھی دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا جائے۔ظاہر ہے ترجمان فوج کھل کر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ غالبا پچھلے سال الیکشن سے قبل ان کے منہ سے نکل گیا تھا کہ "یہ تبدیلی کا سال ہے"
اس کے بعد سے دبے چھپے لفظوں میں حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اور کل مولانا کی دھمکیوں کے بعد "چنتخب حکومت" کی کھل کر حمایت کی ہے۔
غالبا عمران خان کپتانی کے اصولوں کے تحت دھرنا اٹھانے کا کام انہی قوتوں سے لینا چاہتے ہیں جو ماضی میں دھرنے انجینئر اور ڈفیوز کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ فیض آباد والا دھرنا تو یاد ہوگا جب آرمی نے مظاہرین کو نوٹ دے کر منتشر کیا تھا؟اِس وقت عوامی حمایت خان صاحب کے لیے اِس قدر نہ ہے۔ اگر وہ اس دھرنے کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو شاید جلد دوبارہ اُبھر نہ پائیں گے۔ یوں بھی، پہلے اُنہیں آزمایا نہ گیا تھا۔ کیا فائدہ! بائیس سالہ جدوجہد کے بعد بھی، فوج پر اس قدر بھروسا کہ دھرنے سے نپٹنے کے لیے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی طور پر مضبوط شخصیت کو ایسا بیان داغنا نہیں چاہیے تھا۔
یہاں نوٹ نہیں، ووٹ بھی ہیں اور بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ دھرنا واقعی سمٹ سکتا ہے، مگر، کچھ عرصہ تک، متعلقہ اداروں کو خاموش رہنا ہو گا۔غالبا عمران خان کپتانی کے اصولوں کے تحت دھرنا اٹھانے کا کام انہی قوتوں سے لینے چاہتے ہیں جو ماضی میں دھرنے انجینئر اور ڈفیوز کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ فیض آباد والا دھرنا تو یاد ہوگا جب آرمی نے مظاہرین کو نوٹ دے کر منتشر کیا تھا؟
Right man for the right job
2014 میں پی ٹی آئی دھرنے کے وقت بھی ترجمان فوج کی یہی پوزیشن تھی کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس وقت یہ جمہوریے کیوں نہیں چیخے چلائے؟بہت حیرت ہوتی ہے جب غفور مامے فوج کو غیر جانبدار کہہ رہے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس اس بات پہ کہ جاسم جیسے بندے اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔۔
حالانکہ الیکشن کے ویڈیوز سب نے دیکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ توبہ
2014 میں پی ٹی آئی دھرنے کے وقت بھی ترجمان فوج کی یہی پوزیشن تھی کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس وقت یہ جمہوریے کیوں نہیں چیخے چلائے؟
بالکل۔ تحریک انصاف دھرنے کے وقت فوج ن لیگ حکومت کے پیچھے کھڑی تھی۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا کہ ترجمان فوج نے اس وقت ایسا بیان کیوں دیا۔ آج جب فوج تحریک انصاف حکومت کے پیچھے کھڑی ہے تو سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔جو میں نے کہا یہ اس کا جواب ہے ؟؟؟