محمد وارث
لائبریرین
لف کا مطلب ڈاکٹر صاحب، لپٹا ہوا، منسلک وغیرہ اور نشر کا مطلب کھولنا یا ظاہر کرنا اور مرتب کا ترتیب سے۔ 'لف و نشر' شاعری کی ایک 'صنعت' ہے جس میں شاعر ایک مصرعے میں کچھ چیزوں کو 'لف' کرتا ہے یعنی منسلک کرتا ہے یا لپیٹتا ہے اور دوسرے مصرعے میں نشر کرتا ہے یعنی کھولتا ہے۔ جیسےمطلب بھی عنایت ہو
خمارِ ما و درِ توبہ و دلِ ساقی
بیک تبسّمِ مینا، شکست و بست و کُشاد
پہلے مصرعے میں تین چیزوں کا ذکر ہے، خمار ما، در توبہ اور دل ساقی۔ اس ایک مصرعے سے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہیں یعنی بندھی ہوئی لپٹی ہوئی چیزیں ہیں، دوسرے مصرعے میں شاعر نے ان کو کھول دیا ہے، یعنی شکست، بست اور کشاد۔ اور دوسرے مصرعے کا نشر اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے پہلے مصرعے کی چیزیں سو یہ 'لف و نشر مرتب' ہو گیا۔ اگر دوسرے مصرعے میں ترتیب پہلے مصرعے جیسی نہ ہوتی تو یہ 'لف و نشر غیر مرتب' ہوتا۔
شعر کا مفہوم یوں ہے کہ ہمارا خمار، توبہ کا دروازہ اور ساقی کا دل، جام کے ایک ہی تبسم سے ٹوٹ گیا (ہمارا خمار)، بند ہو گیا (توبہ کا دروازہ) اور کھل گیا (ساقی کا دل)۔