میرا کیفیت نامہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسمن

لائبریرین
ہر طرف سیاست کے دھاگے چل رہے ہیں۔ لگتا ہے انتخابات اور ان کے بعد کافی دیر تلک چلیں گے،الجھیں گے۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
ہر طرف سیاست کے دھاگے چل رہے ہیں۔ لگتا ہے انتخابات اور ان کے بعد کافی دیر تلک چلیں گے،الجھیں گے۔۔۔۔
حالانکہ ہمارے ہاں تو الیکشن اسی ماہ ہے لیکن کسی لڑی میں حصہ نہیں ڈالا۔ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کیا کہ ووٹ کسے دینا ہے
 

زیک

مسافر
ویسے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہاں کی طرز پر جمہوریت کا نظام یہاں چل سکتا ہے۔ اگر ممکن ہے تو بہتر ہو گا یا نقصان دہ؟
صدارتی نظام میرے خیال سے امریکہ کے علاوہ نہیں چل سکتا۔ البتہ باقی فیڈرل جمہوری نظام پاکستان میں چلنا بالکل ممکن ہے اور ملک کے لئے بہتر ہو گا
 

محمد وارث

لائبریرین
کل سہ پہر، چھ سات سال بعد موٹر سائیکل چلائی۔ سڑکوں پر کسی شرابی کی طرح لڑکھڑا رہا تھا لیکن خدا کا شکر کہ گرا نہیں اور بیٹا پیچھے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بابا سے خود تو چلائی نہیں جا رہی مجھے چلانا خاک سکھائیں گے! :)
 
تمام مکاتبِ فکر کے مدارس میں علمِ معانی پڑھایا جاتا ہے ،اس میں ایک بحث اسنادِ حقیقی اور اسنادِ مجازی کی ہے ،کیونکہ قرآن کریم میں دونوں طرح کی اسناد استعمال کی گئی ہیں ۔اس کو سمجھانے کے لیے درسیات کی کتاب ''مختصر المعانی‘‘ میںایک مثال دی گئی ہے ،اس کا ترجمہ یہ ہے: ''موسمِ بہار نے سبزہ اگایا‘‘۔ اس میں اگانے (اِنْبَات)کی نسبت موسمِ بہار کی طرف کی گئی ہے ،علامہ تفتازانی نے لکھا ہے: اگر مومن یہ کلمہ کہے تو توحید ہوگی ،کیونکہ اُس کا مومن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حقیقی سبزہ اگانے والا اللہ تعالیٰ کو مانتاہے اور موسمِ بہار کی طرف نسبت مَجازی ہے ،لیکن اگر یہی کلمہ کوئی کافر کہے تو یہ کفر ہوگا ،کیونکہ اس کا کفر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ موسمِ بہار ہی کو حقیقت میں اگانے والا یا نباتات کو حیات دینے والا سمجھتا ہے ۔توعاجزانہ سوال ہے کہ شرک وبدعت کے فتوے لگاتے وقت اس حسن ظن سے کام کیوں نہیں لیا جاتا۔البتہ جہاں کفرِ صریح ہو ،جس کی کوئی تاویل نہ کی جاسکتی ہو،تو اس کا حکم بیان ہونا چاہیے، ہمارے علماء نے لکھا: اگر کسی کلمۂ کفر کی سو تاویلات وتوجیہات ہوں اور ننانوے وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو ، تومفتی پر واجب ہے کہ مسلمان کو کفر سے بچانے کے لیے برسبیلِ تنزّل اس ایک تاویلِ اسلام کو ترجیح دے۔
ازمفتی منیب الرحمن
 
سیانے کہتے ہیں کہ "مے "کا نشہ تو ایک رات کا ہوتا ہے لیکن " میں " کا نشہ اگر انسان پر چڑھ جائے تو زندگی بھر نہیں اترتا ، یہ " میں " انسان کو ظالم ،خودغرض اور بے ادب بنا دیتی ہے، اس" میں "کی انا نے عزازیل کو ابلیس بنا کر رند درگاہ بنا ڈالا اور تاقیامت تک لعنت کا مستحق قرار پایا۔ انا اور خود داری دو الگ حالتیں ہیں ،انسان اکثر اوقات اپنی کم علمی یا حالت جذبات میں انا اور خود داری میں فرق نہیں کرپاتا اور پھر اس " میں" کی انا میں مبتلا ہو کر اپنے گرد جمع مخلص اور مہربان رشتے کھو بیٹھتا ہے۔ عاجزی ،انکساری اختیار کرکے انسان دنیا اور آخرت کی بہترین بھلائیوں کا مستحق اور حقدار بنا سکتا ہے۔صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ، آپﷺ نے فرمایا : ’’آدم کی اولاد کو 360 جوڑ ودیعت کیے گئے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرسکے اور بڑائی بیان کرے۔ جو راہ سے پتھر، کانٹا ،ہڈی اٹھائے، نیک عمل کرے اور گناہوں سے بچے جن کی تعداد 364 ہے، وہ روزِ قیامت جہنم( کی آگ) سے دور رہے گا۔‘‘ اسی طرح سنن ابو داؤد میں روایت ہے، آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’ ایک انسان 360 جوڑ رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک کے بدلے خیرات کرتا رہے۔
بے شک انسان اللہ کریم کی تخلیق کا بہترین مظہر ہے اور اللہ کریم کی انسانی جسم کو جوڑ دار بنانے کی حکمت اگر ہم صحیح معنی میں سمجھ لیں تو شاید اس " میں "اور انا پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی سوچ اور رویوں میں عاجزی ،انکساری لا کر پرسکون اور نفع بخش زندگی گزر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
تمام مکاتبِ فکر کے مدارس میں علمِ معانی پڑھایا جاتا ہے ،اس میں ایک بحث اسنادِ حقیقی اور اسنادِ مجازی کی ہے ،کیونکہ قرآن کریم میں دونوں طرح کی اسناد استعمال کی گئی ہیں ۔اس کو سمجھانے کے لیے درسیات کی کتاب ''مختصر المعانی‘‘ میںایک مثال دی گئی ہے ،اس کا ترجمہ یہ ہے: ''موسمِ بہار نے سبزہ اگایا‘‘۔ اس میں اگانے (اِنْبَات)کی نسبت موسمِ بہار کی طرف کی گئی ہے ،علامہ تفتازانی نے لکھا ہے: اگر مومن یہ کلمہ کہے تو توحید ہوگی ،کیونکہ اُس کا مومن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حقیقی سبزہ اگانے والا اللہ تعالیٰ کو مانتاہے اور موسمِ بہار کی طرف نسبت مَجازی ہے ،لیکن اگر یہی کلمہ کوئی کافر کہے تو یہ کفر ہوگا ،کیونکہ اس کا کفر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ موسمِ بہار ہی کو حقیقت میں اگانے والا یا نباتات کو حیات دینے والا سمجھتا ہے ۔توعاجزانہ سوال ہے کہ شرک وبدعت کے فتوے لگاتے وقت اس حسن ظن سے کام کیوں نہیں لیا جاتا۔البتہ جہاں کفرِ صریح ہو ،جس کی کوئی تاویل نہ کی جاسکتی ہو،تو اس کا حکم بیان ہونا چاہیے، ہمارے علماء نے لکھا: اگر کسی کلمۂ کفر کی سو تاویلات وتوجیہات ہوں اور ننانوے وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو ، تومفتی پر واجب ہے کہ مسلمان کو کفر سے بچانے کے لیے برسبیلِ تنزّل اس ایک تاویلِ اسلام کو ترجیح دے۔
ازمفتی منیب الرحمن
فتاویٰ صادر کرنے، ایک دوسرے کو کافر اور مشرک جیسے القاب سے نوازنے ، تنقید برائے فساد اور ہر دوسری بات پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی نوید سنانے کی حد تک تو حسنِ ظن سے کام لینا درست اور قابلِ عمل ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن جہاں بات تزکیہِ نفس ، تربیت اور اصلاح کی ہو وہاں ادنٰی درجے کے شرک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ زہر غیر محسوس طریقے سے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرتا جاتا ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کی بدعات اور فتنے پروان چڑھتے ہیں۔
 
لیکن جہاں بات تزکیہِ نفس ، تربیت اور اصلاح کی ہو وہاں ادنٰی درجے کے شرک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آپ غالبا شرک اصغر کی بات کر رہی ہیں جسے ریاکاری کہتے ہیں ۔ ریاکاری اخلاص کی ضد ہے اور اخلاص کے بغیر کسی اچھے اور نیک کام کا کوئی فائدہ نہیں۔
 
ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے پھنسیاں اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ زیادہ زہریلے اور مہلک ہوتے ہیں
 

یوسف سلطان

محفلین
رب سوہنا جِے عزت دیوے کرئیے نہ مغروری
آکڑ شیوہ شیطانی تے جُھکنے وِچہ حضوری

دنیا توں نہ منگئیے بھاویں کِڈی اے مجبوری
اعجاز خدا دے دِتّیاں آخر پَینی سب دی پُوری

اعجاز حسین اعجاز
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top