آزادی مارچ: حکومت اور اپوزیشن کے موقف میں مزید سختی
حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا جبکہ رہبر کمیٹی نے کہا ہے وزیر اعظم نہ گئے تو حزب اختلاف کے پارلیمان میں استعفے، پورے ملک کے لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن کا آپشن زیر غور ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو
ہفتہ 2 نومبر 2019 23:30
آزادی مارچ میں شامل جے یو آئی ۔ف کی رضاکار فورس کے کارکن (اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے معاملے پر آمنے سامنے آگئی ہیں اور بظاہرایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف سیاسی تناؤ ختم کرنے کے لیے حل موجود نہیں۔
ہفتے کو حزب اختلاف نے اسلام آباد میں ا حتجاج جاری رکھنے اور حکومت نے اس سے نمٹنے سے متعلق سخت فیصلے اور اعلانات کیے۔
اسلام آباد میں ہفتے کی شام تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کے الگ الگ اجلاس ہوئے، جن میں وفاقی دارالحکومت میں اپوزیشن کے جاری احتجاج سے متعلق اہم فیصلے ہوئے۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
ان کے مطابق کور کمیٹی اس بات پر متفق تھی کہ ملک میں کوئی ایسے حالات نہیں ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں یا نئے انتخابات کرائے جائیں۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا حکومت حزب اختلاف کے احتجاج سے خوف زدہ نہیں، وہ جب تک چاہیں احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ف)اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے درمیان آزادی مارچ سے متعلق معاہدہ ہوا ہے اور اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو انتظامیہ خود بخود حرکت میں آئے گی۔
انہوں نے کہا پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف رواں دواں ہے اور حکومت یا وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔
دوسری طرف ،حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کے سربراہ محمد اکرم خان درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبے پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران خان اور بعض وفاقی وزرا کے اپوزیشن سے متعلق حالیہ بیانات کے بعد حکومت سے مذاکرات کی وجہ باقی نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا حکومتی عہدے داروں کو اپوزیشن رہنماؤں سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کی لیڈر شپ سے متعلق بیانات میں بہتری آنےکے بعد ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
رہبر کمیٹی میں لیے گئے فیصلوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ کئی آپشنز پر گفتگو ہوئی، جن میں حزب اختلاف کے پارلیمان میں استعفے، پورے ملک کا لاک ڈاؤن اور ملک بھر میں شٹر ڈاؤن شامل ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا رہبر کمیٹی کے اجلاس میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندے یہ تجاویز اپنی اپنی جماعتوں کے پاس لے کر جائیں گے۔
اکرم درانی کا کہنا تھا احتجاج سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل رکن جماعتوں کا جواب آنے کے بعد کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے آج جلسہ گاہ پر موجود اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا عمران خان اب ملک کے حکمران نہیں رہے۔
’میں عمران خان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ پاکستان کے حکمران نہیں رہے، اب اس ملک کو ہم چلائیں گے، اب آپ کی رٹ ختم ہو چکی، کرسی پر بیٹھے رہنے سے کوئی حکمران نہیں بنتا۔‘
اپنے آزادی مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر منتقل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا ہے۔
’ہم جانتے ہیں حکومتی انتظامیہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی رو سے معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ حالات خراب نہیں کرنا چاہتے اور آج رہبر کمیٹی نے اتفاق کیا ہے کہ ڈی چوک تک جانا تجاویز میں شامل ہے۔
پاکستان میں سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات ڈیڈ لاک کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔
سینیئر صحافی مظہر عباس نے کہا دونوں اطراف سے درمیانی راستے کی بات نہیں ہو رہی ہے، بلکہ معاملات کو مزید گمبھیر بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا پرویز خٹک کو کور کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے تھی، اس مقصد کے لیے کسی دوسرے وزیر یا معاون خصوصی کو آگے لانا چاہیےتھا۔
ان کا خیال تھا کہ پرویز خٹک کی میڈیا گفتگو سے تلخیوں میں اضافہ ہوا ، جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا اسلام آباد میں اتنا بڑا اجتماع موجود ہے اور اتنے زیادہ لوگوں کو سنبھالنا انتظامیہ کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
سینیئر صحافی سلیم صافی کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمٰن ایک غلط کام دوسرے غلط کام سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا دھرنوں اور احتجاجوں کے ذریعے حکومتوں کو ہٹانے کی کوشش کرنا بالکل غلط ہے۔
سلیم صافی کے خیال میں حکومت میں موجود بعض لوگ اس صورت حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت عدالت جا رہی ہے
وفاقی حکومت نے مولانافضل الرحمٰن کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم عمران خان کے گھر گھس کر انہیں گرفتار کرنے سے متعلق بیان کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پرویز خٹک نے میڈیا کو بتایا کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کو لوگوں کو اکسانے اور بغاوت کے مترادف سمجھتی ہے، لہذا اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وکلا سے مشاورت ہورہی ہے اور پیر کو عدالت میں درخواست جمع کروا دی جائے گی۔
تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا وزیر اعظم کی گرفتاری سے متعلق بیان غداری یا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل عمران شفیق کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمٰن نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو مظاہرین کے ساتھ مل کر گرفتار کریں گے۔
انہوں نے کہا خواہش کا اظہار قانونا ًغداری یا بغاوت کے زمرے میں نہیں آسکتا۔
بیرسٹر مسرور شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بغاوت یا غداری کسی وردی میں ملبوس ادارےسے متعلق ایسے بیان کو کہا جائے گا۔
انہوں نے کہا مولانا فضل الرحمٰن نے جس قسم کی گرفتاری کا ذکر کیا ہے، اسے سول گرفتاری کہا جاتا ہے۔
بیرسٹر مسرور شاہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا جرم ہوتے دیکھ کر کوئی بھی شہری جرم کرنے والے کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر سکتا ہے۔
ایسی گرفتاری کو سول ارسٹ کہا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن بھی جب وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا ذکر کرتے ہیں تو یقیناً ان کا مطلب یہی ہے کہ گرفتار کر کے وزیر اعظم کو کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کیا جائے گا۔