بھیا ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ آگ کا کھیل دیکھا جب واقعہ علی گڑھ کے بعد رات بھر خون کے عطیات مانگے گئے اور آگ اور خون میں کراچی کا برُا حال ہوتا ہم اُس وقت نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے ۔۔۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہماری تاریخ اس طرح کے مظالم سے بھری پڑی ہے ۔ اور ان کا جتنا بھی رونا رویا جائے کم ہے۔
ہم مہاجروں کا تو ویسے بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔ لیکن اسی سندھ میں سندھی بولنے والے صحرائے تھر میں کیسی بد ترین زندگی گزار رہے ہیں اور اُن کے اوپر اُنہیں کے ہم زبان حکمران ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ سادہ لوح لوگ انہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک تو لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور پھر اُن کی محرومیوں کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے آلہء کار بنالیا جاتا ہے۔ ہمارے کتنے ہی لوگوں نے قومی اور لسانی تعصب کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی اپنی زندگیاں تباہ کر دیں۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ اُن کو اس راہ پر ڈالنے والے تو سراسر دنیا ہی کمانے نکلے تھے ۔
لسانی اور علاقائی تقسیم عوام کو کبھی سُکھ نہیں دیتیں۔ بس یہ سیاسی لوگوں کی سیاست چمکانے کی دوکانیں ہیں اور لوگوں کو تقسیم کرکے حکومت کرنے کا طریقہ !