پی ایچ ڈی کیلئے کسی منظور شدہ موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ اور اس مقالے میں بیان کی گئی ہر بات کا ریفرنس دینا ہوتا ہے۔۔۔ اب ایک شخص کی زندگی کسی موضوع کو پڑھنے اور پڑھانے میں گذری ہو اور اس نے پہلے سے اسکا کافی گہرائی سے مطالعہ کیا ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر وہ چند دنوں میں ہی ایک تحقیقی مقالہ لکھ ڈالے۔۔۔ ۔5 سال وغیرہ کی مدت کا تعلق فیلڈ سے بھی ہوتا ہے۔۔اب ایک سائنسدان لیبارٹری میں تجربات کر رہا ہے اور سالہا سال کے تجربات کا نچوڑ اپنے تحقیقی مقالے میں پیش کرتا ہے اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی سے کوئی صاحب ہیر وارث شاہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کلام میں پائی جانے والی مثالوں، ضرب الامثال، اس زمانے کا پنجاب کا کلچر، داستان کے کرداروں کا تاریخی پس منظر، وارث شاہ کے حالاتِ زندگی اور ہیر وارث شاہ پر مختلف زمانوں میں دی جانے والی آراء اور فوک کلچر پر اسکے اثرات کو باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ ایک کتاب میں درج کریں تو وہ بھی وارث شاہ پر پی ایچ ڈی کے حقدار ہوجاتے ہیں۔۔۔
مقالہ پی ایچ ڈی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ کل پی ایچ ڈی نہیں ہے۔ ایک طویل کورس ورک ، سیمینارز میں اپنے مسلسل تحقیقی کام کو پیش کرنا ، اس پر ہونے والی اکیڈیمک تنقید سے اپنی تحقیقی کو بتدریج اگلے مرحلہ پر لے کر جانا ، پھر آخری جامعہ مقالہ لکھنا ، اسے پھر سیمنارز میں پیش کرنا ،
اور پھر سب سے اہم مرحلہ کہ مقالہ اس قابل ہو کہ Peer Review پاس کر سکے۔ ایک اچھی تحقیق دو ماہ میں پئیر ریو نہیں ہوسکتی کجا یہ کہ مولانا نے پوری پی ایچ ڈی دے ماری۔
جس کتاب کی مثال آپ نے دی اگر یہ ثابت نہ ہوسکے کہ محقق نے کوئی نئی معقول بات بیان نہیں کی، تو مقالہ پئئر ریو اور اشاعت کے قابل نہیں ٹھہرتا۔ اس پر پی ایچ ڈی کیا ملے ، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اور ایسی عبرتناک مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔
تحقیق کا معیار کس چڑیا کا نام ہے ، اسے ابھی جانے دیں۔