"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
دل کے نالوں سے جگر دکہنے لگا
ياں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا

دور تہي از بسکہ راھ انتظار
تہک کے ھر پائے نظر دکہنے لگ

روتے روتے چشم کا ھر گوشہ ياں
تجہ بن اے نور بصر دکہنے لگ

درد يہ ھے ہاتھ اگر رکہا ادہر
واں سے تب سرکا ادہار دکنہے لگ

مت کر اھ انشا نہ کر افشائے راز
دل دکہنے دے اگر دکہنے لگ
 

پاکستانی

محفلین
مستي ھي تيري آنکھوں کي ھے جام سے لذيز
ھے ورنہ کون شے مئے گل فام سے لذيز

چٹکارے کيوں بہرے نہ زباں تيرے ذکر ميں
کوئي مزھ نہيں ھے ترے نام سے لذيذ

گالي وہ اس کي ھوھو کي آنکہيں دکہاتے وقت
ھے واقعي کہ پستہ و بادام سے لذيذ

انشا کو لذت اس کي جواني کي حسن کي
ھے زور طفلگي کے بھي ايام سے لذيذ

آجاوے پختگي پہ جو ميوھ درخت کا
وھ کيوں نہ ھو بہلا ثمر خام سے لذيذ
 

عمر سیف

محفلین
دل میں کسی کی راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں

مجھ سے لگے ہیں عشق کی قسمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں

معصومیِ جمال کو بھی جن پہ رشک تھا
ایسے بھی کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں

تنقیدِ حُسن مصلحتِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں

اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو
تادیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں

گلشن پرست ہوں مجھے گُل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی
 

الف عین

لائبریرین
پاکستانی، داغ کا کلام لائبریری میں کیوں نہیں پوسٹ کیا۔ وہاں جمع کیا جائے تو درست رہے گا۔
 

عمر سیف

محفلین
سُودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
(امجد اِسلام امجد)
 

نوید ملک

محفلین
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
اک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا ، دل کب نا امید ہوا

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی ؟
لب پر اس کے نام تھا تیرا ، جب بھی درد شدید ہوا

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی ، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اِک بجلی لہرائی ، عالم ایک شہید ہوا

تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا ، عرضِ وفا کے سنتے ہی
پہلے کونسا قریب تھا ہم سے ، اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کارج چھوڑے ، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے؟ تیرا عشق مزید ہوا

(ابن انشاء)
 

نوید ملک

محفلین
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ ، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہلِ وفا سے بات نہ کرنا ، ہو گا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں

یونہی تو نہیں دشت میں پہنچے ، یونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے ، جنگل جنگل پھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے؟ جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں ، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محرابِ تمنا ، دیدہ و دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں

کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی ، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا سکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی ، شہر سے نکلیں ، رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا ، باتیں کر لیں ، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو ، نقدِ دل و جاں نذر کروں
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

(ابن انشاء)
 

ظفری

لائبریرین

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں، ہستی کی کیا ہستی ہے


آنسو تھے کہ ختم ہوئے، جی ہے، کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کُھلتی ہے، نہ برستی ہے

جگ سُونا ہے تیرے بغیر، آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے

عجزِ گناہ کے دم تک ہیں، عصمتِ کامل کے جلوے
پستی ہے توبلندی ہے، رازِ بلندی ، پستی ہے


آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اُجڑے اور پھر نہ بسے، دل وہ نرالی بستی ہے

فانی جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب، پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے​
 

ظفری

لائبریرین

اسی لیئے تو اجل نے دیا ہے جینے مجھے
بہت قریب سے دیکھا ہے زندگی نے مجھے

زمیں پہ تیرنے لگتا ہوں صورتِ گرداب
کبھی جو لگتے ہیں سات آسماں سفینے مجھے

امید اب ہی عبث مجھ سے نیک خوئی کی
برے عمل پہ تو ٹوکا نہ تھا کسی نے مجھے

وگرنہ عشق میں جاں سے گذر چکا ہوتا
ظفر،نباہ کے،آئے نہیں قرینے مجھے

(صابر ظفر)​
 

عمر سیف

محفلین
گفتگو میں کمال رکھتا ہے
وہ ہنر حسبِ حال رکھتا ہے

ٹوٹ جاؤں نہ ہاتھ لگنے سے
ایسے میرا خیال رکھتا ہے

بادباں کھول کے ہواؤں کے
وہ سمندر اچھال رکھتا ہے

دل کا اتنا غنی کے لمحوں میں
میرے حصے زوال رکھتا ہے

اپنی خاموش سی نگاہوں میں
وہ ہزاروں سوال رکھتا ہے

وہ عجب شخص ہے کہ صحرا میں
پیاس دے کر نڈھال رکھتا ہے

چاک پر ڈال کر مجھے یونہی!
میری سانسیں بحال رکھتا ہے

دل میں جنگل، بدن میں خاموشی
کچھ تو بھی سنبھال رکھتا ہے

مریم عرفان
 

ظفری

لائبریرین

گھر میں رہیں تو سوچ کہ صحرا کو جایئے
صحرا میں آکے فکر کہ گھر جانا چاہئیے

مرنے کے غم میں زیست کے لمحے گذارنا
جینا اگر یہی ہے تو مر جانا چاہیئے

گمراہ کر نہ دے کہیں وہ پیش رو مجھے
میرا خیال ہے کہ ٹھہر جانا چاہیئے

اِک راہ شہر کی ہے تو اِک راہ دشت کی
صابر میں سوچتا ہوں کَدھر جانا چاہیئے

(صابر ظفر )​
 

عمر سیف

محفلین
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر یہ جلا گیا اک شخص

تمام رنگ مرے اور تمام خواب مرے
فسانہ تھا کہ فسانہ بنا گیا اک شخص

میں کس ہوا میں اُڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اک شخص

پلٹ سکوں میں نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اک شخص

محبتیں بھی عجیب اس کی نفرتیں بھی کمال
مری طرح کا ہی مجھ میں سما گیا اک شخص

کھلا یہ راز کے آئینہ خانہ ہے دُنیا
اور اس میں مجھ کو تماشہ بنا گیا اک شخص


عبیداللہ علیم
 

سارہ خان

محفلین
اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی
خزاں رتوں میں‌بھی گلاب مانگتی ہے زندگی

حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند
کبھی کبھی حسیں‌خواب مانگتی ہے زندگی

کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں
کہ پھر کوئی نیا سراب مانگتی ہے زندگی

وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لزتیں
نہ جانے کیوں‌وہی عذاب مانگتی ہے زندگی

میں‌زندگیء نو کو جب پکارتا ہوں، پاس آ
گزشتہ عمر کی کتاب مانگتی ہے زندگی

 

حجاب

محفلین
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کر دو ہمیں کے سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کبھی چھپ کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

نوید ملک

محفلین
موت سے ڈر کے تیرے قرب کا پہلو ڈھونڈا
ہایے تریاق مگر زہر سے بدتر ٹھہرے
حالتِ رقص ہے ، کاسہ ہے ، جنوں ہے کچھ کچھ
اس تعلق سے قمر ہم بھی قلندر ٹھہرے
(قمر ساجد)
 

تیشہ

محفلین
پھولُ خوشبو کے نشے میں ہی بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جنکو
بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں

کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا
اکِ بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں

جنکی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو
پانی مرتا ہے تو دریا بھی اترُ جاتے ہیں

نیچی پرواز میں اُڑنا نہیں آتا ہمکو
اُونچا اُڑتے ہیں تو اس جسم سے ؛ پر ‘ جاتے ہیں

میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں
اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
بچھڑ کے بھی مجھے تجھ سے یہ بدگمانی ہے
کہ میری یاد کبھی تو تجھے بھی آنی ہے

نہ پوچھ حال کسی بھی اُداس چہرے کا
ہر ایک شخص کی اپنی الگ کہانی ہے

ہر ایک شخص کو اپنا بنا کہ دیکھ لیا
ملیں گے اب نہ کسی سے یہ دل میں ٹھانی ہے

شجر اداس ہے چڑیوں کے چہچہے گم صم
کہ ترے بعد یہ تنہا سی زندگانی ہے

نہ دوستی ہے سحر سے نہ دشمنی شب سے
یونہی یہ زندگی اب تو حسن نبھانی ہے


حسن رضوی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top