محمد یعقوب آسی
محفلین
سنا ہے آج کل ان کے پاس سرخ روشنائی نہیں ہے۔ واللہ اعلم
سرخ روشنائی پر ایک شگوفہ یاد آیا:
سوویت یونین کے زمانے کی بات ہے۔ دو امریکیوں نے سوچا کہ روس میں جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ ایک پہلے جائے گا، وہاں کے حالات لکھے گا اور اس کی بنیاد پر دوسرا کوئی فیصلہ کرے گا۔ ڈاک کے سنسر کو غچہ دینے کے لئے طے پایا کہ خط اگر نیلی روشنائی سے لکھا ہو گا تو جو لکھا وہ سب سچ ہے، اگر سرخ سے لکھا ہو گا تو جو لکھا اس کے الٹے معانی لئے جائیں۔
ایک کسی نہ کسی طور روس پہنچ گیا۔ مہینہ بھر بعد دوسرے کو پہلے کا خط ملا، جو نیلی روشنائی سے لکھا تھا۔ خلاصہ کچھ یوں تھا:
یہاں شہریوں کے علاوہ غیرملکیوں کی بھی بہت موج ہے، کہیں آنے جانے پر کوئی پوچھ تاچھ نہیں، اور کسی طرح کی کوئی نگرانی نہیں کی جاتی۔ ان کے سفری کاغذات بھی ضبط نہیں ہوتے۔ روزگار وافر ہے، خورد و نوش کی اشیاء پر نہ کوئی کنٹرول (پابندی) ہے اور نہ قیمتیں عام آدمی کی رسائی سے باہر۔ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ خط کا آخری جملہ تھا: ’’یہاں سرخ روشنائی نہیں ملتی‘‘!
۔۔۔۔۔