"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نوید ملک

محفلین
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کہ کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا ، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
(فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
گزرے دنوں کی یاد برستی گھٹا لگے
گزریں جو اس گلی سے تو ٹھنڈی ہوا لگے

مہمان بن کے آئے کسی روز اگر وہ شخص
اس روز بن سجائےمیرا گھر سجا لگے

میں اس لیے مناتا نہیں وصل کی خوشی
میرے رقیب کی نہ مجھے بد دعا لگے

وہ قحط دوستی کا پڑا ہے کہ ان دنوں
جو مسکرا کے بات کرئے آشنا لگے

ترکِ وفا کے بعد یہ اس کی ادا “ قتیل“
مجھکو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے
 

شائستہ

محفلین
بہت خوب شمشاد جی ، آخری تین شعر مجھے بہت پسند آئے ، کس کا ذکر کررہے ہیں‌آپ جو نشے میں ہے،،، اگر مجھے شاعر کا نام معلوم ہوگا تو پوری کوشش کرونگی لکھنے کی
 

ظفری

لائبریرین

مسافروں میں ابھی تلخیاں پُرانی ہیں
سفر نیا ہے، مگر کشتیاں پُرانی ہیں

یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پُرانی ہیں

ہم اسلئے بھی نئے ہمسفر تلاش کریں
ہمارے ہا تھ میں بیساکھیاں پُرانی ہیں

پرانی باتیں ہیں، اخبار سب پرانے ہیں
پرانے چہرے ہیں، اور کُرسیاں پُرانی ہیں

پلٹ کے گاؤں میں ، میں اسلئے نہیں آیا
میرے بدن پہ ابھی دھجّیاں پُرانی ہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
شائستہ جی آپ کی بات کے جواب میں “ کہ داد نہیں ملتی لکھا تھا کہ جب آدمی نشے میں ہو تو اسے داد دینے کا ہوش ہی کب ہوتا ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
میری تلاش کو ، بے نام و بے سفر کر دے
میں تیرا راستہ چھوڑوں، تو در بدر کر دے

تیرے خیال کے ہا تھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچّہ کتابیں ، اِدھر اُدھر کر دے

جُدائیوں کی یہ راتیں تو کاٹنی ہوں گی
کہانیوں کو کوئی کیسے مُختصر کر دے​
 

حجاب

محفلین
جس شخص نے ہتھیلی پہ رکھے ہیں میرے آنسو
اُس کے ہاتھوں میں میرا ہاتھ نہ ہونے پائے

ہائے اُس شخص کی مجبوری کہ جس کا محبوب
روز رستے میں ملے پر بات نہ ہونے پائے

دل کی بازی میں فقط اتنا ہی رکھنا ہے خیال
جس کو چاہا ہے اُسے مات نہ ہونے پائے

اِس لئے ساتھ ہے یادوں کا سنہرا چراغ
من کے مندر میں کبھی رات نہ ہونے پائے

کل کی ہر صدی دیکھے گی عزت سے تمہیں
آج رسوائیء لمحات نہ ہونے پائے۔۔۔۔۔۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
اُس بزم میں ہر چیز سے کمتر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جانا تھا ہمارے بھی گھر آیا

کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لخت جگر آیا
(مصطفٰی خان شیفتہ)
 

عمر سیف

محفلین
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخمِ دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا

تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی میں تیرے دریا سے پیاسا نکلا

جب کبھی تجھ کو پکارا میری تنہائی نے
بُو اڑی پھول سے، تصویر سے سایا نکلا

کوئی ملتا ہے تو اب اپنا پتہ پوچھتا ہوں
میں تری کھوج میں تجھ سے بھی پرے جا نکلا

توڑ کر دیکھ لیا آئینہِ دل تو نے
تیری صورت کے سوا اور بتا کیا نکلا ؟

نظر آیا تھا سرِ بام مظفر کوئی
پہنچا دیوار کے نزدیک تو سایا نکلا

مظفر وارثی ۔۔۔
 

شائستہ

محفلین
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں‌ پھیل جاتی ہے

رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں‌ خاک اڑاتی ہے

فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں‌
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

سوگئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں‌دکھاتی ہے

آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہمنشیں !! سانس پھول جاتی ہے

کیا ستم ہے کہ تری صورت بھی
غور کرنے پہ یاد آتی ہے

کون اک گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
 

پاکستانی

محفلین
روشن جمال يار سے ھے انجمن تمام
دھکا ھوا ھے آتش گل سے چمن تمام

حيرت غرور حسن سے شوخي سے اضطراب
دل نے بھي تيرے سيکھ لئے ھيں چلن تمام

اللہ ري جسم يار کي خوبي کہ خود بخود
رنگينيوں ميں ڈوب گيا پير ھن تمام

دل خون ھو چکا ھے جگر ھو چکا ھے خاک
باقي ھوں مين بھي کرائے تيغ زن تمام

ديکہو تو چشم يار کي جادو نگاہياں
بے ھوش اک نظر ميں کوئي انجمن تمام

ھے ناز حسن سے جو فروزاں جبيں يار
لبزيز آب نور ھے چاھ ذقن تمام

نشو و نما سبزھ و گل سے بھار ميں
شادابيوں ني گہير ليا چمن تمام

اس نازنيں نے جب سے کيا ھے وہاںقيام
گلزار بن گئي ھے زمين دکن تمام

اچھا ھے اہل جور کئے جائيں سختياں
پہلے گي يوں ھي شورش حب وطن تمام

سمجہتے ھيں اہل مشرق کو شايد قريبمرگ
مغرب کے يوں ھيں جمع يہ زاع وزغنتمام

شريني نسيم ھے سوز و گداز مير
حسرت ترے سخن پہ لطف سخن تمام​
 

پاکستانی

محفلین
جو تيرے پيار کي کشتي پہ سوار ہو جائے
کاش وہ ساحل کے پار ہو جائے
چور ہوں ميں تيرے پيار کے نشے ميں
کاش تمہيں بھي پيار کا خمار ہو جائے

گنوائي راتوں کي نيند تيري سوچ نے
کاش تيري زندگي بے قرار ہوجائے

سب جيت کے تجھے نہ پا سکا افسوس
کاش ميرے نصيب ميں ہار ہو جائے

دنيا کي طرح آسائشوں کي دوڑ ميں تو
کاش ميرا سائيکل ہي کار ہو جائے

خوب شوق ہے تيرا پيار کا ڈرامہ کرنا
کاش اک دن تو سچا فن کار ہو جائے

واہ تيري شوخياں نخرے حسن و جواني
کاش تو پنجاب کي نار ہو جائے

حد سے زيادہ نہ چاہ کسي کو فرمان
کہ وہ تيرے سر پہ سوار ہو جائے​
 

پاکستانی

محفلین
خوابوں کے مسافر

تمہاري ياد جو دلاتے تھے
وہ سارے خط ميں جلا چکا ہوں

بھلا چکا ہوں
بھلا چکا ہوں
عہد ماضي کے وہ سارے قصے

جو تمہاري ذات سے منسوب تھے
ہاں کبھي ہم بھي بہت اچھے تھے

ہاں کبھي ہم بھي بہت خوب تھے
کہ محبتوں کہ در ديورا پر

جس نے قدم رکھ ديا
اس نے اپنے دل ميں

خوشي سے غم رکھ دئيے
کہ کسي کا دل دکھانےسے

کسي کو بھلانے سے
کہيں اچھا ہے

کہ کسي کو ياد ہي نہ کيا جائے
کل راستے جدا کرنے سے

کہيں بہتر ہے منزل ہي الگ رکھنا
اگر تمہارے بس ميں ہو مجھے معاف
کرسکنا
تو مجھ کو معاف کردينا
کہ محبتوں کے شہر ميں ملنا

لکھا ہي نہيں ہوتا
جو کچھ ہم سوچتے ہيں

وہ کبھي کبھي نہيں ہوتا
وہ کبھي کبھي نہيں ہوتا​
 

پاکستانی

محفلین
لوگ بہشت کے تصور ميں کھوئے رہتے ہيں
آئو بہشت کي تصوير کي بات کرتے ہيں

کہيں کہسار، کہيں مر غزار، کہيں پر برف پوش پہاڑ
آئو قدرت کے بنانے والے کي تعمير کي بات کرتے ہيں

وہ جس کي واديوں پہ ہميشہ بہاروں کا بسيرا ہے
آئو اس کے دلکش موسموں موسم دلگير کي بات کرتے ہيں

اس حسن نے لوگوں کو کتنا حسن بخشا
آئو عارش آج تمہاري تحرير کي بات کرتے ہيں​
 

پاکستانی

محفلین
مجھے بھي يہ اعزاز دينا

رات کو تارکيوں ميں جب اجالے ہوجائيں
جب پائوں سے چھينے بچے ان کے حوالے ہوجائيں
جب ميري بے وطن لوگ وطن والے ہوجائيں
اور پھر جب نام آئے وطن کے چاہنے والوں کا
تو ميرے وطن کے لوگو
مجھے بھي تم ياد رکھنا
کہ اپنے وطن کي خاطر ميں کہيں راتوں کو رويا تھا
آزادي کا لفظ لکھنے کو خوں سے قلم بھگو ديا تھا
ميں يہ نہيں کہتا کہ مجھے کوئي اعزاز دينا
يہ بھي وطن کا چاہنے والے
بس اتنا تم کہہ دينا
بس اتنا تم نواز دينا
مجھے بھي يہ اعزاز دينا
مجھے بھي يہ اعزاز دينا​
 

پاکستانی

محفلین
اس شخص کو کيسے چين ہو اس دل کو کيسے قرار ہو
جسے عشق مصطفي نہ ہو جسے مصطفي سے نہ پيار ہو

اس ذات کا کيا مقام ہے گر ديکھنا ہے تو ديکھ لو
جس ذات کے ديدار کا خدا کو بھي انتظار ہو

جس محفل ميں ہو ذکر تيرا وہ محفل تو قبول ہوئي
کہ اس نے خدا کو پاليا جو مصطفي سے استورا ہو

خاک مدينہ نے مجھے چھو ليا يہي ہے کافي ميرے ليے
کاش ہميشہ کو يہ ہونا رہے کاش يہ عنايت بار بار ہو

اے فرشتوں ديکھ لينا ميں بھي ہوں مصطفي کا
جب مصطفي کے چاہنے والوں کا شمار ہو

جب تک کھلي ہيں آنکھين سامنے ہو روضہ تيرا
جب آنکھيں ہونے لگيں بند کاش تيرا ديدار ہو​
 

پاکستانی

محفلین
تمہارے دل کي دريچوں پر
جو ہوابن کر دوں دستک تو

دل کے در تم تم کھولو گئے
ياموسوں کي چھيڑ چھاڑ

کہہ کر چپ ہو جائو گئے
تہارے قدموں ميں اگر ميں

پيتاں بن کر بکھر جائوں
تو اپنے پائوں کي نرمي سے

مجھ کو تم نوازو گئے؟؟؟
ياسرخ انگارے کہہ کر

واپس پلٹ جائو گئے
کبھي تمہارے پاس بيٹھے

يہ سر گوشي ميں کروں
مجھے تم سے محبت ہے

تو کن انکھيوں سے ہاں کہو گئے
يا جيسے کچھ سنا ہي نہ ہو

ايسے ہي چپ بيٹھے رہو گئے

بولو
جواب دو

تمہارے دل کے دريچوں پر
جو ابن کر۔۔۔۔۔۔۔​
 

پاکستانی

محفلین
اپنے ماتھے کا تلک بنا کرع کر دو لازاوال ہم
جس کا جواب تم بنو رکھ لو وہ سوال ہم

مدت ہوئي جلاتے تيرے نام کا ديا مزاروں
کبھي تو دے دو قربتيں کبھي تو بخش دو وصال ہم

اپني سانسوں کو کر لو منسوب تم صرف ميري ذات
محبتوں کے نام پہ لوگ ديں ايسي بنا دو مثال ہم

بخش دو ساري زندگي، دن مہ و سال ہم
نہ کوئي ہو گلہ ہميں نہ کوئي ہو ملال ہم

عارش يوں اترو ميري ذات ميں ميں اپنا نام بھول جائوں
ذرا بھي عارش نہ رہے کوئي نہ رہے خيال ہم کو

آئو حسن بے نظير کي بات کرتے ہيں
آئو اپنےوطن کشمير کي بات کرتے ہيں​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top