"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
کوئي زنجير
آہن کي چاندي کي روايت کي
محبت توڑ سکتي ہے
يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسي آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنورير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے​
 

پاکستانی

محفلین
تو چل اے گريہ، پھر اب کي بار بھي ہم ہي
تري انگلي پکڑتے ہيں تجھے گھر لے کے چلتے ہيں
وہاں ہر چيزويسي ہے کوئي منظر نہيں بدلا
ترا کمرہ بھي ويسے ہي پڑا جس طرح تونے
اسے ديکھا تھا چھوڑا تھا
ترے بستر کے پہلو ميں رکھي اس ميز پر اب بھي
دھرا ہے مگ وہ کافي کا
کہ جس کہ خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھي تک وسوسوں اور خوشبوں کي جھاگ کے دھبے نماياں ہيں
قلم ہے جس کي نب پر رت جگوں کي روشنائي يوں لرزتي ہے
کہ جيسے سوکھتے ہونٹوں پہ پپڑي جمنے لگتي ہے
وہ کاغذ ہيں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوئوں سے بھيگے رہتے ہيں
ترے چپل بھي رکھے ہيں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹئے ہيں
جو اتنا روندے جانے پر بھي اب تک سانس ليتے ہيں
ترے کپڑے
جو غم کي بارشوں ميں دھل کے آئے تھے
مري الماريوں کے ہنگريوں میں اب بھي لٹکے ہيں
دلاسوں کا وہ گيلا توليہ
اور ہچکيوں کا ادھ گھلا صابن
چمکتے واش بيسن ميں پڑے ہيں اور
ٹھنڈے گرم پاني کي وہ دونوں ٹونٹياں اب تک
رواں ہيں تو جنھيں اس دن
کسي جلدي ميں چلتا چھوڑ آيا تھا
دريچے کي طرف ديوار پر لٹکي گھڑي
اب بھي ہميشہ کي طرح
آدھا منٹ پيچھے ہي رہتي ہے
کلنڈر پر رکي تاريخ نے پلکيں نہيں جھپکيں
اور اس کے ساتھ آويزاں
وہ اک منظر
وہ ايک تصوير جس ميں وہ
مرے شانے پہ سر رکھتے مرے پہلو ميں بيٹھي ہے
مري گردن اور اس کے گيسوئوں کے پاس اک تتلي
خوشي سے اڑتي پھرتي ہے
کچھ ايسا سحر چھايا ہے
کہ دل رکتا ہوا چلتي ہوئي محسوس ہوتي ہے
مگر اے موسم گريہ
اسي ساعت
نجانےکس طرف سے تو چلا آيا
ہمارے بيچ سے گزرا
ہمارے بيچ سےتو اس طرح گزرا
کہ جيسے دو مخالف راستوں کا کاٹتي سرحد
کي جس کے ہر طرف بس دوريوں کي گرد اڑتي ہے
اسي اک گرد کي تہہ سي
تجھے دروازے کي بيل پر جمي شايد نظر آئے
کوئي تصوير کے اندر کمي شايد نظر آئے
تمنا سے بھري آنکھيں جو ہر دم مسکراتي تھيں
اب ان آنکھوں کے کونوں ميں نمي شايد نظر آئے​
 

پاکستانی

محفلین
دريچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کي چلمن ہے
اور اس چملن کے پيچھے چھپ کے بيٹھے
کچھ ستارے ہيں ستاروں کي
نگاہوں ميں عجيب سي ايک الجھن ہے
وہ ہم کو ديکھتے ہيں اور پھر آپس ميں کہتے ہيں
يہ منظر آسماں کا تھا يہاں پر کس طرح پہنچا
زميں ذادوں کي قسمت ميں يہ جنت کس طرح آئي؟

ستاروں کي يہ حيراني سمجھ ميں آنے والي ہے
کہ ايسا دلنشيں منظر کسي نے کم ہي ديکھا ہے
ہمارے درمياں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں ميں لکھيں تو کتابيں جگمگااٹھيں
جو سوچيں اس کے بارے ميں توروہيں گنگنا اٹھيں
يہ تم ہو ميرے پہلو ميں
کہ خواب زندگي تعبير کي صورت ميں آيا ہے؟
يہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپني مسکراہٹ سے جہاں ميں روشني کردے
لہو ميں تازگي بھردے
بدن اک ڈھير ريشم کا
جو ہاتھوں ميں نہيں رکتا
انوکھي سي کوئي خوشبو کہ آنکھيں بند ہو جائيں
سخن کي جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائيں
چھپا کاجل بھري آنکھوں ميںکوئي راز گہرا ہے
بہت نزديک سے ديکھيں تو چيزيں پھيل جاتي ہيں
سو ميرے چار سو دو جھيل سي آنکھوںکا پہرا ہے
تمہيں ميں کس طرح ديکھوں​
 

پاکستانی

محفلین
اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي

پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا
اک ياد جگاتا گزرے گا

اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا

اس موسم ميں
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا

آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو​
 

پاکستانی

محفلین
محبت کے موسم
زمانے کے سب موسمون سے نرالے
بہار و خزاں ان کي سب سے جدا
الگ ان کو سوکھا الگ ہے گھٹا
محبت کے خطے کي آب و ہوا
ماورا ان عناصرے سے جو
موسموں کے تغير کي بنياد ہيں
يہ زمان و مکاں کے کم و بيش سے
ايسے آزاد ہيں
جيسے صبح زال۔۔۔جيسے شام فنا
شب وروز عالم کے احکام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
زندگي کي مسافت کے انجام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
رفاقت کي خوشبو سے خالي ہو جو
يہ کوئي ايسا منظر نہيں ديکھتے
وفا کے علاوہ کسي کلام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانت​
 

پاکستانی

محفلین
آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے

آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

راہ گزر کا مومسم کا ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے​
 

پاکستانی

محفلین
تمھارا نام کچھ ايسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھيري رات ميں جيسے
اچانک چاند بادلوں کے کسي کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں ميں روشني سي پھيل جاتي ہے
کلي جيسے لرزتي اوس کے قطرے پہن کر مسکراتي ہے
بدلتي رت کسي مانوس سي آہٹ کي ڈالي لے کے چلتي ہے
تو خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک صلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مري سانسوں ميں کھلتا ہے

تمہيں کسي الجھن ہوني گمنام سي چنتا کے جادو ميں
کس سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کي خوشبو ميں
کسي موسم کے دامن ميںکسي خواہش کے پہلو ميں
تو اس خوش رنگ منظر ميں تمہاري ياد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ايسے مري ہر راہ کے ہم راہ چلتا ہے
کہ آنکھوں ميں ستاروں کي گزرگاہ ہيں سي بنتي ہيں
دھنک کي کہکشائيں سي
تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں ميں ڈھلتي ہيں
کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہيں
تمہارے خواب کا رشتہ مري نيندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
مرا ہر اک چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مري راتوں ميں کھلتا ہے​
 

پاکستانی

محفلین
يہ عمر تمہاري ايسي ہے
جب آسمان سے تارے توڑ کے لے آنا بھي
سچ مچ ممکن لگتا ہے
شر کا ہر آباد علاقہ
اپنا آنگن لگتا ہے
يوں لگتا ہے جيسے ہر دن
ہر اک منظر
تم سے اجازت لے کر اپني شکل معين کرتا ہے
جو چاہو وہ ہو جاتا ہے جو سوچو، وہ ہو سکتا ہے
ليکن اے اس کچي عمر کي بارش ميں مستانہ پھرتي چنچل لڑکي
يہ بادل جو آج تمہاري چھت پر رک کر تم سے باتيں کرتا ہے
اک سايہ ہے
تم سے پہلے اور تمہارے بعد کے ہر اک موسم ميں يہ
ہر ايک چھت پر ايسے ہي اور اسي طرح سے
دھوکے بانٹتا پھرتا ہے
صبح ازل سے شام ابد تک ايک ہي کھيل اور ايک ہي منظر
ديکھنے والي آنکھوں کي ہر بار دکھايا جاتا ہے
اے سپنوں کي سيج پہ سونے جاگنے والي پياري لڑکي
تيرے خواب جئيں
ليکن اتنا دھيان ميں رکھنا جيون کي اس خواب سرا کے سارے منظر
وقت کے قيدي ہوتے ہيں جو اپني رو ميں
انکو ساتھ لئيے جاتا ہے اور مہميز کيے جاتا ہے
ديکھنے والي آنکھيں پيچھے رہ جاتي ہيں
ديکھو۔۔۔۔۔جيسے۔۔۔۔۔ميري آنکھيں۔۔۔۔​
 

حجاب

محفلین
جانے کیسے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے
کچھ نئے رنگ ہیں محبت کے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے
موسمِ عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے
تجھ سے ملنے کے اور بچھڑنے کے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے
جب ہوا کا مزاج برہم تھا
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے
آرزو کے حسین پنجرے میں
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے
ہم نے دل کی کتاب میں تیرے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے
تیرے دکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے
میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا
اور اپنے سنبھال کر رکھے
نوشی گیلانی (اداس ہونے کے دن نہیں ہیں )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

ظفری

لائبریرین
ذات کا سفر، اور رات
دھیرے دھیرے اُتر رہا ہوں میں

یک بیک کس طرح بدل جاؤں
رفتہ رفتہ سُدھر رہا ہوں میں

آگ ہے، اور سُلگ رہی ہے حیات
راکھ ہوں، اور بِکھر رہا ہوں میں​
 

شائستہ

محفلین
سارہ خان نے کہا:
کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دُکھ پہ بھیگنا بُھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں
دوسرا شعر بہت اچھا لگا ،سارہ
 

شائستہ

محفلین
ابر اُٹّھے ، تو سمٹ جاؤں تیری آنکھوں میں
دُھوپ نکلے، تو تیرے سر کی ردا ہو جاؤں

آج کی رات، اُجالے میرے ہمسائے ہیں
آج کی رات جو سو لوں، تو نیا ہو جاؤں

اب یہی سوچ لیا دل میں کہ منزل کے بغیر
گھر پلٹ آؤں تو میں آبلہ پا ہو جاؤں

پُھول کی طرح مہکتا ہوں تیری یاد کے ساتھ
یہ الگ بات، کہ میں تُجھ سے خفا ہو جاؤں

آرزُو یہ ہے کہ تقدیسِ ہُنر کی خاطر
تیرے ہونٹوں پہ رہوں، حمد و ثنا ہو جاؤں

تیشہ وقت بتائے، کہ تعارّف کیلئے
کن پہاڑوں کی بلندی پہ کھڑا ہو جاؤں

ہائے وہ لوگ، کہ میں جن کا پُجاری ہوں نصیر
ہائے وہ لوگ، کہ میں جن کا خُدا ہو جاؤں
نصیر ترابی
 

شائستہ

محفلین
اب اکثر چُپ چُپ سے رہے ہیں، یُونہی کبھُو لب کھولیں ہیں
پہلے فراق کو دیکھا ہوتا، اب تو بہت کم بولیں ہیں
دن میں ہمکو دیکھنے والو، اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تُم ان خشک آنکھوں پر، ہم راتوں کو رو لیں ہیں
باغ میں وہ خواب آور عالم، موجِ صبا کے اشاروں پر
ڈالی ڈالی نورس پتّے، سہج سہج جب ڈولیں ہیں
غم کا فسانہ سُنانے والو، آخرِ شب آرام کرو
کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے، ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں
فراق گورکھ پوری
 

ظفری

لائبریرین

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے

بُرا نہ مان ، مِرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے

ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا ، یہی وقت امتحان کا ہے

مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہَوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے

یہ اور بات عدالت ہے بےخبر، ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے

اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے

قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہَوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے​
 

حجاب

محفلین
لاکھ ضبطِ خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اُسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
لاکھ ضبطِ خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اُسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
بہت خوب
 

سارہ خان

محفلین
بہت خوب حجاب ۔۔۔

زندگی کے کج اداؤں پر
سب تبصرے فضول ہوتے ہیں
اپنی اپنی بساط ہوتی ہے
اپنے اپنے اُصول ہوتے
 

عمر سیف

محفلین
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
اُلجھا ہوا ایسا کہ کبھی کھُل ہی نہ پایا
سُلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top